ریاست جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کی وکالت کرتے ہوئے کہاکہ جنگ کوئی متبادل نہیں اور مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ ریاستی اسمبلی میںبجٹ اجلاس کے آخری روز اپنے خطاب میں ریاستی وزیر اعلیٰ نے کہاکہ 1947سے لے کر آج تک پاکستان کے خلاف کئی جنگیں لڑی گئیں اوربقول اُن کے ہر ایک میں فتح پائی لیکن ا±س سے ریاست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔انہوں نے کہا ” میں جانتی ہوں کہ مجھے اینٹی نیشنل قرار دیا جائے گا لیکن میں ریاست میں خون خرابے کو روکنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی پرزور وکالت کرتی ہوں ،چاہے اس کیلئے مجھے کوئی اینٹی نیشنل (اشارہ بھارتی نیوز چینلوں کی جانب تھا)کیو ں نہ کہاجائے“۔محبوبہ مفتی نے یہ بیان جموں میں سنجوان آرمی اور کرن نگر میں سی آر پی ایف کیمپوں پر ہوئے فدائن حملوں کے پس منظر میں دیا ہے۔اس سے قبل بھی پی ڈی پی صدر و ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کئی بار پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی بات کی تھی۔2 فروری کو اسمبلی میں ہی عمر عبداللہ کی جانب سے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ”افسپا“ اور پی ڈی پی کا بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑہونے کو حدفِ تنقید بنائے جانے کے جواب میں موصوفہ نے کہا کہ:”عمر صاحب میرے خلاف یہ فتویٰ جاری کرکے کہ میں جہنم میں چلی جاو¿ں گی ، ہاوس سے چلے گئے۔ میں اس ہاوس کو بتانا چاہتی ہوں کہ اگراپنی اس جنت(کشمیر) کو بچانے اور اسے دوبارہ جنت بنانے کے لیے مجھے جہنم میں بھی جانا پڑے، تو میں سو بھر ریاستی لوگوں کے لیے جہنم میں جانے کے لیے تیار ہوں۔“نیشنل کانفرنس کے صدر اور ریاستی وزیر اعلیٰ کے درمیان تیز اور تلخ باتوں کایہ تبادلہ ریاستی اسمبلی میں شوپیان میں تین بے گناہ سویلین کو فورسز کی جانب سے گولی مار دینے کے تناظر میں ہوا، جنہیں ماہ جنوری میں آدتیہ نامی میجر کی سربراہی میں فوج کی ایک ٹکری نے گولیوں کا نشانہ بناکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیاہے۔ فوج نے اپنی اس کارروائی کو یہ کہہ کر جواز فراہم کیا کہ مذکورہ نوجوانوں نے فوج پرمبینہ طور پر پتھراو¿ کیا اور فوج نے اپنے دفاع میں گولی چلائی، جس کے نتیجے میں تین نوجوانوں کی موت واقع ہوئی اور دیگر کئی زخمی ہوگئے، جبکہ عینی شاہدین کے مطابق فوج نے اُن بینزر کو پھاڑ کر عوام کو اشتعال دیا جن پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ نوجوانوں نے جب فوج کی اس نازیبا حرکت پر پُر امن احتجاج کیا تو آرمی نے بلااشتعال راست فائرنگ کرکے معصوم نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ اس واقعے کو لے کر عوامی سطح پر سخت غم و غصہ دیکھنے کو ملا اور ملوثین کے خلاف کارروائی کی مانگ نے زور پکڑ لیا۔ عوامی دباو¿ کے نتیجے میں پولیس نے میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرتو لیا تھا البتہ 12 فروری کو بھارتی سپریم کورٹ نے آرمی میجر کے خلاف قانونی کارروائی پر عبوری روک لگا دی۔ بھارتی چیف جسٹس، جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والے تین رکنی بینچ نے میجر آدتیہ کے والد کی دائر کردہ عرضی کو منظور کرتے ہوئے یہ حکم صادر کردیا کہ فوجی افسر کے خلاف پولیس کی درج کردہ ایف آئی آرکی بنیاد پر قانونی کارروائی اگلی سماعت تک روک دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے دلی اور ریاستی سرکار کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے میں دو ہفتوں کے اندر جواب بھی طلب کیا۔
