1517 ء میں عثمانی بادشاہ سلیم اول نے خلافت کا تاج عظیم عثمانی سلطنت کے سر پر سجانے کے لیے مملوک سلطنت کے مرکز مصرپرحملہ کیا۔ عثمانی فوجی ہر اعتبار سے طاقت ور تھی البتہ مصر میں جو مملوک بادشاہ اُس وقت تخت نشین ہوا تھا اُس کا نام طومان بے تھا۔ طومان بے نے بڑی ہی بے جگری کے ساتھ عثمانیوں کے خلاف اپنی بہادر کے جواہر دکھائے لیکن اُن کی بہادر اور ماہر فوج کے پاؤں عثمانیوں کے توپ خانوں اور بندوقوں نے اُکھاڑ دئے۔ بالآخر طومان بے نے ہتھیار ڈال دئے اُن کے ایک بہادر فوجی افسر قرط بے کو جب گرفتار کرکے سلطان سلیم اول کی خدمت میں لایا گیا، تو یہاں دونوں سلطان سلیم اور قرط بے کے درمیان ایک تاریخی مکالمہ ہوا، جس کو تاریخ دانوں نے بڑی اہمیت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔عثمانی سلطان سلیم اول کے سامنے قرط بے نے ایک زور دار تقریر کی جس میں اُنہوں نے توپ اور بندوق کا ذکر نفرت اور حقارت کے ساتھ کیا ،قرط بے نے سلطان سلیم کو مخاطب ہوکر کہا کہ توپ اور بندوق کا وار بہادرانہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ بزدلانہ طریقہ پر مارتی ہیں، اس نے سلیم کو بتایا کہ بندوقیں مصر میں سب سے پہلے اشرف قانصوہ کے عہد میںلائی گئی تھیں، جب کہ ماریشش کے ایک شخص نے مملوکوں کو بندوق سے مسلح کردینے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، جس پر اشرف قانصوہ اور اُن کے فوجی افسروں نے جنگ میں اس بدعت کے جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔ کیونکہ مملوکوں کے نزدیک ایک تو یہ حقیقی شجاعت کے شایان شان نہیں، دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے بھی خلاف ہے، قرط بے نے کہا کہ جب اس شخص سے سلطان نے انکار کیا تو وہ چِلا اُٹھا اور کہنے لگا کہ’’ تم میں سے کچھ لوگ اُس وقت تک زندہ رہیں گے اور دیکھیں گے کہ یہ سلطنت ان ہی گولیوں اور توپوں سے ختم ہوکر رہے گی، یہ بیان کرکے قرط بے نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا کہ افسوس وہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔‘‘
اسی طرح کتب ِ تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ جب تاتاری بادشاہ ہلاکوخان نے بغداد کا محاصرہ کیا تو وہاں کے امراء اور عہدہ داران نے ہلاکوخان کی خدمت میں بیش بہا ہیرے جواہرات گھوڑوں پر لاد کر تحفتاً بھیج دئے تاکہ وہ اُن کی جان بخش دے۔ ہلاکو خان نے یہ تمام مال و جائداد قبول کرکے بغداد کے سلطان وقت اور اُن کے وزیرا اورفوجی افسروں کو دعوت پر بلا لیا۔ دعوت کے لیے خیمہ سجھایا گیا، جب بغداد کے بادشاہ اپنے وزیروں اور دیگر سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ دعوت پر پہنچ گئے تو اُن کے سامنے دسترخواں پر یہی ہیرے جواہرات سجائے گئے اور اُن سے کہا گیا کہ کھائیے، یہی آپ کی دعوت کی خاص پکوان ہے۔ مسلمانوں کے یہ عیش پرست حکمران دیکھتے رہ گئے اور اپنے ساتھ اس ذلت بھرے رویے کے لیے اُنہیں غصہ بھی آیا تھا لیکن ہلاکو خان کے سامنے وہ بس دیکھتے ہی رہ گئے، جس پر اُنہیں ہلاکو خان نے کہا کہ یہ مال و دولت آپ لوگوں نے کس لیے جمع کررکھی تھی، اگر اِسی مال و دولت سے ہتھیار بنالیا ہوتا، فوج بنائی ہوتی، اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنالیا ہوتا تو آج تمہاری حالت یہ نہیں ہوتی۔ اس کے بعد مسلمان خلیفہ اور اُن کے دیگر وزیروں کے ساتھ ہلاکو خان نے کس طرح کا وحشیانہ سلوک کیا ، وہ ساری المناک داستان تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔
