یہ اخوانی لٹریچر پر پابندی ہے یا دین پر؟۔۔۔۔۔سید محمد اقبال

یہ اخوانی لٹریچر پر پابندی ہے یا دین پر؟۔۔۔۔۔سید محمد اقبال

اسلامی تحریکوں کا راستہ ہر دور میں مختلف بہانے بنا کر یا الزامات لگا کر روکنے کی کو شش کی گئی تا کہ اصل دین اور کرپشن سے پاک قیادت ملک اور قوم کو میسر نہ آسکے ۔اس وقت پوری دنیا میں تقریبا ہر مسلم ملک میں کو ئی نہ کو ئی ایک ایسی تنظیم یا تحریک ضرور مو جود ہے جو قرآن و سنت کے پیغام کے مطابق دعوت اسلام دینے اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام مروجہ تمام طریقہ کار کے مطابق پر امن طریقے سے اپنے پیغام کو پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔ اپنی دعوت کے پر چار کے لیے ان اسلامی تحریکوں کے پاس سب سے مضبوط ذریعہ ان کے رہنماﺅں کا تحریر کردہ وہ اسلامی لڑیچر ہے جس کے پڑھنے کے بعد ایک مسلم اگر واقعی حق کا متلاشی ہو تا ہے تو وہ اس تحریک کا دست و بازو اور ساتھی بن جاتا ہے۔ یہی وہ لڑیچر ہے جس سے آج مغربی ممالک نہیں بلکہ اسلامی ممالک خوف زدہ ہیں ۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ بین الاقوامی کتب میلے میں اخوان المسلمون کی کتب رکھنے پر ایک اشاعتی ادارے کو بند کردیاگیا۔ اشاعتی ادارے پر الزام لگایا گیا کہ ادارے نے اخوان المسلمون کی کتب رکھ کر اس تنظیم کے افکار و نظریات کو سعودی عرب میں پھیلانے کی کوشش کی ہے۔

اخوان المسلمون جس کے بانی امام حسن البنائؒ شہید ہیں عرب دنیا میں ایک جا نی پہچانی تنظیم ہے اور اس کے افکار اور نظریات سے عرب ممالک میں رہنے والی عوام بخوبی واقف ہے۔ اخوان کا کام تقریبا تمام عرب ممالک کے اندر کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے۔ اخوان نے اپنے نظریات جو دراصل قرآن وسنت ہی کے نظریات ہیں اپنی تحریک کے ذریعے عوام تک پہنچائے۔ اخوان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ دیکھ کر مصر کے نام نہاد حکمرانوں کے ساتھ عرب دنیا کے حکمرانوں اور با دشاہوں کو خطرہ لا حق ہے کہ کہیں یہ اخوان ہماری با دشاہت اور حکمرانی کا خاتمہ نہ کردے ۔یہی وہ خوف تھا کہ جب محمد مرسی اخوان المسلمون کی طرف سے مصر کے منتخب صدر بنے تو اُن کی حکومت کو کثیر سر مایہ خرچ کر کے مغرب کی آشیر باد سے بے سروپا اور جھوٹے الزامات لگا کر فوجی ڈکٹیٹر کے ذریعے ختم کر دیا گیا کہ کہیں یہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سا منے رکھنے والے سب سے بڑھ کر کرپشن سے پاک قیادت والے حکمران عرب دنیا میں نمو نہ تقلید نہ بن جا ئیں کہ ہمارے لیے مشکلات کا باعث بنیں اور عوام اخوان کی طرف راغب نہ ہو جائے کیو نکہ روشنی کو پھیلنے سے کو ئی نہیں روک سکتا ۔اسی لیے اخوان کی منتخب شدہ حکومت گرا کر ا ±س دین کی روشنی کو پھیلنے سے روک دیا گیا ۔نہ چراغ ہو گا نہ روشنی ہو گی ،اسی لیے اخوان کے رہنما آج پابند سلاسل ہیں بلکہ ان کے لڑیچر پر بھی پا بندی عائد کر دی گئی ہے۔

