رمضان کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس میں روزہ رکھنا فرض کردیا گیا ہے اور راتوں میں تراویح پڑھنا نفل (یعنی سنت) ہے۔ اس ماہ میں ایک فرض کا ادا کرنا دوسرے کسی مہینے کے ستر فرض ادا کرنے کے برابر ہے۔ یہ مہینہ مواساۃ، یعنی ہمدردی کرنے والا مہینہ ہے۔‘‘ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سخی و فیاض ہونے کے باوجود اس ماہ میں زیادہ سختی ہوجاتے تھے۔ جو کچھ آپؐ کے پاس ہوتا تھا وہ غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں میں تقسیم کرتے تھے۔ رمضان کو نیکیوں کا موسم بہار کہا گیا ہے اور نیکیوں میں جو سب سے اہم ترین نیکیاں تصور کی جاتی ہیں وہ کسی مجبور کی مدد کرنا، کسی گرے ہوئے کو سہارا دینا، کسی لاچار کی داد رسی کرنا، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، کسی اپاہج کی لاٹھی بننا ہیں۔اُمت مسلمہ خدائی اُمت ہے، ان کے پاس جو نظام موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے، اور اُس نظام میں سماج کے ہر فرد بشر کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ کوئی انسان فاقہ کشی کا شکار نہ ہوجائے، کسی غریب و یتیم کی بیٹی بغیر شادی کے نہ رہ جائے، کسی لاچار و مسکین کو یہ احساس نہ ہوجائے کہ اس دنیا میں اُن کا کوئی نہیں ہے، یہ مسلمان کے منصبی فرائض میں شامل ہے۔ والدین کے حقوق سے لے کر رشتہ داروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوں سے لے کر مسافروں کے حقوق تک بہت ہی واضح انداز میں بیان کیے جاچکے ہیں۔ماہ رمضان کو اس حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس ماہ کو مواساۃ کا مہینہ کہا گیا ہے، اس لیے بحیثیت مسلمان ہماری یہ دینی ذمہ داری ہے کہ ہم اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ انفاق کریں، اللہ کے زیادہ سے زیادہ مجبور بندوں کی داد رسی کریں اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاچاروں، بیکسوں اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں تک پہنچ جائیں اور اُن کی زندگی میں شامل کٹھنائیوں کو دور کرنے کی حتی المقدرو کوشش کریں۔
جموں وکشمیرایک جنگ زدہ خطہ ہے، یہاں عددی اعتبار سے دنیا کی دوسری بڑی فوج سیز فائز کرکے ثابت کرتی ہے کہ وہ پوری قوم کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ یہ جنگی صورتحال سالہاسال سے چلی آرہی ہے۔ اس میں ایسا کوئی گھر نہیں بچا ہوگا جو کسی نہ کسی اعتبار سے متاثر ہوا ہوگا۔ ہزاروں بچے یتیم ہوئے ہیں، ہزاروں خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ ایسے بے شمار خاندان ریاست میں موجود ہیں جن کے گھر کا واحد کمانے والا جان بحق کردیا گیااور اُن کے گھر میں موجود درجنوں افراد حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہندوستان کے مختلف جیلوں میں برسوں سے نظر بند ہیں۔ اُن کے پیچھے اُن کی بیوی بچوں کی کفالت اور بچوں کی تعلیم ریاست کا ایک سلگتا ہوا ایشو ہے۔ایسے بھی گھرانے موجود ہیں جنہیں بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ ایسے بھی خاندان ہیں جہاں جوان سال لوگ تو موجود ہیں لیکن ٹارچر کی وجہ سے اپاہچ ہوچکے ہیں، پیلٹ گن سے اُن کی آنکھیں چھن چکی ہیں یا ٹارچر سے وہ ناکارہ بنادئے گئے ہیں، اس لیے وہ کمانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور وہ اپنے علاج کے لیے پائی پائی کے لیے ترس رہے ہیں۔میری آنکھوں کے سامنے اُس عسکریت پسند کا چہرہ کبھی بھی اوجھل نہیں ہوپاتا ہے جو نوے کی دہائی میں اپنے علاقے میں بہت ہی معروف تھا، ۱۹۹۶ء میں فورسز کے ساتھ ایک طویل جھڑپ میں جاں بحق ہوگئے، بہادری میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا، خوبصورت اور ذہانت میں بے مثال تھے۔ اُن کا والد پہلے ہی انتقال کرچکا تھا۔ گھر میں دو بھائی اور والدہ تھیں۔ دو کنال زمین تھی جو اُنہوں نے اپنے عسکری دور میں ہی فروخت کردی اور اُس سے حاصل ہونے والی رقم سے چھوٹے بھائیوں اور والدہ کی رہائش کے لیے اُنہیںمکان تعمیر کرکے دیا۔دونوں کمسن بھائی کا بار بار فورسز اہلکاروں نے شدید ٹارچر کیا، کئی کئی ماہ تک دونوں بھائی تعذیب خانوں میں رہے تھے او رجب چھوٹ کرآتے تھے تو اُن کی حالت نہایت ہی خراب ہوتی تھی۔ زمین فروخت کرکے جو یک منزلہ مکان اُنہوں نے تعمیر کیا تھا ایک دن آرمی نے اُس کی کھڑیاں، دروازے توڑ دی اور دیواریں تک گرا دیں۔ ۱۹۹۶ء میں جب وہ جان بحق ہوگیا تو اُس کے بعد جلد ہی اُن کے دونوں بھائی ٹارچر کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوگئے، جو تاحال اپنی بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ اُن کی بوڑھی والدہ کو بھی شدید امراض لاحق ہوگئے اور آج وہ بستر مرگ پر پڑی ہوئی ہیں، وہ دوائیوں کے لیے ترس رہی ہیں۔ کوئی اُنہیں پوچھتا بھی نہیں، حالانکہ جس بستی میں وہ رہتی ہیں وہاں کے نوے فیصد لوگ صاحب ثروت ہیں۔ یہ ایک مثال ہے ایسی سینکڑوں مثالیں یہاں کے ہر ضلع اور ہرتحصیل میں موجود ہیں۔
تحریک حق خود ارادیت کے لیے جانیں نچھاور کرنے والوں کے مائیں سسک رہی ہیں، اُن کے یتیم بچوں کے چہروں سے ہی رنج و ملال ٹپک رہا ہے۔ ہزاروںجوان سال بیٹیاں مہندی کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئی ہیں لیکن اُن کے سپنوں کو سچ ثابت ہونے میں غربت اور لاچاری روڑے اٹکا رہی ہیں۔ہمارے سماج کے ۲۰؍سے۳۰؍فیصد لوگ ایسے ہیں جو انفاق فی سبیل اللہ میں پیش پیش رہتے ہیں، جو حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت حاضر رہتے ہیں لیکن متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ چاہتے ہوئے بھی یہ ۲۰؍۳۰؍فیصدلوگ اُن کی مجبوریوں کا ازالہ نہیں کرپاتے ہیں۔ باقی ستر فیصد آبادی میں جذبہ انفاق وقتی ہوتا ہے۔ جوش میں آکر وہ کسی وقت انفاق کی اونچائیوں تک جاتے ہیں لیکن پھرجب بیٹھ جاتے ہیں تو پھر جیسے اُن کے لیے سب ٹھیک ہوتا ہے اور وہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔سیلاب۲۰۱۴ء میں، ۲۰۰۸ء،۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران یہ ستر فیصدعوام بھی اُٹھ کھڑے ہوگئے تھے۔ اُن مشکل ترین حالات میں یہاں کی صد فیصد آبادی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ حالات کی ماری انسانیت کی بھلائی او ربہبودی کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے المیہ یہ ہوتا ہے کہ ہم دائمی طور اپنے اندر خدمت خلق کے جذبے کو قائم نہیں رکھ پاتے ہیں۔خدمت کا ہمارا جذبہ وقتی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں حالات کی بھینٹ چڑے لوگ مصائب و مشکلات کا شکار ہیںاور کوئی اُن کی مستقل داد رسی کے لیے سامنے نہیں آتا ہے۔
ہمارے قوم کی مجموعی ذہنیت یہ بن چکی ہے کہ ہم اپنے ان حالات کا سارا قصور حریت قیادت، دینی جماعتوں اور مختلف غیر سرکاری فلاحی اداروں کے سر ڈال دیتے ہیں اور خود کو ان سماجی مسائل سے الگ کرکے یہ سوچتے ہیں کہ جیسے ہماری کوئی ذمہ داری ہی نہیں بنتی ہے بلکہ سارا کام سیاسی و دینی جماعتوں اور غیر سرکاری فلاحی اداروں کو کرنا ہے۔بے شک حریت لیڈران کو جدوجہد کے دوران ہوئے متاثرین کے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے، دینی جماعتوں کو حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کے دُکھ درد کا مداوا کرنا ہے اور غیر سرکاری فلاحی اداروں کو ہر مجبور، لاچار اور بے کس کی مدد کرنی ہے، لیکن ہم یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ ہماری ریاست کا کوئی خطہ ، قصبہ یا دیہات ایسی نہیں ہے جہاں اس طرح ضرورت مند موجود نہ ہوں، حریت قائدین پر قدغنیں عائد رہتی ہیں،دینی جماعتوں اور غیر سرکاری فلاحی اداروں کے وسائل محدود ہیں اس لیے وہ ابتر حالات پر قابو پانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، وہ اپنی حد تک کوششیں کرتے ہیں لیکن اُن کی کوششوں پر ہی انحصار کرنا دانش مندی نہیں ہے بلکہ سماج کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ پر کوششیں کرنی چاہیے۔ بستیوں میں بیوت المال قائم ہوں، صاحب ثروت لوگ عشرو زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر انفاق کی مثالیں قائم کریں، عام لوگ بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق نیک جذبے کے تحت اس کام میں ہاتھ بٹھانے کے لیے آگے بڑھیں تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کسی کو کوئی مسئلہ درپیش نہ رہے گا۔