نفس اور رُوح کی کشمکش۔۔۔۔۔ہلال احمد تانترے

نفس اور رُوح کی کشمکش۔۔۔۔۔ہلال احمد تانترے

٭عوامی خدمات کا موجودہ نظام:

صفائی کرم چاری سے لے کر اعلیٰ افسر تک، ریڈی والے سے لے کر مالکانِ شاپنگ مالز تک، چپراسی سے لے کر اعلیٰ عہدے دار تک، اسکول سے لے کر بڑی بڑی یونیورسٹیوں تک، محنت کش سے لے کر تکنیکی ماہر تک، گاﺅں کے سرپنچ سے لے کر ملک کے صدر تک ، آج کا انسان اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں ہر دم اور ہرآن سماج کے متعلقہ محکمہ جات کی مدد کاطلب گار ہے۔ یہ محکمہ جات سماج کے ِانہی جملہ انسانوں سے معرضِ وجود میں آجاتے ہیں، آج کی تاریخ میں جن کے بغیر زندگی کا تصور کرنا ہی محال ہے۔ عوامی خدمات کے اِس اُبھرے ہوئے نظام کی بھی ایک لمبی داستان ہے۔ خاص کربیسویں صدی کے بعد جب division of labour او ر specilizationکی اصطلاحات کا عام ہونا شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مادی، نفسیانی، سائنسی اور عمرانی علوم کے معرضِ وجود میں آ جانے کے بعد جیسے حکومتی و غیر حکومتی سطحوں پر ایک انقلاب نے جنم لیا۔ مختلف محکمہ جات، مختلف کمیٹیوں اور مختلف کمیشنوں کو عوامی خدمات کی بہتری کے لئے تحقیقاتی کام تقویض ہونے شروع ہوگئے۔ کام کاج کے اِس طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے ملکوں کو مختلف پیمانوں پر نانپا گیا، کچھ ملک ترقی یافتہ(developed) قرار پائے، کچھ ترقی پذیر(developing)، وہی کچھ ترقی کے پیمانے پر پہنچے ہی نہیں،یوں under developed قرار پائے۔ عوامی خدمات کے اِس لائحہ عمل کو دیکھتے ہوئے یہ باور کیا گیا کہ عوام کے کلیات کو ہی نہیں بلکہ جزئیات تک کو مطمئن کیا جائے۔ لیکن خیال رہے کہ متعلقہ فریم ورک نے صرف انسانوں کی مادی ضروریات کو پورا کرنے پر ہی اکتفا کیا ۔ یہاں پر سارا زور انسان کو معاشی خود مختاری حاصل کرنے پر دیا گیا۔ کسی اخلاقی یا روحانی ضرورت کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔

٭مادی فریم ورک کی بنیاد:

اس فریم ورک پر اصل میںانیسویں صدی عیسوی سے پہلے کام ہونا شروع ہوچکا تھا، جب مختلف فلاسفہ،سائنس داں ، معاشی علماءو نفسیات کے ماہرین نے اپنے اپنے نظریوں کو پیش کیا اور وقت کے ہر کسی باسی کو چونکا دیا(قطع نظر اس سے کہ مذکورہ نظریوں میں علمی و عقلی بنیادوں پر کتنا شر موجود تھا اور کتنی خیر کی امید)۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اِس یورپی فریم ورک کی کُل اساسات کا ماخذ مادہ (material)تھا ، اس لیے اِس کی ترقی بھی مادی نقطہ نگاہ سے دیکھی گئی۔ مادے کے ساتھ کسی روحانی یا اخلاقی پہلو کا کُلی طورپر انکار کیا گیا ۔ آج کا انسان بشمول مسلمان ان دو قُطبین(مادی اور ُروحانی ضروریات )کے مابین توازن برقرار رکھنے سے قاصر ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جاے کہ روحانی پہلو کو نظر اندار کرکے صرف مادی ضروریات کے پیچھے انسان اپنا رات دن ایک کرنے میں محنت و جستجو کرتا ہے تو بے جاہ نہ ہوگا۔

 ٭مادی فریم ور ک کا لائحہ عمل اور اُس کا نقطہ عروج :

