اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے انبیاءکرام کو معلمینِ انسانیت بناکر بھیجا، اور ان کا یہی فریضہ تھا کہ وہ بنی نوع انسان کو اس دنیا میں فلاح کی زندگی گزارنے کے لیے ہدایت کی تعلیم دیں اور صراطِ مستقیم کی نشاندہی کریں۔ انسان کو دنیا میں اشرف المخلوقات کے اخلاقی اور نظریاتی معیار کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ سکھائیں۔ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے وہ اصول مہیا کریں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات حاصل کرسکیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے معلم:
رسول اکرم ﷺخاتم النبیین ہونے کی حیثیت سے قیامت تک انسانیت کے معلم ہیں، اور معیاری انسان بننے کے لیے بنیادی اصول انہی کی تعلیمات سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺایک بار مسجدِ نبوی میں تشریف لائے تو آپ نے وہاں صحابہ کرامؓ کے دو حلقے دیکھے۔ ایک گروہ ذکر و اذکار اور اوراد و وظائف میں مشغول تھا، اور دوسرا گروہ درس و تدریس میں مصروف تھا۔ آپ یہ کہہ کر کہ انما بعثت معلماً (مجھے معلم بناکربھیجا گیاہے) درس و تدریس کے علمی حلقے میں بیٹھ گئے۔یہ بات اہلِ علم پر واضح ہے کہ حضور اکرم ﷺنے پوری انسانیت کو علمِ راسخ سکھایا ہے۔ وہ حقیقی علم جس کے بغیر انسان دنیا میں انسانیت کی معیاری زندگی گزارنے سے قاصر رہتا ہے۔ آپ نے ایک کامل نظامِ زندگی انسانیت کے لیے مہیا فرمایا ہے جو انفرادی طہارت و نظافت کی تعلیم سے لے کر بین الاقوامی تعلقات کے دائرے تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینِ اسلام عالمِ انسانیت کا جامع ترین نظامِ حیات ہے، اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی انسانیت کے پیچیدہ جملہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں علم کی اہمیت و فضلیت:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و تعلیم کے بارے میں جو ارشادات فرمائے ہیں وہ پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے درخشاں موتیوں کی طرح آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔
فرمایا:”علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاﺅ۔“(بیہقی)….”ہر مسلمان مرد و زن پر علم سیکھنا فرض ہے۔“ (بیہقی)….”ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک علم حاصل کرو۔“ (مشکوٰة) ….احترامِ استاد کے بارے میں آپنے فرمایا:”جس سے علم سیکھو اس کی عزت کرو۔“ (ترمذی)….”طالب علم کے لیے فرشتے اس کے قدموں پر اپنے پَر بچھاتے ہیں۔“ (ابوداﺅد) ….عبادت پر علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی ستاروں پر۔“ (ترمذی)….مزید فرمایا: ”علم میں اضافہ کرنا عبادت کی کثرت سے افضل ہے۔“ (بیہقی)
علم کے حصول کا مقصد بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
”علم سیکھنے کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔“ (ابوداﺅد)
چنانچہ علم کے فروغ کے لیے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ”دارِارقم“ میں علمِ دین سکھانے کی پہلی درس گاہ قائم فرمائی۔ آپنے والدین کو بھی یہی حکم دیا کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام کریں۔آپ نے فرمایا: ”اولاد کے لیے والدین کا بہترین تحفہ اچھی تعلیم دلوانا ہے۔“
