غلام محمد بابا المعروف خرقہ صاحب: ایک ملاقات

غلام محمد بابا المعروف خرقہ صاحب: ایک ملاقات

نام:                           غلام محمد بابا المعروف خرقہ

ولدیت:                     مرحوم عبد العزیز بابا خرقہ

سکونت:                  چرار شریف

تاریخ پیدائش:          19اپریل 1940ء

تعلیمی قابلیت:         میٹرک پاس 1954.1957

پیشہ:                       گیارہ سال تک سرکاری ملازمت، بعد میں ملازمت سے دست کش ہوا، تحصیل چاڈورہ میں صرف حلقہ چرار شریف تھا۔ لہٰذا ملازمت چھوڑکر بحیثیت امیر تحصیل کام کا آغاز کیا۔۱۹۷۵ءمیں جماعت پر پابندی عائد ہونے کے بعد دکانداری کا کام۔ ۲۰۰۰ تا ۲۰۰۵ءتک بحیثیت امیر ضلع کام کیا۔ ریٹائر ہو کر گھر پر بیٹھ گیا۔ لہٰذا ۲۰۰۵ءکے بعد کوئی پیشہ نہیںہے۔

ان دونوں سوالات کے جوابات میںتھوڑا بہت تفصیل کی ضرورت ہے تاکہ راقم کا تحریک اسلامی سے تعلق اور قصبہ چرار شریفک میں تحریکی کام کا آغاز کن حالات میں ہوا:

راقم کا تعلق چرار شریف میں شیخ نور الدین ولی  کی زیارت گاہ کے سجادہ نشین خاندان سے ہے۔ ہمارا آبائی پیشہ بھی اسی کی آمدنی سے وابستہ تھا۔ قدرتی بات ہے کہ راقم کے اعتقادات بھی وہی تھے جو آباواجداد سے منسلک تھے۔

بچپن میں ہی والد صاحب کے سایہ سے محروم ہونا پڑا تھا۔ والدہ صاحبہ نے میری تعلیم وتربیت پر پورے کا پورا دھیان دیا۔ وہ بہت ہی دین پسند، صوم وصلوٰة کی پابند، زیرک اور سخن عورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن سے میرے عادات دوسرے بچوںسے الگ تھے۔ ماںکی بدولت ہی می ںبچپن سے ہی نمازوں کا پابند اور فرض روزہ ہی نہیں بلکہ ماں کے ساتھ نفل روزے بھی رکھتا تھا۔ سکول میں سارے استاد صاحبان مجھ سے بہت پیار کرتے تھے، ابھی میں دسویں میں پڑھ رہا تھا کہ ایک دن میری ماں اچانک اس دنیائے فانی سے کلمہ طیبہ زبان پر جاری رکھتی ہوئی چل بسی۔ اللہ پاک اس کو جنت کی نعمتوں سے نواز دے۔

راقم نے میٹرک پاس کر کے ویٹنری محکمہ میں ملازمت اختیار کی تھی پہلی پوسٹنگ بھدرواہ میں ہوئی۔ وہاں چھ مہینے رہا، وہاں ایک دکاندار سے اسلامی ناولیں کرایہ پر پڑھنے کو لاتا تھا۔ ان چھ مہینوں میں راقم نے کافی تعداد میں ان اسلامی ناولوں کا مطالعہ کیا۔ جن کہ وجہ سے اسلامی تہذیب اور تاریخ میں کافی محارت حاصل ہو گئی تھی۔ بھدرواہ سے تبدیل ہو کر وادی کشمیر میں آگیا۔ یہاں بیروہ میںویٹنری کے نزدیک پرائیوٹ مظہر الحق ہائی سکول چل رہا تھا جس کو اس زمانہ کا جامع مسجد کا میر واعظ مرھوم علی شاہ صاحب چلا رہے تھے۔ اس ہائی اسکول میں اسلامیات پر کافی تعداد میں لٹریچر میسر تھا۔ بیروہ میں بھی راقم نے صرف چھ ہی مہینے ڈیوٹی دے دی تھی۔ ان چھ مہینوں میں راقم نے وہاں علامہ شبلی نعمانیؒ کی سیرت النبیﷺ کی پہلی دو جلد، اور الفاروق کا مطالعہ کیا۔ اقبالیات پر شرح بانگ درا اور بال جبریل کو پڑھا اور اسی دوراں مطالعہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میںبیان سبحانی کا مطالعہ۔

۱۹۶۱ءکے اوائل میں چرار شریف تبدیل ہو کر آیا۔ یہاں آکر بھی تاریخ اسلامی کا مطالعہ جاری رکھا۔ ستمبر۱۹۶۱ء  میں شادی کی۔ اہلیہ اَن پڑھ تھی۔ اس کو قرآن پڑھایا۔ اور نماز پڑھانی سکھائی اور اس کو قرآن پڑھنی والی اور نمازی بنا دیا۔ یہ فضل الٰہی ہی تھا۔ آگے چل کر اس پاک طینت عورت نے میرا کیسا ساتھ نبھایا یہ خدا ہی جانتا ہے۔

چرار شریف میں ہائر سیکنڈری سکول چند سال پہلے قائم ہو چکا تھا۔ مرحوم قاری صاحبؒ وہاں چند ہی مہینے ڈیوٹی دیدی تھی۔ اور مودودیؒ کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ ان کے بعد انہی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے محترم محمد شفیع قاری یہاں تبدیل ہو کر آئے تھے اور ان کے ساتھ محترم صفی صاحب کے بھائی مرحوم عبد العزیز بھی تبدیل ہو کر آئے تھے۔ دونوں حضرات نے مل کر چند نوجوانوں کو ساتھ ملا کر چرار شریف میں ایک لائبریری قائم کی اور اس میں زیادہ تر لٹریچر مولانا مودودیؒ کا رکھا گیا تھا۔ جب مطالعہ کا حلقہ بڑھتا گیا تو چرار شریف میں مشہور ہوا کہ یہاںمودودیؒ ازم کا پرچار کیاجا رہا ہے۔ مخالفت نے زور پکڑا مگر پھر بھی دست اندازی سے اجتناب کیا جا رہا تھا۔ اسی زمانہ میں چرار شریف زیارت گاہ کی تعمیر زیر نگرانی بخشی غلام محمد چل رہا تھا۔ اس لیے وقتاً فوقتاً وہ خود آکر کام کا جائزہ لیا کرتا تھا۔ ایک دن وہ یہاں آیا تو لوگوں نے اس سے شکایت کی سکول کے دو اساتذہ صاحبان یہاں پر نوجوانوں میں بداعتقادی پھیلا رہے ہیں۔ بخشی غلام محمد نے ان نوجوانوں کو بلوایا اور اپنے سامنے ان کو مار پیٹ کروائی اور لائبریری کو تتر بتر کروایا۔ان دونوں اساتذہ کو تبدیل کر دیا گیا۔اس وقت راقم ڈیوٹی کے سلسلے میں چرار شریف باہر تھا۔بعد میں جب سنا تو میں نے بھی خوشی محسوس کی۔کیونکہ راقم میٹرک کے وقت سے ہی جماعت اسلامی نام سے نفرت کرتا تھا۔کیونکہ دوران میٹرک میرا اکثر نواب بازار سے گزر ہوتا تھا۔وہاں ہی” مودودی ازم“ کے نام سنا تھا۔اور یہ نام اتنا بودا لگ رہا تھا۔گویا مجھے کھانے کو آجائے۔اس پس منظر کو مد نظررکھ کر راقم کا جماعت کے ساتھ وابستگی کی داستان حسب ذیل ہے۔

