امتحانات کسی بھی نظام تعلیم کی روح ہے۔ یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا درس و تدریس کا عمل لازمی ہے۔بلکہ یہ نظام تعلیم کا لازم و ملزوم حصہ ہے۔ان کی اپنی الگ افادیت ہے۔ طلبہ کی صلاحیت کی جانچ امتحانات کے انعقاد کے ذریعے ہی کی جاتی ہے اور ان کی رفتار و ترقی کا جائزہ بھی امتحانات منعقد کرنے سے ہی ممکن ہے جسے طلبہ کے ساتھ ساتھ ان کے والدین اور بالخصوص اساتذہ بچوں کے تعلیمی میدان میں ترقی اور کارکردگی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ امتحانات کے انعقاد سے بچوں کی جماعت بندی کرنے اور مزید تعلیم کے سلسلے میں مناسب رہنمائی ہوتی ہے۔ جہاں تک کشمیر ڈویژن میں طلبہ کے امتحانات کا تعلق ہے ، یہاں نوے نوے کی دہائی سے اکتوبر/ نومبر سیشن میں تمام سطح کے سالانہ امتحانات منعقد ہوتے ہیں۔بالخصوص JKBOSE اور SIE کے ذریعے لئے جانے والے امتحانات کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان امتحانات کے نتائج تقریباً ایک دو ماہ کے بعد دسمبر/ جنوری تک سامنے آتے ہیں، یوں ان امتحانات کے انعقاد سے لے کر نتائج کے آنے تک تقریباً تین مہینوں کا قیمتی وقت صرف ہوتا ہے اور بعد میں سرمائی تعطیلات میں مزید کم سے کم تین ماہ طلبہ کو گھر پر ہی گزارنے پڑتے ہیں۔ اس طرح تقریباً تعلیمی کلینڈر کا نصف سال امتحانات کے انعقاد اور سرمائی تعطیلات میں گزر جاتا ہے۔ مزید برآں سکولوں میںدرس و تدریس کے ایام کشمیر کے نامساعد و شورش زدہ حالات اور ہڑتالوں و بندشوں کی وجہ سے متاثر ہی نہیں بلکہ ضائع ہوتے ہیںجس کا خمیازہ صرف معصوم طلبہ کو ہی اٹھانا پڑتا ہے اور اس نقصان کی تلافی نہ محکمہ تعلیم ہی کرسکتا ہے اور نہ ہی تدریسی عملہ۔ چونکہ کشمیر کے پہلے ہی نامساعد حالات ہر نئے دن کے ساتھ مزید دگرگوں اور ابتر ہوتے جارہے ہیں اور حالات میں بہتری کی فی الحال کوئی گنجائش و اُمید نظر نہیں آرہی ہے….اس لیے وزارت تعلیم کی طرف سے کشمیر میں سالانہ امتحانات کے انعقاد کے سیشن میں ترامیم اور تبدیلی لاکر اب اکتوبر / نومبر کے بجائے مارچ / اپریل سیشن کی تجاویز زیر غور ہے بلکہ اس کا حتمی فیصلہ آنے والے دنوں میں متوقع ہے۔
ایک طرف اگر دیکھا جائے تو کشمیر میں امتحانات کے لیے مارچ سیشن پوری طرح موزون نہیں ہوسکتا ہے،کیونکہ امتحانات کے انعقاد اور نتائج کی تیاری میں کم سے کم پورا مارچ مہینہ مکمل ہوجائے گا اور یہ بھی تب ممکن ہے جب موسم سازگار ہوگا کیونکہ یہاں کشمیر میں موسم کسی بھی وقت کروٹ بدل سکتا ہے اور مارچ میں بھی زبردست سردی اور برف باری ہوتی رہتی ہے۔ پھر نئی درجہ بندی اپریل کے اختتام تک ہوگی۔نتیجتاً نیا تعلیمی سیشن مئی سے شروع ہوگا….! البتہ مارچ سیشن کی کچھ افادیت بھی ہے۔ ایک یہ کہ سرمائی تعطیلات تک طلبہ درسی کتابوں کا نصاب تقریباً مکمل کر چکے ہونگے۔ مدرسین حضرات کو بھی نصاب مکمل کرنے کی جلدبازی نہیں کرنی پڑے گی۔ بہت بہتر طریقے سے سیلبس Break up پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ مزید برآں سرمائی تعطیلات میں طلبہ کو امتحانات کی تیاری اور اسباق کے اعادے کا بھرپور وقت ملے گا جسے ان کے امتحانی نتائج میں بہتری کی کافی امیدیں کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کو مسابقتی competitive امتحانات وغیرہ کی تیاری کے لیے کم سے کم تین چار ماہ کی تعطیلات میسر رہیں گے جو طلبہ کے لیے کافی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اور اس طرح یہاں کے طلبہ کو کل ہند سطح کے مسابقتی امتحانات میں داخلہ کے لیے باقی ریاستوں کے طلبہ سے ایک ہی وقت میں شامل ہونے میں دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ الغرض نظام تعلیم میں امتحانات میں اصلاحات reforms اور ترامیم لانے سے طلبہ کو ضرور فائدہ ہو گا ۔ضرورت ہے کہ سماج سے وابستہ ہر فرد اس ضمن میں اپنا بھرپور تعاون پیش کرے، لیکن ابھی اعلی حکام کے حتمی فیصلے کا انتظار ہے….دربارمو کے سواگت کا انتظار ہے۔
