کشمیر:اَن کہی داستان!۔۔ایس احمدپیرزادہ
٭… ایس احمد پیرزادہ
المیوں کی سرزمین کشمیر میں شائد ہی ایسا کوئی گھر، خاندان ، شہر یا دیہات ہوگا جہاں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اشرف المخلوقات انسان ابتر حالات کا شکار نہ ہوا ہوگا۔ ہر گھر کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی داستانِ الم جڑی ہوئی ہے جس کے سننے سے درد دل رکھنے والا کوئی بھی ذی حس انسان تڑپااُٹھتاہے۔المناک حادثات و سانحات کی رو داد سن کر قلب و جگر چھلنی ہوجاتا ہے۔ کس کا غم ضبط تحریر میں لائیں؟ کتنے دہشت زدہ سانحات کی منظر کشی کریں؟ کتنے ماؤں کی اُجڑی کوکھ کا قصہ بیان کریں؟ کتنی بیواؤں کے لٹے سہاگ کا درد سنائیں؟کس بستی کے اُجڑنے کا احوال سنائیں؟ کس آشیانے کی ویرانیوں کا فسانہ کہیں؟… غرض یہاں درد و الم کی اتنی داستانیں ہر گھر کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں کہ اُنہیں اگر قلم بند کرنے بیٹھ جائیں تو پوری دنیا کے قلمکار، مصنف اور صحافی بھی کم پڑ جائیں گے۔ہماری تحریروںسے، اخباری کالموں سے ،ویران بستیوں کا واویلا کرنے سے کسی کے دُکھ کا مداوا نہیں ہوپائے گا، نہ ہی قبرستان میں سوئے ہوئے وہ ہزاروں نوجوان واپس آئیں گے جن میں کوئی کسی بوڑھی ماں کا بیٹا تھا تو کوئی کسی جواں سال خاتون کا سہاگ، اور کوئی اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا… البتہ خامہ فرسائی کی جہد مسلسل سے لکھنے والے کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، مصیبت کی شکار قوم اور اُن گھرانوں کو جن کے بارے میں لکھا جاتا ہے تھوڑی دیر کے لیے احساس ہوجاتا ہے کہ یہاں عام اور مصیبت زدہ لوگ بھی ہمارے دُکھ اور درد میں برابر کے شریک ہیں۔ دل کے کسی گوشے میں کہیں نہ کہیں یہ اُمید بھی ہوتی ہے کہ شائد ہمارے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کسی ظالم کے دل میں اُتر کر اُس کے ہاتھوں کی بیڑیاں بن جائیں گے،یا پھر کسی صاحب اقتدار کے قلب و ذہن پر دستک دے کر اُنہیں دنیاوی فائدوں سے نکال کرانسانی ضمیر کے ساتھ آدم کی اولاد کے معاملات کو دیکھنے پر مجبور کریں گے۔
پیر غلام نبی نے بٹہ گنڈ ڈورو ضلع اسلام آباد میں اپنے ہی گاؤں کی جامع مسجد میںپچپن سال تک امامت کے فرائض انجام دئے ہیں۔ اُنہیں اپنے علاقے کے لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔بھلے ہی اُن کے پاس دولت کی ریل پیل نہ تھی لیکن عزت و احترام جو اُنہیں اپنے مقتدیوں کی جانب سے مل رہا تھا اُن کی زندگی کا انمول سرمایہ تھا۔ ہر انسان کی طرح وہ بھی اپنے تین بیٹوں فاروق احمد، محمد اشرف اور پیرزادہ فردوس احمد کے ساتھ آرام دہ زندگی کے خواب دیکھتا تھا، لیکن اُنہیں معلوم نہیں کہ تقدیر اُن کے ساتھ کچھ اور ہی کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔ حالات کی مار اُن کے گھر پر بھی پڑنے والی ہے، اُن کا خاندان بھی دیگر ہزاروں کشمیری خاندانوں کی طرحConflict کا شکار ہوجائے گا۔پیر غلام نبی کے گھر پر مصیبت کا پہاڑ سب سے پہلے اُس وقت ٹوٹ پڑا جب ۲۱؍جنوری۲۰۰۱ءکو اُن کا سب سے بڑا بیٹا جو عسکریت پسند تھا فوج کے ساتھ جھڑپ میں جان بحق ہوگیا۔