تاریخ کیوں لکھی جاتی ہے اور تاریخ کا مطالعہ کیوں کیا جاتا ہے؟ صرف اس لیے تاکہ آنے والی نسلیں تاریخ سے سبق سیکھیں، وہ جان لیں کہ کہاں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور کہاں کون سی خامی یا کمیاں ہماری زوال کا سبب بن گئی ہیں۔اُمت مسلمہ کی تاریخ میں اس ملت کے عروج کے وجوہات بھی نمایاں طور پر ظاہر و باہر ہیں اور زوال کی المناک داستان سے جڑے حادثات، سانحات اور واقعات بھی نمایاں طور پر درج ہیں۔ ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارا عروج کیسے ہوا اور ہمارے زوال کی داستان کہاں سے شروع ہوئی ہے۔جس مغرب کے سائنسی ترقی اور عسکری صلاحیتوں سے آج ہم صرف مرعوب ہی نہیں بلکہ اُن کی بربریت کا ہر جگہ شکار بھی بنئے ہوئے ہیں وہ اِسی طرح ہمیشہ نہیں تھے بلکہ آج جہاں وہ کھڑے ہیں وہاں ایک زمانے میں ہم تھے اور ہماری جگہ پر وہ تھے۔ یہ بات مغرب کے ہی ایک منصف نے لکھی ہے کہ جس وقت مسلم ورلڈ میں قائم شدہ ہزاروں لائبریریوں میں ایک ایک لاکھ تک کتابیں جمع ہوچکی تھیں اُس وقت یورپ اور مغرب کے لوگ حروف تہجی سیکھ رہے تھے۔ اگر وہ چھلانگ مار کر ہماری برابری ہی نہیں بلکہ ہم سے سو سال آگے جاسکتے ہیں تو موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں اُمت مسلمہ کی حالت پانی کی سطح پر جمع ہونے والی اُس جھاگ سے بھی گئی گزری ہوچکی ہے جسے ہوا کا ایک معمولی جھونکا بھی فنا کی گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ پوری دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر غیر اقوام بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں۔ ہر جگہ ہماری مقتل گاہیں سجی ہوئی ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، افغانستان، فلسطین، کشمیر، مصر، بنگلہ دیش ، یمن جہاں بھی نظر دوڑائی جاتی ہے، ہمارا ہی لہو بہتا ہوا نظر آرہا ہے۔ابتدائی زمانے سے ہی صہیونی اور صلیبی طاقتوں کو جب بھی زمانے میں عروج حاصل ہوا، اُن کی طاقت میں اضافہ ہوا، اُنہوں نے مسلم دنیا کو تہ تیغ کیا ۔ مسلمان خلفا، سلاطین اور حکمرانوں نے ہر زمانے میں صہیونی اور صلیبی اقوام کے ساتھ نیک برتاؤ کیا، اُن کے بنیادی انسانی حقوق کا پاس و لحاظ رکھا لیکن جب بھی طاقت کی کایا پلٹ گئی ، صہیونیوں اور صلیبیوں نے انسانیت کی تذلیل کی، اُنہوں نے وحشی پن اور درندگی کی ایسی داستانیں رقم کی کہ انسان کا کلیجہ ہی پھٹ جانے کو آتا ہے۔عالم انسانیت نے صرف مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں امن کو اپنے حقیقی روپ میں دیکھ لیا ہے۔جن کی یہ تاریخ رہی ہو کہ اُنہوں نے اپنے زمانے میں صرف خون کی ہولی کھیلی ہے اُن سے بھلا ہم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ملت اسلامیہ کی کسی بھی سطح پر مدد کریں گے، یا اُن کی بات سنیں گے، اُن کے ساتھ دوستانہ مراسم استوار کریں گے۔ یہ نمک کی کان میں مٹھاس تلاش کرنے والی بات ہوگی، لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں جتنی بھی اسلامی ریاستیں دنیا کے نقشے پر موجود ہیں اُن سبھوں نے غیر اقوام سے اپنی اُمیدیں وابستہ کررکھی ہیں، وہ مغرب کی آغوش میں پناہ ڈھونڈنے کی نادانی کررہے ہیں، وہ یورپ کی منڈیوں میں امن کے خریداروں کو تلاش رہے ہیں۔اس سے بڑھ کر جگ ہنسائی کیا ہوگی کہ جس امریکہ نے پورے عرب کوجنگ و جدل کی ہولناک آگ میں جھونک دیا ہے، افغانستان اور پاکستان کو خانہ جنگی اور قتل و غارت گری کے دلدل میں پھنسا دیا ہے، سعودی عرب اور ایران کو آمنے سامنے لاکھڑا کردیا ہے، مسلمانوں کو مسلک، وطنیت،قومیت اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا ہے اُسی امریکہ سے سارے مسلم حکمران اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اُس کی رضامندی اور خوشنودی پانے کے لیے ہر وہ اقدام اُٹھایا جارہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کی بقاء خطرے میں پڑجانے کا اندیشہ ہے بلکہ دین اسلام کی تعلیمات پر بھی نشتر چلایا جارہا ہے۔ واشنگٹن کی نمرودی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے اسلام کو ’’ماڈرن‘‘ اور’’ اعتدال پسند‘‘ بنانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ قرآنی آیات میں تحریف کرکے قرآن کے نئے ایڈیشن کو متعارف کرنے اور احادیث کی از سر نو چھان پھٹک کرنے کے لیے اُمت کے ہی لوگ اکیڈمیاں قائم کررہے ہیں۔