موجودہ دنیا کی تمام تنظیمات و محکمہ جات جب اپنے مشن کو حاصل کرنے کی خاطر مختلف پروگرموں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو وہاں پر لوگوں کی نفسیات کا پورا ریکارڑ اکٹھاکیا جاتاہے۔ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے وقت اس بات کو یقین میں تبدیل کیا جاتا ہے کہ لوگ متعلقہ پروگرام سے منہ موڑ نہ لیں۔ پر وگرام کو اُن تک پہنچانے کے وقت لوگ پروگرام کی طرف نہ چاہتے ہوئے بھی مائل ہوجائیں، اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اور اب اگر کسی وجہ سے وہ پروگرام کی طرف دلچسپی نہ دکھائیں تو سر جوڑ کر یہ سوچ و چار کیا جاتا ہے کہ کس طرح لوگ ہمارے پروگرام کی طرف مائل ہوجائیں۔ لوگوں کے متعلق ہر طرح کی انفارمیش کو مہیا کیا جاتا ہے، اُس پر تھنک ٹینک دن رات بیٹھتے ہیں کہ لوگوں کے تمام حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں کون سا اور کس طرح کا پروگرام مرتب کرنا ہے، جس سے لوگ ہماری طرف مائل ہو جائیں۔ اس طرح سے یکے بعد دیگرے تجربوں کو آزما کرلوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے پروگرام کی طرف بالآخر پھیر دیا جاتا ہے۔اِس طر ح کی پیشہ ورانہ تنظیمی خدمات کوبیسویںصدی کے بعد بدرجہ اُتم عمل میں لایا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے ان خدمات کا ماخذ اور تنہا ماخذ مادہ تھا۔ اِن سرکاری و غیر سرکاری تنظیموںو محکمہ جات کا ویسے بھی یہی ایک مقصد تھا کہ کس طرح سے لوگوں کو جنگلی درندوں کی طرح مادے کے پیچھے لگا دیا جائے، لیکن وہی دوسری طرف لوگوں کی مجموئی آبادی اپنے روحانی پہلو سے کوسوں دور چلی گئی ۔ روحانی پہلوں پر جو مذاہب اور اُن کی ذیلی تنظیمات کام کر رہی تھیں ، انہوں نے اپنے کام کاج میں کسی پیشہ ورانہ نقطہ نگاہ کو پیش کرنے کا سوچا تک بھی نہیں ، نتیجتاً لوگ اُن سے بدھک گئے۔ عیسائیت میں کیتھو لک اور پروٹسٹنٹ کی رساکشی کی بھی یہی ایک بنیادی وجہ بن گئی۔کیتھولک طبقے نے روحانی پہلو کو حد سے زیادہ یا انسانی فطرت کے خلاف پیش کرتے ہوئے پھیلانے کی کوشش کی، وہی مادے کے ساتھ روح کی صحیح تطبیق کے نہ ہو نے سے لوگ دوسری طرف سے پروٹسٹنٹ فکر اور نظرئیے سے نفرت کرنے لگے۔ انہی منحرف شدہ لوگوں میں سے بہت سارے بعد ازاں نہ صرف ملحدانہ نظریات کے پرچارک بنے ، بلکہ مذا ہب کو غلط رنگ دینے میں بھی پیش پیش رہے۔

٭دین اسلام کا مزاج:

اس ساری صوتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اب اسلام کے مزاج و فطرت کی بات، جس کے تناصب اور متوسطی کی شان ہی کچھ اور ہے اور مندرجہ بالا صورتحال سے بالکل مختلف ۔ یہاں روحانی اور مادی ضروریات کا بنفسِ نفیس پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے۔ لیکن اِن کے درمیان ایک ایسی تطبیق ہونی لازمی ہے جس سے دونوں کے حصول میں کوئی دقعت یا اڑچن پیش نہ آئے۔ اسلام نہ ہی حرام کمائی و ناجائز ذرائع کو استعمال کرنے کے بعد دنیا کمانے کا روادار ہے اور نہ ہی خلوت یا گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بعد آخرت سنوارنے کا سبق دے رہا ہے۔ اس لحاظ سے متذکرہ دونوں قطبین کے مابین ایک متوسط لکیر کھینچ کر دونوں کے درمیان ہم آہنگی کی بنیاد ڈال کر بیلنس اختیار کرکے دنیا اور آخرت دونوں کی فکر اور دونوں کو کمانے کی خاطر سعی کرنے کی ضرورت پر ہدایات فراہم کرتا ہے۔

٭تحریک اسلامی کا بنیادی کام :

