صوبہ جموں کے کٹھوعہ ضلع میں ہوئے بھیانک قتل اور اجتماعی عصمت دری کی واردات کی جانب اگر چہ عالمی اور ہندوستانی میڈیا نے تین ماہ بعد زبان کھولی اور ہر جانب مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کی دہائیاںدی جانے لگی ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کیس کا انجام کیا ہوگا ، ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہر کوئی اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے۔ ۸؍برس کی اس معصوم بچی کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا گیا، وہ دوسرے جرائم کی طرح محض ایک بھیانک جرم ہی نہیں تھا، نہ ہی ہندوستان بھر میں بڑھتی ہوئی جنسی زیادتیوں کی طرح ایک اور معصوم لڑکی سے درندہ صفت انسانوں کا وحشیانہ سلوک ہے بلکہ اس سب کے پیچھے ایک گہری سازش کار فرما رہی ہے۔ یہ واردات منصوبہ بندطریقے سے سیاسی اثرورسوخ کے حاملین لوگوں نے انجام دی ہے۔ جیسا کہ کرائم برانچ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کٹھوعہ کے رسانہ علاقے کے رہائشی گجر بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں جن کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے میں محض تین فیصد ہے کو وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے یہ سازش رچی گئی ۔ اس وحشیانہ حرکت کا ارتکاب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ علاقے کے غریب اور کمزور مسلمان خوف زدہ ہوکر وہاں سے فرار ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کرائم برانچ نے عوامی دباؤ کے نتیجے میں ملزمان کو گرفتار کیا تو ہندو ایکتا منچ نامی بی جے پی کی پراکسی تنظیم کے بینر تلے ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا ، جس میں ہندوستانی پرچم لہرانے کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے دو کابینہ وزیر وں نے بھی نہ صرف شرکت کی بلکہ اُنہوں نے ریلی سے اپنے خطاب میں آصفہ کے کیس میں گرفتار کیے گئے ملزمان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف غیر شائستہ زبان بھی استعمال کی۔سابق وزیر جنگلات لال سنگھ نے ڈوگری زبان میں تقریر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ۱۹۴۷ء سے لے آج تک یہاں بہت ساری خواتین غائب ہوئی ہیں، اُن کا واضع اشارہ تقسیم ہند کے بعد مسلم کش فسادات کی جانب تھا ۔ بی جے پی کے جن دو وزیروں نے ہندو ایکتا منچ میں شرکت کرکے آگ میں پیٹرول چھڑکنے کی کوشش کی اور جس کو بعد میں دکھاوے کے لیے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بدقسمتی سے تعبیر بھی کیا ہے، میں سے ایک چودھری لعل کے ہاتھوں مفتی محمد سعید نے اپنے دور اقتدار میں کٹھوعہ میں فٹ بال ٹورنامنٹ کا افتتاح کروایاجبکہ دوسرے کو محبوبہ مفتی نے کشمیر چیمبر آف کامرس کے اجلاس کے دوران مہمان خصوصی کی حیثیت سے بٹھا دیا تھا۔گویا جو لوگ جموں میں مسلمانوں کا جینا حرام کرنا چاہتے ہیں اُن کے ساتھ پی ڈی پی کا یارانہ کافی گہرا ہے۔ہندو ایکتا منچ کی تخلیق خالص بی جے پی کی ہی نہیں ہے بلکہ مقامی سطح پر اس میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس، کانگریس اور دوسری مقامی جماعتوں سے وابستہ افراد بھی ساجے داررہے ہیں۔اب جبکہ یہ سانحہ دنیا بھرمیں توجہ کا مرکز بن گیا ہے، یہاں کی ہند نواز جماعتیں عبرت حاصل کرنے اوراپنے اعمال کا احتساب کرنے کے بجائے سیاسی نمبر حاصل کرنے میں جٹ چکے ہیں۔