مارچ۱۹۴۲ءکا مہینہ تھا۔راقم چرار شریف میں ہی ڈیوٹی دے رہا تھا۔یہاںکے ہائر سکینڈری سکول میںایک عربی استاد تھا۔ نام محمد حسین چستی تھا۔جامع مسجد سرینگر کا رہنے والا تھا۔یہاں میرے دوست کے ہاں ڈیرہ تھا۔انھیں اس کے ساتھ تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ایک دن میں نے پوچھا۔محترم کیا آپ کو کسی ایسی تفسیر کے بارے میںمعلوم ہے۔جو آدمی کو مطمئن کرسکتا ہے۔اور اس کے دل سے ابھرنے والے سوالات کا جواب بتا سکتا ہے۔مثلاََاگر اللہ”رب عالمین“ ہے تو اس کا مدعا ومطلب کیا ہے۔اس نے کہا۔ہاں ہے۔مگرپھر توقف کیا۔اس خاموشی نے میری آرزو کو مزید بڑھایا۔تو اس سے کہا بتائے نا کہ کونسی تفسیرہے اورکہاں ملے گی۔جب اس نے میری تڑپ کو محسوس کیا۔تو بتا دیا کہ یہ تفہیم القرآن ہے۔نواب بازار جماعت ِاسلامی کے مکتبہ سے ملے گا۔یہ نام سن کرمیری نفرت پھر ابھر کر سامنے آئی۔مگر اللہ کو میرے حق میں یہی منظور تھا۔کہ حق پر قائم ہوجاﺅں۔میری جستجو میں اضافہ ہوا۔دوسرے ہی دن تفہیم القرآن خرید کر لایا۔اور تفہیم القرآن کا مطالعہ شروع کیا۔جوں جوں میں مطالعہ کرتا گیا میرے انگ انگ میںحرارت بڑھتی گئی۔اکیلا تھا۔کوئی نہ تھا جس کو درد کا شریک بنا دیتا۔میں پاگل سا ہوگیا تھا۔دل میں آگ لگ گئی تھی۔جو بڑھتی ہی جارہی تھی۔اپنے ہی ماحول میں اجنبی لگنے لگا۔اپنی اہلیہ کو بھی نہ بتا سکتا تھا کیونکہ وہ قرآن شریف ہی راقم سے سیکھ رہی تھی۔مجھ سے عمر میںپانچ سال چھوٹی بھی تھی یعنی اٹھارہ سال کی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ میں کہہ نہیں سکتا ہوںکہ میرا کیا حال ہورہا تھا۔

دن گزرتے گئے اب میں تفہیم القرآن کے مطالعہ میں غرق ہو کر رہ گیا تھا۔جولائی ۴۲ئ میں بھائی سے بھی الگ ہوگیا۔کیونکہ اب آبائی معاش بھی غلط تھا۔سب کچھ بھائی صاحب کو چھوڑ دیا۔ میںصرف ایک درجن برتن اور ایک بسترہ ساتھ لے کر گھر سے نکل پڑا۔اور ”ماسی“ کے ہاں ایک کمرہ میںہم میاں بیوی رہنے لگے۔ یہاں آکر اب بیوی کو نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ تک تفہیم القرآن سے بنیادی باتیں سکھا تا رہا۔

تفہیم القرآن کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ نواب بازار سے مولانا سیدمودودیؒ کی کتابیں خرید کر بھی لایا کر تا تھا اوراور ان کا بھی مطالعہ ساتھ ساتھ جاری رہا۔ میرے بھائی سے الگ ہونے کے بعد میں نے آہستہ آہستہ اپنے دوستوں سے رابطہ بڑھایا۔ اور ان کو اپنے پاس لا کر کسی نہ کسی کتاب سے کچھ نہ کچھ پڑھا کے سناتا تھا۔ اور اس طرح بعد میں ان کو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھنے کو دیتا تھا۔ خاص کر خطبات اول، دوم، سوم، سلامتی کا راستہ، شہادت حق وغیرہ۔ آخر کار دوچار ساتھی مل گئے تھے۔ ان کے ڈیرہ والے کا لڑکا بھی میرا دوست تھا۔ اور خطبات حصہ اول بھی پڑھا تھا۔ اس نے قاری صاحب سے کہا کہ اس طرح یہاں میرا ایک دوست غلام محمد خرقہ کتابیں پڑھنے کو دیدیا کرتا ہے۔ تو مرحوم نے مجھے بلاوا بھیج دیا۔ میں گیا اور انہوںنے جب میرے بارے میں سب کچھ سنا، تو وہ بھاگ بھاگ ہو گئے۔ اور میری ہمت افزائی کی، بعد میں مرحوم تین چار مہینے کے بعد یہاں تشریف لائے اور مجھے ڈیرہ پر بلا لینے اور اپنی تربیت سے سنوارتے جاتے تھے۔ اللہ پاک مرحوم کو اجر عظیم سے نوازے۔

جماعت اسلامی سے راقم کا دلی لگاﺅ پیدا ہہو گیا تھا۔ ۱۹۶۴ءکے اگست مہینے میں ضلع سرینگر کا سالانہ اجتماع گاﺅ کدل میںایک مکان کے ہال میں منعقد کیا گیا تھا۔ راقم پہلی بار جماعت کے اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں ضلعی نظم کے ساتھ ساتھ مرکزی نظم کے سبھی معززین شامل تھے۔ راقم کی نظریں جب امیر محترم مولانا سعد الدینؒ کے نورانی چہرہ پر پڑ گئیں تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اور بار بار دیکھتا رہا۔ جب میں نے مرحوم احرار صاحبؒ کو دیکھا تو اس مردِ قلندر کا وہ چہرہ میری نظروں میںگھومنے لگا جب کہ بھدرواہ میں راقم نے ایک جمعہ کو تقریر کرتے دیکھا تھا۔ اور شیر کی طرح گرج رہے تھے۔ دوسرے دن سنا کہ کہ اس کو بھدرواہ سے نکال دیا گیا ہے۔ کیونکہ مشہور ہو گیا تھا کہ یہ آدمی کشمیر شوپیان کا ناسنوری ہے۔ راقم نے بھی جب سنا تو میرے دل میں بھی اس سے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ اسی دوران مجھے پندرہ دنوں کے ڈوڈہ بھیج دیا گیا جس دن میں ڈوڈہ روانہ ہوا تھا وہ عاشورہ کا دن تھا اور جمعہ بھی تھا۔ بعد نماز جمعہ وہاں جامع مسجد میں حسینی مجلس کا انعقاد ہوا۔ چند ایک چھوٹی موٹی تقریروں کے بعد یہ آدمی ڈائس پر جس کو میں بھدرواہ میں دیکھا تھا ، جوں ہی وہ خطاب کرنے لگا تو میں نفرت کی جلن میں وہاں سے چل پڑا، دوسرے دن میں نے ایک دکاندار سے اس کے بارے میں پوچھا۔ تو اس نے بتایا کہ مودودیؒ جماعت کا آدمی ہے۔ کشمیر سے آیا ہوا ہے۔ یہاں کئی مہینوں سے قرانی درسگاہ چلا رہاہے۔ بہت ہی بڑا مقرر ہے۔ اس کے ساتھ یہاں کے بہت سارے نوجوان ملے ہوئے ہیں۔ اب وہ فقر منش آدمی میرے سامنے تھا اور میں اپنے سابقہ سوچ پر شرمندہ ہو رہا تھا۔

