ماہِ رمضان کے اِس مقدس مہینے میں قومِ کشمیر نے اپنی ایک بیٹی اور بیٹے کو اپنی قومی روایات اور تہذیب کی مٹی پلید کرنے کی ایک قابلِ نفرین سعی کرتے ہوئے دیکھا۔فوج کی 53 راشٹریہ رائفل کی بٹالین سے وابستہ میجر جنرل نتن لیتول گگوئی،جو ہندوستان کی ریاست آسام سے تعلق رکھتا ہے، سرینگر کے ایک ہوٹل میں ایک کشمیری دوشیزہ کے ساتھ مشکوک حالت میں پایا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق میجر گگوئی کشمیری دوشیزہ کے ساتھ غیر اخلاقی فعل انجام دینے کی غرض سے ڈلگیٹ سرینگر کے ہوٹل گرینڈممتا میں ایک رات کے لیے کمرہ حاصل کرنے آیا تھا۔ گگوئی اور کشمیری دوشیزہ کے ہمراہ سمیر ملہ نامی ایک اور کشمیری نوجوان بھی تھا جو فوج میں ملازمت کرتا ہے۔ واقعہ 23 مئی کی صبح کو پیش آیا جب صبح کے ساڑھے دس بجے متذکرہ ہوٹل میں جنرل گگوئی ایک لڑکی کے ہمراہ داخل ہوا۔ ہوٹل کے ملازمین کے مطابق جنرل گگوئی نے مذکورہ ہوٹل میں پہلے سے ہی آن لائن بُکنگ کراکے رکھی تھی۔ بُکنگ 23 مئی کے لیے تھی اور 24 کو اُن کا چیک آﺅٹ تھا۔ گگوئی ہوٹل میں داخل ہوا اور کمرہ حاصل کرنے کے لیے ہوٹل کے استقبالیہ (Reception) پر رجسٹریشن حاصل کروانا چاہی۔ عام کپڑوں میں ملبوس میجر گگوئی نے اپنا تعارف ایک تجارتی شخص (Businessman)کے بطور کرایا۔ ہوٹل کے مرتب کردہ نظام اور معمول کے مطابق جب گگوئی کے شناختی دستاویز دیکھے گئے تو معلوم ہوا کہ میجر کے ساتھ دوسرا گیسٹ 18 سال(لڑکی کی عمر زیرِ تحقیق ہے) کی ایک کشمیری لڑکی ہے۔چنانچہ میجر گگوئی کو ہوٹل ملازمین نے کمرہ دینے سے انکار کیاکیونکہ ہوٹل کے نارمز کے مطابق کسی بھی مقامی شخص کو کمرہ نہیں دیا جاتا ہے بشرطیکہ کہ وہ اپنا نکاح نامہ پیش کریں۔ چنانچہ کمرہ نہ ملنے کی صورت میں میجر گگوئی نے اپنا اعتراض درج کرنا چاہا، لیکن ہوٹل کے ایکزیکیٹو آفیسر کی دلیل سننے کے بعد گگوئی کو وہاں سے رُخصت ہونا پڑا۔ البتہ چند ہی لمحے بعد ہوٹل کے باہرایک پرائیویٹ گاڑی میں بیٹھے سمیر ملہ نامی کشمیری فوجی اہلکار ہوٹل میں داخل ہوااورگگوئی کو کمرہ نہ دینے کے ردِ عمل میں ہوٹل کے ملازمین سے بھِڑپڑا۔نتیجتاً وہاں پر شور و غوغا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ ہوٹل کے باہر مقامی بھیڑ بھی جمع ہونے لگی۔ معاملے کی نوعیت جان کر لوگ بھی اشتعال میں آگئے اور میجر گگوئی اور سمیر ملہ کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کرنے لگے۔اِسی بیچ حالات کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ہوٹل کے ملازمین نے پولیس کو فون کیا اور چند ہی لمحے بعد پولیس وہاں پہنچ گئی اور میجر گگوئی،سمیر اور لڑکی کوپوچھ تاچھ کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا۔بتایا جاتا ہے کہ پولیس اگر بروقت نہ آن پہنچتی تو لوگوں کا مشتعل ہجوم گگوئی، سمیر ملہ اور دوشیزہ کوزیرِ چوب ہلاک کر ڈالتا۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق گگوئی اور سمیر ملہ سے ابتدائی پوچھ تاچھ کرنے کے بعد دونوں کو اپنے ہیڈ کوارٹربیروہ بڈگام بھیج دیاگیا ہے ۔جبکہ مجسٹریٹ کے سامنے لڑکی کا بیان ریکارڈ کرکے اُسے بھی اپنے گھر والوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ فی الوقت معاملے پر چھان بین ہو رہی ہے۔ آئی جی پی پولیس ایس پی پانی نے ایس پی نارتھ زون کو تحقیقاتی آفیسر مقررکیا ہے۔ چند روز قبل پولیس نے ایک بیان میں کیس کی تحقیقات میں سرعت لانی کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے بھی حال ہی میں پہلگام میں ایک تقریب کے ہاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر میجر گگوئی تحقیق کے بعد مجرم پائے گئے تو اُنھیں ایک مثالی سزا دی جائے گی۔
