موت کی وادیٔ کشمیر میں یکم اپریل اتوار کی صبح جب لوگوں نے آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلے اُنہیں یہ غمناک اطلاعات سننے کو ملیں کہ رات کے دوران ہی دیالگام اسلام آباد، درگڈ سگن شوپیان اور کچھ ڈوروشوپیان کے دیہات کو فوج نے محاصرے میں لے کر وہاں گھر گھر تلاشی کے دوران عسکریت پسندوں اور وردی پوشوں کے درمیان معرکہ آرائی شروع ہوئی۔ دن چڑھنے کے ساتھ ہی انسانی جانوں کے زیاں کی اطلاعات بھی موصوف ہونے لگیں۔ شام ہوتے ہوتے سرکاری ذرائع نے 13 ؍عسکریت پسندوں، 4 ؍سویلین اور3 ؍فوجیوں کے از جان ہونے کی تصدیق کی۔پوری وادی میں غم اور غصے کی صورتحال پیدا ہوئی، نوجوان انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ، جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہونے لگے۔ سرکار نے انٹر نٹ بندکردیا، کئی مقامات پر بغیر اعلان کے کرفیوکا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ان خون ریز معرکوں میں جان بحق ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ریاست جموں وکشمیر کے سب سے چھوٹے ضلع شوپیان سے تھا۔شوپیان کی ہر بستی میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی اور جہاں ہر سونوجوانوں کے جنازے اُٹھائے جارہے تھے وہیں پولیس اور فوج کی جانب سے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ اور پیلٹ شلنگ سے پہلے ہی دن ڈیڑھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے،اگلے دن یہ تعداد 200 سے تجاوز کرگئی۔زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچانے کے لیے جب ایمبولینس گاڑیاں حرکت میں آگئیں تو یہ بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وردی پوشوں نے زخمیوں کو لے جاتی ہوئی ایمبولینس گاڑیوں کو راستے میںروک کر اُنہیں آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔شوپیان کے ضلع ہسپتال میں جس وقت زخمیوں کو لایا جارہا تھا اور وہاں کا طبی عملہ اپنے فرائض منصبی کی انجام آوری میں یک جٹ تھے تو پولیس اور سی آر پی ایف کے اہلکار اُسی وقت اچانک ہسپتال پر حملہ آور ہوئے۔ ڈاکٹروں نے ڈی سی شوپیان کو ایک میمورنڈم پیش کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وردی پوشوں نے ہسپتال کے اندر فائرنگ کرکے نہ صرف خوف و ہراساں پیدا کیا بلکہ طبی عملے کے کام میں بھی رخنہ پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی۔یکم اپریل کے ان خونین تصادموں میں جو عسکریت پسند جان بحق ہوئے ہیں اُن میں یاور احمد ایتوولد عبدالمجید یتو ساکن صف نگری، عبید شفیع ملہ ولد محمد شفیع ملہ ساکن ترنج زینہ پورہ، زبیر احمد تُرے ولد بشیر احمد ساکن شوپیان خاص، نازم نذیر ڈار ولد نذیر احمد ساکن ار پورہ ناگہ بل ، رئیس احمد ٹھوکر ولد علی محمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ملک ولد غلام نبی ساکن پنجورہ، عادل احمد ٹھوکر ولد عبدالغنی ساکن ہومہونہ ، غیاث الاسلام ولد بشیر احمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ٹھوکر ولد عبدالمجید ساکن پڈر پورہ، عاقب اقبال ملک ولد محمد اقبال ساکن رنگت دمحال ہانجی پورہ، اعتماد احمد ملک ولد فیاض احمد ملک ساکن امشی پورہ، روف احمد کھانڈے ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن دہرنہ ڈورو اور سمیر احمد لون ولد غلام نبی ہیلو امام صاحب شوپیان شامل ہیں۔