اس اجتماع میں جب راقم نے چرار شریف رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ تو سب چھوٹے بڑے رفیق اس خوشی سے جھوم اٹھے کہ چرار شریف میں بھی جماعت کا کام کا آغاز ہو گیا ہے۔ دو دنوں تک اجتماع تھا۔ اجتماع کیا تھا؟ اسلامی کردار اور تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ سب کے سب بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک دوسرے کے غمگسار، ہمدرد، مددگار، اور اپنے پر دوسرے کو ترجیح دینے والے تھے، لگتا تھا کہ اسلامی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ محترم گیلانی صاحب کو اس زمانہ میں کشمیر کا چھوٹا مودودی کہا جاتا تھا۔ انہوںنے گاﺅ کدل کی سڑک کے کنارے خطاب عام فرمایا۔ لوگ وہاں سے گزرتے گزرتے رُک جاتے اور خطاب سنا۔ خطاب انہوں نے اردو میں کیا۔ ۱۹۳۱ سے۱۹۶۶ءتک تحریک حریت کشمیر کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس مجلس میں ڈائس کے فرش پر محاذ رائے شماری کے مشہور شخصیت غلام رسول کوچک بھی موجود تھا۔ خطاب کے اختتام پر موصوف اٹھے اور بے ساختہ محترم گیلانی کے ماتھے کو چوما۔ اجتماع کے بعد واپس گھر آیا۔ اور ہم دوستوں نے مل جل کر ۴۶۹۱ءمیں دارالخلافہ کے نام پر چرار شریف میں لائبیریری کا قیام عمل میں لایا۔ اور اس کے ذریعہ تحریکی کام کو آگے بڑھایا۔ راقم نے بھی اپنی نجی لائبریری کی ساری کتابیں اسی دار المطالعہ میں وقف کر دی تھیں۔

سید مودودیؒ کے ساتھ دوبدو ملاقات کے لےے کوئی موقع ہی نہ تھا۔ البتہ ان کے ساتھ وہرشتہ ضرور رہا ہے اور رہے گا، انشاءاللہ، جو دین کا رشتہ ہے۔ انہوں نے تحریک اسلامی والوں کو خد ااور رسولﷺ سے براہ راست تعلقات استوار کرنے میںنشانِ راہ دکھا دئے۔ اللہ پاک ان کو اپنے ہاںبلند سے بلند درجات عنایت فرمادے۔

۱۹۷۵میں جب جماعت اسلامی جموںوکشمیر پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی دوران راقم نے ان کو ذاتی اصلاح کے بارے میں خط ارسال کیا تھا، ایک ماہ کے اندر وہاں واپس خط ملا۔ اس میں کس شفقت اور رفاقت سے انہوں نے میری دلجوئی کی تھی جس کی چاشنی میںکبھی نہیںبھول سکوں گا۔

۱۹۶۶ءمیں رکنیت کا اعزا حاصل کیا۔ اللہ پاک تادم واپسیں اسی پر میرا اختتام کرے اس زمانے میں جماعت کی رکنیت کسی شک وشبہ کے بغیر اعزاز ہی سمجھا جاتا تھا۔

۱۹۶۶ء تا ۱۹۷۰ ءامیر حلقہ چرار شریف (اس وقت تک صرف چرار شریف میں ہی جماعت کا حلقہ تھا) ۱۹۷۱ءتا ۱۹۷۵ ءتک امیر تحصیل چادورہ کام کیا اور تحصیل میں حلقے قائم کئے۔ ۱۹۷۶ ءسے چرار شریف میں ہی تحریک اسلامی کا کام کیا۔ ۱۹۹۵ ءسے ستمبر ۱۹۹۹ءتک ناسازگار ھالات کی وجہ سے سرینگر میں مہاجرت کی زندگی بسر کی۔ ۶۲ اپریل ۲۰۰۰ ءسے مئی ۲۰۰۵ءتک بحیثیت امیر ضلع بڈگام کام کیا ہے۔ ضلعی شوریٰ کا ممبر ۲۰ سال تک جب کہ مرکزی شوریٰ کا ممبر ۱۲ سال تک رہا۔ آج کل بوڑھاپے اور مختلف تکالیف کی وجہ سے گھر پر ہی آرام کر رہا ہوں۔

پہلی بات ۱۱فروری ۱۹۷۵ ءکو مقبول بٹ شہید کی برسی پر ناکردہ گناہوں کے جرم میں پکڑا گیا۔ پھرسنٹرل جیل سرینگر بھیج دیا گیا۔ پانچ دنوںکے بعد رہا کیا گیا۔ دوبارہ مئی ۱۹۹۱ ءمیں آرمی کریک ڈاﺅن میںپکڑا گیا۔ اور ۲۳ دنوں تک بادامی باغ آرمی جیل میں ایک کال کوٹھری میں بند تھا۔ سخت ترین انٹراگیشن سے گزر کر بے قصور پایا گیا اور رہا کر دیا گیا۔

۱۹۷۹ ءمیں ۴ اپریل سے ۶اپریل تین دنوں تک پہلے دو دکان کو لوٹ لیا گیا اور کم از کم اس زمانے کی قیمت کے مطابق ڈیڑھ لاکھ روپیوں کا سودا سلف موجود تھا۔ پھر آگے دن ۵اپریل کو گھر کے اثاثہ کو لوٹ لیا گیا۔ تیسرے دن ۶اپریل کو مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں اور المیاریوں کو توڑ کر آگ میںجلا دیا گیا۔ سار ے مکان کو اس لیے نہیں جلا دیا گیا تھا کہ ہمسایہ کے مکانوں کو آ گ نہ لگ جائے۔ راقم کو مارنے کے لیے ڈھونڈ رہے تھے۔ مگر اللہ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے ان کے شر سے محفوظ رکھا کیوں کہ لوگ صرف میرے خون کے پیاسے، میرے تمام رفقاءکو پکڑا گیا۔ ان کی داڑھی منڈوائی گئی اور ان کو مار پیٹ کی گئی۔ میرے چھوٹے سالے کی منگنی ایک جگہ طے ہو گئی تھی۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ تم مودودیؒ تو نہ ہوا۔ لہٰذا اگر بچنا چاہتے ہو تو رشتہ توڑ دو۔ اس نے انکار کیا۔ تو اس کے تانبے کے ایک بڑے دکان کو لوٹ لیا گیا۔ اور اس کو گھر سے مارتے پیٹتے باہر نکال لیا گیا اور داڑھی کو بے درد ی سے کاٹ دیا گیا۔ یہ واقعہ اس لیے لکھا کیونکہ یہ جیل اور انٹراگیشن سے بھی بدتر تھا۔ تین دنوں کے بعد جب لوگوں کا طوفان بد تمیز تھم گیا۔ تو چرار شریف سے سرینگر آیا۔ اور یہاں ساڑھے تین مہینوںتک مہاجرت کیزندگی گزاری۔ چرار شریف کا کھڈپنچ طبقہ نہیں چاہتا تھا کہ میں چرار شریف میں رہوں۔ وہ وقت کے فرعون حکومت سے اپیل کرتے تھے کہ اگر غلام محمد خرقہ دوبارہ یہاں بسنے کے لیے آئے گا تو زیارت کو اس کے ذریعہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ بہر حال راقم پھر کن حالات میں دوبارہ آگیا تھا۔ یہ ایک بڑی داستان ہے مگر اتنا ضرور بتا دوں گا کہ مرحوم قاری سیف الدینؒ نے اس بارے میںمجھے بڑھ چڑھ کر مدد فرمائی تھی۔

جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے قائم ہونے سے ۱۹۷۴ ءتا ۱۹۷۵ ءتک تقریباً چالیس سال تک امیر محترم مرحوم سعد الدینؒ رہ چکے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا۔ کہ ہمیں چالیس سال تک اس مردِ حق اور عارف باللہ کو جماعت اسلامی جموں وکشمیر کا آئین بنا کر رکھا تھا۔ دستور جماعت میں امیر جماعت کے لیے جن اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن کا ذکر آپ نے بھی اپنے سوالنامہ میں گنایا ہے۔ بخدا وہ تمام کے تمام ان میں اپنے ارکان جماعت سے زیادہ موجود تھے۔

راقم نے ان کو بہت ہی نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے۔ مرحوم واحد شخصیت تھے جو اپنے وقت میں ہر ہر رکنکے ساتھ بے لوث محبت رکھتے تھے۔ اور ان کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لیتے تھے۔ منکسر المزاجی میں یکتا تھے۔ مروت، رواداری کے مجسمہ تھے۔ معاملہ فہمی کے معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ استغنا وتوکل میں مرحوم دوسروں سے سبق لئے ہوئے تھے۔ جرات عزیمت کے معاملہ میں ان کا کیا حال رہا ہے مجھ سے زیادہ انہیں جانتے ہوں گے۔ جو پہلے پہل جماعت میں آگئے ہیں۔ مرحوم جس وقت شہر سرینگر میں اکیلا آگئے تھے کاش وہ داسان کوئی آپ کے مواد میں نیک نیتی سے شامل کر دیتا جو اس کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔

راقم نے مرحوم کی زبانی تھوڑا تھوڑا سنا ہے۔ جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد اپنے آپ کو بیگانہ سمجھتے تھے۔ گھر والوں نے نکال دیا تھا۔ فقیرانہ اور مسافرانہ زندگی گزارنی پڑی تھی۔ مگر پھر بھی ایک طرف تزکیہ نفس میں لگے رہتے تھے اور دوسری طرف دن ورات اقامت دین کا کام فرض عین سمجھ کر تمام اوقات اس پر خرچ کرتے تھے۔ جو کوئی جماعت میں شامل ہوتا اس کو اپنی خاموش عملی تربیت سے سنوارتے تھے۔ فخر وگھمنڈ انہوں نے پیروں تلے مسل دیا تھا۔ نفس کو لگام دے چکے تھے۔ اس کو دین کے تابع بنا دیا تھا۔ مرحوم اپنے ابتدائی ساتھیوں میںچاند کے مانند تھے۔ ان کے ساتھی تاروں کا جُرمٹ تھے۔ راقم نے مرحوم کو قریب اور بہت دیکھا ہے۔ مرحوم احسان کے مقام پر فائز ہو چکے تھے، قرآن وحدیث میں مرد مومن کے جن اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ کما حقہ ¾ وہ ان میں موجود تھے۔ امارت کے دوران ان پر تنقید کرنے والوں کے لیے بھی ان کا دل صاف تھا۔ مرحوم صاحب دل ، باحیا، کم گو، پُروقار، بارعب، مسجاب الدعا اور خدا دوست انسان تھے۔ عشقِ نبیﷺ میں ڈوبے ہوئے تھے، جب کبھی ذکرِ رسولﷺ کیا جاتا تھا یا کوئی نعتِ نبیﷺ سناتا تھا تو مرحوم پر ایک خاص غنودگی چھا جاتی تھی۔ آنکھیں آنسوﺅں سے بھر جاتی تھیں مگر انکو ٹپکنے نہیں دیتے تھے۔ ان کا دل کینہ سے پاس تھا، ان کا اندرون اس وقت باہر آجا تھا جب مرحوم درس قرآن دیا کرتے تھے۔ ان کا اسلوبِ درس ہی الگ تھلگ تھا۔ کسی مفسر قرآن کا مستعار نہیں ہوتا تھا۔ ان کا درس قرآن موسلا دھار بارش کی طرح ہوتا تھا۔ جو آہستہ آہستہ زمین کو سیراب کر دیتی ہے۔ اسی طرح ان کا درس قرآن دل میں گر کر جاتا تھا۔ ان کے جن قریبی ساتھیوں کو میں نے دیکھا ہے وہ بھی حقیقت میں اقامت دین کے ….کام میں اعلیٰ آدمی تھے۔ فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ تحریک اسلامی اور رفقاءجماعت سے عشق رکھنے والے تھے۔ عید گاہ ایک اجتماع میں انہوں نے جب آخر پر فرمایا کہ معزز رفقاءکرام اب آپ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اب گھر جانا ہے۔ مگر میں یہی محسوس کرتا ہوںہم کو جنت نکل جہنم کی طرف جانا ہے۔ ہم تین دن تک اسلامی ریاست قائم کئے ہوئے تھے اب اس دنیامیں جانا ہے جہاںہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ خود بھی رلائے اور سبوںکو رلایا۔

اسی طرح محترم قاری سیف الدینؒ تھے۔ مرحوم کا سیرت رسولﷺ اور سیرت صحابہؓ سے زبردست لگاﺅ تھا۔ مرھوم وہ شخصیت تھے جو جموں وکشمیر کے چپے چپے پر گئے اور اپنے پُر اثر اور رلانے والے خطابات سے ایک انقلاب برپا کیا تھا۔ مرحوم مجلس آرا، ہنس مکھ اور دوسروں پر فائز رہتے تھے۔ اپنے کیا؟ پرائے بھی اس کے معترف تھے۔ تقویٰ کے مقام پر فائز تھے۔ جماعت اسلامی میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ رفقاءجماعت سے زبردست پیار رکھتے تھے۔

مرحوم حکیم صاحبؒؒ اگرچہ بہت ہی بڑے عالم دین تھے مگر منکسر المزاجی، وسعت قلبی، استغنا وتوکل اور دور اندیشی کے اوصاف جمیلہ سے مزین تھے۔ مرحوم ہر ایک رفیق سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ اگرچہ بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ مگر پھر بھی نرم مزاج تھے۔ ان کی زندگی صبر سے لبریز تھی۔ امارت کے دوران جماعتی اور جسمانی مشکلات میں گھرے رہے۔ اللہ پاک مرحوم حکیم صاحب کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میںجگہ دے۔ مرحوم واحد ذات ہے جس نے اپنے بچوں کو بھی جماعت اسلامی کے لیے تیار کر دیا تھا۔

