اقوام و ملل کے عروج و زوال ،اِرتقاءو اِنحطاط، تاریخی انقلابات و واقعات اور قومی و انسانی زندگی میں تغیر و تبدیلی کا تذکرہ قرآن کریم میںصراحت کے ساتھ موجود ہے ۔ نیز یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف قومیں بامِ عروج کو پہنچیں اوربعد ازاں بتدریج پستی و تنزلی کاشکار بھی ہوئیں۔قومیں بڑے شدومد اور قوت و شدت کے ساتھ منصہ شہود پر آئیں،ظلم و جبرکے ریکارڑ قائم کئے،خون کے دریا بہادئے، ظلم و بربریت اور سفاکیت کی اونچی مثالیں قائم کیں اور خوب قائم کیں۔ انسانی عصمتوں کے ساتھ کھلواڑ کیا،قدرتی و آفاقی نظام سے ٹکراواختیار کیا اور پوری قوت کے ساتھ کیا۔ مختلف تہذیبیں آئیں اور اللہ کی زمین کو فساد سے بھر دیا ۔معصوموں کے خون سے زمین کو لالہ زارکیا۔قتل وغارت گری کے انمٹ نقوش قائم کئے ۔اخلاقیات و انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو سبوتاژ کر کے رکھ دیا۔ظہر الفساد فی البر والبحر کی عملی تفسیر پیش کی ۔ یہی وہ اسباب ہیں جو بالآخر ان قوموں کے زوال کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوئیںاور تاریخ بھی شاہد ہے کہ ایسی قوموں کا اور ایسی تہذیبوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہااور آنے والی قوموں کیلئے عبرت بن کر رہ گئے۔
دنیا کی موجودہ صورتحال پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ تہذیب و تمدن کے ذرائع و وسائل اور عروج و اِرتقاءکے اسباب کی فراوانی کے باوجود اسکی حالت عصرِ جاہلیت سے مختلف نہیں۔ حالیہ تہذیب کو آپ جس نام سے بھی موسوم کرنا چاہیں بخوشی کیجئے اور ضرور کےجئے۔ دورِحاضر کہیے،عصرِ حاضر کہیے یا پھر مغربی تہذیب بہرحال یہ شیطانی اور طاغوتی تہذیب ہی ہے۔اس مذموم تہذیب میں آپ کو اکثر و بیشتر دو ہی عنصر کار فرما نظر آئیں گے ، مال کی ہوس (سودی نظام) اور فحاشیت و عریانیت اور بے حیائی و منکرات کو فروغ( اخلاقی انارکی) اور یہ دونوںشیطانی افعال ہیں۔
اس تہذیب کی اساس صرف خدا فراموشی پر ہی نہیں ہے بلکہ خدا کی بغاوت پر بھی ہے، شرک پر ہی نہیں بلکہ الحاد پر بھی ہے، بے حیائی پر ہی نہیں بلکہ اخلاق و اقدار کی پامالی کی ترغیب پر بھی ہے، عریانےت و فحاشےت پر ہی نہیں بلکہ انسان کے استحصال اور انسانےت کی تجہیزو تدفین پر بھی ہے۔ اختصار کے ساتھ اگر یوں کہا جائیے کہ اس نام نہاد ترقی یافتہ تہذیب کی بنیاد ابلیس کے بنائے ہوئے ان اصولوں پر ہے جن میں تمام اقسام کی برائیوں کے قوی جراثیم موجود ہیں تو شاید غلط نہ ہو گا۔ اس شیطانی و طاغوتی تہذیب کے جومضر اثرات و نتائج پورے عالمِ انسانیت خصوصاً عالمِ اسلام پر مرتب ہوئے وہ ہم سب پر عیاں ہیں ۔
عالمِ اسلام کی تہذیبی و تمدنی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ بھی اس شیطانی و ابلیسی تہذیب کی مقلد بن گئی ہے اور اس کے نقشِ قدم پر اپنا رختِ سفر باندھ چکی ہے۔مغربی نظریات و اعتقادات پر کامل اور پختہ ایمان و یقین رکھتی ہے۔ ان کا ذہن ، ان کا تعلیمی نظام، ان کی معیشت و معاشرت ، سیاسی و اقتصادی نظام بالکل مغربی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اور خوب ڈھلا ہوا ہے۔ عالم ِ اسلام پر خصوصاً عرب ممالک پر اسوقت استحصالی ذہنیت اور مادی رجحان کا تسلّط ہے اور یہ رجحان صرف حکومتی اداروں تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے اکثر اور اہم شعبہ جات میں صاف طور پر نظر آتا ہے اور واضح نظر آتا ہے۔