بیٹے کی جدائی اُن کی والدۂ یعنی پیر غلام نبی کی اہلیہ کو برداشت نہ ہوئی اور وہ چند ہی سال بعد اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ آخری وقت تک اپنے بیٹے کی یاد سینے سے لگائے وہ تڑپتی رہی ، بالآخر اُن ہی یادوں کے ساتھ ہمیشہ کی نیند سو گئیں۔اس گھر پر مصیبتوں کا نزول یہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ چند سال بعد ہی اُن کے دوسرے بیٹے پیرزادہ محمد اشرف کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ اُنہیں کپرن ویری ناگ میں ہوئے ایک بم حملے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔یہ حملہ 2004 میں ہوا تھا جبکہ محمد اشرف 2007 ء میں اُس وقت گرفتار ہوئے جب وہ سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھے۔پولیس نے محمد اشرف کے خلاف دفعات302, 307, 323, 325, 326, 120-8 RPC اور7/102 آرمز ایکٹ کے تحت کیسز درج کرلیے اور اُن کا چالان عدالت میں پیش کیا۔محمد اشرف کے خلاف کل ملا کر13 ایف آئی آر درج ہیں ۔ 2007 سے اُن پرایک درجن سے زائد مرتبہ پبلک سیفٹی ایکٹ لگایا گیا، کورٹ میں ریاست جموں وکشمیر کے معروف وکیل و بار ایسویشن کے صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم اُن کا کیس لڑرہے ہیں۔ جن کی پیروی میں کورٹ نے کئی مرتبہ محمد اشرف کو ضمانت پر رہائی کے احکامات صادر کیے،لیکن ہر مرتبہ مقامی انتظامیہ اُن پر نئے سرے سے پی ایس اے کا اطلاق کرکے اُن کی رہائی کونہ صرف ناممکن بنادیتی بلکہ عدالت عالیہ کے احکامات کو رد کرکے توہین عدالت کے وقار کو بھی مجروح کیا جاتا ہے۔ محمد اشرف گزشتہ گیارہ سال سے جیل میں بند پڑے ہیں۔ ان گیارہ برسوں میں وہ جموں کے امپھالہ، کورٹ بلوال، کٹھوعہ کے علاوہ سنٹرل جیل سرینگر اور مٹن جیل میں مقید رہے۔فی الوقت وہ مٹن اسلام آباد کی جیل میں نظر بند ہیں۔
پیر غلام نبی اپنے اس بیٹے کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرہی رہے تھے کہ اُن کے تیسرے بیٹے فردوس احمد کو2010 میں گرفتار کرلیا گیااور اُنہیں چھ سال کے بعد ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی، البتہ اُن پر بھی کئی کیسوں کی شنوائی عدالت میں چل رہی ہے۔اس دوران پیر غلام نبی تنہا پڑ گیا۔ وہ اپنے دو بیٹیوں کی جدائی سہ نہ سکا۔اپنے لخت جگر کی رہائی کے لیے کی جانے والی اس انتھک اور تھکا دینے والی کشمکش میں یہ بوڑھا باپ بالآخر زندگی کی جنگ ہار گیا اور اپنے بیٹے کی رہائی کا خواب پورے کیے بغیر ۲۱؍ اگست ۲۰۱۷ء کورضائے الٰہی سے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ پیرزادہ فردوس احمدجو پیر غلام نبی کا سب سے چھوتا بیٹا ہے اور جنہوں نے خود بھی ۶؍سال تک جیل کی کال کوٹھریوں کی سختیاں جھیلیں ہیںنے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک کے قانون پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ:’’ جس قانون کے تحت میرے بھائی کو گرفتار کرلیا گیا، اُسی قانون نے میرے بھائی کو ایک درجن سے زائد مرتبہ ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات بھی صادر کیے ہیں لیکن قانون کے رکھوالوں نے کورٹ کے آرڈر کو کبھی بھی خاطر میں ہی نہیں لایا ۔