اشاعتِ علم کے لیے رسول اکرم کا اہتمام:
رسول اکرم ﷺنے بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد حضرت مصعب بن عمیرؓ کو معلم بناکر مدینہ ارسال کیا، جن کی تبلیغ و تعلیم سے مدینہ کے بے شمار لوگ مسلمان ہوئے۔ پھر جب خود رسول اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے تو تعلیمِ دین کے لیے مسجد نبوی تعمیر فرمائی۔ اس میں اصحابِ صفہ کی درس گاہ قائم کی۔ صحابہ کرام ؓکو تعلیم دینے کے لیے روزانہ مجالس کا اہتمام فرمایا۔ سوالات و جوابات کے ذریعے علم سکھانے کی بنیاد رکھی۔ مبلغین و معلمین کے وفود بنا بنا کر مختلف علاقوں اور قبائل میں بار بار ارسال کیے۔ علمِ ریاضی، علمِ طب، علمِ وراثت، علمِ تجوید اور فنِ خطاطی سیکھنے کے لیے مسلسل حوصلہ افزائی فرمائی۔ جنگی فنون سیکھنے سکھانے کا اہتمام فرمایا۔ قرآن کا علم سکھایا اور اسے سیکھنے کی ترغیب دی۔ خواتین میں علم پھیلانے کا اہتمام فرمایا اور ان کو علمِ دین سکھانے کے لیے ازواجِ مطہرات اور دیگر خواتین کو مقرر فرمایا۔ غرض رسول اکرم ﷺنے انسانیت کو ایک ایسا دین دیا جو سراسر علم و فضل پر مبنی تھا اور زندگی کے ہر شعبے سے جہالت اور جاہلیت کو دور اور علم کی شمع سے زندگیوں کو منور کرتا تھا۔ اسلام کے اس تعلیمی مزاج کو سامنے رکھ کر رسول اکرم ﷺکے نظام تعلیم کے دیے ہوئے خطوط کی روشنی میں امتِ مسلمہ کے اندر تعلیماتِ اسلامی و اخلاقی کا ایک ترقی پذیر سلسلہ قائم ہوگیا۔ مسلمانوں نے تعلیم کے میدان میں ہمہ پہلو اتنی ترقی کی کہ وہ علم و عمل میں قوموں کے رہنما اور امام بن گئے۔ دورِ زوال میں بھی مسلمانوں کی صفوں میں ایسے عظیم انسان پیدا ہوتے رہے جو اسلامی تعلیمات کو تیز تر کرنے کی جدوجہد کرتے رہے، چنانچہ سید مودودی ؒبھی دورِ حاضر میں اس قیمتی سلسلے کی ایک سنہری کڑی ہیں۔
دورِحاضر میں سید مودودی کی منفرد آواز:
ہمارے اس دور میں سید مودودی کی آواز مکمل تعلیمی انقلاب کے لیے اٹھنے والی بہت بلند اور منفرد آواز ہے۔ انہوں نے اسلام کو جہاں زندگی کا جامع اور کامل نظام ثابت کیا، وہاں تعلیم اور نظریہ تعلیم کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ اپنے نظریات میں ایک نئے نظامِ تعلیم کے داعی تھے۔
سید مودودی کا تصورِ تعلیم:
سید مودودی کا تصورِ تعلیم یہ ہے کہ وہ ہر نظام تعلیم کو کسی نہ کسی تہذیب کا خادم اور ترجمان شمار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی تہذیب کے احیاءکے لیے اٹھے، وہ نظام تعلیم سے تعرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ مسئلہ تعلیم پر تہذیبی نگاہ ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”ہر یونیورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے اور نہ آج دی جارہی ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور ایک خاص صورت میں ہوتی ہے، اور اس رنگ و صورت کا انتخاب پورے غور وفکر کے بعد اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے۔“
