سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ امریکی دورے میں بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ دعوی ٰکیا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب سے اخوانی فکر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مذہبی سیاسی افکار کی حامل دہشتگرد تنظیم اخوان المسلمین نظام تعلیم کے ذریعے مملکت پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس کے خلاف ان کی حکومت نے آتے ہی ایکشن لیا اور ملک کی جامعات میں انتہاپسندانہ نظریات کو پنپنے سے روک دیا۔سعودی عرب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر احمد بن محمد العیسیٰ نے بھی ولی عہد کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اخوان المسلمین کی کوکھ سے صرف انتہاپسندی اور دہشتگردی نے جنم لیا ہے ،اس لیےاخوانی فکر کی حامل تمام شخصیات کو سعودی عرب سے بے دخل کرنے کے بعد ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
سعودی عرب آج جس اخوانی فکر کے خاتمے کے لیے بولڈ ایکشن لے رہا ہے ،ماضی میں اسی فکر کو فروغ دینے میں بھی کسی اور کا نہیں بلکہ خود سعودی حکومت کا ہی ہاتھ تھا۔ اور 1960 سے 1990 کے عرصے کے دوران حکومت نے مصر سے اخوان کے بعض سرکردہ ارکان کوسعودی عرب کی جامعات میں تدریس کے لیے مدعو کیا اور ان کے مذہبی نظریات کے مطابق نصاب تعلیم میں بہت سی تبدیلیاں بھی کیں۔ آج سعودی عرب اپنا بیانیہ تبدیل کر چکا ہے اورملک بھر کی جامعات میں اخوانی فکر کی کتب پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔سعودی وزارت تعلیم نے نصاب میں بھی تبدیلی کا اعلان کر دیا ہےتاکہ اخوانی افکار و نظریات کا پرچار کرنے والی درسی کتابوں کو نصاب سے خارج کر کے معتدل اور ماڈریٹ اسلام پر مبنی مواد شامل نصاب کیا جاسکے۔اس حوالے سے سعودی وزارت تعلیم نے نومبر2015کو اپنے زیر انتظام تمام تعلیمی اداروں کو نوٹس جاری کیا تھا،جس میں انہیں اخوان المسلمین کےبانی حسن البناء، سید قطب ، قطر میں مقیم مصری عالم دین علامہ یوسف القرضاوی اور پاکستان کے سید مودودی سمیت کئی دوسرے مصنفین کی 80 کتب ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ۔تطہیر کے اس عمل میں جامعات کے طلبہ کو اخوانی نظریات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایڈمن اور اکیڈمک اسٹاف میں موجود ایسے تمام افراد سے معاہدے ختم کر دیے گئےجن کا کسی نا کسی شکل میں اخوان المسلمین سے تعلق یا قربت تھی۔
سعودی عرب اخوانی فکر کے خاتمے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے؟اس کا اندازہ اسی امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ قطر خلیج تنازعہ کی بنیاد بھی یہی سوچ ہے۔سعودی عرب چاہتا ہے کہ دیگر خلیجی ممالک بھی اس سوچ سے دستبراد ہوں کیونکہ ان کی اس سوچ کا اثر براہ راست سعودی عرب پر پڑ رہا ہے لیکن قطر نہ صرف اخوانی سوچ کا حامل ہے بلکہ اس کے دفاع اور فروغ کے لیے بھی کردار ادا کر رہا ہے۔قطر نے مصر میں مرسی حکومت کی حمایت کی تھی اور سرکاری چینل "الجزیرہ” نے سابق مصری صدر محمدمرسی کی تائید میں خصوصی مہم چلائی تھی۔