اسی تناظر میں ذرا اپنے گردو پیش کا بھی جائزہ لیجئے۔ اس وقت عالم ِاسلام کی زمامِ قیادت جن ہاتھوں میں ہے وہ اسلام کے اصول و مبادی سے بالکل ناآشنا ہیں۔ اسلام کے آفاقی نظام ،انصاف پسند اور حقیقت پسندانہ قوانین و احکامات سے یکسر منحرف ہیںاوراس کے پیش کردہ سیاسی نظام سے نا بَلد اور اسلامی سیاسی بصےرت سے بھی بالکل محروم ہیں۔
اسلام نے زندگی کے تمام شعبہ جاتِ میں توازن اورتناسب کو بروئے کار لانے کا حکم دیا تھا اور یہ توازن اورتناسب عبادتی نظام میں بھی موجود ہے۔اخلاقی نظام میں بھی ،معاشی و معاشرتی نظام میں بھی، سیاسی اور اقتصادی نظام میں بھی جا بجا مو جود ہے۔لیکن عرب کے ان نام نہاد حکمرانوں اور موروثی بادشاہوں کے خود ساختہ غیر اسلامی نظام میں یہ تناسب و توازن شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے، کیونکہ ان کے اس موروثی نظام میں وحدت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ وامرہم شوریٰ بینہم کا فقدان پایا جاتا ہے۔عمل و طریقئہ عمل اور سلوک و معاملات میں ترتیب و تناسب اور خیر و شرکی تمیز کا فقدان پایا جاتا ہے۔ آپسی معاملات اسلامی تعلیمات سے متصادم نظر آتی ہیں۔ تعمیر کے پردے میں تخریب کاری کا بازار گرم ہے۔ جرم کی بالادستی عام ہے۔نسوانی آزادی کے پس ِپردہ فحاشیت اور بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ احکامات سے مکمل انحراف اور اسلامی تعلیمات کی پامالی پر اس نظام کی اساس رکھی گئی ہے یہی وہ بنیادی وجوہ ہیں جن کے پیشِ نظر تنظیمیں اور حکومتیں عالمِ اسلام میں خصوصاًعالمِ عرب ناکامیوں سے دو چار ہیں۔
یہ سطور جس وقت صفحہ قرطاس پر نقل کی جا رہی ہیں ٹھیک اسی وقت سر زمینِ شام کے بہترین شہر(۱) غوطہ میں معصوم عوام شدید درد و کرب میں مبتلا ہیں ۔ انکی معصوم زندگیاں چند دنوں کے عیش و آرام کیلئے ان سے چھینی جا رہی ہیں۔القدس (فلسطین) اور مادرِ وطن کشمیر جنت بے نظیر میں حالات کچھ مختلف نہیں۔معصوم عوام پر Automatic Nuclear weapons اورToxic Chemicals کا تجربہ کیا جارہا ہے اور بار بار کیا جا رہا ہے۔بچے ،بوڑھے، جوان، مرد و خواتین انتہائی درجے کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں ۔روس نے آخر اس بات کا اعتراف کر ہی لیا کہ اس نے ۲۰۰ سے زائد نئے طرز کے مہلک ہتھیاروں کا شام میں تجربہ کر لیا۔گو یا ارضِ شام اسوقت عالمی طاقتوں کا تختہ مشق Testing Labبنا ہوا ہے۔
مسلمانوں کی جانوں کے ساتھ کھیلنے کا یہ تانڈو ناچ دیگر ممالک میں بھی جاری ہے۔ چاروں طرف طوفانِ بدتمیزی بر پا ہے جو بغیر کسی تفریق کے شرق و غرب کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے ۔ قومیت ، ثقافت، دین اور سیاسی و اقتصادی فکر کی بنیادوں پر رسہ کشی کا سلسلہ تا ایں دم جاری ہے اور بڑے کرو فر کے ساتھ جاری ہے ۔آئے دن سوشل میڈیا پر شام کے معصوم اور مظلوم بچوں ،بوڑھوں، عورتوں ، نوجوانوں کی خون سے لت پت نعشوںکی تصاویراور ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیںجنہیں دیکھ کر ایک زندہ دل اور با ضمیر انسان کا کلیجہ چھلنی ہوتا ہے۔ آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں لیکن کرےں تو کیا کرےں؟مسلم قیادت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے دور سے تماشا بین بنے بیٹھی ہے۔ ان کی یہ مجرمانہ خاموشی اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہے کہ وہ بھی اس گھناونے کھیل میں شامل ہیں اور اس ظلمِ عظیم میں وہ برابر کے شریک ہیں۔سچ تو یہی ہے کہ وہ اس قتلِ عام میں Passive / Silent Role نبھا رہے ہیں۔
