سرینگر ١٦ ، مئی ؍کے این ایس ؍ حریت کانفرنس (گ) چیرمین سید علی گیلانی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے جموں وکشمیر سے متعلق دئے گئے بیان کو دیوانے کی بھڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر نریندر مودی کی تاویل صحیح ہے تو پھر مغربی بنگال کو ایک شورش زدہ ریاست ہونے کی بناء پر فوج کے حوالے کرنے میں کیا پس وپیش ہے اور یہاں افسپا، پوٹا، پی ایس اے اور یو ایل اے جیسے کالے قوانین کا نفاذ عمل میں کیوں نہیں لایا جاتا ہے؟کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کو موصولہ بیان کے مطابق حریت(گ) چیرمین سید علی گیلانی نے 10لاکھ کے قریب قابض افواج، نیم فوجی دستوں اور پولیس فورس کی موجودگی میں جموں کشمیر جیسی چھوٹی ریاست میں قبرستان جیسی خاموشی کو بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے امن کا نام بخشنے کو دیوانے کی بھڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر نریندر مودی کی تاویل صحیح ہے تو پھر مغربی بنگال کو ایک شورش زدہ ریاست ہونے کی بناء پر فوج کے حوالے کرنے میں کیا پس وپیش ہے اور یہاں افسپا، پوٹا، پی ایس اے اور یو ایل اے جیسے کالے قوانین کا نفاذ عمل میں کیوں نہیں لایا جاتا ہے؟ گیلانی نے کہا کہ انہیں مغربی بنگال میں حالات سازگار ہونے کی وکالت کرنے کا شوق نہیں ہے، لیکن ریاست جموں کشمیر میں خوف وہراس کے اندھیاروں اور جنگی طرز کے حالات کو امن کا نام دینے پر بھارتی وزیر اعظم کے سوچ اور اپروچ پر تعجب ہورہا ہے۔انہوںنے ریاست جموں کشمیر میں نامساعد حالات کی شدّت کا احساس دلانے کے لیے بھارت کی ارون دھتی رائے، گوتم نولکھا اور تپن پوس جیسے غیر جانبدار اور باضمیر لوگوں کے علاوہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ریاست کا دورہ کرنے پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے سے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا مشاہدہ کرکے بیرونی دُنیا کو یہاں کی جہنم زار حالت سے باور کیا جاسکتا ہے۔حریت(گ) چیرمین نے بھارت کے ارباب اقتدار کو فوجی طاقت کے نشے اور غرور میں مبتلا ہوتے ہوئے یہاں کے زمینی حالات کو نظرانداز کرنے کے سنگین نتائج سے آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت پچھلے 70برسوں سے نہ صرف ہندوپاک، بلکہ جنوبی ایشیا کی ترقی اور خوش حالی میں سب سے بڑی رُکاوٹ تسلیم کی جاتی ہے۔ انہوں نے بھارتی سیاست دانوں کو ریاست جموں کشمیر کی اصل صورتحال سے اپنے عوام کو بے خبر رکھنے اور اس کو الیکشن اِشو بنا کر ووٹ بٹورنے کی طفل تسلیوں سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ محض کھوکھلے دعاوی اور الیکشن پروپیگنڈے سے مسئلہ کشمیر کو زیادہ دیر تک دبیز پردوں میں چھپانا ایک ناممکن سی بات ہے۔ حریت راہنما نے ریاست جموں کشمیر کے طلباء کو نام نہاد جنگبندی لائن کے اُس پار آزاد کشمیر کی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے پر پابندی عائد کرنے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حریت کانفرنس متنازعہ ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان مشروط آوا جاہی یا آلو پیاز کی نمائشی تجارت کے حق میں نہیں ہے، جب تک نہ ریاست کے لوگوں کو حق خودارادیت واگزار کرتے ہوئے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقعہ فراہم نہ کیا جائے، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے لیے حدبندیوں کو رُکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ آزادی پسند راہنما نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کے اندر پاسپورٹ حاصل کرنا کسی بھی فرد کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف بنادیا گیا ہے جس کی وجہ سے بیشتر ریاستی باشندے بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت، تعلیم، سیاحت، علاج یہاں تک کہ حج جیسے مذہبی فرائض انجام دینے سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ بھارت جسے پوری دنیا میں سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ ہے، ریاست جموں کشمیر کے طلباء کو بیرونی ممالک تو درکنار بھارت کے اندر تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کو ایک جاں گسل مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ حریت راہنما نے حصول تعلیم پر پابندی عائد کرنے کو اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے ریاستی عوام کے جملہ حقوق انسانی کو غارت کرتے ہوئے اس کو ایک جہنم زار قید خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ حریت راہنما نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور دیگر عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست جموں کشمیر کے اندر بودوباش کرنے والی انسانی آبادی کو انصاف دلانے میں مدد کرکے اس دیرینہ تنازعہ کو عوامی خواہشات اور مرضی کے عین مطابق حل کرنیء میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔
نریندر مودی کا جموں وکشمیر سے متعلق بیان دیوانے کی بھڑ: گیلانی
الیکشن پروپگنڈے سے مسئلہ کشمیر کو زیادہ دیر تک دبیز پردوں میں چھپایا نہیں جاسکتا