فورسز کی احتجاجی نوجوانوں پر فائرنگ میں زبیر احمد بٹ ساکن گوپال پورہ کولگام، مشتاق احمد ٹھوکر ساکن درگڈ سگن، محمد اقبال ساکن خاری پورہ شوپیان اور معراج الدین ساکن اوکے کولگام بھی جان بحق ہوئے۔ یہ چاروں عام شہری تھے ، ان کے علاوہ ایک کنگن گاندربل میں ایک اور نوجوان ۲۲؍سال کے گوہر احمدراتھر کو فورسز اہلکاروں نے بغیر کسی اشتعال کے نزدیک سے گولی مار کر شدید زخمی کردیا جو بعد میں ۳؍اپریل کو جان بحق ہوگیا۔
زخمیوں میں بیشتر افراد صدر اسپتال سرینگر، برزلہ، صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ ، جے وی سی کے علاوہ ضلعی ہسپتال شوپیان، کولگام اور اسلام آباد میں علاج و معالجہ کے لیے داخل ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ 2016 میں عالمی سطح کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے پیلٹ گن کے بے جا استعمال پر حکومت ہند کو آڑے ہاتھوں لیا تھا، اُن دنوں دلی سرکار نے بھی پیلٹ گن کے استعمال کا متبادل لانے کی بات کہی تھی اور اس کے استعمال میں احتیاط برتنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن عملاً ہر وقت معمولی نوعیت کی احتجاجی ریلیوں کے موقعہ پر بھی سرکاری فورسز نے جانوروں کے لیے بنائے جانے والے اس ہتھیار کا بے تحاشا استعمال کیا۔ جان بوجھ کر احتجاجی نوجوانوں کی آنکھوں کو نشانہ بنایا گیا اور بنایا جارہا ہے۔ صدر ہسپتال میں آنکھوں کی بینائی بچانے کے لیے پہلی ہی رات کے دوران ڈاکٹروں نے انتھک کوششیں کرکے 36 جراحیاں انجام دیں، جن میں سے دو نوجوانوں کی دونوں آنکھیں اور 43 کی ایک ایک آنکھ جزوی طور متاثر قرار دی گئیں ۔ ڈاکٹر خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ پیلٹ گن کے متاثرین درجنوں افراد آنکھوں کی بنیائی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔اسٹیٹ ہسپتال سرینگر میں ایک نوجوان جس کی آنکھیں پیلٹ سے متاثر ہوئی ہیںنے مجھ سے کہا کہ:’ ’ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا، پولیس اور سی آر پی ایف نے گھر میں گھس کر ہمیں پیلٹ کا نشانہ بنایا۔ شوپیان میں انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔پولیس اور سی آر پی ایف نے باغوں میں، کھیت کھلیانوں کے علاوہ جنازوں میں عام لوگوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ ہمارا کیا قصور تھا، ہم نے اُن کا کیا بگاڑا تھا جو ہمیں اس طرح وحشیانہ طریقے سے زیادتیوں کا شکار بنایا گیا۔‘‘
