نسلِ نو چاہے کسی بھی قوم، مذہب یاملت سے تعلق رکھتی ہو، وہ بہر حال اُس قوم اور مذہب و ملت کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔یہ نسلِ نو نونہالوں، انتہائی معصوم اوردنیا و مافیہا کی فکروں سے آزاد اُن نازک نفوس کا نام ہے جو اپنی زندگی کے ایک تخیلاتی اور سب سے حسین دور میں ہوتے ہیں۔ لیکن خبردار! عمر کا یہ حصہ حسین ضرور ہوتا ہے ،لیکن یہ انتہائی خطرناک اور فیصلہ کُن دور بھی ہے کیونکہ یہی دور اِن نونہالوں کی پیش آمدہ زندگی کو بنیادیں فراہم کر کے اُنہیں عملی زندگی میں داخل ہونے کے لیے راہیں فراہم کرتا ہے۔ عمر کے اِس دورمیںایک نوجوان کی تمام قسم کی قویٰ اور صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں۔ یہ دور انسان کی نوجوانی کا دور ہوتا ہے جس میں وہ کوئی غیر معمولی کام کرنے کی آرزو رکھتاہے، اُس کی سماجی حِس بیدار ہو تی ہے اور وہ معاشرے میں کسی نہ کسی طرح اپنے افعال اور سرگرمیوں سے اِس کی ترقی یا بگاڑکا ضامن بنتا ہے۔ یہ انسان کے طالب علمی کا دور ہوتا ہے جس میں وہ خود کو مختلف علوم سے متصف کرکے معاشرے میں ایک مقام حاصل کر کے زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھتا ہے۔ انسان کی یہ عملی زندگی گونا گوں مصروفیات، کشمکش ، پیچ و خم اور خوشی و غمی کے اُتار چڑھاﺅ کا نا م ہے ۔لہٰذا اِس کے لیے اِن نوجوانوں کو تیار کرنا انتہائی ناگزیر بن جاتا ہے۔
معاشرے کے بہت سارے عناصر کا بچے کی تربیت میں ایک اہم عمل دخل ہوتا ہے۔ معاشرے کا اجتماعی ماحول بچے کی تربیت اور نفسیات پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر معاشرہ صحیح اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہو توبچے کی تربیت بھی صحیح اور مضبوط بنیادوں پر ہو گی۔یہ نونہالان چونکہ کچھ کرنے کے متمنی ہوتے ہیں اور بر وقت تربیت نہ ملنے پر اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔لہٰذا اِس صورت میںنسلِ نو کی تربیت ایک ناگزیر امر بن جاتی ہے۔ یہ نوجوان دراصل ” ملت کے مقدر کا ستارہ“ ہوتے ہیں اور اگر اِن کی تربیت صحیح خطوط پر کی جائے تو ” ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر“ کے اصول کے تحت اِنھیںمطلوبہ سمت میں موڑا جا سکتا ہے۔ یہ بچے عالمِ طفلگی میں خالی الذہن اور اِن کے اذہان و قلوب بیرونی مداخلتوں سے آزاد ہوتے ہیں،لیکن جب یہی بچے جوان اور عمر میں بڑے ہو جاتے ہیں تو اِن میں اطاعت کا جذبہ ماند پڑ جا تا ہے اور یہ من مانی کرنے لگتے ہیں۔اِس لیے اپنی زندگی کے اِسی دور میں اِن کی تربیت کرنا از حد ضروری ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن نونہالوں کی تربیت کیسے اور کن اصولوں کے تحت کی جائے؟دنیا میں جو بھی بڑے بڑے کام انجام دیے جاتے ہیں، وہ ایک منصوبہ بند طریقے سے ہی انجام پاتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی ایک خاص منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں یوں تو بچوں کی تربیت کے لیے بہت سارے تعلیمی و تربیتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں اکثر اداروں کا مطمح نظر یہی ہوتا ہے کہ بچہ پڑھ لکھ کر دو چار پیسے کمانے کے قابل ہو جائے جبکہ حصولِ تعلیم و تربیت کا یہ مقصد ایک ہیچ اورانتہائی ذلیل مقصد ہے۔ بچے کی فطرت ملازمت کے حصول کے علاوہ اور بھی کچھ مطالبہ کرتی ہے اور بچے کے یہ فطری مطالبات جبھی پورے ہوجاتے ہیں کہ اگراِن کی تربیت میں الہامی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ دین کی ہی بنیادوں پربچوں کی تربیت ہونے سے لاریب اِن میں زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے نیز اُن کی مستقبل کی زندگی بھی دینی اصولوں پر قائم ہوتی ہے۔یہی ایک واحد اور مو¿ثر ذریعہ ہے جس سے ہمارے یہ نونہال اپنے خالق کی رضا کے حصول کے علاوہ دنیاوی ضروریات و مطالبات کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اکثریت آج علمِ دین سے نابلد ہے۔ بالفاظِ دیگر اُن کا دینی علم چند بنیادی عقائد و رسومات کی جانکاری تک محدود ہے جس کے سبب وہ روحِ اسلام کو سمجھنے سے مکمل طور قاصر نظر آتے ہیں۔ لیکن دین سے اِس قدر دوری کے باوجود بھی آج اُمت مسلمہ میں دین بیداری کے کام کو لے کرمیدانِ دعوت و تبلیغ میں مختلف جماعتیں برسرِ پیکار ہیں۔ لہٰذانسلِ نو کی تربیت میں اِن کا رول غیر معمولی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ جماعتیں یوں تو دعوت و تبلیغ کا کام ایک وسیع پیمانے پر انجام دیتی ہیں، مثال کے طور پر مسجدوں میں اجتماعات منعقد کرائے جاتے ہیں، تبلیغی دوروں سے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہچانے کی مبارک کوششیں کی جاتی ہیں نیز تصنیف و تالیف اور رسالوں و اخبارات کے ذریعے بھی دینِ حق کی تبلیغ و ترسیل کی جاتی ہے۔ لیکن کافی غور و خوض اور تجزیہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اِن مبارک کوششوں سے دینِ حق کا یہ پیغام امت کی اِس نسلِ نو تک کم ہی پہنچ پاتا ہے، کیونکہ اِن پروگرامز کا معیار و مزاج معمر انسانوں کی ذہنیت اور سوچ کے تحت ہی قرار پاتا ہے۔
البتہ دینی جماعتوں نے اِن نونہالوں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا ہے۔ بلکہ اِن کی تعلیم و تربیت کے لیے ہزاروں مدارس اور تربیت گاہیں کھولی گئی ہیں۔ لیکن بظاہر اِن اداروں کی تعداد کا نمبر بہت بڑا ہے اور توقع کی جانی چاہیے تھی کہ یہ ادارے امُتِ مسلمہ کو وہ افرادی قوت فراہم کریں گے کہ جن سے پورے عالم میں دین کا بول بالا ہو، لیکن صورتحال اِس کے برعکس نظر آتی ہے۔ اِن مدرسوں سے فارغ التحصیل طلاب جدید علوم اور جدید تقاضوں سے نا آشنا ہوتے ہیں اور معاشرے میں اِن طلاب کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہوتا ۔ اِن اداروں کا مقصد قرآن و سنت کی تعلیم و تربیت، توضیح و تشریح، تعمیل و اتباع ، تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ ایسے افراد پید ا کرنا ہونا چاہیے تھا جو انسانوں کی رہنمائی کے لیے قائدانہ کردار ادا کرسکےں اور جو اپنے معاشرے کے سب سے ذہین اور متحرک افراد میں شمار ہوں،لہٰذا اس ضمن میں اصلاحات کے لیے کوششیں کرنا انتہائی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ چند گزارشات درج ذیل ہیں:
۱۔ اِن اداروں میں بنیادی توجہ دینی علوم خصوصاً قرآن و حدیث پر دی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچہ قرآن کی سورتوں کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اِن کی مقدس آیتوں کے معنی و مفاہیم سے بھی آشنائی حاصل کرے۔
۲۔اِن مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب میں بھی ترمیمات کی ضرورت ہے۔ فی الوقت اِن اداروں میں علمِ تفسیر، علم تجوید، علم ِ حدیث، علم فقہ، علم صرف و نحو، علمِ عقائد وغیرہ جیسے علوم پر کامل توجہ دی جاتی ہے اور جدیدو عصری علوم جیسے سائنس، کمپیوٹر، ریاضی، تاریخ و جغرافیہ، لسانیات کے علوم کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نتیجتاًاِن مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کالج اور یونیورسٹیز کے فارغین کے ساتھ قدم سے قدم نہیں ملا پاتے اور وہ آج کے اس مسابقاتی دور میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
۳۔ ظاہر سی بات ہے، اِن سارے علوم پر بیک وقت کمانڈ حاصل کرنا غیر ممکن ہے، لہٰذا بچوں کی انفرادی صلاحیتوں کو دریافت کیے جانے کی کوششیں کی جانی چاہیے۔ بعد ازاں اُنھیں اُسی متعلقہ صلاحیت میں اختصاص کرایا جائے، مثال کے طور پر کوئی بچہ خطابت کے فن میں دلچسپی رکھتا ہو، تو اُسے فنِ خطابت کی ہی تربیت دی جانی چاہیے۔
۴۔مدرسوں میں روایتی طرزتعلیم کو ترک کر کے جدیداورسائنٹفک تکنیک بروئے کار لائی جائے۔اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ بچہ مدرسے کے ماحول میں تنگی اور اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوگا بلکہ وہ خوش و خرم رہے گا اور مدرسے کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا۔
