سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور نے دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو کئی شعبوں میں ترقی کی اونچائیوں پر پہنچا دیا ہے لیکن ایسی بھی مجبور و مقہور اور بدنصیب قومیں ہیں جن کو زوال پذیر اور تباہ کرنے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔قوموں پر جارحیت کے نت نئے طریقے صدیوں سے آزمائے جاتے ہیں ، طاقت سے کمزور کو زیر کرنا، ذہنوں کو تبدیل کرنے کے لیے تعلیمی نصاب پر مسلط ہونا، قوموں کو اپنے کلچر سے بے گانہ بناکر اُن کے اندر دیگر تہذیبوں کی سحر انگیز کشش پیدا کرنا ، یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جن کا سہارا لے کر آج تک سینکڑوں اقوام اپنا وجود مٹا چکی ہیں، ہزاروں تہذیبوں کے آثار تک دنیا سے مٹ چکے ہیں۔اس دور میں تہذیبی جارحیت کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال میں لایا جارہا ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے، فروغِ کلچر کے نام پر،میڈیا کے مضبوط پروپیگنڈا کے ذریعے سے قوموں کی مجموعی ذہنیت کو مسخرکیا جاتا ہے۔ عام لوگوں سے اُن کی اپنی سوچ چھین کر اُنہیں مشین کی طرح اپنے من موافق سوچنے اور سمجھنے پرمجبور کیا جاتا ہے، اُنہیں اپنی تہذیب سے بےگانہ بناکر اغیار کی تہذیب کا دلداہ بنایا جاتا ہے۔ جہاں بس نہ چلے وہاں سائنس کے تباہ کن ایجادات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جنگوں میں جدید ترین اور تباہ کن ہتھیار استعمال میں لاکر مزاحمت کرنے والی اقوام کا صفایا کیا جاتا ہے۔ طاقت کے سامنے جھک جانے والی اقوام کی نئی نسلوں کو ایسی فضولیات میں مشغول کردیا جاتا ہے کہ وہ پھر اپنے حقوق کی بازیابی یا اپنی بقاءکی خاطر آواز بلند کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔
یہ تمہیدی پراگراف کسی فلسفہ یا کاغذی کہانی کو سامنے لانے کے لیے نہیں باندھا گیا ہے بلکہ ریاست جموں وکشمیر کے اکثریتی طبقے پر ہورہی تہذیبی جارحیت اور اُن کی نوجوان نسل کو غیر محسوس انداز میں مختلف نظریات کے ذریعے سے بے عملی اور بدعملی کے دلدل میں دھکیل دینے کے درد کو بیان کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہماری نسل نو کو اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز میں لبھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اُنہیں ایسے خواب دکھائے جاتے ہیں جن کی کوئی اچھی تعبیر نہیں ہے۔ آئے روز ایسی دلدوز اور حیاسوز خبریں ریاست کے اطراف و اکناف سے موصول ہورہی ہیں جن سے ہماری اخلاقی حالت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔بنت حّوا کا استحصال، جنسی زیادتیاں اور قتل جیسے جرائم کا ہمارے سماج میں پہلے پہل تصور بھی نہیں تھا۔ اخلاقی بے راہ روی اور آوارہ گردی میں ملوث نوجوان لڑکوں او رلڑکیوں کی وجہ سے بیرون ریاست جگہ جگہ ذی حس کشمیریوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ منظم اور پروفیشنل طریقہ کار اختیار کرکے ہماری نوجوان نسل کو ورغلایا اور بہکایا جاتا ہے، اُنہیں لبرل بنایا جارہا ہے۔ اُن کے اندر گناہ اور بدی کے تصور کو ہی ختم کیا جارہا ہے۔ دہائیوں سے ہماری نوجوان نسل کی ذہن سازی کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ مختلف نظریات زبردستی اُن کے ذہنوں میں ٹھونس دئے جاتے ہیں، اُنہیں لبرازم اور روش خیالی کے حسین سپنے دکھائے جاتے ہیں، تعلیمی نصاب میں بڑی ہی ماہرانہ طریقہ کار کے ذریعے اُنہیں اپنی تہذیب اور شناخت سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسکولوں ، کالجوں او ریونیورسٹیز میں پڑھائے جانے والی نصابی کتابوں میں ہمارے اُن اسلاف ،جنہوں نے دنیا ئے انسانیت کو بہت کچھ دیا ہے کو بحیثیت ویلن پیش کیا گیا ہے۔جب ان تمام طریقوں سے کام نہ بن سکا تو پھر تہذیبی جارحیت کے لیے ہنگامی اور جنگی طریقہ کار اختیار کرلیا گیا۔ ”آپریشن“ جنگی اصطلاح ہے اور یہاں ”آپریشن سدبھاو¿نا“اُور اس جیسے کئی”آپریشن“ آج بھی ہورہے ہیں جن کے تحت ریاست جموں وکشمیر کے مسلم نوجوان نسل کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ جگہ جگہ ایسے اسکول قائم کیے گئے جہاں اخلاق سے عاری تعلیمی نظام رائج کردیا گیا ہے، جہاں آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے بجائے نوجوان نسل کو جنسی غلامی کے دلدل میں دھکیل دینے کا کاروبار ہوتا ہے۔ موٹی موٹی فیس کے عوض نوجوان لڑکی لڑکوں کے اختلاط کو نہ صرف لازمی بنایا گیا بلکہ آئے روز حیا سوز پروگرامز کا انعقاد کرکے اُنہیں بے حیااور بے شرم بنادیا جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہ سب ”کلچر“، ”ایکسپوژر“اور ”ٹیلنٹ“ کو فروغ دینے کے نام پر ہوتا ہے اور والدین اس طرح کے پروگرامز میں اپنے بچوں کی شرکت پر پھولے نہیں سماتے ہیں۔اتنا ہی نہیں ہمارے اسکولوں، کالجوں اور دور دراز کے تعلیمی اداروں سے بچوں او ربچیوں کو بیرون ریاست کی سیر کے بہانے ہفتوں اور مہینوں گھمایا جاتا ہے، اس دوران اُنہیں اپنی تہذیب اور شناخت سے بدظن کیا جاتا ہے ، اُنہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ اُن کی اپنی تہذیب اور اپنے کلچر نے اُنہیں یرغمال بناکے رکھ دیا ہے۔ ہماری اس نوجوان نسل کو اپنے دینی شعائر اور اسلامی اصولوں سے بغاوت کرنے پر اُکسایا جاتا ہے اور اس کے نتائج بھی ہمیں اب دکھائی دینے لگے ہیں۔آہستہ آہستہ بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ ساتھ فکری تنزلی بھی ہماری نوجوان نسل میں سرعت کرتی جارہی ہے۔
مخالف سمیت کے پالیسی ساز کشمیریوں کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے اب بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کا من بنا چکے ہیں۔ ہمارے یہاں کے سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ، حالانکہ وہ نصاب اُن کا ترتیب دیا ہوا ہے اوربالکل ہماری اخلاقیات اور تہذیب کے برعکس ترتیب دیا گیا ہے، لیکن اب کشمیری اسکولوں میں پڑھانے جانے والے درسی کتابوں کا ”بھگواکرن“ کرنا مقصود ہے، اُس کے ذریعے سے کشمیریوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیںاپنے دین سے بیگانہ کرنا اور اُنہیں”دیش بھگت“ بنانا بھی نشانہ ہوگا۔سرکاری سطح پر اس کے لیے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ آنے والے وقت میں تعلیمی شعبے میں ہمیں بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔نئی اسکیمیں متعارف کی جارہی ہیں جن کا مقصدتعلیم فراہم کرنے سے زیادہ ہماری نوجوان نسل کو بہکانا اور اُنہیں لبھانا ہے۔آنے والے وقت میں ہماری نسل نو کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داریوں سے غافل کرنے کے لیے طرح طرح کے داو¿ کھیلے جاسکتے ہیں۔ ہماری ہی طرح بھارتی ریاست پنجاب کے لوگ بھی اپنی سیاسی حقوق کی بازیابی کی ایک زمانے میں مانگ کررہے تھے۔ آج جب ہم اُس ریاست کی حالت دیکھتے ہیں تو وہاں کی نوجوان نسل کو بری طرح منشیات کی لت میں مبتلا پاتے ہیں، وہاں بڑی ہی حکمت کے ساتھ یہ وبائی بیماری پھیلا دی گئی اور اب وہاں کی نسل نو اپنے سیاسی حقوق کو فراموش کرچکے ہیں، وہ اجتماعی اور قومی ذمہ داریوں کو بھول چکے ہیں، کیونکہ اُنہیں نشہ آور چیزوں سے ناکارہ بنادیا گیا ہے، اُن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج بنادیا گیا ہے۔ نوجوان قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں، اُن سے قوموں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے، اِسی لیے مخالف طاقتوں کے نشانے پر نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ اُنہیں ذہنی طور مفلوج بنانے اور اُن کی زندگی کو بے راہ روی کے نذر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی ہوتی ہے اوراس کارِ بد کے لیے خوب سرمایہ لٹایا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے حریف کے پاس بے حد سرمایہ ہے، وسائل ہیں ، ادارے ہیں اور سب سے بڑھ کر اُن کے پاس حکومت ہے۔ وہ اپنے منصوبوں میں رنگ بھرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک ایسی قوم و ملت سے ہیں جس کا یہ شیوا رہا ہے کہ اُس نے کمزوری کی ہی حالت میں بڑے سے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرکے نہ صرف کامیابیاں حاصل کی بلکہ انسانی وسائل کی تربیت کا ایسا سسٹم کھڑا کیا کہ مختلف زمانوں میں تاریخیں رقم ہوگئیں۔
