احمد توصیف قدس
ضلع کٹھوعہ کی تحصیل ہیرانگر میں ۸ سالہ معصوم آصفہ بانو کی عفت کو تار تارکرکے اُسے بہیمانہ طورپرقتل کرنے والے گرفتار شدہ SPOدیپک کھجوریا کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے چند روز قبل کٹھوعہ میں ” ہندو ایکتا منچ“ کے زیر اہتمام ایک ریلی نکالی گئی۔ گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرانگر کے دفتر تک نکالی جانے والی اس ریلی کی قیادت بی جے پی کے مقامی نیتا ایڈوکیٹ وجے کُمارکررہے تھے۔ ریلی میں شامل احتجاجی بھارتی جھنڈا لہرا کر دیپک کھجوریا کے دفاع میں نعرے بلند کر رہے تھے۔ وہ دیپک کو بے قصور قرار دے کر اُس کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ احتجاجیوں کا دعویٰ تھا کہ دیپک بے قصور ہے اور پولیس جان بوجھ کر اُسے کیس میں پھنسا رہی ہے۔ ریلی میں شامل کٹھوعہ بی جے پی کے ضلع صدر پی این ڈوگرہ نے بھی دیپک کی گرفتاری کو قابلِ مذمت قرار دیا ۔ ضلعی صدر نے مزید کہا ” دیپک بے قصور ہے اور اُسے محض اِس بنا پر بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے کہ وہ آصفہ کی گمشدگی کے دوران آصفہ کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والے احتجاجیوں (گوجر بکر وال)سے سختی سے پیش آیا تھا کیونکہ وہ پاکستان کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔“اطلاعات کے مطابق اِس ریلی میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے اور کانگرس کے چند کارکنان بھی بنفسِ نفیس موجود تھے۔ واضح رہے ریلی کے آگے آگے قدم سے قدم ملا کر پولیس اہلکاران شرکائے ریلی کو تحفظ فراہم کر رہے تھے۔
مورخہ۱۰ جنوری ۲۰۱۸ءکو محمد یوسف کی ۸سالہ بیٹی آصفہ ضلع کٹھوعہ کی تحصیل ہیرانگر کے رسانہ جنگل سے اچانک لا پتہ ہوئی اور ایک ہفتہ غائب رہنے کے بعد مورخہ ۱۷ جنوری ۲۰۱۸ءکو آصفہ کی لاش اپنے گھر سے تین کلومیٹر دور جنگل سے برآمد کی گئی۔۱۰ سے ۱۷ جنوری کے اِن سات ایام میں دیپک کھجوریہ نامی جموں و کشمیر پولیس کا ایکSPO مبینہ طور پر معصوم آصفہ کی عفت کو تار تار کرتا رہا اور جب اِس انسان نما وحشی کی درندگی عروج پر پہنچی تو معصوم کلی کو موت کے گھاٹ اُتارکر اُس کی لاش کو جنگل میں پھینک دیا۔۱۷جنوری کو جب آصفہ کی لاش جنگل سے برآمد کی گئی تو پوری ریاست میں یہ خبر آناً فاناً پھیل گئی اور اِس گھناﺅنے فعل میں ملوث افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جانے لگا۔طالب چودھری نامی ایک گوجر ایڈوکیٹ نے اپنی برادری کے لوگوں کے ہمراہ آصفہ کے قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی احتجاجی دھرنے دیے اور بھوک ہڑتال کا بھی اہتمام کیا۔ مجرم کی گرفتاری کو لے کر ابتداءمیں پولیس لیت و لعل سے ہی کام لینے لگی،لیکن گوجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے احتجاجی دھرنوں اور مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں کے پے درپے جاری کردہ مذمتی بیانات کے نتیجے میں طوعاً و کرہاً پولیس حرکت میں آگئی ۔ابتداءمیں مجرم کو گرفتار کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی ٹیمSIT بنائی گئی ،لیکن اِس تحقیقاتی ٹیم کے تئیں آصفہ کے متعلقین نے غیر اطمینانی کا اظہار کیا۔ بعدازاں یہ کیس کرائم برانچ کو سونپا گیا۔