اخوان کی حکو مت جب سے جنرل عبدالفتح السیسی نے فوجی طاقت کے بل پر بلکہ بیرونی آقاﺅں کے اشاروں پر ختم کر کے خود کرسی صدارت پر براجمان ہیں اس وقت سے لے کر آج تک مصر کی حکومت معاشی و اقتصادی لحاظ سے بد ترین حکو مت ثابت ہو ئی ہے۔ مہنگائی میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے قرضے کئی گنا بڑھ چکے ہیں، ملک کے تمام امور IMFاور ورلڈبینک سے قرضے لے کر چلائے جا رہے ہیں۔ السیسی کے بزور طاقت اقتدار حاصل کر نے کے بعد جہاں ملک امن و امان اور معاشی لحاظ سے بد ترین دور سے گزر رہا ہے وہاں فلسطین کی تحریک آزادی کو بھی سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محمد مرسی کی حکومت گرانے اور فو جی ڈکٹیٹرالسیسی کو منصب صدارت پر بٹھانے میں سعودی حکومت کا اہم کردار ہے۔ اس بات کا واضح ثبوت وہ تصاویر ہیں جن میں جنرل الفتح السیسی سعودی با دشاہ سے ملاقات کر رہے ہیں اور جنرل سیسی بادشاہ کے پاﺅں پکڑے زمین پر بیٹھے ہیں۔ اسی طرح عمرے کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ کا طواف کرتے ہو ئے مصری صدر بہادر جنرل السیسی کے لیے فوجی جوانوں کی ایک نہیں دو نہیں کئی قطاروں پر مشتمل حفاظتی دیوار بنا کر طواف کرانا کس وجہ سے تھا۔ اس سے واضح ہو تا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے سیسی جس اللہ کے دین کو اپنے ملک میں پاﺅں تلے روند کر پا بندیوں میں جکڑ تے ہیں اسی دین کی ایک عبادت کو ادا کرنے کے لیے اللہ کے گھر کا طواف سخت سیکورٹی حصار میں کرتے ہیں ، تا کہ اپنے آپ کو دین اسلام کا پیرو ثابت کر سکے۔ یہ وہی طرز عمل ہے جو کفار مکہ کا تھا، ابو جہل روزانہ اپنے دن کا آغاز بیت اللہ کا طواف کر کے کیا کرتا تھا اور اپنے آپ کو مسلم اور مسلمانوں کو دین سے پھرے ہو ئے لو گوں میں شمار کرتا تھا لیکن ابو جہل یہ بات اچھی طرح جا نتا تھا کہ اگر محمد کی دعوت غالب آگئی تو اس کے اقتدار کا خا تمہ ہو جائے گا اور اُن کی دکانداری بھی ختم ہو جائے گی۔ اس لیے ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے محمد کا دین غا لب نہ آنے پائے لیکن اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور دنیا کی کا میابی اصل کا میابی نہیں بلکہ آخرت کی کا میابی ہی اصل ہے ،مگر ہمارے دنیا پرست حکمران اپنے اقتدار کے لیے دین اسلام ہی کے دشمن بنے ہو ئے ہیں اور ان کو بھی کرپشن سے پاک اصل دعوت دین پیش کر نے والے اسلام پسندوں سے خطرہ رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری دکانداری ختم نہ کر دیں ،اس لیے ان مسلم حکمرانوں نے اسلام کا نام تو استعمال کیا لیکن اسلام کا نفاذ نہیں کیا۔

ان حکمرانوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ قرآن پر بھی پا بندی لگا دیں اور اس حوالے سے ہم نے یہ بات سنی ہے کہ قرآن کو ا ±س وقت تک نہ پڑھا جائے جب تک کسی فرد کو یہ اور یہ علوم پر دسترس حاصل نہ ہو یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے بھیجی گئی ہدایت کی کتاب قرآن سے دور رکھنے ہی کا ایک بہا نہ ہے جس طرح اہل مکہ نے قرآن سننے کے حوالے سے پرو پیگنڈا کیا ہوا تھا کہ کو ئی قرآن کو نہ سنے کیو نکہ جو بھی قرآن کو سنتا ہے وہ اپنے باپ دادا کے دین سے پھر جاتا ہے، شاید سعودی حکمران بھی یہی سمجھتے ہوں کہ اخوان کے لڑیچر میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سر زمین عرب کے رہنے والوں کو اپنی جا نب متوجہ کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس پر پا بندی لگا دی جائے۔ نہ کتاب نظر آئی گی ،نہ لوگ خریدیں گے اور نہ مطا لعہ ہو گا اور نہ اخوان کے نظریات لوگوں تک پہنچیں گے۔

