سال 1967 میں سخت مقابلے کے بعد قومی سطح کے صحافی شمیم احمد شمیم نے اس نشت پر کامیابی حاصل کی تھی
2014 میں محمد یوسف بٹ نے 14262 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ، آذاد امیدوار شبیر احمد کلے نے 11896 ووٹ لیکر دوسری اور این سی کے شیخ رفیع نے 5280 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی
الحاق ڈسک
شوپیان اور زینہ پورہ ا اسمبلی حلقوں میں 18 ستمبر کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں اج کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ تھی تاہم اطلاعت کے مطابق کسی بھی امیدوار نے کاغذات واپس نہیں لیے۔ اسے قبل 28 اگست کو کاغذات کی جانچ پڑتال ہوئی تھی جس دوران اسمبلی حلقہ شوپیان سے دو اور اسمبلی حلقہ زینہ پورہ سے پانچ امیدواروں کے کاغذات رد کر دیے گئے تھے اور اس طرح اب شوپیان اسمبلی حلقے میں 11 امیدوار اور زینہ پورہ حلقے میں 10 امیدوار میدان میں اپنا قسمت آزما رہے ہیں۔ دونوں اسمبلی حلقوں میں سیاسی پارٹیوں کے امیدوار پارٹی قیادت کی جانب سے جاری کیے گئے منشور کے بارے میں ووٹروں کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں جبکہ آزاد امیدواروں نے بھی اپنی انتخابی سرگرمیاں تیز کرتی ہے اور تمام امیدوار گھر گھر جا کر لوگوں سے اپنے حق میں ووٹ مانگ رہے ہیں۔ اگر حلقہ انتخاب شوپیان کی نشست پر نظر ڈالی جائے تو حالیہ لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں اس بار صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ایک طرف جموں کشمیر کی بڑی جماعتیں یعنی پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس -کانگرس ایک دوسرے کے مدمقابل ہے وہی دوسری جانب بی جے پی، اپنی پارٹی، اے ائی پی اور آزاد امیدواروں نے ان سیاسی جماعتوں کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے اور سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ووٹوں کی تقسیم سے نہ صرف صورتحال غیر واضح ہو گئ بلکہ کسی ایک پارٹی کے برتری کے بارے میں رائے زنی کرنا قبل از وقت ہوگا۔ اگر شوپیان اسمبلی حلقے پر نظر ڈالی جائے تو سال 1962 میں اس نشست کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور سال 1962 سے لے کر سال 2014 تک اس سیٹ پر نیشنل کانفرنس کو برتری حاصل ہے اور گزشتہ 52 برسوں کے دوران نیشنل کانفرنس نے پانچ مرتبہ اس نشست پر کامیابیاں حاصل کی ہے جبکہ پی ڈی پی نے تین بار اور آزاد امیدواروں نے دو مرتبہ اس نشست پر جیت درج کرلی ہے ۔سال 1962 میں غلام محمد بخشی کے دور میں عبدالمجید بانڈے نے اس نشست پر پہلی جیت درج کر دی تھی اور یہ وہ دور تھا جب جموں کشمیر اور لداخ کی 43 اسمبلی سیٹوں پر نیشنل کانفرنس کے 32 امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوئے تھے، پھر سال 1967 میں انتہائی سخت مقابلے کے بعد قومی سطح کے صحافی اور روزنامہ آئینہ کے مدیر اعلی شمیم احمد شمیم نے بطور آزاد امیدوار یہ سیٹ جیتی تھی اور اس کے بعد سال 1977 میں عبدالمجید بانڈے نے بطور آزاد امیدوار اس نشست پر دوبارہ کامیابی حاصل کر لی۔ اس کے بعد سال 1977 سال 1983 اور سال 1987 میں لگاتار تین مرتبہ نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ محمد منصور نے اس نشست پر کامیابی درج کی جبکہ سال 1996 میں شیخ محمد منصور کے فرزند شیخ محمد رفیع اس سیٹ پر کامیاب ہوئے چونکہ صرف 3 سال گزرنے کے بعد سال 1979 میں اس وقت کے دور حکومت میں شوپیان کے بجائے پلوامہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا اور لوگ اس قدر ناراض ہوئے تھے کہ انہوں نے ساڑھے 3 مہینوں تک ایجیٹیشن چلائی جس دوران تمام کاروباری ادارے بند کردئیے گئے اور اس دوران ڈاکٹر کرن سنگھ سمیت قومی سطح کے لیڈران شوپیان آئے اور لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تاہم اسی دور میں پنڈت صروف ناتھ سربراہی والی ایکشن کمیٹی نے شوپیان کو پہاڑی ضلع کا درجہ دینے کی مانگ کی جو قریباً 28 سال گزرنے کے بعد سال 2007 کی حکومت نے پوری کی۔ اس کے بعد جب پی ڈی پی جماعت وجود میں آگئی تو لوگوں نے اپنا مزاج بدلا اور سال 2002 کے انتخابات میں لوگوں نے پی ڈی پی کے امیدوار غلام حسن خان کو اور سال 2008 میں پی ڈی پی کے عبدالرزاق زاوورہ کو کامیاب کیا پھر سال 2014 میں پی ڈی پی کے ہی ایڈوکیٹ محمد یوسف بٹ نے 14262 ووٹ حاصل کر کے اس نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایڈوکیٹ شبیر احمد کلے جنہوں نے اس وقت نیشنل کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر کے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا تھا نے 11896 ووٹ حاصل کر کے دوسری اور نیشنل کانفرنس کے امیدوار شیخ محمد رفیع نے 5280 ووٹ حاصل کر کے تیسری پشن حاصل کی تھی اور اب کی بار ایک مرتبہ پھر نیشنل کانفرنس کو 2014 والی صورتحال درپیش ہے کیونکہ اس بار بھی نیشنل کانفرنس نے شبیر احمد کلے کو منڈیٹ لسٹ سے ڈراپ کر کے شیخ محمد رفیع کو منڈیٹ دیا ہےاور ایڈوکیٹ کلے آج بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہی دوسری جانب شوپیان اسمبلی حلقے میں پی ڈی پی کے لیے بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے کیونکہ جب پی ڈی پی نے یاور شفح بانڈے منڈیٹ دیا تو اس کے بعد مقامی پی ڈی پی لیڈر اور ڈی ڈی سی ممبر راجہ وحید جو منڈیٹ کے دوڑ میں تھا نے پی ڈی پی سی علحیدگی اختیار کرکے اے آئی پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔اس دوران بی جے پی نے جاوید احمد قادری کو اس نشست پر دوسری مرتبہ منڈیٹ دیا ہے اور سال 2014 کے اسمبلی انتخابات ہیں جاوید قادری نے 3384 ووٹ حاصل کر کے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ اپنی پارٹی نے اس بار پہلی مرتبہ مقامی نوجوان لیڈر اویس مشتاق خان کو منڈیٹ دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شوپیان اسبلی حلقے میں اس بار انتخابات انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز ہونے کی تواقع ہے اور جتنے والے امیدوار کا ووٹ مارجن بھی بہت کم ہوگا، لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کی تمام اسمبلی حلقوں سے جو بھی امیدوار کھڑا ہوا ہے چاہے وہ کسی پارٹی کا ہے یا بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہا ہے ان کے تمام کارکنوں کی زبان پر اس وقت ایک ہی کشمیری گیت ہے کہ
"بنہ خو وزیراعلی”۔۔۔۔۔۔۔۔