اخوانی فکر کے مختلف ورژن ہیں اور مختلف ممالک میں یہ الگ الگ شناخت رکھتی ہے۔پاکستان میں اس فکر کے علمبردار مولانا مودودی تھے، اس لیے جماعت اسلامی کو اخوانی سوچ کا حامل سمجھا جاتا ہے جبکہ سعودی عرب میں یہ فکر "الصحوہ تحریک "کے نام سے نوے کی دہائی میں کویت عراق جنگ کے دوران سامنے آئی۔ اس کے پیچھے کئی دہائیوں کی فکری اور نظریاتی ذہن سازی کار فرما تھی ،تاہم یہ تحریک خاطر خواہ کامیابی نہ سمیٹ سکی۔ 2011 میں عرب بہار کے نام سے شروع ہونے والی تحریک بھی خلیج میں ناکامی سے دوچار ہوئی ۔اس تحریک کے پیچھے بھی اکثریت اخوانیوں کی تھی اور اخوان المسلمین کے حمایت یافتہ صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کے لیے سعودی عرب نے مصر کا بھرپور تعاون کیا تھا۔
یمن سے بلند ہونے والے شعلوں کو عرب اتحاد نے ادھر ہی روکنے کی کوشش کی تاکہ یہ خلیجی ممالک کی طرف نہ بڑھ سکے۔قطر چونکہ اس سوچ کی سرپرستی کر رہا ہے اس لیے اسے خود اس سے کوئی خطرہ نہیں تاہم سعودی عرب سمیت وہ خلیجی ممالک جو اس فکر سے دستبردار ہوچکے ہیں انہیں اس فکر کے حاملین کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اسی خطرے کے پیش نظر مارچ2014میں سابق سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے دیگر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ الاخوان کو بھی ایک دہشت گرد جماعت قرار دیتے ہوئے اس کو کالعدم قرار دیا تھا۔ مملکت کے فیصلے میں یہ امر بھی شامل کیا گیا کہ ان تنظیموں اور گروپوں کی تائید کرنے والے، ان سے تعلق کا اظہار کرنے والے، ہمدردی رکھنے والے، ان کے نظریات کی ترویج کرنے والے اور ان کے زیر سایہ اجلاس اور ملاقاتیں منعقد کرنے والے تمام افراد تحقیقات کے زمرے میں آئیں گے اور ان تنظیموں اور گروپوں کے لیے مالی یا اخلاقی سپورٹ اور ان سے ہر قسم کا رابطہ جرم شمار ہو گا۔ اس خصوصی شاہی فرمان کے جاری ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد سوشل میڈیا پرسعودی فیس بک صارفین نے اپنے اکاؤنٹس سے چار انگلیوں والے "لوگو”(رابعہ) کی تصویر ہٹا دی جو مرسی حکومت کے خاتمے کی وجہ سے مرسی کے حق میں دھرنا دینے والوں کا "لوگو "بن گئی تھی۔
اس پورے منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اخوانی فکر کو جڑ سے اکھیڑنے اور اسی فکر پر قائم ریاست قطر کو اخوان کی حمایت سے دست برداری تک قطر سے ہاتھ نہ ملانے کا موقف سمجھ میں آتا ہے تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ خلیجی ممالک کسی فرد یا ادارے پر فرد جرم عائد کرتے وقت کسی مبینہ انتہاپسند تنظیم سے محض وابستگی کو ہی بنیاد نہ بنائیں کیونکہ اخوان جیسی تنظیم پوری اسلامی دنیا میں سرایت کر چکی ہے اور اس کی جڑیں پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس فکر کے جن سرکردہ افراد کو آج دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، چند سال قبل تک انہی افراد کو سعودیہ "شاہ فیصل ایوارڈ ” اور دیگر انعامات واعزازات سے بھی نوازتا رہا ہے۔
ہمارے خیال میں محض نام کی وجہ سے دہشتگردی کا لیبل لگانا کوئی دانشمندی نہیں بلکہ بہتر یہ ہو گا کہ دہشتگردی کی ایک تعریف طے کی جائے اور اس پر پورا اترنے والے افراد و شخصیات کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے، ورنہ بہت سے سادہ لوح مسلمان جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے اس چھتری تلے آئے وہ بھی اس آپریشن کی زد میں آئیں گے۔اس سے سعودی عرب کے خلاف اسلام مخالف اقدامات کرنے والی حکومت کا تاثر پیدا ہوگا جو کسی طرح بھی سعودی عرب یا امت مسلمہ کے حق میں نہیں۔