بھارتی فوج کے میجر گگوئی کی تازہ کارستانی۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

بھارتی فوج کے میجر گگوئی کی تازہ کارستانی۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

ضلع بڈگام کے علاقہ بیروہ میں تعینات بھارتی فوج کے میجر لیتْل گگوئی گزشتہ ہفتے ایک بار پھر شہ سرخیوں میں آگئے۔ اس مرتبہ ایک غریب اور کم سن لڑکی کی ورغلاکر سرینگر کے ایک ہوٹل میں لے کر آنے اور وہاں ہوٹل انتظامیہ کے ساتھ ہوئی ترش کلامی اور ہاتھا پائی کے بعد جب پولیس کو بلایا گیا تو یہ راز افشا ء ہوا کہ گزشتہ سال کے اوائل میں جس آرمی میجر نے ضمنی انتخابات کے موقعے پربیروہ کے رہنے والے فاروق احمد ڈار کو گاڑی کے ساتھ باندھ کر انسانی ڈھال بنایا اور اْنہیں بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ کئی دیہات میں گھماکر سنگ بازوں کے سامنے بطور ڈھال لاکھڑا کیا تھا، اْسی میجر نے آرمی میں کام کرنے والے ایک مقامی دلال سمیر احمد ملہ کی مدد سے بڈگام کی ایک کم سن لڑکی کو ورغلاکر سرینگر کے اس ہوٹل میں لایا تھا، جہاں اس بد نصیب کی عزت و عصمت کے ساتھ کھیلنے کا ناپاک منصوبہ بنایا گیا تھا۔ یہ بھلا ہو ہوٹل میں موجود اسٹاف کا جس نے ایک غیرریاستی شخص کے ساتھ مقامی لڑکی اور آرمی کے لیے کام کرنے والے ایک کشمیری نوجوان کو جب مشکوک حالت میں دیکھ لیاتو اْنہوں نے اْن کی پہلے سے ہی کی گئی نائٹBooking کو نہ صرف منسوخ کردیا بلکہ پولیس کو بلاکر میجر ، لڑکی اورآرمی کے لیے دلالی کرنے والے سمیر ملہ کو اْس کے حوالے کردیا۔تینوں کی گرفتاری کے بعد ہی معلوم ہوا کہ مقامی لڑکی کو غلط ارادے سے ہوٹل میں لے کر آنے والا کوئی اور نہیں بلکہ بڈگام میں تعینات بدزمانہ بھارتی فوج راشٹریہ رائفلزکامیجر گگوئی تھا۔ پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے اپنے آفیشل بیان میں کہا کہ ایک لڑکی سمیت دو افراد ہوٹل میں پہلے سے موجود ایک شخص سے ملنے آئے تھے لیکن ہوٹل انتظامیہ نے اْن دونوں کو مذکورہ مہمان سے ملنے نہیں دیا جس پر تیز کلامی اور بعد میں ہاتھا پائی ہوئی اور پولیس کو آنا پڑا۔جب کہ ہوٹل انتظامیہ کا بیان اور سی سی ٹی فوٹیج سختی کے ساتھ پولیس کے بیانیہ کو رد کردیتاہے۔ پولیس اور ہوٹل انتظامیہ کے بیانات کے درمیان ایک اور معاملے میں بھی واضح تضاد پایا جاتا ہے، جوں ہی یہ واقعہ پیش آیا تواپنے پہلے ردعمل میں ہوٹل انتظامیہ نے مقامی اخبارات کے نمائندوں سے کہا کہ ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے جب انتظامی کارروائیاں مکمل کرنے کی بابت میجر گگوئی سے مذکورہ لڑکی کا کارڈ طلب کیا گیا تو اْس نے لڑکی کا جو کارڈ دیا اْس میں اْن کی پیدائش 2001دکھائی گئی جس کے حساب سے لڑکی کی عمر 17 سال بن جاتی ہے لیکن واقعہ کے دوسرے دن پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ سرکاری دستاویزات یعنی آدھار کارڈ کے مطابق لڑکی کی عمر 19 سال ہے اور اْن کی پیدائش1998 میں ہوئی ہے۔ مطلب پولیس بیان نے یہ ثابت کردیا کہ لڑکی بالغ ہے اور اس اعتبار سے میجر گگوئی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنتا۔ ویسے بھی پولیس نے گرفتاری کے فوراً بعد میجر گگوئی اور اْن کے سہولت کارکو آرمی کے اْس یونٹ کے سپرد کردیا جس کے ساتھ اْن کا تعلق ہے۔ یعنی پہلے سے ہی یہ طے تھا کہ مذکورہ میجر کے خلاف پولیس کوئی بھی کارروائی عمل میںلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس آدھار کارڈ کو ہوٹل میں دکھایا گیا اْس میں اگر لڑکی کی عمر 17 ؍سال تھی پھر اگلے ہی روز پولیس تحویل میں اْسی کارڈ کے مطابق لڑکی کی عمر 19؍ سال کیسے ہوگئی؟ یہ تضاد عوامی حلقوں میں شبہات پیدا کررہا ہے کہ کہیں نہ کہیں میجر گگوئی کو بچانے کی شروع سے ہی کوششیں کی گئی، حالانکہ عام لوگ یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کی وارداتوں میں جب فورسز یا سرکاری اہل کار ملوث ہوتے ہیں تو تحقیقات و تفتیش برائے نام ہوتی ہے ، جس کا مشاہدہ کشمیری عوام2006 ء کے بدنام زمانہ جنسی اسکینڈل میں کرچکے ہیں، جہاں بھارت کی اعلیٰ ترین تحقیقی ایجنسی سی بی آئی نے بڑے بڑے بیوروکریٹوں اور سیاست دانوں کو جنسی دھندے میں ملوث قرار دیا لیکن اْن سب کو نہ صرف ’’باعزت‘‘ بری کردیا گیا بلکہ اْس کیس کو سرے سے ہی دبا لیا گیا۔
اس تازہ دلخراش واقعے کے فوراً بعد مذکورہ لڑکی کی والدہ کا ایک بیان بھی اخبارات کے ذریعے سامنے آیا جس میں انہوں نے سمیر ملہ اور میجر گگوئی پر الزام عائد کیا کہ دونوں کئی مرتبہ رات کی تاریکیوں میںاْن کے گھر میں داخل ہوجاتے تھے تو ان پر خوف طاری ہوتا تھا اوراْنہیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ دونوں اْن کی بیٹی کو ورغلا چکے ہیں۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر لڑکی کے عارضی رہایشی شیڈ کی تصویر بھی وائرل کی گئی اوریہ بیانیہ قائم کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی کہ کہیں نہ کہیں مذکورہ خاندان کی غربت نے اس لڑکی کو کارِ بد کے لیے آمادہ کیا ہے۔ لڑکی کے والدین کی غربت کی خبر کیا پھیل گئی کہ حسب عادت سوشل میڈیا پر کشمیری صارفین نے تنقیدی بندوق کا رْخ اپنے ہی سماج کی جانب موڑ دیا۔ دینی جماعتوں، فلاحی اداروں اور حریت لیڈران کو آڑے ہاتھوں لیا گیا کہ اْنہوں نے غریبوں کی غربت کا کوئی خیال نہیں رکھا جس کی وجہ سے غریب لڑکیاں غلط کاری پر مجبور ہوجاتی ہیں۔غریبوں کے تئیں ذمہ داریوں کی حد تک تو یہ بات صحیح مانی جاسکتی ہے، البتہ یہاں معاملے کی جو نوعیت ہے اْس میں بہت سارے دیگر عوامل کارفرما ہیں۔ یہاں آرمی ملوث ہے، آرمی کے لیے کام کرنے والے مقامی جرائم پیشہ لوگ ملوث ہیں، یہ بھی خبریں آئی ہیں کہ مذکورہ لڑکی کسی سیلف ہیلپ گروپ سے منسلک ہیں اور اس گروپ سے اُنہیں اسی میجر نے وابستہ کیا تھا۔گزشتہ کئی برسوں سے وادی میں یہ باتیں عام ہورہی ہیں کہ مختلف ایجنسیوں نے یہاں این جی اوز کا جال پھیلایا ہواہے جو ’’سماجی خدمت‘‘ کی آڑ میں کشمیری سماج کی اخلاقی بنیادوں کو اْکھاڑ رہی ہیں، جو نوجوان نسل کو منشیات کا عادی بنا رہی ہیں، جو نسل نو میں بے حیائی، بے شرمی اور جنسی بے راہ روی پھیلانے کے لیے قصوروار ہیں۔