کرائم برانچ کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جموں و کشمیر پولیس کا ایک ایس پی او دیپک کھجوریاساکن ہیرانگر ہی آصفہ کا مجرم ہے۔ستم ظریفی یہ کہ دیپک کھجوریا اُسی ٹیم کا حصہ تھا جسے مقتولہ آصفہ بانو کے معاملے کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا۔ دیپک کھجوریا کو گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاںکرائم برانچ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل الوک پوری نے اِس سانحہ کی تہہ تک جانے کے لیے مزید پوچھ تاچھ کے لیے سریندر کمار ساکن ستوار کٹھوعہ نامی ایک اورSPO کی گرفتاری کی تصدیق کی۔دیپک کھجوریہ نے آصفہ کی عصمت دری اور قتل کے بدترین جرم کا اعتراف کیا۔ کرائم برانچ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم دیپک نے آصفہ کو کوئی نشیلی چیز کھلا کر اُسے بے حس کر دیا تھا تاکہ اُس کے ساتھ زیادتی کرتے وقت معصوم آصفہ چیخنے چِلانے سے قاصر رہے۔ اپنے جُرم کا اعتراف کرچُکے دیپک کھجوریہ کی رہائی کے لیے نکالی جانے والی اِس ریلی کا کوئی بھی منطقی جواز نہیں بنتا تھا۔مزید برآں یہ ریلی ایک ایسے مجرم کے دفاع کے لیے نکالی گئی کہ جس کا جُرم انسانیت کو سرتا پیر شرمسار کر دینے کے لیے کافی ہے۔
پی جے پی کے ریاستی جنرل سیکریٹری اشوک کول نے اگرچہ بھاچپا کا اِس ریلی سے کوئی بھی تعلق نہ ہونے کا بیان دیا ہے، لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ بھاجپا کا یہ بیان ریلی کے چار روز بعد مشتہر ہوا جبکہ اِس پورے عرصے میں اِس ریلی پر مختلف سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتوں بشمول ریاستی وزیر اعلیٰ کے مذمتی بیانات آ چُکے تھے۔ شایدبھاجپا کو اِن بیانات کی آڑ میں حزیمت اُٹھانی پڑی ہو گی۔ کیونکہ مختلف ذرائع سے حاصل شدہ رپورٹس کے مطابق اِس ریلی کے آرگنائزر س بی جے پی کے ہی مقامی کارکنان تھے۔ اس ریلی کے کرتا دھرتا ﺅں کا رسوخ دیکھنے کے قابل تھا کہ پولیس اہلکار رشرکائے ریلی سے قدم سے قدم ملا کر گویا اُن کو تحفظ فراہم کررہے تھے۔ حالانکہ آصفہ کے حق میں جب گوجر بکر وال طبقہ کے لوگ احتجاج کر رہے تھے، تو پولیس کے انہی اہلکاروں نے لاٹھی چارچ کر کے لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا اور حد تو یہ ہے کہ اِس احتجاج کی قیادت کرنے والے نوجوان ایڈوکیٹ طالب چودھری کو پولیس نے گرفتار بھی کیا تھا کیونکہ پولیس کے بقول طالب امن و امان میں رخنہ ڈالنے کا باعث بن سکتا تھا، حالانکہ وہ آصفہ کے لیے انصاف فراہم کرنے کی دُہائی دے رہا تھا۔
آصفہ کے متعلقین نے الزام لگایا ہے کہ جب سے ملزم دیپک کو گرفتار کیا گیا ہے ، تب سے ہی ہندو ایکتا منچ نامی گروپ اُنھیںہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گوجروں کا مزید کہنا ہے کہ یہ گروپ ہندوﺅں کو گوجروں کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں اور اُنھیں اِس گروپ سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔ واضح رہے” ہندو ایکتا منچ“ نامی یہ گروپ بی جے پی کے ہی کرتا دھرتاﺅں کی ایما پر سرگرمیاں انجام دیتا ہے اور بی جے پی کے ریاستی سیکریٹری وجے شرما اس گروپ کے پریذیڈنٹ ہیں۔آصفہ کیس پر بھاجپا نے روزِ اول سے ہی متعصبانہ روش اختیار کر رکھی ہے۔ بجٹ اجلاس کے دوران قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں میںبی جے پی کے یہ سیاست دان آصفہ کیس پر شرمناک خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ گویاکہ اِس جماعت کے نزدیک آصفہ سے جُڑا یہ سانحہ کوئی معمولی ساواقعہ ہو۔ بھاجپا کی اِس سانحہ کے تئیں روا رکھے جانے والی خاموشی انسانی قدروں کی پامالی کی بد ترین مثال ہے جس سے فی الاصل بی جے پی کی مکروہ سیاست کا پردہ چاک ہو جاتا ہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ صوبہ جموں میں مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے اور اُنہیں وہاں سے نکال باہر کرنے کی منصوبہ بندی کی سانحہ کٹھوعہ ایک کڑی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست سیاست دان اور جماعتوں نے اس معاملے میں نہ صرف اپنے منھ بند کیے ہوئے ہیں بلکہ مجرموں کے حق میں کھل کر بیانات بھی دیتے ہیں۔
۸ سالہ معصوم آصفہ کے قاتل کو رہا کرنے کے لیے منعقد کی گئی یہ ریلی انسانیت کے چہرے پر طمانچے کی مانند ہے۔”بیٹی بچاﺅ اور بیٹی پڑھاﺅ“ جیسے نعرے کے اختراع سازوں نے تو معصوم آصفہ کے حق میں کوئی بات نہیں کہی ۔ کیا اِس کی وجہ یہی ہے کہ آصفہ ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھتی تھیں ©؟نریندر مودی صاحب اپنے ریڈیو پروگرام ” من کی بات“ میں قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو شاباشی دینے میں رطب اللسان رہتے ہیں ، لیکن گذشتہ ماہ (جنوری2018)کے پروگرام میں وہ آصفہ سے جُڑے سانحہ پر دو بول بھی نہیں بول پائے۔ دوسری جانب ریاستی وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کی حلیف محبوبہ مفتی نے تو اِس ریلی کے انعقاد پر مائکرو بلاگنگ سائٹ ٹویٹر پر ایک مذمتی بیان جاری کرکے اس ریلی کو ترنگے کی توہین (Desecration) قرار دے کر اِس ریلی سے اپنا دامن چھڑا لیا۔لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ اِس ریلی کے تئیں محبوبہ مفتی اپنی حلیف جماعت بی جے پی کی لیڈرشپ کے نام اپنا ایک احتجاجی بیان جاری کرتی اور احتجاجی لوگوں کے سربراہی کرنے والے لوگوں کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کیس درج کرالیتی۔وہ اگر واقعتا اِس ریلی سے ششدر ہو گئی ہیں تو کیا یہ موزون نہیں تھا کہ اوّلین فرصت میں اُن پولیس والوں کو معطل کیا جاتا کہ جو اِس ریلی کے آگے آگے احتجاجیوں کوتحفظ فراہم کر رہے تھے۔حیف صد حیف کہ ریاست جموں و کشمیر کو عورتوں کے لیے سب سے محفوظ جگہ قرار دینے والی محبوبہ مفتی آصفہ کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہچانے میں معذور نظر آتی ہے۔
پڑوسی ملک پاکستان میں ۷ سالہ زینب کے ملزم عمران کو صرف پندرہ دنوں کے اندر اندر پاک عدلیہ نے ۴ بار سزائے موت سنائی ۔ لیکن کٹھوعہ میں اِس کے برعکس غیر متوقع طور پر آصفہ کے ملزم دیپک کھجوریہ کو رہا کرنے کے فرقہ پرستوں کی جانب سے ریلی نکالی گئی جو کہ اصل میں بیمار ذہنیت کی علامت ہے۔ ایسی ذہنیت کے حامل لوگ ہمارے معاشرے کا ایک بد نما دھبہ ہیں۔کاش کہ ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی جاتیں تا کہ آصفہ کی ہم عمر و ہم جنس ارم، ھادیہ، عقیلہ، جوتی، آرتی ، رنجیت اور رندھیر(بنا مذہب کی تفریق کے) جیسی بیٹیوں کی عزت و ناموس کو تحفظ ملنے کی ایک اُمید بندھ جائے۔اگر ہندو ایکتا منچ اور ان جیسی دیگر فرقہ پرست تنظیموں کو ایسے ہی مسلم مخالف جذبات کو فروغ دینے کے لیے میدان فراہم کیا گیا تو ریاستی عوام بالخصوص مسلمان یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ صوبہ جموں میں ۷۴۹۱ئ کے قتل وغارتگری کے واقعات دوہرانے کی واقعی میں رہرسل ہورہی ہے جس کاانکشاف گزشتہ سال بی جے پی لیڈر چودھری لال سنگھ نے ایک مسلم وفد سے ملاقات کے دوران کیا تھا۔
٭٭٭٭٭