صاحب’’ تاریخ وصاف‘‘ کی ایک مثال ہے کہ:’’ چیزیںبکھری ہوں تو انہیں یکجا کرنا اور جمع کرنا بہت دشوار ہوتا ہے لیکن جمع شدہ چیزوں کو منتشر کرنے میں کوئی کوشش درکار نہیں ہوتی‘‘۔ داناؤں کا قول ہے کہ’’ جب پردہ تقدیر سے کوئی مصیبت نازل ہونا ہوتی ہے تو اس کے اسباب آسمان سے برستے اور زمین سے اُگتے ہیں، اُس وقت عقل ماری جاتی ہے۔‘‘ہمارا قومی المیہ یہی ہے، ہم چیزوں کو جمع کرنے میں برسوں لگا لیتے ہیں ، اُن کے جمع ہونے میں جانی و مالی قربانیاں بھی دیتے ہیں لیکن پھر اپنی کوتاہ اندیشی اور کم فہمی کی وجہ سے جمع شدہ چیزوں کو منتشر کرکے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا کارِ بد بھی خود ہی انجام دیتے ہیں۔اجتماعی طور کچھ معاملات میں بلاشبہ ہماری عقل ماری جاتی ہے، ہم اصل اور خراب میں فرق ہی نہیں کرپاتے ہیں، ہم سب کو جاننے اور سمجھنے کے باوجود بہکاوے کا شکار ہوجاتے ہیں، باتوں میں آکر اپنی ہی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اپنی قوم کو تقسیم در تقسیم کا شکار کرکے اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم اپنے دین اور اپنے نظریات کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ایک چھوٹی سی قوم کو جس کی بات سننے کے لیے دنیا میں کوئی تیار نہیں ہے کو ہم نے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کرکے رکھا ہے اور اِن گروہوں کے درمیان خلیج کو اس قدر وسیع کردیا ہے کہ اب ہمارے لیے غیروں سے ہاتھ ملانا قابل قبول ہے لیکن اپنے ہی دینی بھائیوں کے ساتھ نظریں ملانا بھی ہم گناہِ کبیرہ تصور کرلیتے ہیں۔
ہماری بدنصیبی کا عالم یہ ہے کہ جس چیز کے گناہ ہونے کا ہم درس دیتے رہتے ہیں، جو چیز عذاب الٰہی میں مبتلا کرنے والی ہوتی ہے ، ہم جاننے کے باوجود اُن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تجسّس کرنا، لوگوں کے پیچھے پڑ ھ کر اُن کی کمزوریوں کو تلاشنا، بغیر تحقیق کے سنی سنائی باتوں کی بڑے پیمانے پرتشہیر کرنا، دوسرے مسالک کے لوگوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنا، قوم کی قیادت کے حوالے سے بدظنی پیدا کرنا اور اُنہیںسماج میں بے عزت کرنے کی مہم چلانا، یہ سب بدترین اور گٹھیا کام ثواب کی نیت سے انجام دیا جاتا ہے۔جن اسلاف سے ہم اپنی وابستگی کا دعویٰ کرتے ہیں، جنہیں ہم دین کا ستون تصور کرتے ہیں اُن کی ہی تعلیمات کے برخلاف ہم اپنے مسلک کو صحیح باقی سبھوں کو باطل ہی تصور نہیں کرتے ہیں بلکہ اُن کے خلاف اُس طرح سرگرم عمل ہوجاتے ہیں جیسے غیر اسلامی افکار و نظریات کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ جن کاموں پر ہمیں اپنی صلاحتوں کو صرف کرنا تھا،اُمت کے خلاف پنپنے والی جن سازشوں کا ہمیں قلع قمع کرنا تھا ، دیکھنے کے باوجود بھی ہم اُن کے خلاف کچھ نہیں کرتے ہیں ، بجائے اس کے اپنے ہی دینی بھائیوں کو دبانے اور اُن کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ہم بڑے پیمانے پر’’جہاد‘‘ چھیڑنے کے لیے یک دم تیار ہوجاتے ہیں۔