وہ کہتے ہیں کہ کورٹ میں میرے بھائی پر ابھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے،اُن کے جیسے درجنوں لوگ ضمانت پر رہا بھی ہوئے ہیں لیکن میرے گھر کو سیاسی انتقام گیری کا شکار بنایا جارہا ہے، جان بوجھ کر ہمیں ستایا جارہا ہے اور جان بوجھ کر میرے بھائی کو جیل سے باہر آنے نہیں دیا جارہا ہے۔‘‘ فردوس کا کہنا ہے کہ’’ جب میرے والد انتقال کرگئے تو اُن کی آخری خواہش یہی تھی کہ جنازے میں اُن کا بیٹا شریک ہوجائے، میں پولیس اور سول انتظامیہ کے مقامی ذمہ داروں کے پاس گیا ، اُن کے سامنے منت سماجت کی کہ صرف ایک گھنٹے کے لیے ہی سہی میرے بھائی کو اپنے والد کے جنازے میں شامل ہونے کی اجازت دے دیجئے لیکن کسی نے ہماری ایک بھی نہ سنی اور میرے والد کی آخری خواہش کو پورا نہیں ہونے دیا گیا۔‘‘…بقول اُن کے جب بھی اُنہوں نے انصاف کے لیے آواز بلند کی اُنہیں طرح طرح سے ہراساں کیا گیا۔ فردوس کہتے ہیں کہ ’’اُن کے اور اُن کے بھائی محمد اشرف کو دورانِ حراست شدید جسمانی ٹارچر کا شکار بھی بنایا گیا۔‘‘ مان بھی لیا جائے کہ بیٹے کی کوئی خطا کی ہو، حالانکہ الزامات گیارہ سال بیت جانے کے باوجود بھی ابھی تک ثابت نہیں ہوئے ہیںلیکن اس میں بزرگ والدین کی کیا خطا ہے، اُنہیں کس بات کی سزا دی گئی، پیر غلام نبی کو کیوں تڑپایا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا بہرحال اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں اور پالیسی سازوں کو جواب ڈھونڈنا چاہیے۔حد تو یہ ہے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ۲۰۱۱ء میں اپنے ایک آرڈر زیر نمبرHome/PB-V/1809/2011 کے تحت محمد اشرف کی نظربندی کو ختم کرنے کے احکامات بھی صادر کیے ہیں لیکن اس کے باوجود مقامی انتظامیہ نے اُنہیں رہا نہیں کیا بلکہ اُن پر مزید کئی ایف آئی آر درج کیے گئے۔
جب انسان کے حالات برے ہوتے ہیں تو اُن کا استحصال بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ پیر غلام نبی اور اُن کے گھر کے ساتھ ہوا۔ پیر غلام نبی کے گھر پر جب مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تو اُنہوں نے لوگوں کے کہنے پر انصاف کے لیے ہر دروازے پر دستک دی ۔ ہندنواز سیاست دانوں کے معمولی ورکر زسے لے کر ایوانِ اقتدار کی بڑی بڑی ہستیوں تک اُنہیں ہر دہلیز پر حاضری دینے کے مشورے دئے گئے۔ بقول پیر فردوس کے وہ مقامی ایم ایل اے سے لے کر سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید اور موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی تک درجنوں ہند نوازسیاست دانوں کے سامنے اپنی فریاد لے کر گئے لیکن کسی نے اُن کی مدد نہیں کی، کسی نے اُن کی بات نہیں سنی۔ ہر جگہ اُنہیں مایوس ہو کر لوٹ آنا پڑتا۔حالات کی ستم ظریفی دیکھئے لوگ منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ زندگی کو حسین اور آرام دہ بنانے کے لیے اپنی حلال کمائی سے ایک ایک پائی جمع کرکے اپنے خواب پورا کرتے ہیںلیکن یہ گھرانہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے صرف جیل خانوں کے چکر کاٹتا رہا۔ محنت مزدوری کرکے، اخروٹ بیچ کر اپنے چشم و چراغ کی رہائی کے لیے تگ و دو کرتارہا ہے۔