ان کی رائے میں اسلام بھی اس دور میں نشاة ثانیہ کا داعی ہے۔ اس نشاةثانیہ کے لیے وہ موجودہ دور میں رائج جدید و قدیم دونوں قسم کے نظام ہائے تعلیم کو ازکار رفتہ اور بوسیدگی کا شکار محسوس کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ دونوں قسم کے نظام ہائے تعلیم اسلام کی نشاة ثانیہ کے عمل میں مددگار ہونے کے بجائے رکاوٹ ہیں۔ اپنی کتاب تعلیمات میں وہ لکھتے ہیں:
”درحقیقت یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ دونوں قسم کے نظام تعلیم ختم کردیے جائیں جو اب تک ہمارے ہاں رائج ہیں۔ پرانا مذہبی نظام تعلیم بھی، اور موجودہ نظام تعلیم بھی، جو انگریز کی رہنمائی میں قائم ہوا تھا۔ ان دونوں کی جگہ ایک نیا نظام تعلیم بنانا چاہیے جو ان دونوں کے نقائص سے پاک ہو اور ہماری موجودہ ضرورتوں کو پورا کرسکے جو ایک مسلمان قوم، ایک آزاد قوم اور ایک ترقی کی خواہش مند قوم کی حیثیت سے اس وقت لاحق ہیں۔“
نظام تعلیم پر بحث سے پہلے وہ بنیادی طور پر اس کائنات کی حقیقت اور اس میں انسان اور مسلمان کی حیثیت کو زیر بحث لاتے ہیں۔
تصور حقیقت:
سید مودودی کی رائے میں یہ نظامِ کائنات خودبخود نہیں چل رہا ہے، بلکہ اسے چلانے والی ایک قوت موجود ہے جسے ہم اللہ کہتے ہیں۔ وہ اس کائنات سے بے تعلق نہیں ہے بلکہ اس کے ذرے ذرے سے اس کا براہِ راست تعلق ہے۔ اس کائنات کا ہر کام اس کی رہنمائی میں ہورہا ہے۔ انسان کے دائرہ ¿ اختیار کو اس لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ اس دائرے میں اپنا منصبی امتحان دے۔ امتحان یہ ہے کہ انسان اپنے آزاد دائرہ ¿ اختیار میں بھی اپنی آزاد مرضی سے خدا کے احکام کا پابند ہو۔ اس کی زندگی میں بھی خدا کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ یہی اس کائنات کی حقیقت ہے۔ سید مودودی کا یہ تصورِ حقیقت ان کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ ہے، اور ان کے تصورِ تعلیم میں بھی یہی حقیقت کارفرما ہے۔
تصورِ کائنات:
یہ کائنات اللہ کی پیدا کردہ ہے، اور یہ ایک عارضی سلسلہ ہے۔ ایک روز اسے ختم ہوجانا ہے۔ انسان کا تعلق اس کائنات سے صرف طبعی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہی نہیں ہے، بلکہ یہ کائنات انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے تاکہ وہ اپنی آزاد کارکردگی سے اپنا نامہ عمل خود تیار کرسکے۔ اس نامہ عمل کی آزاد کارکردگی پر اس کی آخرت میں کامیابی و ناکامی کا انحصار ہے۔ اس لیے اس کے مسﺅل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادہ و عمل میں آزاد ہو۔ اس لیے وہ کائنات تو اس کی تابع ہے لیکن وہ اس کائنات کا تابع نہیں ہے۔
تصورِ انسان:
سید مودودی کی رائے میں انسان نہ تو مارکس کے الفاظ میں معاشی حیوان ہے، اور نہ ڈارون کے الفاظ میں حیوانِ طبعی….بلکہ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے، اور ایک ذمہ دار اور مسﺅل ہستی ہے جسے اپنے اعمال کا اللہ کے ہاں حساب دینا ہے۔ اسلام کا انسانِ مطلوب کتابِ الٰہی کے صفحات میں درج ہے اور نبی کریم ﷺکا اسوہ حسنہ اس کا ماڈل ہے۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا نمونہ بھی اس کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ذمہ دار انسان اخلاقی صفات میں آخرت میں اپنی جوابدہی پر نگاہ رکھنے والا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس میں مسﺅلیت اور ذمہ داری کا عنصر ابھرتا ہے۔