جب ہندوتوا کے ایجنڈے میں رنگ بھرنے والی طاقتوں کو کٹھوعہ میں ہندو ایکتا منچ نامی پیلٹ فارم کے اہتمام سے منعقد کی جانے والی ریلی سے ملزمان کی رہائی کا کام نہ بن پایا تو قانون کی راہ میں روڑے اٹکانے اور دباؤ بڑھانے کے لیے کٹھوعہ اور جموں کی بارایسویشنز کا استعمال کیا گیا۔ جموں بار ایسویشن نے جموں بند کا اعلان کیا ، آصفہ کے کیس کی پیروی کرنے والے خاتون وکیل کو ڈرایا دھمکایا گیااور کٹھوعہ کی بار ایسویشن سے تعلق رکھنے والے وکلاء نے قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے عمل میں رخنہ ڈال کر کرائم برانچ کو اس کیس کے سلسلے میں چارج شیٹ ہی داخل نہ کرنے دینے کی کوشش کی۔ کورٹ میں متعلقہ جج نے بھی چالان قبول کرنے میں چھ گھنٹوں کا وقت لیا۔ گویا ہر سطح پر ملزمان کو بچانے کی کوششیں کی گئی اور ابھی بھی جو ماحول بنایا جارہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ آنے والے وقت میں اس کیس کو کسی اور ہی سمت میں لے جانے کی دانستہ کوشش کی جاسکتی ہے۔تحقیقات کو غلط رُخ دینے کی نیت سے دلی کی فرقہ پرست لابی سی بی آئی انکوائری کی مانگ کررہی ہے اور پی ایم او آفس کے ساتھ تعینات بی جے پی لیڈرجتندر سنگھ نے اپنے ایک بیان میں کہہ دیا ہے کہ ’’حکومت کو کیس سی بی آئی کے سپرد کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ، اگر ریاستی حکومت ایسا کہے گی۔‘‘
فی الوقت سیاسی مصلحتوں ،بیرونی میڈیا کی کوریج اور عوامی دباؤ کے پیش نظر یہ کیس صحیح نہج پرجاتورہا ہے البتہ ملزمان کو کیا قرار واقعی سزا مل پائے گی؟ کیا آصفہ اور اُن کے والدین و لواحقین کے ساتھ ساتھ یہاں کے مسلمانوں کو انصاف ملے گا؟ فرقہ پرستوں کے جھکڑے ہوئے سسٹم میں ایسی کوئی اُمید بظاہر نظر نہیں آرہی ہے۔ریاست جموں وکشمیر میں اس سے قبل۲۰۰۶ء کے بدنام زمانہ جنسی اسکینڈل میں بھی تحقیقاتی ایجنسیوں نے ہائی پروفائل ملزمان کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ اُن کے خلاف چالان بھی کورٹ میں پیش کیا۔ اُس کیس میں سی بی آئی نے تحقیقات کی اور اُس اسکینڈل میں مبینہ طور جس لوگوں کا نام آیا تھا اُن میں سینئر بیروکریٹ، پولیس افسر، بی ایس ایف کا ایک اعلیٰ افسر، سیاست دانوں کے علاوہ کئی تاجر شامل ہیں۔ اُن میں سے کئی لوگوں کو سی بی آئی نے گرفتار بھی کرلیا تھا۔ عوامی اشتعال کے پیش نظر کورٹ میں چالان بھی پیش کیا گیا۔ پھر جوں ہی عوامی غصہ ٹھنڈا پڑھ گیا، اُس کیس کو پہلے چندی گڑھ منتقل کردیا گیا پھر ایک ایک کرکے تمام ملزمان کو رہا کردیا گیا۔ ہمارے سامنے شوپیان کی آسیہ او رنیلوفر کا کیس بھی موجود ہے کہ کس طرح اُس کیس کو بھی دبایا گیا اور اُس میں ملوث درندوں کی پردہ پوشی کی گئی۔۱۹۹۰ء میں کنن پوشہ پورہ کے ایک ہی دیہات میں ایک سو کے قریب عزت مآب خواتین کی عصمتیں تار تار کی گئیں۔ دنیا میں اُس سانحہ کو لے کر غم و غصے کا اظہار کیا گیا لیکن یہاں قانون کی پاسداری کرنے والے اداروں نے آج تک اُس سانحہ میں ملوث وردی پوشوں کو کوئی سزا نہیں دی۔کشمیری عوام کا یہاں رائج قانون اور قانونی رکھوالوں کے کردار پر ذرہ برابر بھی بھروسہ نہیں رہا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا صحیح ہوگا کہ آصفہ کے کیس میں ملوث مجرمین کو دیر سویر اُن کے فرقہ پرست سیاسی ماسٹر چھڑوا ہی لیں گے۔ ہندوستان میں جنسی زیادتیوں کے معاملے میں ۲۰۱۶ء کے مقابلے میں۲۰۱۷ء میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ اس بات کا شاخشانہ ہے کہ درندگی میں ملوث کسی بھی مجرم کو آج تک سر راہ لٹکایا نہیں گیا۔ ملزمان گرفتار بھی ہوجاتے ہیں، اکثر کیسوں میں ملزمان عدالتوں سے چھوٹ کر آجاتے ہیں اور اگر کسی کوکورٹ کی جانب سے سزا سنائی بھی جاتی تو اُس پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔ بٹہ پورہ ہندواڑہ کی معصوم تابندہ غنی کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ اُنہیں بھی آصفہ کی طرح سر راہ پکڑ کرپہلے اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا گیا ، پھر بڑی ہی بے دردی کے ساتھ اُن کا گلا کاٹ کرقتل کیا گیا۔ مجرم پکڑے بھی گئے لیکن جون2007 سے اُنہیں ابھی تک سزا نہیں ہوئی۔حالانکہ آصفہ کی طرح اُن دنوں بھی عوامی غم و غصہ آسمان پر تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تابندہ غنی کا وہ درد اُن کے والدین تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی نے اُن کو انصاف فراہم نہیں کیا، وہ آج بھی اُس دن کا انتظار کررہے ہیں جب اُن کی 13 ؍سال کی معصوم بچی کی عصمت تار تار کرنے والوں اور قاتلوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ اُن کا یہ انتظار کبھی ختم ہونے والا نہیں کیونکہ بھارت میں پھانسی پر پابندی عائد کرنے کی مانگ زور پکڑ رہی ہے اور عملاً بھی عصمت دری کے معاملوں میں مجرمین کو پھانسی نہیں دی جاتی ہے، یہ ملک کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے افضل گورو اور محمد مقبول بٹ جیسے لیڈروں کو تختہ دار پر چڑھانے میں اُتاولے پن کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، یہاں پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے یعقوب میمن اور اجمل قصاب جیسے لوگوں کو پھانسی گھاٹ تو لے جایا جائے گا لیکن آصفہ ، تابندہ، نیلوفر اور آسیہ کے مجرموں کو پھانسی تو دور کی بات اُنہیں مجرم قرار دینے سے بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ سیاسی کھیل کھیلنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کیا جائے گا ۔آصفہ کے کیس میں بھی وہی سب کچھ ہوگا جومعصوم وپھول جیسی بچی تابندہ غنی کے معاملے میں ہوا ہے۔
کٹھوعہ سانحہ نے انڈین سسٹم کے اجتماعی مائنڈ سیٹ کو بھی بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ پہلے تین ماہ تک پورے ہندوستان میں قبرستان کی خاموشی چھائی ہوئی تھی، کسی نے معصوم آصفہ کے حق میں چند بول بولنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی، آصفہ کے خاندان والے جو انصاف کی دُہائیاں دے رہے تھے او رجموں میں احتجاج کررہے تھے اُنہیں طرح طرح سے ہراساں کیا گیا لیکن ایک دم سے تین ماہ بعد دلی میں قائم پورے میڈیا کی توجہ کٹھوعہ کی جانب مرکوز ہوئی، ایسا کیوں؟دراصل انڈین میڈیا سے قبل بین الاقوامی میڈیا نے اس سانحہ کو نمایاں طور پر کوریج دے کر دنیا کو یہاں ہورہے ظلم و جبر اور بربریت سے آگاہ کردیا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں انڈین میڈیا کی لگام ہے اُنہوں نے اپنی یک طرفہ صحافت اور صحافتی بددیانتی پرپردہ ڈالنے کے لیے ایسا کرنے کے لیے میڈیا اداروں کو کہا ہوگا۔ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وادی کشمیر میں یکم اپریل سے ۱۵؍اپریل تک تیس کے قریب نوجوانوں کا خون بہایا گیا اور سینکڑوں کو مضروب کردیا گیا۔ ہلاکتوں کے خلاف متحدہ مزاحمتی قیادت نے عوام کو ایجی ٹیشن کے لیے تیاررہنے تک کی اپیل کی ۔معصوم نوجوانوں کو بغیر کسی اشتعال کے گولیوں سے ڈالنے اور بڑے پیمانے پر ظلم وزیادتیوں کے پیش نظر کشمیری عوام میں شدید قسم کا غم و غصہ بھی پایا جارہا تھا۔ عوام کے ساتھ ساتھ کشمیر میں ہورہے سانحات سے باہری دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے ہندوستانی اداروں کو بدنصیب آصفہ کی یاد آئی ہے۔حد تو یہ ہے کہ جس کشمیری سماج نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہر موقعے پر یہاں انصاف کا خون ہوتا ہوا دیکھا ہے وہی سماج آصفہ کے معاملے میں آج اُسی سسٹم سے انصاف کی فریاد کررہا ہے جس سسٹم کی اصلیت ہم پر کنن پوش پورہ ، آسیہ اور نیلوفر ، ۲۰۰۶ء کے جنسی اسکینڈل اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے سانحات میں انصاف کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے واضح ہوئی تھی۔کشمیر حالات کا پورا بیانیہ ہی تبدیل کردیا گیا ۔ اب جبکہ پورا بیانیہ ہی تبدیل ہوا ہے بھارتی میڈیا نے آہستہ آہستہ آصفہ معاملے میں سی بی آئی انکوائری کے حق میں ماحول تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ سی بی آئی کو لایا جائے گا اور انکوائری از سر نو کی جائے گی، اصل مجرم چھوٹ جائیں گے اورمعاملہ گول کردیا جائے گا۔مسلم کمیونٹی میں اس طرح کے اندیشوں کو تقویت ملنے کے ہزار وجوہات ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ مکہ مسجد بلاسٹ میں جن ہندودہشت گردوں کو باعزت بری کردیا گیا اُن کی رہائی کے بارے میں اب یہ خبریں شائع ہورہی ہیں کہ جس ایجنسی نے اُنہیں ملزم ٹھہرایا تھا اُنہوں نے ہی اس کیس میں نرمی برتنے کے ہدایات جاری کیے تھے، نیز جس جج نے اُنہیں چھوڑ دیا اُس نے از خود اعتراف کرلیا ہے کہ وہ سخت گیر ہندو تنظیم کا ممبر رہ چکا ہے۔گجرات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے قاتل اور عصمتوں کے لٹیرے ایک ایک کرکے بے گناہ ثابت کیے جارہے ہیں۔
نہ صرف ریاستی عوام بلکہ ہندوستان میں بھی جو لوگ حقیقی معنوں میں عزت پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی کڑی سے کڑی سزا دینے کے خواہش مند ہیں ،اُنہیں یہ مانگ کرنی چاہیے کہ آصفہ کے معاملے میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کیس کی نگرانی کرے اور مجرموں کو بین الاقوامی عدالتوں کے ذریعے سزا سنائی جائے۔اُسی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے ہونے کی اُمید ہے، بصورت دیگر آصفہ کے مجرم سزا سے بچ بھی جائیں گے اور عوام کو پھر سے کسی آصفہ کے شکار بننے کی منحوس خبر سننے کو ملے گی۔ ساتھ ہی ساتھ عوام کو برسر اقتدار طبقوں کے سامنے انصاف کے لیے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اُن پر واضح کردینا چاہیے کہ کسی بیٹی کی عزت و عصمت پر ڈاکے عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین اسلام عدل کا دین ہے، بدکاری اور قتل کے لیے جو سنگین سزائیں قرآن و سنت نے مقرر کررکھی ہیں اُن پر اگر عمل ہوتا تو یقینا آدم کے اولاد کی عزت ، عصمت اور آبرو محفوظ ہوجاتی۔ بہتر یہی ہے کہ اُمت کا سواد اعظم خدائی قانون کے نفاذکو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کریںتاکہ اُمت کی بیٹیاں محفوظ رہ سکیں اور انسانیت کو امن و سکون میسر آجائے۔
[email protected]