ہر زمانے میں اُمت مسلمہ کی نوجوان نسل کو ورغلانے او ربہکانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اُمت کے ذی حس اور حالات پر نظر رکھنے والے اُن ادوار کے لوگوں نے کمال حکمت کے ساتھ اپنی حریف طاقتوں کی ان ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا۔ ہاتھ پر ہاتھ درے نہیں بیٹھے رہے بلکہ مسلسل کوششیں کی اور مختلف تحاریک کے ذریعے سے اپنی نسلوں کو بچاتے رہے۔ آج کے دور میں مختلف غیر اسلامی نظریات کی تشہیر کی جاتی ہے، ہماری نوجوان نسل کو ایسے باطل نظریات کا حامی بناکر اُنہیں عضو معطل کی طرح بنانے کی سبیلیں ہورہی ہیں۔ علمی سطح کے اس چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے بہر حال ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو سامنے آنا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو اپنی سوچ پیٹ کے اردگرد رکھنے کے بجائے اُمت کے تئیں اُن کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ ہمارے دانشور طبقے کو کمر کس لینی ہے۔ ہماری یہ تاریخ رہی ہے کہ ایسے موقعوں پر دانشور طبقہ ہی سامنے آتا ہے اور قوموں کی نہ صرف رہنمائی کرتا ہے بلکہ نوجوان نسل کو اپنے اصل پر قائم رکھنے کے لیے عملی اقدامات بھی کرتا ہے۔ گزشتہ صدی کی بیسوی دہائی میں ہندوستان کی مدراس یونیورسٹی میں جب ایک امریکن عیسائی نے طلبہ کو عیسائیت کی جانب راغب کرنے اور اسلام سے بدظن کرنے کے لیے منظم اور کامیاب کوششیں کی تو مدراس کے مسلم دانشوروں کی ایمانی حمیت جاگ اُٹھی، انہوں نے اسلام کے خلاف ہونے والی ان کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ”مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف سدرن انڈیا“ کے نام سے ایک تعلیمی انجمن قائم کی اور اس انجمن کے تحت مختلف علماءاور دانشوروں کو مدراس یونیورسٹی میں لکچر دینے کے لیے طلب کیا۔سب سے پہلے مولانا سیّد سلیمان ندوی ؒکا انتخاب ہوا جنہوں نے اکتوبر نومبر1925 ءمیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلوو¿ں پر مدارس کے انگریزی مدرسوں کے طالب علموں اور عام مسلمانوں کے سامنے لالی ہال مدراس میں آٹھ لکچر دئے جو ”خطبات مدراس“ کے نام سے شائع ہوچکے یں ، اس کے بعد اس مقصد کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کا انتخاب ہوا اُنہوں نے 1928 میں انگریزی زبان میں اسلام پر چھ فلسفیانہ لکچر دئے جو "Reconstruction of Religious Thoughts in Islam” کے نام سے1930 میں شائع ہوئے۔ اِن دونوں اکابرین کے بعد بھی سید مولانا مودودیؒ سمیت کئی دانشوروں او رعلماءکرام نے یہاں لکچر دئے ہیں اور انگریزوںکی بدنیتی پر مبنی کوششوں کا مقابلہ کیا گیا۔یہ مثال ہے جس کو سامنے رکھ کر ہم بھی اپنی نوجوان نسل کو بچانے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ سیاسی قیادت کو ہی سب کچھ کرنے کے لیے ذمہ دار ٹھہراکر اپنے آپ کو بری کرنے سے ہم بلاشبہ یہاں اپنا دامن بچا سکتے ہیں لیکن اللہ کے یہاں ہماری اس عظیم غفلت کے لیے ہمیں انفرادی سطح پر بھی اور بحیثیت قوم بھی جواب دینا پڑے گا۔ذمہ داریوں سے فرار مسئلے کا حل نہیں بلکہ چیلنجز کو قبول کرکے اپنی نوجوان نسل کو کتابوں کی جانب واپس لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اُنہیں اپنے دین اور تہذیب کا ایسا سبق پڑھانا ہے کہ وہ بھلے ہی کتنا اغیار کا طرز زندگی دیکھیں، اُن کو عیاشیوں او رمستیوں کو دیکھیں اُن کا ایمان اپنے دین پر مضبوط سے مضبوط تر ہوجانا چاہیے، جیسے کہ علامہ اقبال کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ:” مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا اس کے منجدھار میں پہونچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا، اس کی گہرائیوں میں جتنا اُترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا، یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا وہ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا اور جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔“
ہماری نسلیں بھی جہاں رہیں، جہاں پڑھیں، جہاں کارِ جہاں سیکھیں ، گھر سے، سماج سے اور اپنی بنیادوں سے وہ اایسے جڑے رہیں کہ سامنے والی کی ہر کوشش کے باوجود اُن میں اپنی آواز کے برحق ہونے کا یقین پختہ ہوتا چلا جائے، اُن کا اپنے دین اور اپنی تہذیب کے ساتھ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ یہ ناممکن نہیں ہے بشرطیکہ بحیثیت مسلمان ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر آمادہ ہوجائیں۔