سید مودودی کے نزدیک حقیقتِ نفس الامری سے آگاہی حقیقی علم ہے، اور علوم کی تمام اقسام معرفتِ الٰہی کا علم اور صفاتِ الٰہی کا علم ہے۔ یہی حقیقی اور بنیادی علوم ہیں۔ باقی سارے علوم ان کی شاخیں ہیں۔ ان دونوں علوم کے حصول کے بعد ہی انسان صاحبِ علم کہلا سکتا ہے۔ اور اگر وہ ان علوم سے بے بہرہ ہے تو اس کے ہاتھ میں علم کی جڑ اور بنیاد نہیں ہے۔ اس لیے وہ جڑ کو چھوڑ کر محض شاخوں میں الجھا ہوا انسان ہے جو حقیقت سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا۔
ذریعہ علم کا تصور:
سید مودودی کی رائے میں حواسِ خمسہ کے ذریعے سے جو علم بھی حاصل ہو وہ ظنی علم ہے۔ ان کی رائے میں علمِ حقیقی کا سب سے مستند اور حقیقی ذریعہ علمِ وحی ہے جس کے ذریعے سے خالقِ کائنات اپنے بندوں کو دونوں جہانوں کی زندگی کا علم دیتاہے۔ اس علم کو حاصل کرکے انسان ٹھیک طریقے سے اس زمین پر چل سکتا ہے۔ ”علمِ وحی کے بغیر انسان بگاڑ اور فساد کا شکار ہوجاتا ہے، اور اصلاح اور فساد میں امیتاز کرنے سے قاصر رہتاہے۔“
مقاصدِ تعلیم:
ان بنیادی تصوراتِ تعلیم کی وضاحت کے بعد وہ مقاصدِ تعلیم کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
تعمیر کردار:
ان کی رائے میں تعلیم کا حقیقی مقصد تعمیر کردار ہے، جس کے بغیر انسان کا وجود صراطِ مستقیم پر قائم نہیں رہ سکتا۔ تعمیر کردار کے لیے ہی انبیاءکرام آتے رہے، اور اسی مقصد کے لیے نظام ہائے تعلیم مرتب کیے جاتے ہیں۔ ہر نظام تعلیم کا مقصد ایک مخصوص نوعیت کے کردار کی تشکیل ہوتا ہے، اور ایسا نظام تعلیم کوئی نہیں ہوتا جو کوئی کردار بھی تشکیل نہ کرے۔ اس لیے اسلامی نظامِ تعلیم میں کردار سازی کے عنصر کو اسلام کی ضرورت کے مطابق نشوونما دینا ناگزیر ہے۔ جو نظامِ تعلیم انسانی کردار کو اسلام کے مقاصد کے خلاف تیار کرے یا اس کے مطابق تعمیر نہ کرے وہ اسلامی نظامِ تعلیم نہیں ہے، اور اسے مسلمانوں کے معاشرے میں ایک دن جاری رکھنا بھی اسلامی مقاصد کو شدید نقصان پہنچانے اور مسلمان کو نامسلمان بنانے کے مترادف ہے۔
پوشیدہ صلاحیتوں کا نشوونما:
تعلیم کے مقاصد میں جہاں عرفانِ الٰہی کا حصول شامل ہے وہاں یہ بھی لازم ہے کہ وہ انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کی نشوونما کرے اور اس کی جبلی اور طبعی صلاحیتوں کو بیدار کرکے بروئے کار لائے، تاکہ وہ سوسائٹی کے لیے مفید اور کارآمد فرد اور اجتماعی انسانی زندگی میں پاکیزگی اور فلاح و ترقی کا ذریعہ بن سکے۔
تہذیب و ثقافت کا تسلسل:
سید مودودی کی رائے میں ہر تعلیم کسی نہ کسی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ تعلیم کا مقصد کلچر کو زندہ رکھنا بھی ہوتا ہے اور اس کی نشوونما اور تسلسل کا اہتمام کرنا بھی ہوتا ہے تاکہ وہ آئندہ نسلوں میں منتقل ہوسکے۔ نظامِ تعلیم اس تصورِ حیات کو پوری قوم میں پھیلاتا اور نشوونما دیتا ہے جس تصورِ حیات کی حامل وہ قوم ہوتی ہے۔ زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی تہذیبی اور نظریاتی زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اپنے لیے اپنی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم کو ترتیب دیتی ہیں۔ نظام تعلیم کی حیثیت ملّی سانچے کی سی ہوتی ہے جس میں قوم کا فرد فرد ڈھلتا ہے۔ اس لیے ملت کے سانچے کا غیروں کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ خالص اپنی ضروریات اور نظریات کے مطابق ہونا لازم ہوتا ہے۔