۵۔ان اداروں میں درس و تدریس کے لیے جدید تکنیک اور انفراسٹریکچرکااستعمال کیاجائے۔ ماہرین تعلیم کی خدمات کو بھی حاصل کیا جائے اور بچوں کے لیے خصوصی لیکچرس کا انعقاد کیا جائے۔
۶۔اِن مدرسوں میں درس و تدریس کے کام پرمعمور اساتذہ کی ٹریننگ اور تربیت کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے جانے چاہئیں ۔ یہ اساتذہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہونے چاہئیں، جبھی وہ بچوں کی صلاحیتوں سے انصاف کر پائیں گے۔
۹۔اِن مدرسوں میں بچوں میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرناازحد ضروری ہے، کیونکہ یہی بچے مستقبل میں امتِ مسلمہ کے اہم ا فراد ثابت ہوں گے، لہٰذا اِنھیں ایسی تربیت دی جانی چاہیے کہ یہ آنے والے زمانے میں اس قوم کی رہنمائی ورہبری کرنے کے قابل ہو جائیں۔
۰۱۔ یہ مدرسے دراصل اُمت مسلمہ کے لیے Feeding Centresکا کام کرتے ہیں ۔ یہاں سے ایسے طلاب نکلنے چاہئیں کہ جو روحِ دین سے آشنا ہوں ۔
مندرجہ بالا نکات کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو اُمید قوی ہے کہ نسلِ نو کی تربیت میں کچھ مثبت پیش رفت ہو پائے گی۔ لیکن یہاں پر ایک نکتے کو بیان کرناازحد ضروری ہے ،وہ یہ کہ اُمت ِ مسلمہ کے سوادِ اعظم نے آج تعلیم کو ’دینی تعلیم‘ اور ’دنیاوی تعلیم‘ کے دو خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ مدرسوں میں جو تعلیم حاصل کی جاتی ہے اُسے دینی تعلیم کہا جاتا ہے اور عصری سکول، کالج اور یونیورسٹی میں جو تعلیم پڑھائی جائے اُسے دنیاوی تعلیم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔حرماں نصیبی یہ ہے کہ انھیں ایک دوسرے کی ضد سمجھا جانے لگا ہے اور حد تو یہ ہے کہ مدرسوں کو حصولِ تقویٰ کے مراکز اور کالج اور یونیورسٹی جیسے عصری اداروں کو گمراہی پھیلانے کے مراکز قرار دیا جاتا ہے۔
اسلام میں دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کی تفریق کایہ تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اسلام تمام علوم کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتا ہے اورتعلیم کو ایک اکائی قرار دیتا ہے۔تعلیم کو دینی اور دنیا وی دھڑوں میں تقسیم کرنا سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ عصری علوم کے حصول کے لیے اسلام رُکاوٹ نہیں بنتا ،بلکہ آج عصری علوم ایک اسلحہ کی شکل اختیار کر گیے ہےں کہ اِس کے بغیر دوسری اقوام کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آج جو طلبہ عصری تعلیم گاہوں سے نکلتے ہیں وہ دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔لہٰذا ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں پر دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جائیں، اور مستقبل میں اِن اداروں سے نکلنے والے طلاب دین دار ڈاکٹرس، دین دار انجینئراور دین دار وکیل بن کر خدمات انجام دیں۔
دینی جماعتوں کے تئیں عوام الناس کی بے زاری کی وجوہات جاننے کی جب کوشش کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اِس میں دینی جماعتوں کی بھی کہیں نہ کہیں کوتاہی و خامی پائی جاتی ہے کہ وہ عوام الناس کو اپنی جانب راغب نہیں کر پاتے۔لہٰذا یہاں پر دینی جماعتوں کوبھی خود احتسابی کے عمل سے گزر نے کی کوشش کرنی چاہیے۔آئے روز ہمارے آس پاس پیش آنے والے مسلکی منافرت کے شرمناک واقعات (جس سے ملت کا شیرازہ بکھر تاجارہا ہے اور بغض، حسد اور انتقام جیسی منفی خصلتوں کو نشو نما ملتی ہے) کا سدِ باب کیا جانا انتہائی ناگزیر بن گیا ہے۔ ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے ایک خوشگوار ماحول قائم کیا جائے۔ایک دوسرے کے اختلافات کو قدر کی نگاہ سے دیکھ کر افہام و تفہیم کے جذبے کے تحت مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔یہی صورت ہے کہ جس کے تحت دینی جماعتیں متحد ہو سکتی ہیں اور آج امت ِ مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کی ہی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