میجر گگوئی کے ساتھ مشکوک حالت میں پائی گئی لڑکی وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھتی ہے۔ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا ہے کہ لڑکی کا والد مزدور پیشہ شخص ہے اور اُن کا اہلِ خانہ مفلوک الحال زندگی گزار رہا ہے۔ 2014ء کے تباہ کُن سیلاب میں اُن کا مکان زیرِ آب ہونے کی وجہ سے ناقابلِ رہائش بن گیا تھا اورمالی کمزوری کے سبب اُنھیں عارضی طور پر ٹین اور لکڑی کے ایک معمولی مکان (شیڈ) میں ہی گزربسر کرنی پڑی تھی جس میں وہ ہنوز اقامت پذیر ہیں۔لڑکی کی والدہ نسیمہ بیگم اپنی بیٹی کے اس طرح سے پکڑے جانے پر صدمے سے دوچار ہے ،وہ کہتی ہے ” میجر گگوئی اور سمیر ملہ ماہِ مارچ میں دو بار رات کے وقت پُر اسرار طریقے سے ہمارے گھر میں داخل ہوئے تھے۔ اُنھوں نے ہم سے غیر ضروری طور پر یہ دریافت کرنے کی کوشش کی تھی کہ آیا ہمیں کوئی ہراساں تو نہیں کر رہا ہے۔ سمیر میری بیٹی سے باتیں کرتا تھا،جو کہ مجھے مشکوک لگتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری بیٹی اس طرح سرینگر کے ہوٹل میں پُر اسرار حالت میں پائی جائے گی۔ میری بیٹی سے فریب کیا گیا ہے اور سمیر ملہ نے ہی میری بیٹی کو مصائب سے بھرے اس مکروہ جال میں پھنسایا ہے۔“ نسیمہ نے مزید کہا ” 23 مئی کی صبح میری بیٹی نے مجھ سے جموں کشمیر بینک کی ناربل شاخ میں ایک کام کے سلسلے میں جانے کی اجازت حاصل کی، لیکن اُسی روزشام کے تین بجے ہمارے مقامی سرپنچ کو پولیس نے میری بیٹی کی گرفتاری کی خبرسنائی ،جو کہ میرے لیے ایک صدمے سے کم نہیں تھی۔“
اس پوری کہانی کا اہم کردار سمیر ملہ ضلع بڈگام کے گاﺅں لوکی پورہ پوشکر کا رہنے والا ہے۔وہ گزشتہ برس فوج میں بھرتی ہوا ہے اور میجر گگوئی کے ہمراہ بڈگام کے بیروہ علاقے میں ہی تعینات ہے۔ میجر گگوئی گذشتہ سال کے ماہِ اپریل میں اُس وقت خبروں میں آیا تھا جب پارلیمنٹ نشست کے لیے منعقد ہونے والے الیکشن کے روزاُس نے 26 سالہ فاروق احمد ڈار نامی ایک کشمیری نوجوان کو اپنی جیپ کے بانٹ پر رسیوں سے باندھ کر اُسے خود اور اپنے ساتھیوں کو مظاہرین سے بچانے کے لیے انسانی ڈھال (Human Shield)بنا کر مختلف دیہاتوں سے گزارا تھا۔اگرچہ کشمیر میں اپنی جان کے تحفظ کے لیے فاروق ڈار کو ڈھال بنائے جانے والے اس واقعے کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے اس کو بدترین انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا تھا۔ لیکن ہندوستانی میڈیا میں میجر گگوئی کے اس فعل کو اُس کی بہادری اور جرات سے تعبیر کیا گیا تھا اورفوجی سربراہ جنرل بِپن راوت نے گگوئی کے اس کارنامے کی تعریف کرکے اُسے توصیفی سند سے بھی نوازا تھا۔
کشمیر کے عوامی حلقوں میں میجر گگوئی سے جڑایہ نیا تنازع روز بروز ایک Hot debate بنتا جا رہا ہے۔اس مسئلے کو لے کر لوگ طرح طرح کے سوالات پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا سمیر ملہ میجر گگوئی کے لیے دلالی کا کام کرتا تھا؟ کیا گگوئی کے علاوہ دیگر فوجی اہلکار بھی اس گھناﺅنے کام کو پُر اسرار طریقے سے انجام دیتے ہیں؟ کیا میجر گگوئی کے اس اقدام پر بے لاگ تحقیق کر کے اُسے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا؟کیا ملت کی چند گمراہ بیٹیاں اب اپنی عزت و ناموس کواس قدر معمولی چیز سمجھتی ہیں؟کیا کشمیری ماﺅں بہنوں کی عزتیں اب محفوظ نہیں رہی ہیں؟ کہیں ہمارے معاشرے میں جنسی بے راہ روی کو عام کرنے کی منظم کوششیں تونہیں کی جا رہی ہیں وغیرہ۔ غرض میجر گگوئی سے جُڑی اس کنٹراورسی کے کئی پہلو ہیں جس پر تبصرہ کیا جانا ضروری ہے ۔ لیکن یہاں پر جس مدعے پر مجھے اظہارِ خیال کرنا مقصود ہے وہ گگوئی کے ہمراہ مشکوک حالت میں پکڑی جانے والی کشمیری دوشیزہ کی گھریلو پسماندگی ہے۔
