سرد جنگ کا احیائے نو۔۔۔۔ملک راحت

سرد جنگ کا احیائے نو۔۔۔۔ملک راحت

امریکہ ا ور  روس کے درمیان سفارتی کشیدگی جو بنیادی طور پر برطانیہ میں جاسوس کو زہر دے کر ہلاک کرنے سے شروع ہوئی ،وہ  اب مغربی ممالک کی جانب مشترکہ اقدامات کی صورت اختیار کررہی ہے۔امریکہ اس کشیدگی کا ماضی قریب کی طرح اب بھی قائد ہے، اس نے تجارتی توازن کے نام پر چین سے بھی مخاصمت کا آغاز کیا ہوا ہے جبکہ یورپ کے ساتھ بھی تجارتی محصولات کے نفاذ کے ذریعے تجارتی جنگ میں الجھا ہوا ہے، تاہم مغرب سابقہ اتحادی ہے تو امریکہ بھی حلیف ہے، چنانچہ مختلف محاذوں پر تجارتی،سفارتی کشیدگی کے احیاء نے دنیا بھر میں سرد جنگ کے ایام کی تلخ یادیں تازہ کردی ہیں۔تیسری دنیا کے ممالک طاقت کے عدم توازن کے دوران جنگی مصا ئب میں مبتلا ہوئے ہیں، وہ یک قطبی دنیا کے خاتمے کو خوش آئند سمجھیں گے کہ اس طرح دنیا کے کمزور ممالک کو  چھتری میسر آسکتی ہے۔چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی کا جائزہ لیں تو کچھ اعداد و شمار ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔

2016 میں چین کی امریکہ برآمدات کا حجم478ارب ڈالر تھا۔اسی عرصہ میں امریکہ کی برآمدات170ارب ڈالر تھیں۔مجموعی دو طرفہ تجا رتی حجم648ارب ڈالر رہا جس کا توازن چین کے حق میں تھا۔چین امریکہ سے سالانہ19.6ارب ڈالر کی درآمد کرتا ہے جس میں صرف سویا بین کی مالیت12.4ارب ڈالر ہے۔امریکی بونگ کمپنی چین کو سات ہزار مسافر بردار طیارے بیچنے کیلئے کوشش کررہی ہے جن کی مالیت گیارہ کھرب ڈالر ہے۔ان پیوستہ مفادات کے تناظر میں تجارتی جنگ کی حرکیات کو سمجھنا آسان ہوگا۔
اس شائستہ قیاس آرائی کو رد کرتے ہوئے کہ ٹرمپ دنیا بھر میں جنگی معیشت اور فلاحی معیشت کے مابین جاری کشمکش میں جنگی معیشت کا ساتھی ہے۔اینا اساق لکھتی ہے”ٹرمپ کی طرف سے شروع کی جانے والی حالیہ تجارتی جنگ سے عالمی معیشت کی بحالی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جبکہ تحفظ پسند(قومی حصاریت)پالیسیاں،گلوبل سپلائی چین اور پیداواری ترقی کو سبوتاژ کررہی ہے”(ٹیلی گراف،29مارچ2018 جنگ)
یہ وضاحت غیر ضروری ہے کہ جس عالمی معیشت کی بحالی کیلئے خطرات کا اظہار کیا گیا ہے وہ غیر جنگی معیشت ہے کیونکہ جنگی معیشت تو کل عالمی تجارت کا70فیصد ہے۔گویا پہلے سے ہی مضبوط و مستحکم ہے۔چنانچہ چین کے خلاف تجارتی پابندیاں تحفظاتی اقدامات دو طرفہ اور بالآخر عالمی تجارت کیلئے ضررساں ہوں گی۔ایک نقطہ جو ٹرمپ کے رجحان کی وضاحت کرسکتا ہے ،یہ کہ وہ جنگی معیشت کے برعکس حالیہ اقدامات کے ذریعے اس امریکی صنعت و تجارت کی بڑھوتری چاہ رہا ہے جو بہر طور جنگی معیشت کا حصہ نہیں۔
لیکن ٹرمپ کے اقدامات امریکی صنعت و تجارت کے ایک حصے کومنفعت دیں گے تو عین انہی لمحوں میں  دوسرے شعبوں پر منفی اثرات  بھی مرتب کریں گے، جس سے ٹرمپ کی پہلے امریکہ کا نعرہ یا امریکی معیشت کی بحالی کی خواہشات پوری ہونے کا امکان زیادہ نہیں رہے گا۔چین کے ساتھ تجارتی توازن کے لیے  اسے جدید ٹیکنالوجی کی فروخت پر مجبور ہونا پڑے گا جو ان کی معیشت کے بالواسطہ یا بلاواسطہ فروغ کا سبب ہوگا۔
ٹرمپ امریکی فسطائیت اور قومی تنگ نظری کی جانب پیشرفت کرتے ہوئے ناگزیر طور پر دنیا بھر میں تصادمات میں اضافے کی جانب جائے گا۔شمالی کوریا اور ایران کے خلاف پابندیوں کے احیاءسے ٹرمپ کا غیر منفی رجحان بھی جھلکتا ہے مگر کیا اس طرز عمل سے جنگی معیشت اور اس کے لوازمات پر تجدید ممکن ہوگی؟ یا جنگی بربریت پر اجارہ داری؟
محض چین امریکہ تجارتی تناؤ ہی قابل تشویش عمل نہیں بلکہ معیشت کے قومی تحفظات کا سوال بھی اہم ہے۔قومی معیشت کا تحفظ،فروغ اور استحکام ترجیحاً کسی بھی ملک و قوم کے لیے  اولیت رکھتا ہے یا ایسا ہونا چاہیے لیکن تحفظات پر مبنی اکثر اقدامات دیگر ممالک کے ساتھ دوطرفہ امور اس سے بھی آگے عالمی معیشت و تجارتی تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کسی ملک کیلئے اہمیت کس چیز یا مقصد کو دینی چاہیے؟ثانوی طور پر سہی لیکن ٹرمپ اقدامات سے امریکہ و یورپ کے درمیان بھی تجارتی تعلقات اور توازن بدلنے سے امریکہ و یورپ کے درمیان تناؤ آئے گا۔جبکہ قومی معیشت کے استحکام کے لیے  درکار تحفظات کے عدم نفاذ سے جہاں اصولی طور پر قومی معیشت زوال پذیر ہوتی ہیں، وہاں امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کی سیاسی ناکامی سے بڑھ کر امریکہ میں معاشی داخلی توازن بھی پیدا ہوگا۔اس میں ناکامی امریکہ کیلئے سنگین سیاسی بحران کا پیش خیمہ بنے گی جو بالآخر زیادہ سخت گیر ،تحفظات اور امریکی سرمائے،مواقع کی،امریکی ریاستی حدود میں تجدید،نیز خود امریکی جغرافیے میں سفید فام امریکیوں تک تحدید میں سکڑ جائے گی۔اس کے عالمی اثرات کی معاشی نوعیت کے برعکس مجھےغیر معاشی شعبوں میں توانائیوں کے مرتکز ہوجانے کی صورت نظر آرہی ہیں۔تحفظاتی معیشت کرداری اعتبار سے تناؤ اور کشیدگی جنم دیتی ہے جو قومی سلامتی کے غیر محفوظ خدشائی تاثرات کیلئے ایسا تقویت بخش عنصر ہے جو قومی سلامتی کے راستے سے جنگی معیشت اور جنون میں بدل جاتا ہے۔
معاشی تناؤ تجارتی جنگ کے عسکری کشیدگی میں بدلنے سے ممکنہ خطرات کی نشاندہی پر مشتمل ہے جسکی تائید آئی ایم ایف نے بھی کی ہے۔ٹیلی گراف کے مطابق آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے خبردار کیا ہے کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ تجارتی جنگوں سے بچنے کیلئے تجارت کے معاملے پر موجود اختلافات کو کسی بھی قسم کے غیر معمولی اقدامات کے بغیر ختم کریں،تجارتی جنگوں سے نہ صرف عالمی معیشت(جس میں جنگی معیشت بھی شامل ہے) کو نقصان پہنچے گا ۔جس میں کسی بھی فریق کی جیت نہیں ہوگی ۔امریکہ نے یورپ کے ساتھ سٹیل اور المونیم کی تجارت میں توازن کیلئے درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ڈبلیو ٹی او کے تجارتی قواعد و ضوابط کے بھی منافی ہے اس سے چین سمیت یورپ کے ساتھ نئی تجارتی کشمکش کا آغاز ہوگا اور اس عمل پر روس کے ساتھ مغربی اتحادیوں کی حالیہ سفارتی کشیدگیوں کے گہرے منفی اثرات مرتب ہونگے جو جاسوس کو زہر دینے،پھر امریکہ، یورپ و دیگر ممالک سے روسی سفارتکاروں کے جبری انخلا تک پہنچ گئی۔پیوٹن کے جوابی وار60امریکی سفارتی عملہ کی ماسکو سے بے دخلی کے حکم سے تناؤ کی نوعیت،سرد جنگ کے مراجعت و احیا جیسی ہوگئی ہے۔29مارچ تک ماسکو کے جوابی اقدام کا ہدف صرف امریکہ رہا ہے جبکہ اگلے چند دنوں میں ان تمام ممالک کے سفارتکاروں کے ساتھ ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔

یہ اقدام سرد جنگ کے احیاء کے علاوہ روس کی عالمی تنہائی کے تاثر کو جنم دیتا ہے تو کیا روس مغربی قوتوں کے خلاف اقدامات کے نتیجے میں عالمی تنہائی سے نکلنے کیلئے نئے اتحادی و دوست تلاش نہیں کرے گا؟روس کے پاس متبادل اتحادیوں کا جغرافیائی منطقہ مشرقی یورپ کے سابقہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کی ماضی جیسی صورتحال بحال کرنے سے زیادہ بہتر و ممکن ہوگا کہ وہ ایشیائی خطے میں اپنی سفارتکاری ،تجارت اور تعلقات پر زیادہ توجہ صرف کرے۔ممکن ہے روس مغربی یورپ کو عارضی طور پر سہی لیکن جوابی اقدام کے طور پر گیس کی فراہمی میں تعطل پیدا کردے۔

تجارتی کشیدگی سفارتی محاذ آرائی کے رستے سرد جنگ کے احیاءیا جنگی معیشت کی بالادستی کو مشکل بناتی نظر آرہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.