یہودی دماغ کی کرامتیں آپ نے بہت سنی ہوں گی، آج ہم بھی آپ کو ایک قصہ سناتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے رجب طیب اردوان کی ایک میٹنگ کا، جو انہوں نے میئرز کے ساتھ کی، اور سنایا کہ 2023ءمیں ترکی ایک نیا ترکی بن جائے گا۔ اور جب رجب طیب اردوان فرما رہے ہیں تو یہ قوم میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش نہ ہوگی بلکہ اس بات میں کوئی حقیقت ہے۔
1918ءمیں پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے میں، فاتح اتحادیوں نے ایک”Treaty of Sevre” کیا جس کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے اور غیر ترک ریاستوں کو آزادی دے دی گئی، مگر ترک نہ مانے، بڑی زبردست جنگ ہوئی، Greece پر ترکوں نے فتح حاصل کی، مگر پھر اندر کے غداروں کی کوشش سے نہ جانے کیا ہوا کہ ایک نیا معاہدہ ” Treaty of Lausanne II ” وقوع میں آیا۔ یہی معاہدہ ہے جو آج کل ترکی کے خلاف سب سازشوں کا سبب ہے۔ طیب اردوان خوش ہیں کہ 2023ءمیں یہ معاہدہ زائد المیعاد ہو کر ختم ہوجائے گا اور ترکی کی پرواز آسمانوں کے ا ±س پار تک ہوگی، اور مغربی قوتیں غصے سے ہونٹ چبا رہی ہیں اور اس معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ترکی کو برباد کردینا چاہتی ہیں۔ طیب اردوان کی حکومت کے خلاف بغاوت بھی انہی کوششوں کا حصہ تھی۔
یہ معاہدہ 24 جولائی 1923ءکو طے پایا، جب انگلینڈ کو سب کا باپ مانا جاتا تھا۔ اس معاہدے کے تحت کئی ترک علاقے بھی ترکی سے جدا کردیے گئے، ترکی کے کئی حقوق ختم کردیے گئے، اسے مردِ بیمار کہا گیا، خلافت ختم کردی گئی، خلیفہ کو جلا وطن کیا گیا، تمام خاندان کو یا تو مار دیا گیا، یا لاپتا کردیا گیا، خلیفہ کے اختیارات اور تمام اثاثے بھی ضبط کرلیے گئے۔ ترکی کو سیکولر ریاست قرار دیا گیا، تیل نکالنے کی اجازت سلب کرلی گئی اور ایک آبنائے باسفورس جوSea Black اور بحر مرمرہ کو ملاتی ہے، اور آگے بحر روم تک جاتی ہے، کو بین الاقوامی راستہ بنا دیا گیا، یعنی وہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں سے ترکی ٹیکس وصول نہیں کرسکتا۔ ظلم کی یہ داستان جو مسلمانوں کی یکجہتی پر کھلا وار تھی، 2023ء میں انجام کو پہنچنے والی ہے، پھر ترکی اپنے علاقے مانگے گا، ملک میں تیل نکال سکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسلام کے نفاذ اور خلافت کی واپسی کی بات کرسکتا ہے۔ قیادت بھی جی دار ہے، یہی سبب ہے کہ یہودیوں کے سینوں میں آگ لگی ہوئی ہے، وہ 2023ءسے پہلے امتِ مسلمہ کا قلع قمع چاہتے ہیں۔
یہ معاہدہ ترکی پر مسلط کرنے والے برطانیہ، آئرلینڈ، فرانس، روس اور اٹلی تھے، لیکن اب سبھی مغربی ممالک اس معاہدے کے ختم ہونے سے ڈر رہے ہیں، جب کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ 95 فیصد مسلمان اس معاہدے کو نہیں جانتے، وہ بھلا کیوں متحد ہوکر ترکی کی خلافت قائم کریں گے؟ ہم تو ایک قیادت تک منتخب نہ کرسکے۔
ترکی کو اس معاہدے کے بعد ایک آزاد ریاست قرار دیا گیا اور کمال اتاترک اس قوم کو سیکولر بنانے کے لیے ان پر مسلط کیے گئے۔ لیکن کیا یہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے کہ ایک آزاد سلطنت کو اس طرح زنجیریں ڈال دی جائیں؟ کیا برطانیہ دنیا کا ٹھیکیدار لگتا ہے؟ کیا تمام 40 اسلامی ممالک جو خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے سے تشکیل پائے، 1923ء سے 2023ء تک یکجا اور طاقتور ہونے کے لیے کوئی کوشش کرپائے؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ ایک مسلمان جنگ کے دوران 20 کافروں پر بھاری ہوتا ہے، پھر کیا قرآن غلط بیانی کررہا ہے نعوذ باللہ؟ یا ہم درحقیقت مسلمان نہیں رہے جو اس بری طرح کچلے جارہے ہیں! ایک منظم اور مسلسل کوشش ہے جو ہمیں لادین اور بے عمل بنا رہی ہے، اور ہم کسی صورت آنکھیں کھول کر صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ معاہدہ اس قدر اہم ہے کہ اس کے ختم ہوتے ہی اصولاً مسلم امہ متحد ہونے کا حق بحال رکھتی ہے اور خلافت بھی ازسرنو قائم ہوسکتی ہے، کیونکہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی پہلے والے حالات بحال ہونا بالکل قانونی ہے۔ ترکی کے عوام اور حکومت اس صورتِ حال کے لیے بالکل تیار ہیں اور مسلم امہ کی قیادت کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی مسلم ملک کی حمایت میں ترکی آگے بڑھتا ہے، وہ اس بات کا مظہر ہے کہ ترکی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہے، نہ ترک حکمرانوں نے دشمنوں سے کوئی ڈیل کی ہے۔ اب آگے دیگر مسلم ممالک کا فرض ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یعنی خلافت قائم کرنے کے لیے کس طرح ترکی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھتے ہیں۔