لیکن حکمرانوں کی عقل پر ماتم کر نے کا دل چاہتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے انٹر نیٹ کا زمانہ ہے اور جن لوگوں نے انٹر نیٹ ایجاد کیا انھوں نے اسلامی تحریکوں پر پا بندی نہیںلگائی کہ آپ لوگ اس ایجاد کے ذریعے اپنے افکار اور نظریات کا پر چار نہیں کر سکتے تو ہمارے مسلم ممالک کے حکمران کس طرح اسلام کی دعوت کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔ ایک طرف سعودی حکمران اپنے ملک میں اکیسویں صدی کا تذکرہ کرتے ہو ئے جدیدیت کے قائل ہو تے ہو ئے مغربی کلچر کو اختیار کر نے کی آزادی دے رہے ہیں تو دوسری طرف اسلامک لڑیچر پر پا بندی لگا رہے ہیں۔ مخلوط محافل کی اجازت اور سینما گھروں کو کھو لنے سمیت بے شمار ایسے اقدا مات کیے جا رہے ہیں جو مغرب کو خوش کر نے کے لیے ہی ہو سکتے ہیں۔ ان اقدامات کے پیچھے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا تذکرہ کیا جاتا ہے کیو نکہ وہ اسلام پسندوں سے سخت نفرت رکھتے ہیں جو عورت اور مرد کی مخلوط محافل کو روکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ سعودیہ جو اسلام کے سخت قوانین کے حوالے سے مشہور تھا کیا ولی عہد کو اپنا بادشاہ بنا نا پسند کریں گے جو ابھی ولی عہد ہو تے ہو ئے اپنے ملک میں رائج دینی روایات اور ثقافت سے لڑ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مغربی ثقافت کو پروان چڑھا رہے ہیں، اگر وہ با دشاہ بن گئے تو پھر کیا ہو گا ۔ولی عہد جو خود بھی بادشاہ بننے کے خواہش مند ہیں اور ولی عہد نے اپنی اس بادشاہ بننے کی خواہش کا اظہار ایک امریکی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا کہ مجھے سوائے موت کے کو ئی بادشاہ بننے سے نہیں روک سکتا۔

کیا عالم اسلام مستقبل قریب میں سعودی حکمرانوں سے یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ اسلام کی تقویت کا باعث بنیں گے۔ عالم اسلام کے حوالے سے یہ ایک سوالیہ نشان ہے مگر جو لوگ آج کے مسلم حکمرانوں سے محمد بن قاسم اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا کردار ادا کرنے کی خو اہش رکھتے ہیں وہ گزشتہ نصف صدی کے مسلم حکمرانوں کی کار کردگی دیکھ لیں، سوائے امت کی تباہی و بر بادی کے کچھ نہیں ملے گا اس لیے امت مسلمہ ان لو گوں کا ساتھ دے جو واقعی امت کا درد رکھتے ہیں۔ سعودی ولی عہد جو نو جوانوں میں خاصے مقبول ہیں اگر وہ امت کے اتحاد اور روشن مستقبل کے لیے کو ئی لا ئحہ عمل دے سکتے ہیں تو اس پر کام کریں، اگر ولی عہد یا مسلم حکمران امت مسلمہ اور دین اسلام کے اقتدار کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو وہ ایسے اقدامات سے بھی باز رہیں جن سے اللہ کی پکڑ لازم ہو جاتی ہے اگر یہاں پکڑ نہ بھی ہوئی تو مسلم حکمران یاد رکھیں اقتدار ایک دن ختم ہو جاتا ہے مگر اللہ کا دین اور اس کے لیے کام کر نے والے زندہ رہتے ہیں کیو نکہ اللہ نے دین اسلام کو دوام بخشا ہے مسلمان کو نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.