قارئین کرام ! ایک بات تو واضع ہے کہ امتحانات کے لیے اکتوبر/ نومبر سیشن کو مارچ / اپریل سیشن میں منتقل کرنے سے ہی نظام تعلیم میں مثبت تبدیلی لانے کی آس رکھنا تب تک عبث ثابت ہوسکتی ہے جب تک نہ مزید جدید اصلاحات لائیں جائیں۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ طلبہ کے ساتھ ساتھ بچوں کے سرپرستوں یہاں تک کہ ان کے اساتذہ سب کی یہی خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح ان کے بچے کے امتحان کا نتیجہ بہتر سے بہتر رہے اور طلبہ زیادہ سے زیادہ نمبرات لے کر کامیاب ہوجائیں،تاکہ اس طرح سماج میں ان کی ناک اونچی رہے ۔ یہاں ایک اہم بات ذہن میں رکھنی چاہیے اور اس پر واقعی غور و فکر کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے کہ محض امتحانات پاس کرنا تعلیم کا اصل اور بنیادی مقصد نہیں ہے۔ ہمارے یہاں مروجہ امتحانات کے طور طریقے نے تعلیم کے بنیادی مقصد کو نظروں سے ہی اوجھل کردیا ہے۔صاف و شفاف امتحانات کا انعقاد بس نام کی چیز رہی ہے۔ مروجہ امتحانات سے طلبہ کی لیاقت اور صلاحیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہرگز نہیں ہوسکتا،کیونکہ طلبہ صرف امتحان کے دوران محنت کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں یاد ہوتا ہے اگلی جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی بھول جاتے ہیں مزید ان کی ساری توجہ درسی کتب کے ان اسباق تک محدود رہتی ہیں جو نصاب میں پہلے سے مشتہر ہوتے ہیں خارجی مطالعہ کا موقع طلبہ کو نہ میسر ہی ہوتا ہے اور نہ ان میں انہیں دلچسپی ہوتی ہے یوں یہ امتحانات پاس کرنا ہی تعلیم کا مقصود بن گیا ہے۔ علاوہ ازیں افسر شاہی ، اقربہ پروری اور رشوت خوری نے جہاں پورے تعلیمی نظام کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا وہیں امتحانات بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتے ۔ اس طرح تعلیم کا بنیادی مقصد بلکہ امتحان منعقد کرنے کا اصل مقصد ہر نئے دن کے ساتھ فوت ہوتا جارہا ہے۔ امتحانات کو مارچ سیشن میں منتقل کرنے سے کسی تعلیمی انقلاب کی فی الحال امید رکھنا خوابوں دنیا میں رہنے کے مترادف ہیں کیونکہ کشمیر میں جہاں اکثر موسم ناسازگار ہوتا ہے وہیں یہاں کے روزمرہ حالات اس کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے سال بھر دگرگوں اور کشیدہ ہی رہتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح تدریسی عمل کے لیے اساتذہ کے ٹریننگ کیمپوں کا باضابطہ انعقاد وقت وقت پر ہوتا ہے اسی طرح امتحانات کے بہتر انعقاد کے لیے اساتذہ کے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ تاکہ امتحانات کے انعقاد میں بے ضابطگیوں پر قابو پایا جاسکے۔مزید خود احتسابی کی ضرورت ہے ، ضمیر اور خدا کے سامنے جوابدہ ہونے کی ضرورت ہے ، قوم کے مستقبل پر رحم کھانے کی ضرورت ہے ، طلبہ اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے. اسطرح نتائج یقیناً حوصلہ افزا اور سود مند ثابت ہونگے۔