ریاستی وزیر اعلیٰ مجبوبہ مفتی کا بات چیت کی وکالت کرنا اور ریاست کو خون خرابے سے بچانے کے لیے”جہنم“ تک میں جانے کی باتیں کرنے اور یہاں کے زمینی حقائق میں آسمان و زمین کا فرق واضح ہے۔ جب زمینی صورتحال کو دیکھتے ہیں تو ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان سے مذاکرات کرنے کی بات کرنا تو بہرحال بعد کا مرحلہ ہے، پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ریاست کے اندر کیاکچھ ہورہا ہے۔ جن لوگوں کو اپنا اور جس زمین کے ”اٹوٹ انگ“ ہونے کا روز ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، اُن کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جارہا ہے؟رواں سال کا ابھی ڈیڑھ ہی مہینہ گزرا ہے،اس قلیل دقت کے دوران کئی بے گناہ اور معصوم انسانوں کو مسلح وردی پوشوں نے گولیوں سے بھون کر جان بحق کردیا ہے۔ شوپیان کے تین بے گناہ نوجوانوں کی قبروں کی مٹی بھی ابھی تک نہیں سوکھی تھی کہ ۴۲جنوری کو ژھے گنڈ شوپیان میں جنگجوو¿ں کے ساتھ ایک خون ریز تصادم کے دوران فوج کی جانب سے پھینکے جانے والے بارودی مواد کا نشانہ بننے والا 11 برس کے کمسن مشرف فیاض ولد فیاض احمد نجار ساکن دار مدورکیگام شوپیان زندگی کی جنگ ہار گیا اور اس سانحہ میں زخمی ہونے کے18 روز بعد سائمہ جان دختر ہلال احمد وانی(عمر ۸۱سال)بالآخر زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔واضح رہے جس جھڑپ میں سائمہ زخمی ہوئی تھیں اُسی میں اُن کے جنگجو بھائی سمیر احمد میر بھی فورسز کے ساتھ مقابلہ آرائی کے دوران جان بحق ہوچکے تھے۔ اسی جھڑپ میں ایک اور نوجوان شاکر احمد بھی فوج کی راست گولیوں کا نشانہ بن کر ابدی نیند سو گیا۔اس کے علاوہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں درجنوں عام کشمیری فورسز کے گولیوں اور چھروں سے زخمی ہوگئے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ تو بہرحال روز کا معمول ہے۔ریاستی وزیر اعلیٰ یونیفائڈ کمانڈ کی سربراہ ہیں،اُنہیں ”جہنم“ میں جانے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی اس کا آرزو مند ہے ، عام کشمیری تو صرف یہ چاہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحبہ کو اپنے اختیارات کا استعمال کرکے متعلقہ فورسز ایجنسیوں کو واضح احکامات جاری کردینے چاہیے تھے کہ وہ عام اور بے گناہ شہریوں اور نوجوانوں کا قتل عام بندکریں، وہ وردی پوشوں کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث اہلکاروں کو سخت سے سخت سزا دینے کے لیے اقدامات کریں، لیکن وزیر اعلیٰ کی جانب سے ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے بلکہ شوپیان ہلاکتوں کے بعدموصوفہ اسمبلی میں کہتی ہیں کہ”فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات کے جانے کے لیے ابھی وقت موضوع نہیں ہیں“ اور وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ:” بھارتی فوج سب سے مہذب اور منظم فوج ہے“ مطلب اُن سے کبھی کوئی غلط حرکت سرزد ہوہی نہیں سکتی ہے۔