واللہ۔۔۔۔۔ تاریخ ِ انسانی میں لکھا جائے گا اور ضرور لکھا جائے گاکہ جب غوطہ میں، فلسطین میں، کشمیر میں، برما، مصر میںاور بھی دیگر ممالک میں مسلمانوں کے لہو کے ساتھ ہولی کھیلی جارہی تھی تومسلم حکمراں اسوقت اپنے عیش و آرام کے سامان جمع کر رہے تھے اور اپنے نفس کے ناجائز مطالبات پورا کرنے میں بد مست تھے۔۷۵مسلم ممالک کی افواج اپنی اپنی سرحدوں پر پناہ گاہوںمیں خوابِ خرگوش میں مست تھے اور علماءکرام خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۲۰۱۵ ءمیں التحالف الاسلامی العسکری لمحاربة الارہابIslamic Military Counter Terrorism Coalition) جو Islamic Military Allianceسے بھی موسوم ہے)34اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل اس مقصد کے پیش نظر روبہ عمل لائی گئی کہ مسلم ممالک سے دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے اور مسلمان امن و سکون کی کھلی فضا میں سانس لے سکیںاور بچی کھچی زندگی کے لمحات سکو ن و اطمینان سے بسر کر سکیں۔لیکن حیف صد حیف وہ بھی ان عالمی دہشت گرد ممالک کی پشت پناہی کرتی نظر آرہی ہے جن میں سرفہرست امریکہ، اسرائیل،روس اور ہندوستان ہیں۔
ہر ایک کی زباں پر…. عام ہو یا خاص …. ایک شکوہ ہے….ایک شکایت ہے…. ایک گلہ ہے …. افسوس ہے….ایک سوال ہے۔…. کہ مسلمان اگرچہ اللہ تعالیٰ کی چنیدہ قوم ہے تو مغلوب و محکوم کیوں ہے ؟اسکا آسان سا جواب یہی ہے کہ اسبابِ زوال و انحطاط سے واقف ہوتے ہوئے بھی اپنی اور نسلِ نو کی تعمیر صحیح اسلامی خطوط پر نہیں کرتے۔ اس پر طرہ یہ کہ اگر کوئی فرد یا ادارہ یا کوئی تحریک جو اسلام کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کرتی ہے (عالم عرب میں الاخوان المسلمون اور بر صغیر میں جماعتِ اسلامی)اور اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد کرتی ہیںاور جس کی خاطر انہوں نے بیش بہا قربانیاں دیںاور دے رہے ہیں، تو ان پر طعن و تشنیع کے تیر چہار سو برسائے جاتے ہیں اور نام نہاد اسلامی تنظیمیں انکی وکٹ گرانے کیلئے نت نئے طریقے اور تدابیر اختیار کرتی ہیں جس کا مشاہدہ ہم مصر کے سابقہ صدارتی انتخابات کے بعد بخوبی کر چکے ہیںاورجس کا خمیازہ آج مصری عوام بھگت رہے ہیں۔ ان اسلام پسند تحریکات کے خلاف جو طوفانِ بد تمیزی برپا کیا جا رہا ہے اور جو جنگ ان کے خلاف چھیڑی جا رہی ہے اس کے اثرات انسانیت کے حق میں ضرر رساں ثابت ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ موجودہ حالات بھی ان ہی نمائندہ تحریکات کو زمامِ قیادت سونپنے کی متقاضی ہے تاکہ سماج میں جو غیر اسلامی نظریات غالب ہیں ا ن کا قلع قمع ہو سکے اور اسلامی نظام پھر سے ایک مرتبہ اپنی اصل شکل و صورت میں قائم ہو۔ جہاں احساسِ ذمہ داری جاگزیں ہو ،حقوق کی پاسدار ی ہو۔ اور جس میں بحیثیت انسان، انسان کی مجموعی عزت وشرافت محفوظ ہوتاکہ خیر القرن کی یاد تازہ ہو ۔
٭٭٭٭٭