یورپ، امریکا، بھارت، اسرائیل وغیرہ اس معاہدے کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کے اختتام کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے 100 سال سے جاری کوششوں کو تیز تر کیے جارہے ہیں، جس میں سب سے بڑا مہرہ اِس وقت بھارت ہے، جو ایک طرف سعودی عرب کے فرماں رواﺅں کو قابو کیے ہوئے ہے اور دنیا کا سب سے بڑا مندر سعودی عرب میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، تو دوسری طرف بھارت ایران تعلقات بھی اس قدر پختہ ہیں کہ تمام دنیا کے ایران سے کاروبار کرنے پر پابندیوں کے دوران بھی پورے بھارت میں ایران سے درآمد شدہ گیس استعمال ہوتی رہی اور ایران زرمبادلہ حاصل کرتا رہا۔ دوسری طرف چاہ بہار کی بندرگاہ بھی بھارتی تعاون سے تعمیر ہورہی ہے، یعنی جیسے اقوام متحدہ کی کشمیر کے متعلق قرارداد کا بھارت پر کوئی اثر نہیں، اسی طرح ایران پر لگی پابندیوں سے بھی بھارت مستثنیٰ ہے۔
خلافت کے نفاذ کو روکنے کے لیے جس طرح کئی مسلم ممالک کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا اسی طرح غدار اور بھیڑیا صفت حکمرانوں کو کئی مسلم ممالک پر مسلط کردیا گیا، تاکہ وہ ایک طرف اسلامی اقدار کے خلاف تلوار اٹھائیں تو دوسری طرف خلافت کے لیے مسلم اتحاد میں شامل ہونے کا امکان بھی جاتا رہے۔ ان ممالک میں سرفہرست سعودی عرب ہے۔ سعودی عرب جس طرح کفر کے قدموں میں سجدہ ریز ہوا ہے، وہ انتہائی تیز رفتار بھی ہے اور حیران کن بھی، یعنی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سال کی محنت اور مسلم امہ کی 1400 سالہ تاریخ کا کوئی پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا۔ یہ سب عین اس موقع پر ہوا جب ترک معاہدہ ختم ہونے کو ہے اور سعودی عرب اس فکر میں ہے کہ کہیں ترکی کو خلافت نہ مل جائے، لہٰذا وہ مسلم امہ اور ترکی کی مخالفت میں اس قدر اور اچانک آگے بڑھ گیا کہ دشمنوں سے جا ملا۔ ان کا مذہب، ثقافت اور کردار اپنا لیا کہ کسی طرح وہ خوش ہوجائیں اور ترکی کو خلافت کا کوئی کردار دینے کے بجائے سعودی عرب کو ہی کلیدی کردار دیں۔
سعودی عرب کی غلطی یہ ہے کہ اس نے مسلم امہ کے لیے فلاحی کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی لیڈری کے لیے دشمنوں پر بھروسا کیا۔ دوسرے یہ کہ سعودی عرب عراق، کویت جنگ کے زمانے سے امریکا کے ہاتھوں کھلونا بنا رہا۔ تمام تیل امریکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے، ایسے میں کثیرالملکی فوج بناکر وہ یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ وہ ک ±ل مسلم ممالک کا نمائندہ ہے، سب کو معلوم ہے کہ یہ فوج صرف امریکی اشارے پر کام کرے گی، اور مسلم ممالک میں سے کسی کو تباہ تو شاید کررہی ہو مگر مدد کسی کی نہیں کر رہی، جب کہ ترکی ہر مظلوم مسلم آبادی کے لیے بڑھ کر کام بھی کرتا ہے اور عالمی سطح پر آواز بھی اٹھاتا ہے۔ سعودی عرب معاشی طور پر برباد ہوچکا ہے، جب کہ ترکی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہورہا ہے، اور جب ترکی اپنا تیل نکالے گا اور اپنے سمندری راستے کا ٹیکس وصول کرے گا تو اس کی آمدنی میں بھی ان شاءاللہ اضافہ ہوگا اور وہ مسلم ممالک کی مدد کے لیے بھی زیادہ مو ¿ثر طریقے سے کام کرسکے گا، یعنی 2023ءکے بعد ترکی کے آسمان چھو لینے کے لیے راہیں مزید ہموار ہوں گی۔
فی الوقت اُمت مسلمہ کے کرنے کا کام یہ ہے کہ میڈیا وار لڑنے کی تیاری کریں۔ اس لڑائی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹی وی ڈراموں اور اشتہاروں کی برائیوں میں اخبار کے اخبار کالے کردیں، اس کا مطلب ہے ان کی ٹکر کا میڈیا مقابلے پر لانا۔ اس وقت سی این این، والٹ ڈزنی، بی بی سی، الجزیرہ اور کئی پاکستانی چینلز کے پیچھے یہودی دماغ کام کررہا ہے۔ مسلمانوں کو ایسے طاقتور چینل پیش کرنے ہوں گے کہ لوگ یہودیوں کے چینل چھوڑ کر ہمارے مختلف چینلز دیکھیں۔ جب ہم لوگوں کا دھیان اپنی طرف کریں گے تو ہی ہم اپنے خیالات ان کے ذہنوں میں منتقل کرسکتے ہیں اور اللہ کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔”کاش کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات“۔
٭٭٭٭٭