شامی بچوں کے دَرد و کراہ کا تھپیڑا۔۔۔۔۔ہلال احمد تانترے (ڈہامہ ، کپواڑہ)

شامی بچوں کے دَرد و کراہ کا تھپیڑا۔۔۔۔۔ہلال احمد تانترے (ڈہامہ ، کپواڑہ)

شام سے آج کل دل دہلانے والی تصاویر میڈیا کے اندر پھیل رہی ہیں۔ انسانیت کے غم خوار وں کے لئے جو کسی عذابِ الٰہی سے کم نہیں ہے۔ بمباری سے کراہ رہے و جان دیتے ہوئے بچوں کی تصاویر ہر کسی انسان کے سامنے رقصاں ہو رہی ہیں۔ اِن تصاویر و ویڈیوز کو دیکھ کر دل بے چین ہو رہا ہے او ر خون کے آنسو رورہا ہے۔ بسا اوقات کسی کمزور دل انسان کے لئے ڈپریشن کی وجہ بھی بن رہی ہے۔ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ مسلم امت کا لہو لالہ زار کی طرح بہہ رہا ہے؟ ـ’’مسلم‘‘ جس کے نام میں ایک وحدت ہے، جو کسی قوم ، نسل، رنگ یا مسلک کا خواستگار نہیں ہے، کیوں اتنے بودے ہو گئے ہیں کہ جیسے کفِ افسوس مَلنے کے سوا کسی کے پاس کچھ کرنے کے لئے بچا نہیں ہے؟ اللہ رب العالمین کے سامنے دست بدعا ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے دعائوں کو ہمارے منہ پر دے مار دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر انتشار یہ کیفیت ایسی ہے جہاں پر کسی پرائے سے کوئی سوال کرنے کا جواز نہیں ہے۔ مرنے والا مسلمان ، وہی مارنے والا بھی مسلمان۔ پرائے دور سے دیکھ کر ہمارے گرم لہو کی فلمیں دیکھ رہے ہیں، ہمارے گھروں کو جلتے دیکھ کر اپنے جسم کی حرارت بڑھاتے ہیں، ہمارے بچوں کی معصوم زندگیاں اجیرن ہوتے ہوئے اپنی خیر مناتے ہیں۔ اُن کے ہاں اگر کوئی معمولی واقعہ پیش آتا ہے تو پورے عالم کی توجہ اُن کی خبر گیری لینے کے لئے پہنچ جاتی ہے۔ یہاں اگر کوئی واقع پیش آنے کے مقابلے میں سکوت طاری رہ جاتی ہے، تو ان کے جسم کی حرارت کم ہوتی ہے اور پھر سے اپنی حرارت قائم رکھنے کے لئے نئی نئی سبیلیں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے امت مسلمہ کی اِس ظلم و ستم کی؟ اُنہیں تو جس مقام پر اُن کے ہادی اعظم ؐ نے چھوڑا تھا، وہ وہاں سے اس طرح سے آج گر پڑی ہے کہ اُنہیں نہ اپنے وجود کی خبر ہے اور نہ ہی اُس ستم ظریفی کی جس کے وہ شکار ہو رہے ہیں۔
خلفاء راشدین کے عہد کے گذرنے کے بعد جب عدل و انصاف کی جگہ ظلم و تشدد کی باگ دوڑ سنبھل گئی ، اُس کے بعد جب جابر حکمرانی کا دور دورہ شروع ہوگیا، بھر رفتہ رفتہ جب اتحاد و اتفاق کی جگہ انتشار و اختلافات نے جگہ لے لی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کرنا بھی چھوڑ دیا گیا، تو عذاب کے اُس کوڑے کو نازل ہونے سے کون روک سکتا ہے، جس میں نیک و بد ، سب لوگ بحیثیت مجموئی ذلت و پستی میں جاگرتے ہیں۔ دوسری طرف سے جب دنیاوی علوم کو غیروں کے حوالے کیا گیا، سائینس و سیاست کی سیادت کرنے میںعار محسوس کیا گیا اور مساجد و خانقاہی زندگیوں کو ہی دنیا کی امامت کا واحد طریقہ کار سجھا گیا، وہاں پر کسی صاحبِ ایمان باللہ کا بچنا لازمی طور پر محال ہے۔ مجموئی طور پر یہی کچھ وجوہات ہیں جن سے امتِ مسلہ آج اس نگر پر پہیچ چکی ہے، جس سے بجا طور پر ہمارے غم خوار ؐ نے ’’جابر حکمرانوں کا دور ‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ سمجھنے کے لائق یہ مقام ہے کہ پچھلی ایک صدی میں ، خاص کر خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد جب یہ ظلم و ستم کا دور دورہ امت مسلمہ پر آن پڑا، تو اُن مسلم ممالک کے حکمرانوں کی عقل بھی جاتی چلی گئی جن کے پاس معاش و دفاع کے سب سے اعلٰی ذخائز موجود تھے۔ ۱۹۲۰ ء تک اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو سنبھلنے کا بھر پور موقع فراہم کیا تھا، لیکن کسی کے کان میں چوں تک نہیں گذری، اور آج حال یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھروں کے اندر تک محفوظ نہیں ہیں۔ محفوظ تو دور کی بات ہے، اپنے ہی گھر کے لوگ باقیوں کو اپنے گھر کی تباہی کرنے کی دعوت دیے رہے۔ یہ ہے اصل صورتحال ، جس کا اگر کسی کو عین الیقین کے طور پر مطالعہ کرنا ہے تو مشرق وسطیٰ کے طرف نظر اُٹھا کر دیکھے۔ یہ وہی علاقے ہیں جو کسی زمانے میں علم و عرفان کے مرکز تھا، جہاں پر اللہ کے جلیل القدر پیغمبر وں نے جنم لیا ہے اور وہاں پر اللہ کی دعوت کا کام بھی کیا ہے۔ لیکن خلافت عثمانیہ ،جس سے کمزرو ہی سہی لیکن مسلمانوں کی رہی سہی اجتماعیت برقرار تھی کے زوال پذیر ہونے کے بعد اس دنیا کی رزم گاہ کی بھاگ دوڈ یورپ کے ہاتھ آگئی۔ براہ راست جبر و ستم اور قبضہ کرنے کے بعد یہاں سے انہوں نے مال و دولت کے انبھار اپنے ملکوں کو درآمد کئے۔ لاکھوں میں انسانوں کو مارا، جنگ و جدل کا بازار گرم کیا گیا اور آخر میں جب روشن خیالی کے آڑے اِن ملکوں سے رحلت اختیار کی تو یہاں کی زمین اور یہاں کے مسلمانوں کو ایسے بکھیر کر چھوڑا کہ آج تک جو یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ ہمارے مسئلے کا اصل اور بنیادی وجہ کیا ہے اور ہم کس پر لڑ رہے ہیں اور کس سے لڑ رہے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، برصغیر پر ہی اگر ایک سرسری نظر دوڑائی جائے۔ مشرق سے بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان)، اُسی طرف سے آج کی سب سے زیادہ مقہور و مظلوم قوم روہنگیا مسلمان اور اِدھر سے پاکستان ، کس نے اِن کی وحدت کو توڑا؟ کس نے اُن کو ایک دوسرے سے لڑایا؟ کس نے اُن کو ایک لامتناہی رسا کشی کے عالم میں دھکیل دیا؟ روہنگیا مسلمان کیوں در در کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں؟ یہ اُسی شاطر قوم کا کارِ خیر ہے، جو آج امن و چین اور ترقی و روشن خیالی کی موجد سمجھی جاتی ہے۔یہاں سے نکلنے کے بعداُس ’’روشن خیال و آزادی پسند‘‘ قوم کو معلوم تھا کہ اگر یہ لوگ جاگ گئے، تو ہماری کیا پورے دنیا کو مسخر کریں گے،اس لئے انہیں اس طرح کسی رسا کشی میں ڈال دینا ہے کہ یہاںسے نکلنے کے بعد ہمارے مقاصد کی بھر پائی ہوتی رہے۔