یکم اپریل کا یہ دن ستمبر2010 کے بعدسب سے خونین دن تھا۔ ستمبر 2010 میں وردی پوشوں کی کارروائی میں صرف ایک دن میں ریاست کے طول و عرض میں 23 نوجوان جان بحق ہوگئے، جن میں ہمہامہ اور ٹنگ مرگ کے خونین سانحات بھی شامل ہیں۔ آٹھ سال بعد آج ایک مرتبہ پھر وادی کشمیر کو بڑے پیمانے پرخون میں نہلایا گیا ،حالانکہ یہاں ہر دن کسی نہ کسی بے گناہ کا قتل ناحق کیا جاتا ہے۔ اگر چہ اس سانحہ سے وادی کشمیر کی ہر آنکھ اشک آلودہ اور ہر دل ملول ہے لیکن اس قتل عام پر سرکاری کارندے اور فورسز اہلکار اپنی خوشی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ فوج کے 15 کور کے کمانڈر جنرل اے کے بھٹ نے ڈی جی پولیس کے ساتھ اپریل کی پہلی تاریخ کو ہی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’آج کا دن ہمارے لیے خوشی کا دن ہے ۔‘‘ ساتھ ساتھ اس پریس کانفرنس میںفورسز کے ان اعلیٰ افسران نے عام شہری ہلاکتوں کے حوالے سے کہا ہے کہ’’ آپریشن میں رخنہ ڈالنے والے گولیوں کا ہی شکار ہوں گے۔‘‘حالانکہ درگڈ سگن میں دو بچوں کا باپ اور بوڑھے والدین کے اکلوتے سہارے مشتاق احمد ٹھوکر نے کس آپریشن میں رخنہ ڈالا تھا۔ اُنہیں فوج نے رات کے ایک بجے اپنے بال بچوں سے زبردستی چھین کرگھر سے نکال کر زبردستی اُس گھر میں گھس جانے کے لیے کہا جس میں مبینہ طور پر عسکریت پسند موجود تھے۔ جب وہ وہاں سے واپس آیاتو سامنے موجود فوج نے اندھا دھند فائرنگ کرکے اس غریب شہری کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلا دیا۔گویا اُنہیں انسانی ڈھال کے طور پر نہ صرف استعمال کیا گیا بلکہ جان بوجھ کر گولیوں کا شکار بھی بنایا گیا۔ دو سو سے زائد زخمیوں میں اُن لوگوں کا کیا قصور تھا جو اپنے گھروں میں بیٹھے تھے، یا جو اپنے کھیتوں کا کام کررہے تھے یا جو نمازہ جنازہ جیسا مذہبی فریضہ انجام دے رہے تھے۔انسانی جانوں کے زیاں پر خوش ہونے کی ذہنیت اُس مجموعی بیمار اور کندسوچ کی عکاسی کررہی ہے جو ہندوستان میں عام ہوتی جارہی ہے، اور جب سرکاراوراس کی فوج و دیگر فورسز ایجنسیاں اس طرح کی سوچ رکھتی ہوں تو پھر عام شہریوں کی ہلاکتیں روز کا معمول بن جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بڑی بڑی جنگوں کا بھی یہ اصول رہاہے کہ دشمن فوج کے اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد اُن کی لاشوں کا احترام کیا جاتا ہے،ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے، آپس کے شدید دشمن بھی ایک دوسرے کی ہلاکتوں پر خوش نہیں ہوتے ہیں، یہ غیروں اور دشمن کی بات ہے یہاں تو دعویٰ یہ کیا جاتارہا ہے کہ کشمیری ہمارے جسم کا’’ اٹوٹ انگ‘‘ ہیں، یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ کیا کوئی اپنے لوگوں کے جان چلے جانے پر خوش ہوتا ہے؟ کیا اپنے اٹوٹ انگ کے چھلنی ہونے پر خوشی کا کھلے عام اظہار کیا جاتا ہے؟یا تو یہ بیمار ذہنیت ہے یا پھر جھوٹے دعوؤں کی آڑ میں ایک پوری قوم کی نسل کشی کرکے اس کا صفایا کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔ سچائی یہ ہے کہ سرکاری فورسز نے عام کشمیریوں کو اپنے دشمنوں کے صف میں لاکھڑا کردیا ہے، وہ ہر کشمیری کے خلاف اُسی طرح کارروائیاں انجام دیتے ہیں جیسے کسی بیرونی حملہ آور دشمن کے خلاف انجام دی جاتی ہے۔ یہاں فوج، نیم فوجی دستے اور پولیس عوام کے خلاف برسر جنگ ہیں ۔ جس کا ثبوت شہری ہلاکتیں اور یکم اور ۲؍اپریل کے دن شوپیان میں 200سے زائد زخمی افراد ہیں۔