مرحوم محمد امین شوپیانی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی جموںوکشمیر کے لیے ایک نعمت کے طور پر عطا کیا تھا۔ مرحوم محدث، فقیہ اور مفتی تھے۔ وہ اقبالیات پر مکمل دست ورس رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ شوپیان کی دسری بڑی مسجدمیں جمعہ کے روز وعظ فرما رہے تھے مگر جماعت کے بڑے چھوٹے اجتماعات میں آکر بھی رفقاءکو اپنی میٹھی اور گرج دار آواز میں درس حدیث اور اقبالیات سے گرماتے تھے۔ انتہائی شریف النفس تھے۔ خدا ان کی قبر کو پُر نور کر دے۔ آمین

زالوہ سوپور کے مرحوم شیخ محمد سلمان صاحب امیر ضلع سرینگر بھی رہ چکے تھے۔ لہٰذا راقم نے ان کو قریب سے دیکھا ہے۔ بہت ہی متقی، سادہ زندگی، جماعت اسلامی کا عملی نمونہ اپنے علاقہ میں مسلمان اور ہندو ان کے گرویدہ تھے۔ ان کا درس قرآن یا درس حدیث یا سیرت نبیﷺ پر خطاب، ہر ایک پُر مغز اور پُر اثر ہوتا تھا۔ تحمل وبردباری کا نمونہ بھی تھے۔ اللہ جل شانہ انکو اپنی جوار رحمت میں رکھے آمین۔

مندرجہ بالا بزرگانِ دین دین ودنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں تھوڑا بہت خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ چند ایک بزرگ ابھی حالِ حیات ہیں مگر نزدوں کے بارے میں کچھ کہنا یا بتانا قبل از وقت ہو گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ سب کو دم واپسیں تک اقامت دین کے لےے ثابت قدم رکھے۔ اور ہمارا خاتمہ تحریک اسلامی سے وابستگی پر ہی ہو۔ آمین۔

مرحوم سعد الدین اور مرحوم حکیم غلام نبی صاحبؒ دونوں اپنی دوران امارت میں غیر معمولی حالات سے دوچار ہوئے۔ اپنے دور میں دونوں حضرات نے جرات مندی کا جو مظاہرہ فرمایا وہ میرے انداز میں تحریک اسلامی کی تاریخ میں یادگار رہے گا۔ مقامی مسائل نپٹانے میں مرحوم سعد الدینؒ پیش رو تھے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر حکیم غلام نبیؓ کا ہی دکھائی دیتا ہے۔ خیر یہ تو مقامی مسائل ہی تھے مگر جو غیر معمولی حالات ان دونوں صاحبوں کو پیش آئے تھے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے تحریک اسلامی کو بچانے کے لیے انہی دونوں کو یہ اعزا عطاکیا۔

۵۷۹۱ ءمیں جماعت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ قیادت کو چاہئے چھوٹے تھے یا بڑے جیل میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ تمام دفتر اور درسگاہوں پر تالے چڑھا دئے گئے تھے۔ عام رفقاءحراساں ہو گئے تھے۔ افرا تفری کا عالم تھا۔ اس دوران مرحوم سعد الدینؒ انڈر گراﺅنڈ رہے۔ مگر کہیں چھپے نہ تھے بلکہ علاقہ علاقہ اور گاﺅں گاﺅں رفقاءسے ملے۔ اور ان کو تسلی دیتے رہے۔ خفیہ طور نظم کو بحال رکھا۔ رفقاءکو ہمت افزائی کرتے رہے۔ اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا۔ مودت ومروت کے اوصاف سے رفقاءکو سنوارا۔ یہی وجہ تھی جب جماعت پر سے پابندی اٹھا دی گئی تھی۔ تو ایک دن کے اندر ہی جماعت کا نظم ونسق ایسا تھا جیسا کہ پہلے تھا۔ غیر تو کیا اپنے بھی حیران ہو گئے۔

دوسرا سب سے بڑا غیر معمولی واقعہ ۱۹۷۹ ءکا لوٹ مار ہے۔ یہ اتنا بڑا سانحہ ہوگیا تھا اس کے وہی جانتے ہیںجو اس وقت حاضر تھے۔ ہر طرف آہ وپکار کا ماحول تھا۔ رفقاءایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں بھاگ رہے۔ اگر اس وقت مرحوم سعد الدینؒ جیسا بہادر اور دل گردہ والا صاحب عزیمت امیر نہ ہوتا تو نہ معلوم جماعت کہاں تتر بتر ہو گئی ہوتی۔ مرحوم نے اس دوران ایک طرف رفقاءکو انفرادی طور بھی سنبھالا اور دوسری طرف نظم ونسق کو بھی مضبوطی سے تھامے رکھا۔

مرحوم حکیم غلام نبی  بھی اپنے دورِ امارت میں ایکسنگین ترین مشکل میں گھر گئے تھے۔ ۱۹۸۸ ءمیں امارت سنبھالی تھی۔ ۱۹۸۹ ءمیں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ اس دوران ۱۹۹۰ ءمیں جماعت پر پابندی عائد کی گئی۔ قیادت جیل میں ٹھونس دی گئی، اس کے بعد رفقاءجماعت ششدر رہ گئے کہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ خیر یہ سارا قصہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہاں پر بتانا مقصود یہ ہے کہ مرحوم حکیم صاحب چاہیے جیل میں تھے یا جیل سے باہر تھے۔ یہ انہیں کا دل گردہ تھا کہ جماعت کو ٹوٹنے نہ دیا۔ حالانکہ جسمانی طور ناتوان بھی ہو گئے تھے۔ انہوںنے دو بلاﺅں کے درمیان رہ کر اندرو باہر رفقاءکو سنبھالے رکھا۔ اس دور میںان کو کتنے مشکلات بلکہ کوہ ہمالیہ پہاڑ جیسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سے نبردآزما ہو کر واپس نکلنا انہیں کا کام تھا۔ جو خدا نے ان سے لیا۔ رفقاءجماعت اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔ مرحوم کی زبانی وہ دور ”حرج مرج“ کا دور تھا۔

اللہ پاک ان دونوں صاحبوں پر اپنی رحمت کا نزول فرما دے۔ کیا یہ شاندار والے تھے۔ محترم غلام محمد بٹ صاحب جب دوبارہ ۱۹۹۷ ءمیں امیر جماعت مقرر ہوئے اس وقت تک رفقاءجماعت میں کوئی تال میل نہ تھا۔ ایک دوسرے سے ڈر رہے تھے۔ خیال یہ تھاکہ جماعت پر پابندی ہے، خفیہ طور نظم اس حد تک چل رہا ہے کہ کسہ نہ کسی طرح سے مصیبت زدوں کی مدد کی جائی، مگر جب محترم بٹ صاحب امیر جماعت مقرر ہوئے۔ تو انہوں نے جیل میں بیان دیا کہ جماعت پر پابندی کب کی ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ دو سال کی پابندی کے بعد حکومت پھر دوبارہ اس کو دوبارہ نافذ نہیں کیا تھا۔ بہرحال اس کے بعد محترم بٹ صاحب باہر آئے، جماعت کو سنبھالا اور استحکام بخشا۔ یہ ان کا بہت بڑا کام تھا۔ مگر اپنے چھ سال کے دور امارت میں ان کو بھی اندرونی اور بیرونی مشکلات نے آگھیر لیا تھا۔ جتنا مشکل باہر سے نہ تھا اس سے بڑھ کر اندرونی مشکلات پیش آئے۔ بہرحال یہ انہیں کا دل گردہ تھا کہ ان کا سامنا کرتے آئے۔ اللہ پاک اس کا ان کو اجرا خیر عطا کرے۔

