23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 3روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قراردادمنظور کی گئی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برِصغیر میں مسلمانوں کی لیے الگ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی۔ قراردادِپاکستان پیش کرتے وقت اور حصولِ پاکستان کی تحریک جب چلائی گئی اس وقت نہ کوئی لبرل تھا نہ کوئی سیکولر ، نہ سندھی تھے ،نہ بلوچی تھے نہ پنجابی اور نہ پٹھان۔ پاکستان کی خاطر جن لاکھوں لوگوں نے شہادت کے جام پیے ان میں نہ کوئی بریلوی تھا، نہ دیوبندی تھا،نہ اہلحدیث اور نہ رافضی تھابلکہ پاکستان کی بنیادوں کو جن لاکھوں مسلمانوں نے اپنے مقدس لہو سے مضبوط کیا تھا وہ سب کے سب مسلمان تھے خالص، پکے اور سچے مسلمان۔
تحریک آزادی کا سب سے مقبول نعرہ “پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ ” تھا۔ مگر بعد میں آنے والے مال و دولت کے حریص حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان کو مقدس اسلامی نظام کے نفاذ سے محروم رکھا۔اللہ سے اللہ کے نام پر یہ وطن حاصل کیا مگر اب اسلامی نظام کے نفاذ سے مکر رہے ہیں۔کبھی اسلامی سوشلزم،کبھی اسلامی جمہوریہ اور کبھی اسلامی سیکیولرزم کے نام پر دغا بازیاں کرتے ہیں۔ اور رہی سہی کسر ا ±ن قوم پرست رہنماوں نے پوری کر دی ہے جو قوم پرستی کے نعرے لگا کر اِسے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔اور اپنی اپنی قومیتوں میں اس ملک میں رہنے والی باقی کی قومیتوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔یہ نام نہاد قوم پرست جان بوجھ کر اپنی قومیتوں کو احساس کمتری میں رکھتے ہیں،انھیں باور کرواتے ہیں کہ جیسے وہ یہاں ایلین ہوں جن کے کوئی بنیادی حقوق یہ ریاست انہیں نہیں دے رہی۔اِس ملک میں چاہے مہاجر ہو،پشتون ہو یا بلوچ سب کے قوم پرست رہنما اسی منطق پر عمل پیرا ہیں اور ایکدوسرے کے خلاف خوب نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ مگر پاکستان کی عوام شعور و آگاہی رکھتی ہے ایسی تمام سازشوں کی جس کے تحت اس ملک میں صوبائی تعصب پھیلایا جا رہا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست میں جتنے سرکاری عہدے ہیں ان پر ساری قومیتیں بلا تفریق ان عہدوں پر فائز ہیں۔
اس وطن کے نظریے کی اساس صرف اسلام ہے اور اسلام میں قومیتوں،سیاسی و جمہوری یا شخصی خداوو ±ں کا کوئی تصور موجود نہیں،جبکہ اللہ سبحان وتعالیٰ ربّ العٰلمین ہے،رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جب اللہ نے اپنے رسول کو کافتہ الناس کہہ کر پوری دنیا کی طرف بھیجا،قرآن کو بلاغ الناس اور بصائر الناس کہہ کر پوری دنیا کے لیے ہدایت کا پیغام قرار دیا ،اور بیت اللہ کو وضع الناس کہہ کر تمام لوگوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا اور”امت مسلمہ“کو ”اخرجت للناس اور شھدائی علی الناس “ کہہ کر تمام عالم پر نگران مقرر کیا ہے تو قومیت کا محدود تصور اسلام میں کیسے ہو سکتا ہے اور اسلام ہی نظریہ پاکستان کی اساس ہے،قومیتوں میں بٹا ہوا پاکستان اس نظرئیے سے ہی انحراف کے مترادف ہے جس کے تحت قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔
نظریہ اسلام کے تحت الگ وطن کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں اس لیے نہیں دی تھیں کہ دورِ حاضر کے لادین عناصر اس ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی کوشش کریں، مسلمان ماﺅں نے اپنے بچے اس لیے نہیں قربان کیے تھے کہ دجالی میڈیا اپنے دجل و فریب سے پاکستانی قوم میں عریانی اور فحاشی کو فروغ دے کر انہیں مادر پدر آزادی کے راستوں پر چلانے کی کوشش کریں۔ مسلمان بہنوں نے اپنے بھائی اس لیے نہیں شہید کروائے تھے کہ بعد میں انہیں اسی ملک کی سڑکوں پر بر ہنہ گھسیٹا جائے گا اور لوگ تماشہ دیکھیں گےاور نہ یہ قربانیاں اس لیے دی گئی تھیں کہ کوئی بھی سیاست دان یا حکمران پاکستان میں بسنے والے 19کروڑ توحید پرستوں کو 49کروڑ خداﺅں کی پوجا کرنے والے ہندو بنیے اور طاغوتی قوتوں کے آگے جھکنے پر مجبور کریں۔
1930 میں علامہ اقبال نے اسلامی قومیت کے تصور کو خطبہ آلہٰ آباد میں نہایت واضح الفاظ میں پیش کیا اور کہا ایک سبق جو میں نے تاریخ اسلام سے سیکھا وہ یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام نے ہی مسلمانوں کی زندگیوں کو قائم رکھا۔مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں تو آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہو جائے گا۔
اسلامی حکومت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا ”اسلام بحیثیت ایک نظام سیاست کے اصول توحید کو انسانوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی میں ایک زندہ عنصر بننے کا عملی طریقہ ہے۔ اس کا مطالبہ وفاداری خدا کے لیے ہے نہ کہ تخت و تاج کے لیے“۔ اسی لئے 23 مارچ 1940 ءکو قرارداد پاکستان کے اعلان کے بعد قائد اعظم نے فرمایا کہ آج ہم نے بعینہ وہ کردیا ہے جس کا مطالبہ ہم سے علامہ اقبال نے کیا تھا۔ بقول اقبال کے ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک زبان ہے،اشتراک وطن بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی اس لیے شریک ہیں کہ کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سر چشمہ ایک ہے۔۔