آنکل سام کی مرضی کو بھانپتے ہوئے اپنے اصولی اور مبنی برحق مؤقف سے سرمو انحراف کیا جارہا ہے۔جن لوگوں کے لیے مسئلہ فلسطین کل تک ایمان اور عقیدے کا مسئلہ تھا وہی آج مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے نہ صرف مسئلہ فلسطین سے دستبردار ہوچکے ہیں بلکہ اس مسئلہ کی بات کرنے والوں کا صفایا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے، جو لوگ کل تک مسئلہ کشمیر کے لیے ہزار سال تک لڑنے کا چیلنج دے رہے تھے اُنہوں نے اپنی سلطنت میں کشمیرکی بات کرنے والوں کا قافیہ حیات ہی تنگ کررکھا ہے۔یہ سب کچھ اُن طاقتوں کی خوشنودی کے لیے یہ ناداں مسلم حکمران کررہے ہیں جو طاقتیں کبھی بھی اُن سے راضی نہیں ہوسکتی ہیں بلکہ ہر ایک سے ہر ہمیشہDo More کا مطالبہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ہماری داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں۔اس سے بڑھ کر اُمت مسلمہ کی بے بسی کیا ہوسکتی ہے کہ ملک شام میں درجنوں فریق بمباری کرکے نہتے شامیوں کو مار رہے ہیں، کوئی ملک شام کو غیر ملکیوں سے بچانے کی خاطر، کوئی بشار الاسد کو گرانے کی خاطر، کوئی اُن کے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر، کوئی القائدہ کے نام پر ، کوئی آئی ایس آئی ایس کے نام پر، کوئی کردوں کو دبانے کے لیے ،کوئی اقدام متحدہ کا چمچہ بن کر ہر کو ئی بے چارے شامیوں کی ہی زندگی اجیرن بنارہا ہے۔ صدی کے اس خونین جنگ میں شہروں کے شہر تباہ ہو چکے ہیں۔روس ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک اپنے جدید ہتھیاروں کا یہاں تجربہ کررہے ہیں، اس ملک کی بستیوںاور شہروں کا تاراج کرکے وہ اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں اور بدبخت مسلم حکمران اُن کے اس کمینے پن میں ساجے دار بن رہے ہیں۔
اُمت مسلمہ یوں ہی پستی رہے ہیں، ہمارے خون سے دنیا بھر کی سرزمین یوں ہی لال ہوتی رہے گی، اگر ہم اپنی تاریخ سے سبق نہ سیکھیں گے۔ ہمیں اپنے ماضی میں جھانک کر دینا ہوگا کہ ہمارے عروج و زوال کا راز کیا رہا ہے۔ ہم نے اللہ کی رسی کو تھام کر اور جدید ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرکے دنیا کو مسخر کیا ہے اور ان دونوں چیزوں کو چھوڑ نا ہی ہماری موجود حالت کی وجہ بن چکی ہے۔ اس لیے لازمی طور پر ہمیں اللہ کی رسی کو از سر نو تھام لینا ہوگا۔ ہمیں ملکی، مسلکی اور مکتبی تفرقے سے نکل کر مسلمان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوگی۔ ہمارے پاس قدرتی وسائل ہیں، ہمارے پاس انسانی وسائل ہیں، اعلیٰ دماغ ہیں ، اپنی سرزمین ہے ، بس اقتدار کی جنگ سے نکلنے کی ضرورت ہے، مسلم حکمرانوں کو مغرب نوازی سے نکلنا ہوگا، جبھی ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ جس جدید ٹیکنالوجی اور معاشی طاقت نے آج ہمیںپوری دنیا میںذلیل کرکے رکھ دیا ہے اُس کو پانے کے لیے حکمت عملیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ جس دن ہم مسلکی، مکتبی، گروہی لڑائی جھگڑوں سے باہر نکلیں گے ، جس دن ہماری آپسی رنجشیں ختم ہوجائیں گے جس دن ہم ہر دوسرے مسلمان کو حقیقی معنوں میں اپنا دینی بھائی تصور کریں گے ، ہمارے عروج کا آغاز ہوجائے گا۔مقامی سطح پر بھی ہم جن حالات سے دو چار ہیں اُن میں بھی عوام الناس کو یک جٹ ہوکر بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا، دُکھ اُس وقت ہوتا ہے جب مساجد کے ممبروں پر مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے بیٹھ جاتے ہیں، جب عوام الناس کو ’’میں ہی صحیح ہوں‘‘ والے خطابات اور تقریریں سنائی جاتی ہیں ۔ یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے طرز عمل سے دین کی کوئی خدمت نہیں ہوگی بلکہ اس طرح ہمارے ہاتھوں ملت کی تقسیم در تقسیم کرنے کے کھیل کا گھناؤنا کام ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بحیثیت مسلم صحیح فہم اور شعور عطا کرے اورہم میں اپنی ذمہ داریوں کا صحیح ادراک پیدا کرے۔ آمین۔
[email protected]