ان کے بعد محترم نزیر احمد کاشانی صاحب امیر جماعت مقرر ہوئے، ان کے دور امارت میں بھی زیادہ اندرونی مسائل کا دور دوررہا۔ ان کی امارت میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تقسیم ہونے سے بچا لیا۔ اللہ پاک ان کو اس کا اجر عطا کرے۔ یہ ہیںمیرے مختصر سے گزارشات، اگر ان میں کوئی سہو ہو گا اللہ تعالیٰ معاف کر دے۔

 راقم بارہ سال تک رکن شوریٰ رہا ہے۔ رام نے ان بارہ برسوں میں دو تین امرا جماعت کے شوریٰ میں کام کیا۔ محترم غلام محمد بٹ صاحب، محترم نزیر احمد کاشانی صاحب، اور محترم شیخ محمد حسن صاحب کے پہلے تین سال، یہ تینوں دور مسائل ہی مسائل کا زمانہ تھا۔

راقم نے مرحوم سعد الدین کا طویل زمانہ امارت دیکھا ہے۔ پہلے پہل ارکان جماعت کی تعداد بہت ہی قلیل تھی اور وہ بھی کندھن بن کر آرہے تھے، اور ان کے زمانہ میں سالانہ تنظیمی کل ریاستی ارکان جماعت کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ جس میں امیر ومامور کا وہ نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا کہ ایک آدمی دیکھتا تھا کہ اختلافی مسائل کس بہترین پیرایہ میں پیش کئے جاتے تھے۔ اور امیر مرحوم کس خوش اسلوبی سے ان کا جواب دیتے تھے۔ یہ بھی ایک آدمی کو جماعت سے قریب سے قریب تر لانے میں مدد کرتا تھا۔ مرحوم سعد الدینؒ کے بعد اس میں واضح فرق ملنے کی آتی تھی۔ جس کی وجہ ایک طویل داستان ہے، کاش وہ صحیح صورت ھال بے لاگ طریقہ سے اور حقائق کے ساتھ آئندہ وابستگان تحریک اسلامی کے سامنے کوئی رکھ سکتا، تاکہ وہ بھیجان جاتے کہ تحریک اسلامی جموں وکشمیر کن مراحل سے گزر کر آگے بڑھ گئی ہے۔

دنیا میں یہ معمول رہا ہے کہ جب کوئی تحریک چاہے خدائی ہو یا خدا بے زاری کی ہو، ابتدائی دور اس کا شاندار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا دستور ہے، اس میں دو رائیں نہیں ہیں۔ اسی طرح تحریک اسلامی جموں وکشمیر کا دورِ اول ۱۹۴۵ ءتا ۱۹۴۸ ءتک ایک انقلابی اسلامی دور تھا۔ امیر ومامور تو تھے لیکن ہر ایک بذات خود مامور ہی تصور کرتا تھا۔ ہمہ وقت ارکان تھے مگر صرف رضائے الٰہی اور فکرِ آخرت کو پیش نظر رکھ کر جدوجہد میں لگے رہتے تھے۔ تنخواہیں نہیں تھیں صرف کفاف تھا، وہ بھی کئی کئی مہینے کے بعد ملتا تھا۔ دستور جماعت میں رکنیت کا جو معیار مقرر کیاگیا تھا کما حقہ ¾ ہر ایک رکن جماعت اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈالنے کی کوششوں میں لگا رہا تھا۔ رکنیت کا فارم پُر کرنے کے وقت ایک رکن پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی ہر ایک رکنہر وقت احتساب میں رہتا تھا۔ وہ جان جانتا تھا کہ جماعت کس نصب العین کی طرف دعوت دیت ہے اور داعی کس قسم کا ہونا چاہیے۔ اس کو معلوم تھا کہ مجھے ہر وقت لوگوںمیں اٹھنا بیٹھنا ہے، میری کوئی ایسی حرکت نہ ہونی چاہیے جس سے دعوت دین میں روکاوٹ پید اہو جائے۔ اس زمانے میں ہر طرف بدنام زمانہ لفظ تحریک اسلامی کے رفد سے جڑا ہوا تھا کہ اس کو سر کرنے کے لیے ایک ہی ذریعہ تھا۔ وہ تھا صبر اور کردار۔ وہ بدنام زمانہ لفظ ”بد اعتقادی“ کا تھا۔ حقیقت میں لوگ ہی اس زمانے ایک تحریک اسلامی والے کو مانجھتے تھے۔ اس سے بڑھ کر احتساب کیا تھا پھر بھی حلقہ اجتماع میں ہر ایک معاملے پر احتساب ہوا کرتا تھا۔

علم کی پیاس کے بارے میں اس وقت کیا تھی؟ اور کیسی تھی؟ شائد آج کل وہ عجوبہ ہی لگے گا، عام ارکان تو پہلے سے معمولی علمیت بھی نہ رکھت تھے۔ الا ماشاءاللہ جب وہ جماعت سے منسلک ہو جاتے تھے تو قرآن بھی سیکھ جاتے تھے اور حدیث بھی یاد کرتے تھے۔ تحریک اسلامی کا لٹریچر پڑھتے تھے اور بار بار پڑھتے تھے۔ مطالعہ کی پیاس بجھنے ہی نہ دیتے تھے۔ راقم اپنے بارے میں ہی بتا دینا چاہتا ہے۔ جب سب سے پہلے براہ راست تفہیم القرآن کو پڑھا، تو ساتھ ساتھ لٹریچر کا مطالعہ بھی شروع کیا۔ راقم نے سید مودودیؒ کی ہر ایک تحریر پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے تحریکی آدمیوں کی سینکڑوں حدیث کا بھی کافی لٹریچر پڑھا ہے تاکہ ان کے آرا سے بھی مرزائیت، بہایت اور منکرینحدیث کا بھی کافی لٹریچر پڑھا ہے تاکہ ان کے آرا سے بھی واقف رہوں۔آپ خو د اندازہ لگائے کہ راقم ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی تھا، مگر مطالعہ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اور اسلام کے روحانی،اخلاقی، تہذیبی اور معاشی اور معاشرتی نطام کو بجھ لیا اور خو دبھی مطمئن تھا۔ اور دوسروں کو بھی ان کے ذوق کے مطابق لٹریچر فراہم کرتا رہا۔ حالاں کہ ایک طرف ملازمت تھی دوسری طرف عیال کی فکر تھی تیسری جانب رہنے کے لیے مکان کی ضرورت تھی۔ یہ کام بھی چلتے تھے، مگر مطالعہ بھی دن رات جار رہتا تھا۔ گاڑیوںمیں پڑھتا تھا، راتوں کو پڑھتا تھا، بیماری کی حالت میں پڑھتا تھا، فرست کے اوقات میں پڑھتا تھا، اس سے بڑھ کر دوسرے ارکان کا حال تھا۔ بانیان تحریک اسلامی جموں وکشمیر تو پہلے سے ہی پرھے لکھے تھے۔