ان سلیف ہیلپ گروپس کے نام پر ہی غریب اور کم فہم لڑکیوں کو کسی پیلٹ فارم پر جمع کیا جاتا ہے ، پھر نہ صرف اْن کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے بلکہ اْنہیں کشمیریوں کی جائز اور مبنی برحق جدوجہد کے خلاف کام کرنے کے لیے بھی آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے جھانسے میں غریب لڑکیاں ہی نہیں آتی ہیں بلکہ صاحب ِثروت لوگوں کی بیٹیاں بھی مبینہ طور اس طرح کے دام فریب کا شکار ہوجاتی ہیں، اْن کو جال میں ایسا پھنسایا جاتا ہے کہ پھر چاہتے ہوئے بھی اْن کے لیے واپسی ناممکن بنا دی جاتی ہے۔واضح رہے کہ اسی طرح کا ایک اسکینڈل کئی ماہ پہلے کولگام میں منظر عام پر آیا تھا جس میں فریب سے پھنسائی گئی لڑکی نے مقامی ایم ایل اے کا نام لیا تھا لیکن اْس پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی دْہائی دے رہی اْس لڑکی اور اْن کی والدہ کی بات کسی نے سنی۔
متنازعہ اور جنگ زدہ خطوں میں بالادست قوتوں کی جانب سے جنسیت جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا ایک عام سی روایت ہے۔ جب کشمیریوں کے جیسی کمزور قوم کا سامنا فوجی اعتبار سے دنیا کی دوسری بڑی طاقت سے ہوا تو پھر یہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ مخالف سمت کی طاقت کس حد تک جاسکتی ہے۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اس قوم نے کنن پوشہ پورہ کا سانحہ دیکھا ہے، آسیہ اور نیلوفر کے دلدوز کہانی ہمارے سامنے ہے، ہزارہا دست درازیوں اور عصمت دریوں پر مشتمل سانحات کی یہ قوم چشم دید گواہ ہے۔ بھاری فوجی جماؤ اور انہیں حاصل خصوصی اختیارات نے وردی پوشوں کو ڈھیٹ بناکر رکھ دیا ہے۔ ’’ افسپاکی مقدس کتاب‘‘نے بھارتیوں کے سامنے اْن کی فوج کو’’بھگوان‘‘ کے درجہ تک پہنچا دیا کہ یہ جو بھی کرنا چاہیں گے کرسکتے ہیں۔ یہ سوپور، کپواڑہ، ہندواڑہ، گاؤ کدل، بجبہاڑہ، نوہٹہ میں قتل عام کریں یا پھر نہتے اور معصوم بچوں کو آنکھوں کو بینائی سے محروم کریں، بھارتی عوام اور حکمرانوں کی جانب سے اْنہیں میڈل ہی ملتے رہیں گے، یہ کنن پوشہ پورہ جیسا کلنک اپنے ماتھے پر لگا لیں یاآسیہ اور نیلوفر کی مبینہ طورعصمت دری اور قتل سے اپنی اصلیت دنیا پر واضح کردیں، یہ فاروق ڈار کو گاڑی کے ساتھ باندھ کر کھلم کھلا بزدلوں کی طرح انسانی ڈھال بنالیں یا پھر سات سال کے سمیر احمد راہ کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ پیروں تلے کچل ڈالیں،ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور نہ ہی اْن کے آقاؤں نے قانون میں ایسی کوئی گنجائش رکھی ہے جس کے ذریعے قانون ان کے گریباں پر اپنا ہاتھ ڈال سکے۔یہ غریب کی بیٹی کا استحصال نہیں ہے بلکہ یہ کشمیری مسلمان کی بیٹی کا استحصال ہے، آج ٹن شیڈ میں رہنے والی کی بیٹی ہے کل کو اللہ نہ کرے کسی عالیشان محل میں رہنے والے خاندان کی پڑھی لکھی بیٹی بھی شکار ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کا کمر توڑ نے اور اْن کے عزائم کو کمزور کرنے کے لیے اْن کی دْکھتی رگ کو پکڑ لیا جائے۔