گھروں میں، کھیت ، کھلیان اور باغات میں ، جنازوں میں شمولیت کے موقع پر عام لوگوں کو گولیوں، پیلٹ گن اور ٹیئر گیس شلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہسپتال جہاں کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوتا ہے، جہاں خالص انسانی بنیادوں پر کام ہوتا ہے اور انسانی جانوں کی قدرو قیمت کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے، جس ملک کے وردی پوش وہاںہسپتال میں جاکر فائرنگ اور شلنگ کریں گے ، وہاں انسانی حقوق، اخلاقیات اور قانونی قدغنوں کی کیا حیثیت ہوگی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مار دھاڑ اور قتل و غارت گری سے مسائل سلجھتے نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر گزشتہ تین دہائیوں میں جنگ و جدل کا یہ سلسلہ مسلسل جاری نہیں رہتا۔ طاقت کے بے جااستعمال کے نتیجے میں عام لوگوں کو وقتی طور خاموش کیا جاسکتا ہے لیکن جب تک اصل مسئلہ موجود رہے گا،آوازیں اُٹھ کھڑا ہوں گی۔ لوگ اپنے جائز اور مبنی برحق حقوق کی مانگ کرتے رہیں گے۔ نوجوان نسل کے کٹ مرنے سے ہر کوئی پریشان ہے، کوئی والد یہ نہیں چاہے گا کہ اُن کا بیٹا سرکاری فورسز کے سامنے کھڑا ہوکر گولیوں کا شکار ہوجائے، کوئی قوم یہ نہیں چاہے گی کہ اُس کی نسل کشی ہوتی رہے، کوئی باشعور قوم امن و امان پر جنگی ماحول کو ترجیح نہیں دے گی۔کشمیری بھی امن کے خواہاں ہیں، اپنے بچوں کے تعلیمی کیرئیر اور ترقی کے خواب دیکھتے ہیں، خوف و ہراس کے ماحول سے نجات چاہتے ہیں لیکن اس سب میں دلی کے حکمرانوں کی ہٹ دھرمی آڑے آتی ہے۔ اگر حکومت ہند خلوص نیت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو نہ صرف کشمیری عوام کو مار ڈھار اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل ہوجاتی بلکہ ہندوستان کی دس لاکھ فوج جو یہاں موجودہے میں شامل اہلکاروں اور اُن کے افراد خانہ کوبھی ذہنی کوفت سے رہائی نصیب ہوتی۔ جو بے تحاشا سرمایہ ہندوستان او رپاکستان کی دفاعی ضروریات پر خرچ ہوتا ہے، جتنا مالی بوجھ کشمیری عوام کو دبانے کے لیے حرب و ضرب کا سامان خریدنے پر صرف ہوتا ہے، اُس سے ہندوستان کے اُن کروڑوں عوام کو کم از کم چھت میسر ہوجاتی جو اکیسویں صدی کے اس زمانے میں بھی سڑکوں، فٹ پاتوںاور شاہراہوں پر کھلے آسمان تلے بے رحم موسم کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہاں انسانی حقوق کی بات کرنے والی عالمی تنظیموں اور ممالک کو بھی اپنے دعوؤں کو جانچ لینا چاہیے کہ کہیں اُن کے عملی طرز عمل اور دعوؤں کے درمیان تضاد تو نہیں ہے۔ آخر وہ کشمیر میں ہورہی ظلم و زیادتیوں پر خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ کشمیر میں وردی پوشوں کے بے رحم ہاتھوں کو انسانی خون بہانے سے روکنے کے لیے اقدامات کریں، بصورت دیگر تاریخ اُنہیں معاف نہیں کرے گی۔بھارتی میڈیا اپنے پروپیگنڈوں میں جو زہر پھیلا رہی ہے بھلے ہی وقتی طور اُس کی مار کشمیری سہہ رہے ہوں لیکن وقت آئے گا جب بھارتی سیاست دانوں اور میڈیا ہاوسوں کی جانب سے پروان چڑھائے جانے والی اس شدت پسندی کا زہر اُن کی اپنی ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا اور پھر وہ اپنی ہی لگائی ہوئی آگ کا مزاہ ضرور چکھ لیں گے۔