 قرآن پاک میں امت مسلمہ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے ایک جماعت کا ہونا ضروری ہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور بدی سے روکے(آل عمران)۔ اس کے علاوہ نبی ﷺ کا یہ فرمان کہ میں تم کو جماعت کے ساتھ چمٹے رہنے کی تلقین کرتا ہوں اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ اسلامی تنظیمات کی ذمہ واریاں با لکل اُسی طرح کی ہیں جو تمام انبیاءؑ نے اپنے اپنے ادوار میں انجام دے دی۔ بدی سے روکنے اور بلائی کی طرف راغب کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ افراط و تفریط کے شکار ہونے کے بجائے اپنی زندگیوں کو متوزان پیمانے پر جینے کے روادار بنے۔ اب یہاں سے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح مادی ترقی کو لے کر ملکوں کے ملک اپنے شہریوں کو مختلف النوع خدمات بہم پہنچاتے ہیں، بالکل اُسی طرح مسلم دنیا میں چل رہی دینی تحریکات و تنظیمات لوگوں کو یہ خدمات پہنچا رہے ہیں کہ وہ اپنے حیوانی نفس اور روحانی ضرورت کے درمیان افراط و تفریط کے شکار نہ ہوجائیں۔ اس صورتحال میں اُن تنظیمات کا خود بخود قلع قمع ہوجائے گا، جو لوگوں کو یا تو صرف روح کے پیچھے دوڑنے کی ترغیب دیتے ہیں یا صرف مادےت کو حاصل کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ماضی میں لوگ پہلے سے ہی اُن جماعتوں سے دور ہو چکے ہیں جو صرف روحانی پہلو پر زور دیتے ہیں۔ ایسی جماعتیں اب خود بخود اپنی ضرورت کو غیر موزون سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ نہ صرف دینِ اسلام سے ہی ہے، بلکہ باقی مذاہب کے پیچھے بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ مادے اور روح کے درمیان افراط و تفریط کی صورتحال میں اِس وقت لوگ مادے کے پیچھے اندھوں کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ لیکن یورپ و امریکہ میں متعلقہ فریم ورک پر سوچ و چار کرنے والے حضرات اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اِس کو بھی ختم ہونا ہے۔ کیوں کہ اِس فریم ورک نے لوگوں کو ذہنی بیماریاں، سماجی طور ناکارہ بنانے، خاندانی تباہی، جسمانی تشدد، جنسی ہیجان اور سماج کے پرخچے اُڑنے کے سوا کچھ اور نہیں دیا۔

٭امید کی کرن میں ممکنہ مواقع:

مسلم دنیا کے اندر کام کررہی تحریکات کو (کم سے کم) اس بات کاخواستگار ہونا چاہے کہ مغربی و امریکی طوفان کے ختم ہونے تک انہیں اس حد تک کام کرنا ہے کہ اُن طاقتوں کے صفحہ ہستی سے مٹنے کے وقت تک اُن سے زیادہ کسی اورنظریہ کا زور مسلم دنیا پر قائم نہ ہو۔ لیکن اُس پیمانے تک پہنچنے کے لئے کیا اُن کے اندر اتنی صلاحیتیں ہیںکہ وہ ایسا کار عظیم انجان دے سکیں؟ کیا اُن کی افرادی قوت اتنی مضبوط ہے کہ وہ مختلف ہائے طبقات کے لوگوں کو اپنے کردار و اخلاق کی اعلیٰ پایہ نوازشوں سے سر کر سکیں؟ کیا انہوں نے سماج کے مختلف عناصر کی اتنی تربیت کی ہے کہ وہ روح و مادے کے مابین صحیح تطبیق کرنے میں چین و سکون محسوس کرسکیں؟ کیا عام لوگوں کی اتنی تربیت کی گئی ہے کہ وہ مادے کی پیچھے گھوڑوں کی طرح دوڑنے کے بجائے روح کا بھی خیا ل رکھیں؟ تحریکات اسلامی کے لئے ویسے بھی یہ ایک نیک شگون ہے کہ مغربی دنیا میں آزما ئے گئے ماڈلز نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری عالمِ انسانیت کے لئے سبق آموز ہیں۔ دنیا کے باقی ہائے نظامات سب لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں، کہ انہوں نے آخر دنیا کو یہ کس اندھیر نگری میں دھکیل دیا ہے؟ تحریکات اسلامی کو اپنی ذمہ واریوں کی طرف خاص خیال رکھ کے امت مسلمہ کو اِس اندھیر نگری سے نکالنا ہے اور انہیں ایک ایسے نظام کے سانچے میں ڈال دینا ہے، جہاں روح و مادے کے درمیاں صحیح تطبیق و توازن موجود ہوگا۔

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.