تصو ر اقامت دین پر اعتراضات اور اُن کے جوابات۔۔۔۔عمر سلطان

تصو ر اقامت دین پر اعتراضات اور اُن کے جوابات۔۔۔۔عمر سلطان

 ”اقامتِ دین “ کے تصوّ ر ، اس فریضہ کے حصول کے لئے کی جانے والی جدو جہد اور اس جدو جہد کے طریقہ کار پر بعض لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں۔ کچھ لو گ دین اسلام میں اس فریضہ کی حقانیت کے قائل تو ہیں البتہ اس کے حصول کے لئے کی جانے والی جدوجہد کو انبیاءؑ کے ساتھ مخصوص سمجھ کر اسے باقی اُمت کے لئے غیر مطلوبہ عمل قرار دیتے ہیں۔کچھ افراد اسلام میں اس فریضہ کے تصور کے قائل ہی نہیں ہیں اور اسے ”محض ایک ڈھکوسلہ “ سے تعبیر کرتے ہیں۔کچھ دیگر لوگ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تحریک اسلامی کی طرف سے اختیار کئے گئے منہج اور طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہیں۔

ایسے اعتراضات سیّد مودودی کی زندگی میں بھی کئے گئے اور آج بھی کئے جا رہے ہیں۔ سیّدمودودی نے اسلام میں اس فریضہ کی بنیادی حیثیت ، اُمت مسلمہ کے لیے اس کی فرضیت اورتحریک اسلامی کے اختیار کردہ طریقہ کار کی صداقت و معقولیت کے اثبات میں بھر پور عقلی و نقلی دلائل پیش کئے۔سلیم الفطرت لوگ اُن دلائل کے ذریعہ قائل ہوگئے اور ایک بڑی تعداد نے تحریک اسلامی میں عملاً شمولیت اختیار کر کے فریضہ اقامتِ دین کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا۔اس سے بھی بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے اس نظریہ سے اتفاق تو کیا ، لیکن اپنی ذاتی کمزوریوں یا ارادہ کی ناپختگی کے سبب تحریک اسلامی میں عملی شریک نہیں ہو پا رہے ہیں ، البتہ فریضہ اقامت دین کے وہ بہر حال قائل وحمایتی ہیں۔

اُمت مسلمہ میں آج بھی کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کے اس بنیادی فریضے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے اور اس کی مخالفت میں بھی پیش پیش ہے۔ مخالفین میں ”کچھ عناصر اپنی سادگی میں اور کچھ دوسرے مقاصد سے دین کو مسجد، مدرسہ اور گھر کے دائرے میں محدود کرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کا ہدف اسلام کا وہ تصور ہے جو زندگی کی تمام وسعتوں پر حاوی ہے۔ کچھ عناصر کوشش کرتے ہیں کہ تحریکاتِ اسلامی کے تصور ”اقامتِ دین‘ ‘کی اصطلاح کو دین کی سیاسی تعبیر قرار دے کر اس سے اپنی برا ¿ ت کا اظہار کریں۔ کچھ اخلاص سے دین کو ایک محدود دائرے میں محصور کررہے اور دوسرے پوری ہوشیاری کے ساتھ دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔لیکن تحریکاتِ اسلامی تصور ”اقامت ِ دین“ پر اس لیے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے خیال میں اسلام ایک جامع دین ہے اوردین کی جامعیت اس کے معاشرتی ، معاشی ، قانونی، ثقافتی اور سیاسی کردار کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔“

ایک عرصہ سے اس ضرورت کو محسوس کیا جا رہا تھا کہ موجودہ دور میں جو افراد تصور اقامت دین کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور دوسروں کو بھی اس دینی فریضہ کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا کرنے کا باعث بن رہے ہیں ، ان کے نظریات کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے۔

زیر نظر کتاب، ” تصو ر اقامت دین پر اعتراضات اور اُن کے جوابات“ میں ان اعتراضات کے مدلل جوابات دینے کے علاوہ اس قرآنی تصور کے صحیح خدو خال واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کتاب میں قرآن و سنت اور سلف صالحین کے حوالے سے” ا قامت دین “ کی اصطلاح کی تشریح و تفہیم کے ساتھ ساتھ موجودہ سائنسی ترقی و مغربی جمہوریت کے غلبے کے دور میں اقامت دین کے امکانات پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف مسلم اکثریتی ممالک اور غیر مسلم اکثریتی ممالک میں اقامت دین کی جدو جہد کے حوالے سے شرعی نقطہ نظر بھی سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ مختصرسا کتابچہ تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے تین مایہ ناز صاحب نظر قایدین و مفکرین کے علمی مقالات پر مبنی ہے جن میں ڈاکٹر محمد رفعت( مدیر ماہنامہ زندگی نوو چیرمین تصنیفی اکیڈمی نئی دہلی)، سیّد سعادت اللہ حسینی ( نوجوان اسکالر و نائب امیر جماعت اسلامی ہند)، اور ڈاکٹر انیس احمد( وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد پاکستان) شامل ہیں۔ یہ علمی مقالات وقفہ وقفہ سے ”عالمی ترجمان القرآن“ لاہور، اور ماہنامہ زندگی نو نئی دہلی میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

اسلامی جمعیت طلبہ جموںوکشمیر کے اشاعتی شعبہ ، ادارہ ¿ مطبوعات طلبہ جموںوکشمیر نے ان مقالات کی اہمیت کے پیش نظر ایک خوبصورت کتابچہ کی صورت میںان کو مدوّن کر کے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ کتابچہ نہایت ہی خوبصورت طباعت کے ساتھ عمدہ کاغذ پر شائع کیا گیا ہے اور انتہائی کم قیمت پر قارئین کی خدمت میں دستیاب رکھا گیا ہے۔تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو اس کتابچہ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ تاکہ تصور اقامت دین کے متعلق پھیلائے جانے والے اشکالات کا علمی بنیادوں پر تجزیہ سامنے آسکے ۔

٭٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.