ملّی اخلاق کی تربیت:
نظام تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد تیار کرے جو مسلمانوں کی ملّی روایات اور اسلامی اصولوں کو اپنے کردار کا جزو بنائیں، اسلام کی بہترین نمائندگی اپنے اقوال و اعمال اور گفتار و کردار میں کریں۔ وہ بہترین اہلیت و صلاحیت کے مالک ہوں اور ملت کی اجتماعی زندگی کو ملّی تہذیب و ثقافت کے اسلامی اصولوں کے مطابق چلاسکیں۔
تشکیل قیادتِ ملّی:
نظامِ تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا بھی ہوتا ہے جو دینِ اسلام کو دورِ جدید میں قابلِ عمل اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے بہترین نظامِ زندگی ثابت کریں۔ گویا نظامِ تعلیم کا مقصد بہترین بااصول نظریاتی شہری تیار کرنا بھی ہوتا ہے۔ مسلمان دنیا کی رہنمائی کے لیے ایک گروہ کی حیثیت سے برپا کیے گئے ہیں، اس لیے ان کا نظامِ تعلیم ایسا ہونا چاہیے جو دنیا کی رہنمائی اور قوموں کی قیادت کی صلاحیتیں پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اسلام اپنے نظامِ تعلیم کے ذریعے سے قیادتِ انسانیت کے لیے بہترین اور باصلاحیت گروہ تیار کرنا چاہتا ہے جس میں درج ذیل صلاحیتیں ضرور موجود ہوں:
(1) وہ اپنے اندر قرآن کے انسانِ مطلوب کی صفات رکھتا ہو۔ (2) وہ امتِ وسط کی حیثیت سے اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم گروہ ہو، اور اس کے ہاتھ میں دینِ حق کی تعلیمات کا رشتہ ہو۔ (3) اس کا طرزعمل شکرِ خداوندی اور اطاعتِ الٰہی ہو۔ (4) وہ انعاماتِ الٰہی کا شعور، کلماتِ الٰہی کا فہم اور خشیتِ الٰہی کا مسلک رکھتا ہو۔(5) وہ توحید، رسالت اور آخرت کے پختہ عقائد پر قائم اور ان کی روشنی میں معاشرتی زندگی کو استوار کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو۔(6) وہ اپنی زندگی میں تکبر اور نخوت کی روش سے اجتناب اور بندگی رب کا اہتمام رکھتا ہو۔(7) وہ امربالمعروف کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے، اور نہی عن المنکر کو مسلکِ زندگی۔ وہ تہذیب و شائستگی کا بھی مثالی نمونہ ہو۔ اس مقصد کے لیے سید مودودی نے مملکت کے ذمہ دار لوگوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی:
”ضرورت ہے کہ ہم اہلِ علم کے ایک گروہ کو اپنے بزرگوں کے چھوڑے ہوئے ذخیرے کا جائزہ لینے کے لیے مامور کریں“۔ اس لیے کہ دنیا میں جو بھی نظام تعلیم قائم کیا جائے اس میں اوّلین بنیادی سوال یہی ہوتا ہے کہ آپ کسی قسم کے آدمی تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی ضرورت کے اردگرد نظامِ تعلیم کا سارا نقشہ گردش کرتا ہے۔ چنانچہ سید مودودی نے سربراہانِ ملت کو متنبہ کرتے ہوئے کھل کر کہا ”اللہ کے انعام و آزادی کا یہ صحیح شکر نہیں ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو فکر و نظر اور سیرت و کردار کے اعتبار سے مسلمان بنا کر اٹھانے کی کوشش نہ کریں اور ان کو تعلیم و تربیت کی اسی ڈگر پر چلاتے رہیں جس پر ہمارے بیرونی آقا ہمیں ڈال گئے تھے۔“