مندرجہ بالا واقعہ کشمیر کی ظلم و زیادتیوں پر مبنی سیاہ تاریخ کے پنوں کا صرف ایک ورق ہے، ورنہ یہاں ہر گلی اور ہر نکڑ پر ایسی ہزار ہا داستانیں موجود ہیں۔گزشتہ کئی ماہ سے دلی کے پالیسی ساز، فوجی جنرل اور سیاست دان اپنے بیانات کے ذریعے سے طرح طرح کا پروپیگنڈا کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل کو بیرونی طاقتیں انتہا پسندی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔اس تھیوری کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کارپوریٹ میڈیا جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے۔ ایسا ماحول تیار کیا جاچکا ہے کہ ’’کشمیری‘‘ ہونا ہی جرم دکھائی دے رہا ہے۔پروپیگنڈا اس حد تک اثر پذیر ہوچکا ہے کہ ایک معصوم کشمیری کو بھی اپنے وجود میں کسی اور ہی مخلوق کے حلول ہوجانے کا یقین ہونے لگتا ہے۔ ہیلنگ ٹچ، گولی سے نہیں بولی سے بات بنانے کے دعوؤں کی کیا یہی حقیقت ہے کہ قانون کے نام پر نسلوں کو اس حد تک ہراساں وپریشاں کیا جائے کہ اُن کے لیے کوئی راستہ ہی چھوڑا جائے۔حکومت ہند کے سیاست دانوں اور پالیسی میکرز کو یہ کیوں دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ جس سماج میں قانون کو مذاق بنایا جائے، جہاں آئینی اصول و ضوابط کی مٹی پلید کی جارہی ہو، وہاںکے عوام کو انتہا پسندی کا طعنہ دینا کہاں کا انصاف ہے۔دوسروں پر الزام تراشی کرنے سے قبل گھر کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوتا ہے اور یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کہیں جان بوجھ کر ایک امن پسند ، شریف اور مہذب قوم کو انتہا پسندی کی جانب دھکیلا تو نہیں جارہا ہے۔کہیں ہماری نوجوان نسل کو مایوسیوں کی گھٹا ٹوپ اندھیروں کے نذر کرکے اُنہیں ذہنی طور مفلوج بنانے کی سازشیں تو نہیں ہورہی ہیں۔
برسر اقتدار جماعتوں اور سیاست دان اگر اپنے دعوؤں میں سچے ہوتے تو پھر پیر غلام نبی جیسے لوگوں کودر در کی ٹھوکریں نہیں کھانی پڑتی۔ قانون اور انصاف کی سرعام دھجیاں نہ اُڑائی جاتی۔عوام کی زندگی اجیرن بنانے کی کسی کو اجازت نہ ہوتی۔ امن و قانون کی صورتحال بنائے رکھنے کے نام پر عام انسان کا جینا حرام نہ کیا جاتا ۔ دلی میں لوگ کشمیریوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے پرائم ٹائم کے ٹاک شوز میں اخلاقیات کی بے حرمتی نہ کرتے، تو پھر دلی بی جے پی کے ترجمان اپنی آن لائن دکان پر بڈگام میں آرمی کی جانب سے بنائے جانے والے ہیوم شیلڈ فاروق ڈار کی تذلیل آمیز تصویروں والی T-Shirt بیچنے کا دھندہ نہ کرتے۔بنیادی سیاسی حقوق کو پامال کرنا، آزادیٔ اظہار رائے پر قدغن لگانا، لوگوں کو جمہوری طریقے پر اپنی بات نہ رکھنے دینا عوامی سطح پر مایوسی پھیلا دیتی ہے۔ مہذب دنیا میں اس طرح کی پالیسی وقتی طور قبرستان کی خاموشی قائم کرسکتی ہے البتہ دائمی امن کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ لوگوں کی بات سنی جائے، عوام کے مشکلات و مصائب کو اڈریس کیا جائے، عوامی حقوق پر شب خون نہ مارا جائے، عوام کو بے جا نہ ستایا جائے، لوگوں کا اعتبار قانون پر سے ختم نہ ہونے دیا جائے ۔جتنی جلد یہ بات برسر اقتدار لوگوں کی سمجھ میں آجائے اُتنا ہی بہتر ہے۔