چونکہ ہم مسلمان ہیں اور ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و عصمت کو انمول تصور کیا جاتا ہے، جہاں عزتوں پر آنچ آنے کی صورت میں ہزاروں جانیں نچھاور ہونے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں، یہ وہ قوم ہے جس کو طاقت سے زیر نہیں کیا جاسکا، جہاں لوگوں بالخصوص نوجوانوںکے عزائم کو فوجی مہموں سے کمزور نہیں کیا جاسکا، اس طرح کی قوم کو توڑنے کے لیے کار گر ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ اْن کو نفسیاتی طور پر ہرایا جائے۔ اْن کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے، اْنہیں احساس دلایا جائے کہ اْن کی عزت اور عصمت سے کسی بھی وقت کوئی بھی کھیل سکتا ہے۔ان ہی حربوں اور منصوبوں کو یہاں عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ یہ ایک میجر گگوئی ہے جو پکڑا گیا ہے، یہاں ہزاروں وردی پوش گگوئی ہر جگہ پائے جاتے ہیں، جو درندوں کی طرح تاک میں بیٹھے رہتے ہیں، جو رات دن منصوبہ سازی کررہے ہیں کہ کس طرح کشمیریوں کی بہو بیٹیوں کو اپنے جال میں پھنسایاجائے اور کس طرح اْنہیں ورغلا کر اپنے دام فریب میں لے لیا جائے۔ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ایک جانب یہاں کے نوجوان اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں اور دوسری جانب ہماری بیٹیاں دشمن کے نشانے پر ہیں اور بدقسمتی سے بعض بچیاں اغیار کے بْنے ہوئے جال میں پھنس بھی جاتی رہی ہیں۔
المیہ دیکھئے میجر گگوئی کے اس کار بد پر ہند نواز جماعتوں کے چھوٹے بڑے نام نہاد لیڈروں نے اْف تک نہیں کی، کشمیریوں کی جانب سے معمولی بات کو لے کر ٹوئٹیں کرنے والے سیاسی جماعتوں کے چمچوں کی بھی زبانیں بھی گنگ ہیں، لیکن جوں ہی مذکورہ لڑکی کی رہایشی شیڈ کی تصویر عام ہوگئی ،ان مردہ ضمیرلوگوں کے جان میں جان آگئی۔ اْنہوں نے میجر گگوئی سے توجہ ہٹانے کے لیے الگ ہی موضوع چھیڑ دئے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے سربراہ عمر عبداللہ نے فوراً ایک لاکھ تیس ہزار کی چیک اپنے سرکاری فنڈ سے مذکورہ لڑکی کے گھروں والوں کے نام اجراء کردی۔غریب کی مدد کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن عمر عبداللہ نے جس وقت اس خاندان کی مدد کی … کہیں اس سے غلط کاری کی حوصلہ افزائی تو نہیں ہوجاتی ہے۔ ۵؍مئی کو پولیس کی گاڑی نے سکہ ڈافر (نورباغ) علاقے میں جس نوجوان کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ کچل ڈالا تھا ، وہ سات افراد کا واحد کفیل تھا۔ اْن کے بوڑھے والدین اور چھوٹے بھائی بہن جہلم کنارے 10/10 کے لکڑی کے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں، اْن کی خستہ حالت دیکھ کر عمر عبداللہ کی غیرت کیوں نہیں جاگ اْٹھی؟ اْن کے لیے کوئی امداد کیوں فراہم نہیں کی گئی؟امداد تو دور کی بات اْس متاثرہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بھی نہیں کہے گئے لیکن یہاں لڑکی کی امداد کے لیے فوراً ہی عمر عبداللہ امداد دے دیتے ہیں۔ حالانکہ اس پورے معاملے میں میجر گگوئی سے لے کر لڑکی کے مجسٹریٹ کے سامنے بیان تک کہیں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ مذکورہ لڑکی میجر کے ساتھ غربت کی وجہ سے’’ مانوس‘‘ ہوگئی ہے۔ یہ سب اصل جرم کی پردہ پوشی کے لئے کیا جاتاہے تاکہ تاثر یہ بنے کہ کم نصیب لڑکی غربت کی وجہ سے گگوئی کے ہتھے چڑ ھ گئی نہ کہ فوجی دباؤ کے سبب۔ حالانکہ میجر سے یہ بات بھی منسوب ہے کہ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ہوٹل میں اپنے ایک source سے ملنے گیا تھا۔ یہاں غربت کا مسئلہ پھرکہاں سے آیا ؟ یوں ایک یا دوسرے طریقے سے غلط کاری کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ کیا معمولی مالی تعاون سے اس کم فہم لڑکی کو کوئی اچھا سبق ملے گا؟ کہیں اْس کے ذہن پر یہ اثرات تو نہیں مرتب ہوں گے کہ اْن کی میجر کی ساتھ ہوئی شناسائی کی وجہ سے ہی اْنہیں مالی مدد مل رہی ہے ، کیا اس اقدام سے اس کی اور اس جیسے دیگر لڑکیوں کے قدم پھسلنے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟یہ وہ سوالات ہیں جو بہرحال ہر ذی حس کشمیری کے ذہن میں جنم لیتے ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اس طرح کے گھناؤنے کام پر سنجیدہ اور سنگین نوعیت کا ردعمل نہیں دکھا پاتے ہیں، جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کشمیر دشمن عناصر ڈھیٹ ہوجاتے ہیں، وہ نت نئے حرابے آزما کر ہمارے صبر کا امتحان لینے لگ جاتے ہیں۔ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے، اس میں کوئی سیاسی، مذہبی اور مسلکی تفریق کا عنصر شامل نہیں ہے۔ یہ مسئلہ جتنا حریت کارکن کا ہے ،اْتنا ہی جموں وکشمیر پولیس میں کام کرنے والے کانسٹیبل سے لے کر افسر تک کا بھی ہے، یہاں ذمہ داری جتنی مذہبی جماعتوں کی ہے، اْتنی ہی دیگر سیاسی جماعتوں اور فلاحی انجمنوں کا بھی یہ فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ سماج کے اخلاقی حدود کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کام کریں۔یہ کشمیری سماج کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ یہ کسی غریب کی بیٹی نہیں ہے ، نہ ہی یہ کسی مخصوص طبقے کی بیٹی ہے، یہ کشمیر کی بیٹی ہے جس کا استحصال ہوا ہے او رہمارا یہ قومی و دینی فریضہ ہے کہ اس طرح کی سانحات پر ہم یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور اپنی اپنی جگہ رہ کر سماجی کے اخلاقی قدروں کو بچانے کی ہر ممکن اور ہر محاذ پر کوشش کریں۔ علماء اور دانشوران قوم کے ساتھ ساتھ والدین کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں، وہ اپنے دروس اور نگہداشت میںا س بات کا خاص خیال رکھیں۔ اس ضمن میںمحلہ کمیٹیاں سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ہر دیہات میں آنے جانے والوں بالخصوص فوج کے ساتھ رابطہ استوار کرنے والے لوگوں پر خاص نظر رکھی جانی چاہیے۔ سمیر ملہ جیسے شیطان صفت لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے اور عوامی سطح پر ایسے کسی بھی سانحہ پر مطلوبہ دفاعی حکمت عملی سامنے آجانی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.