راقم کے گھر پر ایک دن مرحوم حکیم صاحب نے مجھے فرمایا کہ میرا علم کا دستار اس وقت لڑکھڑایا جب مرحوم احرار صاحب مجھے خطبات پڑھنے کو دے گئے تھے، میں نے انکو ایک ہی رات میں پڑھ ڈالا تھا۔ اور نماز فجر کے وت میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اے حکیم غلام نبی تو دیوبند سے پڑھ کر آیا ہے، مگر تم کو ابھی تک کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج و جہاد کے بارے میں اصلی علم معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح مرحوم قاری صاحبؒ نے فرمایا کہ مرحوم سعد الدینؒ نے سب سے پہلے مجھ کو ایک اہم استفسار پڑحنے کو دیا تھا۔ جس نے میری کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ اس کے مطالعہ کی پیاس جاری رہی اور آج تک جاری ہے۔

مرحوم سعد الدینؒ ہمیشہ فرماتے تھے کہ تفہیم القرآن پڑھا کرو، خطبات کا مطالعہ کیا کرو، آج کل رفقاءکو ڈنڈے کے زور دے چند ایک کتابوںکا مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ رفقاءاس لیے پڑھتے ہیں کہ اجتماع میں سوال وجواب ہوںگے، اور ان احتسابی اجتماع میںبھی حاضری کم ہی رہتی ہے۔ ہفتہ وار اجتماع میں شرکت نہیںکی جا رہی ہے۔ دعوتی اجتماع میں سب حاضر ہوتے ہیں۔ اس طرح عملی زندگی میں کم ہی اثر پڑتا ہے۔

آج کل اپنے احتساب کا جذبہ بہت کم ہو گیا ہے۔ دسروں کو تنقید کا نشانہ بنادیا جاتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہم میں ”انا“ سوار ہو گیا ہے۔ نجویٰ وغیبت کا روگ مودت و محبت کی جگہ لے رہا ہے۔ پہلے پہل تنقید کھلم کھلا ہوتی تھی۔ ادھر تنقید ختم ہو جاتی پھر سے بغل گیر ہو جاتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کوئی انسانہ نہیں ہے۔ آج کل پیٹھ پیچھے رفقاءاور امراءکی کھال کھینچی جاتی ہے۔ مگر اس کو بُرا نہیں مانا جاتا ہے۔

پہلے حلقہ قائم ہوتے ہی بیت المال کا قیام ہوتا تھا، رفقاءاپنے جیبوں سے موعودہ کے سوا بھی انفاق فی سبیل اللہ کرتے تھے۔ بیت المال قائم ہوتے ہی سب کام عمل میںآتے تھے۔ لائبریری کا قیام عمل میں آجاتا تھا، ضرورت مندوں کو حاجت روائی کی جاتی، بجٹ ادا کیا جاتا، کیونکہ ضلع سے مرکز تک کا معمولی کفاف انہی پیسوں سے ادا کیا جاتا تھا۔ صباحی اور شبینہ درسگاہیں قائم کی جاتی تھیں۔ غرض بیت المال ریڈھ کی ہڈی کی طرح ہوتا تھا۔ آج کل ہم سب اوپر سے ہی امیدیں باندھی ہوتی ہیں۔

اخوتِ رفقائ، بزرگوں کا احترام اور احترام نظم، یہ تینوں چیزیں دور اول میں یکسان طور پر تحریک اسلامی کے افراد میں اعلیٰ پیمانہ پر موجود تھے۔ اس وقت میں پہلے دو چیزوں کے بارے میں کیا کچھ بتاﺅں۔ ہم سب کے سامنے اس کا نظارہ روز دیکھنے میںآتا ہے مگر تیسری بات ”احترام تعلیم“ اس لفظ کی ڈکشنری ہی بدل گئی ہے۔ آج کل مجبوری کا ناظم ہے۔ سید مودودیؒ نے پیر مریدی کے بجائے امیر ومامور کا نام دیا تھا۔ کیا یہ طریقہ سلوک باقی رہ گیا ہے۔

۱۹۷۰ءسے پہلے کا واقعہ ہے بال گارڈن سرینگر میں جماعت اسلامی جموںوکشمیر کا سالانہ سہ روزہ اجتماع میںمرحوم سعد الدینؒ پر بحیثیت امیر جماعت تنقید کا سامنا ہوا۔ تنقید کرنے والوںمیں دو اصحاب ایسے تھے جنہوںنے سخت ترین تنقید کی۔ اس پرعام ارکان جماعت برہم ہو گئے تھے۔ مرحوم حکیم صاحبؒ قیم جماعت تھے، ڈائس کے انچارج بھی تھے کھڑے ہوئے اور فرمایا رفقاءکرام چپ رہیں، امیر محترم کو یہ زہر ہلاہل کے گھونٹ پینے ہیں اور ان کا ہمیں مطمئن بخش جواب دیتا ہے۔ تنقید ختم ہونے کے بعد مرحوم سعد الدینؒ امیر جماعت نے تفصیل کے ساتھ انتہائی خندہ پیشانی سے تسلی بخش جواب دئے،، جن کو سن کو تنقید کرتے بھی مطمئن ہو گئے۔ جوابات دینے کے بعد مرحوم نے فرمایا کہ جب آپ تمام رفقاءکو میری کمزوریوں کے بارے میںمعلوم ہوا ہے تو آئندہ آپ اپنے امیر کو چناﺅ کر کے آگے لائے جاﺅ تاکہ وہ جماعت کی رہنمائی کرے۔ تو پھر کیا ہوا ہر طرف زور زور سے رونے کی آوازیں شروع ہونے لگیں۔ تنقید کرنے والے کھڑے ہو کر امیر محترم سے معافی مانگنے لگے ،اور کہنے لگے اگر آپ معاف نہ کریں تو برباد ہوں گے۔ اس کے بعد مرحوم اجتماع گاہ سے چلے گئے کیونکہ امیر جماعت کا چناﺅ ہونے والا تھا۔ جب چناﺅ عمل مکمل ہوا۔ تو مرحوم سعد الدینؒکو 99%ووٹ ملے۔ رات کے ڑیڑھ بجے ان کو بلایا گیا۔ اس وقت ان کو زبردست بخار تھا۔ حکیم صاحبؒ نے اعلان فرمایا کہ امیر محترم اس وقت بسر مرگ پر ہوتے تو ان کو اجتماع گاہ میں آنا ہوتا۔

بہرحال مرحوم سعد الدینؒ نے پھر سے رفقاءکو روتے فرمایا کہ آپ سبھی رفقاءکو میری کمزوریوں کے بارے میں معلوم پڑ گیا تھا مگر آپ نے پھر غلطی کی، میں پھر کہتا ہوں، میں کمزور ہوں یہ کام مجھ سے کسی اہل تر مدر کے حوالے کر دو۔ پھر رونے کا سماں پیدا ہو گیا، اس طرح تھے امیر ومامور کا تعلق۔