انہوںمزید کہا:”یہ محض تعلیم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے قومی وجود اور اس کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ہم یہاں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے اسی طرح زندہ اور باقی رہ سکتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل جو درسگاہوں میں تیار ہورہی ہے، وہ ٹھیک ٹھیک اسلامی تہذیب کی حامل ہو اور اس کی علَم بردار بن کر اس سرزمین پر رہے۔ میں حتماً اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ مسلمانوں کے مستقل قومی وجود اور ان کی تہذیب کے باقی رہنے کی اب کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ان کے طرزِ تعلیم و تربیت میں انقلاب پیدا کیا جائے۔“
انہوں نے ابتدائی جماعتوں میں اس قسم کا نصاب جاری کرنے کا نقشہ پیش کیا جس کے ذریعے سے مسلمان طلبہ میں حسب ذیل اوصاف تعلیم کے ابتدائی دور میں ہی پیدا کردیے جائیں تاکہ اعلیٰ جماعتوں تک پہنچتے پہنچتے ان میں ایک ملّی اور اسلامی کردار پختہ ہوجائے، اور وہی کردار ان کی عملی زندگی کے مراحل میں کام آئے۔ یہ کردار ابتدائی جماعتوں میں ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس کردار کا نقشہ پورے نصاب میں کچھ یوں ہے:
(۱)۔ شائستگی، پاکیزگی، صفائی، ذوقِ سلیم۔(۲)۔ اخلاقِ حسنہ، انفرادی، عائلی اور اجتماعی زندگی میں۔(۳)۔نظم و ضبط، ڈسپلن، محاسبہ ¿ نفس، احساسِ فرض اور احساسِ ذمہ داری۔(۴)۔ وسعتِ قلب، وسعتِ نظر، وسعتِ تصور، بلند حوصلگی، خودداری، حمیت وغیرت۔(۵)۔عزم و ارادہ کی پختگی، متانت و سنجیدگی، خلوص اور معاملات سے گہری دلچسپی کا ذوق، جرا ¿ت و بہادری، جفاکشی اور چستی۔(۶)۔ اسلامی نصب العین کا عشق۔(۷)۔جماعتی زندگی کا گہرا شعور اور قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اوصاف اور ضروری انتظامی صلاحیت۔(۸)۔ تحقیق و تجسس اور تفکر و مشاہدہ کی عادت، منظم رہنے اور منضبط سوچنے کی مشق اور استدلال کرنے کا طریقہ۔انہوں نے اپنے نظریہ تعلیم کی ان الفاظ میں قطعی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
”انسان کے لیے ہدایت کے سرچشمے دو ہی ہیں۔ ایک کتاب اللہ، دوسرے اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان دونوں سے جس نے ہدایت نہ پائی اس کے لیے کوئی تیسرا ذریعہ ہدایت نہیں ہے۔ یہ ہماری انتہائی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب بھی اپنے اصل الفاظ میں ہر تحریف سے محفوظ موجود ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ پاک کے ہر پہلو سے متعلق مفصل اور مستند معلومات بھی موجود ہیں۔ مبارک ہے ہر وہ کوشش جو بندگانِ خدا تک قرآن کی تعلیم اور سیرتِ پاک کا تصور پہنچانے کے لیے کی جائے۔“
یوں سید مودودیؒ کے تعلیمی افکار پر ہمیں تعلیماتِ نبوی اور قرآن و سنت کے افکار کی گہری اور واضح چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ اپنی تصانیف میں انہوں نے ایک ایسا تصورِ تعلیم پیش کیا ہے کہ اگر اسے بروئے کار لایا جائے تو وہ ہمارے ملک میں اسلامی کردار کے خسران، جفاکشی اور دیانت داری کے بحران اور حب الوطنی کے فقدان کے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