عوامی دباو¿ میں شوپیان میں ہوئی اموات پر فوج کے خلاف وزیر اعلیٰ ایف آئی آر تو درج کرواتی ہیں البتہ اُن کی کولیشن میں شامل بی جے پی کے ممبران اسمبلی سینہ ٹھونک کر فوج کی جانب سے بے گناہوں کو مارنے کے اقدامات کو نہ صرف جائز ٹھہراتے ہیں بلکہ معصوموں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے وردی پوشوں کو ہیرو قرار دیتے ہیں۔وہ کشمیریوں کے خلاف غیر مہذب اور ناشائستہ زبان اختیار کرتے ہیں اور وزیر اعلیٰ صاحبہ کچھ نہیں کرپاتی ہیں۔میجر آدتیہ کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کا جو بُرا حشر بھارتی سپریم کورٹ نے کیا ہے وہ بھی پی ڈی پی حکومت کے لیے کسی بڑی شرمندگی سے کم نہیں ہے۔ایف آئی آر کا مطلب محض یہ ہوتا ہے کہ پولیس متعلقہ واقعے کی تحقیقات کرکے حقائق کورٹ کے سامنے رکھے، اتنا بھی دلی کے مسند اقتدار پر براجمان لوگوں کو برداشت نہیں ہوا ، اُنہوں نے سپریم کورٹ کے ذریعے سے اس پورے تحقیقاتی عمل پر روک لگوادی۔اب اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیریوں کو مارنے والے وردی پوش ”بھارت ورش“ کے لیے کتنے ”مہان“ ہیں اور اُنہیں کس طرح اپنے ہی ملکی قانون سے بالاتر بنادیا گیا۔عجب نہیں ہے کہ آنے والے وقت میں کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کی بھارت میں پوجاکی جائے گی۔
جس بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ کولیشن میں شامل ہوکر محبوبہ مفتی صاحبہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی وکالت کرتی ہیں اُسی بی جے پی کی سینئر لیڈر وبھارتی وزیر دفاع نرملا سیتھا رامان سجوان آرمی کیمپ پر حملے کے بعد اپنے ریاستی دورے کے دوران حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے ہوئے یہ کہتی ہیں کہ” پاکستان کو ان حملوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔“ بی جے پی کے دیگر لیڈران کے بیانات بھی کچھ اسی نوعیت کے تھے۔ ٹی وی چینلوں جن کے بارے میں خود محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ وہ کسی کو بھی ”دیش دروہی“ قرار دے سکتے ہیں پر بحث و مباحثوں میں بی جے پی کے لیڈران اور سابق فوجی افسران اچھل اچھل کرکہتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے ہی مٹاکر دم لیں گے، ایسے میں محترمہ محبوبہ مفتی کی بات نقار خانے میں طوتے کی آواز ہی ثابت ہوگی جس کا اُنہیں خود بھی اندازہ ہوگا۔ اگر اخلاص ہوتا؟ اگر کرسی کی نیلم پری کے بجائے حقیقی معنوں میں اپنے لوگوں کی بھلائی مقصد ہوتی؟ اگر وقتی فائدوں کے بجائے ریاستی عوام کے دائمی فائدے نگاہ میں ہوتے تو پھر مہ خانے میں بیٹھ کر ایمان اور خدا پرستی کا دکھاوا نہیں کیا جاتا بلکہ اُس رائے عامہ جن کے ووٹ سے اُنہیں اقتدار نصیب ہوتا ہے کے ساتھ مل کر اُن کے دُکھ کو اپنا دُکھ بنا لیا گیا ہوتا، پھر اپنے معصوموں کی لاشوں پر اقتدار کے محل تعمیر نہیں کیے جاتے۔ہمارے یہاں روز جنازے اُٹھتے ہیں، وردی پوشوں کی جانب سے بغیر اشتعال کے فائرنگ میں عام او رنہتے لوگ از جان ہوتے ہیں، اقتدار میں بیٹھے لوگ عوام کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے وقتی طور تحقیقات وغیرہ کا حکم تو دیتے ہیں لیکن آج تک کتنے ملوثین کو سزاہوپائی ہے؟ یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔گزشتہ سال وسط کشمیر کی پارلیمانی سیٹ کے ضمنی انتخابات کے موقعے پر آرمی کے میجر گوگوئی نے ووٹ ڈال کر آنے والے فاروق احمد ڈار نامی نوجوان کو جیب کے ساتھ باندھ کر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا، اس پر یہاں کی تمام ہند نواز جماعتیں سیخ پا ہوگئیں ہیں ، خود پی ڈی پی نے بھی فوج کی اس کارروائی پر زبردست غم و غصے کا اظہار کیا تھا کیونکہ جس شخص کو باندھا گیا تھا وہ ووٹ ڈال کر آچکا تھا۔ جب حکومت کے ہی ایک ادارے اسٹیٹ ہیوم رائٹس کمیشن نے حکومت کے نام یہ احکامات جاری کردئے ہیں کہ وہ فاروق احمد ڈار کو دس لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کریں تو محبوبہ مفتی جو خود بھی سمجھتی تھیں کہ فاروق ڈار کے زیادتی ہوئی ہے کی سرکار نے اُنہیں رقم دینے سے صاف انکار کردیا۔ رقم ادا نہ کرنے کی جو وجہ مختلف ذرائع سے سامنے آئی ہے اُس میں یہ کہا گیا کہ اگر حکومت نے رقم ادا کردی تو اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ فوج سے غلط حرکت سرزد ہوئی ہے۔ یعنی کھلے عام ہوئی زیادتی کی پردہ پوشی کرنا حکومت کی مجبوری ہے۔ وردی پوشوں کی ہاں میں ہاں ملانا اور اُن کی ہر ناجائز حرکت کو جائز ٹھہرانا برسراقتدار لوگوں ڈیوٹی بن چکی ہے۔ووٹ ڈالنے والے فاروق ڈار کو جیپ سے باندھنے پر میجر گوگوئی پورے بھارت میں ہیرو کے طور پر متعارف ہوئے تھے، اُنہیں آرمی نے خصوصی اعزاز سے نوازا ہے، اُن کے حق میں مسلسل بولنے والے درجنوں لوگوں کو مختلف چینلوں پر بیٹھا دیا گیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ٹی وی مباحثہ میں اینکر نے برملا کہہ دیا کہ”اس سے کیا فرق پڑتاہے کہ فاروق ڈار نے ووٹ ڈالا تھا، آخر وہ بھی تو ایک کشمیری ہی ہیں نا….“مطلب کشمیری ہونا ہی اصل جرم ہے۔ جب ایک قوم کے تئیں یہ سوچ ہو،تو ایسے میں پاکستان سے مذاکرات کی وکالت کرنا کیا معانیٰ رکھتا ہے؟
پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے، اُن کے ساتھ مذاکرات کے بغیر مسئلہ کشمیر حل ہونا ناممکن ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت میں قائم موجودہ سرکار پاکستان کے تئیں کڑا رُخ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اُن کی اس سخت گیرانہ پالیسی کے نتیجے میں دن بدن تناو¿ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حقیقی معنوں میں برصغیر کی عوام کے اصل خیر خواہ وہی لوگ ہیں جو موجودہ جنگی ماحول میں مذاکرات پر نہ صرف زور دے رہے ہوں بلکہ اس کے لیے عملاً کوششیں بھی کرتے ہوں گے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ، بالآخر سارے تنازعے مذاکراتی میز پر ہی طے ہوتے ہیں۔ بھارت کے اندر یہ بات سمجھنے والے جتنے بھی لوگ ہیں اُنہیں باتوں سے آگے بڑھ کر دونوں ملکوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے عملی کوششیں کرنی چاہیے۔ ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ بھی اس سوچ کے لوگوں میں شامل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ وہ اُسی جماعت کے ساتھ کولیشن میں نہ ہوتی جن کا واحد ایجنڈا اپنے پڑوسی ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو بھی زیر کرنا ہے۔ یہ قول اور فعل میں تضاد والی بات ہے اور آج کے دور میں عوام اس طرح کے تضاد کو بخوبی سمجھتی ہے۔