شام ہو یا عراق، یمن ہو یا سعودی عرب،لبنا ن ہو یا کویت اور اسی طرح تیونس ہو یا مصر ،مشرق وسطیٰ کے مذکورہ ممالک مین آج جو یہ شورش اپنی انتہا کو چھو رہی ہے، یہ سب ملک ایک وقت میں ایک ہی مملکت کے حصے تھے۔ لیکن جب سامراج کا قبضہ ہوا ، اور لوٹ کھسوت کے بعد جب یہاں سے نکلنا ہوا تو وہی ترکیب استعمال کی گئی جس کا اوپر خلاصہ پیش کیا گیا۔ جغرافیائی لحاظ سے اس طرح تقسیم کی گئی کہ ایک پارٹی دوسرے سے تب سے لڑتی چلی آرہی ہے۔ لسانی و مسلکی اعتبار کو اس طرح مدِ نظر رکھا گیا کہ کوئی کسی کا دوست نہ ہو پایا۔ اصل مسئلے کی بنیاد یہی ہے اور بد قسمتی سے توحید کی بنیاد کے کو پسِ پشت ڈال کر مسلمانوں نے بھی انہی بنیادوں کو اپنے تفرقے کی جڑ سمجھی۔ یہ ہے وہ چال جس سے مسلمان آج تک یا تو سمجھ ہی نہیں رہے ہیں یا تو اپنے حقیر مفادوں کی خاطر نظر انداز کر رہے ہیں۔
یہ ہے وہ بیماری جس کی تشخیص تو ہو رہی ہے لیکن علاج سطحی کیا جارہا ہے۔ سطحی علاج کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ کچھ دن بیماری غائب رہنے کے بعد یہ پھر سے اُٹھتی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج شام کے یہ معصوم بچے اپنے گرم لہو سے اور اپنے نومولود اجسام سے انسانیت کے غم خواروں کو صد ا دے رہے ہیں کہ آخر اُن کی کیا خطا ہے جو اُن کا زندہ ممنوع سمجھا جا رہا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج سے کچھ ہفتے پہلے فلسطین کی غیور بیٹیاں مسلمانوں سے یہ آس لگا رہی تھیں کہ اُنہیں اسرائیل کے ظلم و چنگل سے بچایا لیا جائے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج سے کچھ مہینے پہلے روہنگیا مسلمان دردو کرہ سے اپنی مسلمانیت کی گناہ کا سزا سہتے سہتے پوری دنیائے انسایت سے کہہ تہی تھی کہ آخر اُن کا یہ کیسا گناہ ہے جو انہیں ایسی ستم ظریفی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی رُو سے اہلیان جموں وکشمیر آئے روز اپنے جوانوں کے ابھرتے لہو سے دنیا سے پوچھ رہے کہ اُن کا گناہ کیا ہے۔ یہی وجہ پوری امت مسلمہ کو اِس وقت درپیش ہے۔شام کے اِن بچوں کی درد ناک آہیںآنے والی وقت میں کھبی اور سننی ہو ںگی۔ روہنگیا مسلمانوں کے حق میں احتجاج تو ہم لوگوں نے وقتی طور پر ادا کر لیا، لیکن یہ مسئلہ اپنی جگہ زندہ ہے، جس سے پھر سے اُبھر جانا ہی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے، کشمیر میں بھارت کی شورش پھر سے اپنے عروج کو پہنچ رہی ہے۔ لیکن آہ! امت مسلمہ اس صورتحال کو دیکھ کر وقتی طور پر آہ وزار ی تو کر رہی ہے، لیکن کسی long term حکمت عملی کے اختیار کرنے سے قاصر ہے۔
مضمون نگار کشمیر یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور اُن سے مندرجہ ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
٭[email protected]

٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.