مرحوم سعد الدینؒکے یہ الفاظ آج تک میرے کانوںمیں گونج رہے ہیں۔ اس وقت بخار کی وجہ سے ان کی آواز میں کمزوری تھی۔ فرمایا: ”آپ لوگوں نے مجھے امیر جماعت کی حیثیت سے پھر چناﺅ کر کے مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ تنقید کا بدلہ لیا ہے اتنی تنقید سن کر بھی آپ لوگوں کو تسلی نہیں ہے۔ حالانکہ میں اس منصب کے لائق نہیں ہوں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مجھے بخش دیتے“ میرے خیال میں اس وقت ہم ہی کیا بال گارڈن کی زمین بھی رو رہی تھی۔ جو فرشتے وہاں حاضر تھے وہ بھی یہی سوچ رہے ہوتے کہ کیا ہی جماعت اور کیا ہی ان کا امیر جماعت ہے؟

جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی کے بعد میرے ساتھ بہت سے واقعات پیش آگئے ہیں جو میری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔

۱۹۷۹ ءمیںملازمت کو خیر باد کرنے کے بعد رشتہ داروں اور دوسروں کی تنقید کا نشانہ بن گیا تھا کہ کتنا بڑا بے وقوف ہے۔ کامیاب ملازمت کو چھوڑ کر دربدر ہوگیا ہے۔ حلقہ میں معمولی کفاف پر کام کرتا تھا۔ دوسرا واقع لوٹ مار کا واقعہ جو ۴اپریل  ۱۹۷۹ کو پیش آگیا تھا۔ تمام گھر بار دوکان دنا کر دیا گیا تھا۔ پھر میں تقریباً چار مہینوں تک سرینگر میں مہاجر بن کے رہا تھا۔ ۱۹۹۰ءسے دور آشوب نے پکڑ لیا تھا۔ ۱۹۹۵ ءمیں آر آر پیچھے پڑ گئی۔ میں سرینگر میں چلا گیا اور ساڑھے چار سال تک مہاجرت کی زندگی بسر کی۔ اس دوران بچوں کو مارا پیٹا گیا، ان کا انٹراگیشن سنٹروں میں لیا گیا۔

جماعت سے وابستگی کے بعد اپنے قصبہ میں مسلسل لوگوںکے عتاب میں تھا۔ ہر سال کسی نہ کسی بہانہ سے عیدین کے دن مجھ پر میرے ساتھیوں پر حملے کئے جاتے تھے۔ مگر پھر بھی ہم اپنے تحریکی کام سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔۱۹۶۸ ءمیں ہم نے ایک اجتماع کا انعقاد کیا تھا ۔ مرکزی اور ضلعی نظم سبوں کو بلایا تھا، ۴ بجے ایک پارک میں محترم گیلانی صاحبؒ کا خطاب تھا مگر ہم پر غنڈوں نے اتنا ہلہ بول دیا کہ سب کچھ تتر بتر ہوکے رہ گیا ۔ ہمارا اجتماع درسگاہ میں ہو رہا تھا، پھر ۷ بجے کے قریب محترم گیلانی صاحب اور محترم قاری صاحبؒ کے خطابات دور ایک دوسری پارک میں ہوئے۔ دراصل چرار شریف کا مجاور …. اور کھڈپنچ میرا وجود چرار شریف میں برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس لیے وہ مجھے بار بار تنگ کرتے تھے۔ یا تو میں تحریک اسلامی کو چھوڑوں یا وہاںسے چلے جاﺅں۔ ۱۹۷۹ ءکے بعد چند ایک بڑے بنے ہوئے اڈمیوں سے باضابطہ تقریراً اور تحریراً حکومت سے کہا بھی تھا کہ غلام محمد خرقہ کو یہاں پر بسنے نہ دیا جائے ۔ اس کے یہاں رہنے سے زیارت کو خطرہ ہے۔ میرے دو دکان کو بھی تالا لگا دیا۔ جن میں سارا مال لوٹ لیا تھا۔ اس زمانہ میں مرحوم قاری سیف الدینؒ نے میری لیے کیا کچھ کیا وہ میرے لیے ان کا ایک بڑا احسان ہے۔ راقم کی زندگی مصائب سے بھری پڑی ہے۔ مگر قدم قدم پر اللہ کی مدد اور نصرت بھی ساتھ ساتھ رہی۔

جماعت اسلامی کا مستقبل تب تک خد اکے فضل وکرم سے محفوظ رہے گا جب کہ اقامت دین کا کام ہوتا رہے گا، اور دستور جماعت کی پاسداری ہوتی رہے گی۔ اگرچہ انفرادی کمزوریاں کتنی ہی کیوں نہ ہوں۔ سید مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی اٹھان ایسی پیدا کر رکھی ہے کہ جو اختلاف کرتا ہے، باہر نکلتا ہے اور جماعت اسلامی کو آج تک نہ کوئی نقصان پہچا ہے اور نہ انشاءاللہ آئندہ پہنچے گا۔ جماعت اسلامی اپنے نصب العین کی دامنِ رحمت میں پروان چڑھتی رہے گی۔ انشاءاللہ

نئی نسل کو ناچیز کیا نصیحت دے گا، اس کے بارے میں جماعت کے بزرگوں نے بہت کچھ تحریر کر رکھا ہے۔ ضرورت ہے صرف پڑھنے کی۔ اسی لیے لٹریچر کا مطالعہ اہم ترین رہتا ہے۔ سید مودودیؒ نے خود فرمایا تھا کہ تحریک اسلامی والوں کے تحریکی لٹریچر کا مطالعہ بہت اہم اور ضروری ہے۔

دوسری اہم بات ہفتہ وار اجتماع کا انعقاد ہے، ان کی اہمیت بھی سید مودودیؒ نے یوں سمجھائی ہے کہ ”میں نے ہر ایک بات اور مسئلہ کو دلائل سے سمجھایا، مگر میں خود حیران ہوں کہ ہفتہ وار اجتماع کی اہمیت کیسے سمجھاﺅں“۔ اس سے خود بخود سمجھ میں آتا ہے کہ سید مودودیؒ کے سامنے بھی ہفتہ وار اجتماع کی کیا اہمیت تھی اور کیوں ضروری ہیں؟

تیسری بات یہ ہے کہ بڑوںکا احترام کرو ان کی صحبت میں کچھ وقت بھی گزارا کرو۔ ایک دوسرے کے کام آجاﺅ۔ اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہو جاﺅ۔ مخالفوں سے حسن سلوک رکھو، آج کل بہترین صحبت صالح اگر اختیار کرنا چاہتے ہو۔ تو قرآن پاک کی تلاوت کرو، انبیاءکی صحبت ملے گی۔ اس کے علاوہ سیرت النبیﷺ کے بعد سیرت صحابہ اور بزرگوں کی سیرتیں زیر مطالعہ لایا کرو۔ انشاءاللہ اس سے تحریکی زندگی میں نکھار آئے گا۔ امیر ومامور کا تقدس برقرار رکھو۔ یہی ہماری تبیت کے بہترین ذرائع ہیں۔ اللہ پاک ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین

نوٹ: یاد رہے ان کی وفات حال ہی میں ہو چکی ہے۔

خدا رحمت کنند ایں پاک طینت را

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.