واقعہ ہونے کے روز (23مئی) شام کو سوشل میڈیا پر ٹین اور لکڑی سے بنے ہوئے ایک معمولی مکان (شیڈ) کی تصویر پوسٹ کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ وہی مکان ہے جس میں لڑکی اپنے والدین اور تین چھوٹے بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔لڑکی کے اس مکان کو لے کر اُس سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ایک نیا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ شائد لڑکی کی اِسی غربت اور مفلوک الحالی نے اُسے یہ سنگین قدم اُٹھانے کے لیے مجبور کیا ہوگا۔ سابق ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے بھی لڑکی کی غربت کو لے کر اظہارِ تاسف کرکے اپنے حلقۃ انتخاب کی تعمیراتی فنڈس میں سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے کی رقم لڑکی کے اہلِ خانہ کو بطور عطیہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
یہاں پر قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر لڑکی اور اہلِ خانہ مالی اعتبار سے پسماندہ اور کئی مشکلات سے دو چار ہیں تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی مالی پوزیشن کو مستحکم بنانے کے لیے وہ کوئی بھی غیر اخلاقی اقدام اُٹھانے کی مجاز ہے؟ عوامی حلقوں میں اس مسئلہ پر لوگوں کے تبصروں اور تجزیوں سے تو یہی کچھ تاثر دیکھنے کو مل رہا ہے اور کچھ لوگ لڑکی کے اس بُرے اقدام کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ سماج میں بیوت المال نہ ہونے کاشکوہ کر رہے ہیں کہ جبھی یہ غریب لڑکیاں اپنی عصمتوں کو داﺅ پر لگا کر اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔علاوہ ازیں دینی جماعتوں، فلاحی اداروں اور مولوی حضرات کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے کہ دینی جماعتیں اور ادارے غرباء، یتیمیٰ اور پسماندہ زندگی گزارنے والوں تک پہنچنے میں کُلی طور ناکام ہوئے ہیں۔ ادارۃ بیوت المال کی غیر منظم اورغیر مستحکم پوزیشن اورذمہ دار اداروں کی تساہلی و کہالت اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے، لیکن کیا اُس لڑکی کے اِس شرمناک اقدام کی توجیہ اُس کی غریبی اور مفلوک الحالی کو ہی قرار دیا جائے؟باالفاظِ دیگر کیا سماج میں فحاشیت و عریانت کے اڈوں پر کام کرنے والوں کی مجبوری فقط یہی ہوتی ہے کہ وہ غریب طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن سبھی افراد کے مکان ٹین اور لکڑی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں؟
لڑکی کے اِس فیصلہ کو محض اُس کی غریبی اور مالی پسماندگی کی دلیل کی بنیادپر دفاع کرنا سراسر غلط ہے۔انسان کا غریب اور مفلوک الحال ہونا اور اِس کے نتیجے میں خود کو بداخلاقی کے حوالے کرنا اصل میں کوئی تُک نہیں رکھتا۔ معاشرے کی اخلاقیات کو زَک پہچانے والے اس کام کو انجام دینے میں انسان کا غیر تربیت یافتہ ہونا ہی اولین وجہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں مالی و نفسانی اغراض بھی انسان کو اس کام کو انجام دینے کے لیے اُکساتے رہتے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر یہ دوشیزہ اس گھناؤنی حرکت سے چند پیسے حاصل کر بھی لیتی تو کیا بعد ازاں وہ اس گندے کام سے فی الواقع اجتناب کر لیتی؟ نفسیات کا علم تو یہی بتاتا ہے کہ ایک بار گندگی میں گر جانے والا انسان روز بروز مزید گرتا چلا جاتا ہے۔ایسے واقعات فی الاصل معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو سر تا پیرہلا کے رکھ دیتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی جماعتیں دین بیداری اور اخلاقی تعلیمات کے فروغ میں مزید سرعت لائیں تاکہ ہم اپنے معاشرے کی روایات و اقدار کو بچانے میں کامیاب ہو سکیں۔