کیا کسی بستی کے تیس چالیس گھرانے بستی میں موجود دو غریب گھرانوں کی کفالت نہیں کرسکتے ہیں؟ کیا چالیس، پچاس ہزار کی تنخواہ پانے والا شخص اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ بستی کے کسی غریب اور یتیم بچے کی ماہانہ اسکولی فیس و دیگر اخراجات برداشت نہیں کرسکتا ہے؟ کیا تاجر پیشہ افراد کم از کم ایک بیوہ یا غریب گھرانے کی ماہانہ ضروریات (کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ)فراہم نہیں کرسکتے ہیں؟انفرادی حیثیت میں سوچنا ہے کہ میں کیا کرسکتا ہوں، جس دن انفرادی سطح پر ہمیں ہماری اجتماعی ذمہ داری کا احساس ہوجائے گا اُسی دن سے ہماری مشکلات ختم ہونا بھی شروع ہوجائیں گے۔
آج کے دور میں کم از کم کشمیر میں کوئی فاقہ کشی کا شکار نہیں ہوتا ہے لیکن مالی تنگ دستی اس حد تک ہے کہ غریب اور لاچار لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا پاتے ہیں، بیماری کی صورت میں اپنا علاج نہیں کرپاتے ہیں، بالغ بچیاں ہوں تو اُن کی شادی نہیں کرپاتے ہیں۔ہماری اجتماعی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ہماری ریاست کا کوئی بھی بچہ بغیر تعلیم کے نہ رہے، یہاں کوئی بیمار صرف اس لیے ہمت نہ ہار بیٹھے کہ بہتر علاج کے لیے اُن کے پاس پیسے نہیں ہیں، کوئی بالغ لڑکی اس وجہ سے غلط راہوں کا انتخاب او رخودکشی نہ کرے کہ اُن کے والدین اُن کی شادی نہیں کرسکیں گے۔بلکہ جس طرح ہم سب اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے فکر مند رہتے ہیں اُسی طرح ہم اپنے پڑوس میں موجود ہر غریب و یتیم بچے کی تعلیم کے لیے بھی فکر مند ہونے چاہیے، جس طرح ہم اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے پریشان رہتے ہیں اُسی طرح اُن بیٹیوں کی بھی ہمیں فکر دامن گیر ہونی چاہیے جن کے والدین موجودہ جدوجہد میں قربان ہوچکے ہوں، یا جو مختلف مسائل کی وجہ سے شادی بیاہ کے اخراجات پورا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسی بھی بستیاں ہیں جہاں بچہ یتیم ہوتا ہے، اُس کی نہ ماں ہے اور نہ باپ، دسویں جماعت میں 92 فیصد مارکس حاصل کرتا ہے، اُن کی پڑوس میں موجود اُن کے اپنے رشتہ دار کروڑ پتی ہیں لیکن کوئی اس یتیم ، قابل اور ہونہار بچے کی اعلیٰ تعلیم پانے کے سپنوں میں رنگ بھرنے کے لیے تیار نہیں ہے، کوئی ٹیویشن کے لیے اُنہیں فیس ادا کرنے کے لیے راضی نہیں ہے، حالانکہ اُن کے پڑوس میں موجود رشتہ دار سینکڑوں بچوں کے تعلیمی اخراجات پوری کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن پیسوں کی ہوس اور احساس ذمہ داری کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس یتیم بچے کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، اس بخل اور سنگ دلی سے نجات حاصل کرنا وقت کا تقاضا بھی ہے اور دین اسلام بھی ہمیں اس طرح کی لالچی اور منفی سوچ تبدیل کرنے کا حکم دیتا ہے۔
رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ بھی اگر ہمیں ہماری ذمہ داریوں کا احساس نہ دلا سکے، اگر ہم اپنے اردگرد ہزاروں یتیموں کی پریشانیوں کونہ سمجھ سکے، اگر ہمیں وہ ہزاروں زخمی یاد نہیں رہے جو گزشتہ حالات میں فورسز کی گولیاں او رپیلٹ کے چھروں کا شکار ہوچکے ہیں، اگر ہمیں زندان خانوں میں موجود وہ ہزاروں قیدی اور اُن کے پیچھے اُن کے بال بچے یاد نہیں رہے، اگر ہمیںپریشان حال بیوائیں اور حق خود ارادیت کی جدوجہد میں کام آنے والے نوجوانوں کے بزرگ والدین یاد نہیں رہے تو پھر ہمارے فاقوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہر عبادت کے روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے، روزوں سے محض فاقہ کشی مراد نہیں ہے بلکہ اِن سے مراد تقویٰ حاصل کرنا ہے، تقویٰ انسانیت کے دُکھ درد اور مجبوریوں کو محسوس کیے بغیر اور اُن کی مشکلات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کیے بغیر حاصل نہیں ہوتا ہے۔اُمید ہے ہم سب اس رمضان کو شعور بیدار کرنے کا ذریعہ بنائیں اور وہ تمام ذمہ داریاں سمجھیں گے جو بحیثیت مسلمان ہم پر عائد ہوجاتی ہیں۔