جن اسلاف کے ساتھ وابستگی کا ڈھونگ ہم رچا لیتے ہیں اور جن کی سوچ و فکر کو ہم زبردستی دوسروں پر حاوی کرنے کی انتھک کوششیں ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے تمام طرح کے اخلاقی حدود کو پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں اُن کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے پر دوسروں کو ہی ترجیح دیتے ہیں، وہ زبردستی کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنی سوچ وفکر کی پرچار کی آڑ میں فساد فی الارض برپا کرتے تھے۔تاریخ کے صفات میں درج ہے کہ امام مالکؒ کو جب خلیفۂ وقت نے پیشکش کی کہ کیوں نہ آپ کی مرتب کی ہوئی فقہ کو پوری سلطنت میں رائج کر دیا جائے تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مختلف علاقوں میں لوگوں کو مختلف معلومات پہنچی ہیں جو ان معلومات کے مطابق عمل کررہے ہیں اور اب اگر میری فقہ کو حکماًرائج کردیا گیا تو اس سے فساد پیدا ہوجائے گا اس لیے لوگوں کو جو علم پہنچا ہے انہیں اسی پر عمل کرنے دیا جائے اور میری فقہ کو حکومت کے ذریعے نافذ نہ کیا جائے۔امام شافعیؒ کے ایک شاگرد یونس بن عبدالاعلیٰ صدفی تھے، ان کا ایک بار اپنے استاد امام شافعیؒ سے ایک مسئلہ میں مباحثہ ہوگیا اور دونوں کسی ایک رائے پر متفق نہ ہوسکے ، پھر جب امام شافعی ؒ کی ان سے ملاقات ہوئی تو امام صاحب نے اُن کا ہاتھ تھاما اور فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ گو ایک مسئلہ میں بھی ہمارا اتفاق نہ ہو لیکن پھر بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں۔یہ تھا ہمارے سلف صالحین کا طرز اختلاف لیکن ہم ہیں کہ دین کے بجائے اپنے مسالک اور اپنی سوچ کے نفاذ کو ہی اپنی تمام تر کوششوں کا مرکز بنالیتے ہیں اور اپنے مد مقابل کے مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ دشمنوں سے بھی بدتر روایہ اختیار کر لیتے ہیں۔
دینی معاملات بھی ہمارا یہ حال ہے اور دنیاوی معاملات میں بھی ہم اِسی نہج پر رواں دواں ہیں۔یہ جاننے کے باوجود کہ ہماری قوم تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، ہم پر بدترین استعماریت مسلط ہے، جو بڑی تیزی کے ساتھ ہماری نوجوان نسل کو نگل رہی ہے ، جس کے پنجۂ ظلم و جبر کی گرفت اس حد تک مضبوط ہے کہ روز آدم کے اولاد کے بنیادی حقوق کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ اور بری طرح پامال کیا جاتا ہے، ہم سنبھلنے کا نام نہیںلیتے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ گزشتہ سات دہائیوں سے بالعموم اور پچھلے تیس سال سے بالخصوص ہماری کمزور اور نہتی قوم حالت جنگ میں ہے، اس کے باوجود ہم نے اپنے آپ کو ایسی خرافات میں الجھا کر رکھا ہوا ہے کہ جہاں ذہن تو پریشان رہتے ہی ہیں ساتھ ہی ساتھ ہماری جانی ، جسمانی اور فکری صلاحتیں بھی خرافات اور فسادی کاموں میں صرف ہوجاتی ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے یہاں سوشل میڈیا پر کچھ ناعاقبت اندیش صارفین ایک دوسرے کی دستاریں اچھال رہے ہیں۔ بے مقصد کے بیانیے قائم کرکے اپنا ہی گریباں چاک کرنے کی زبردست کوششیں ہوتی ہیں۔ تحریک حق خود ارادیت اور اسلام کی سربلندی کی طویل اور صبر آزما کوششوں کے حوالے سے اس بات سے پوری قوم واقف ہے کہ ان سے جڑے ہر فرد نے آج تک اپنی ذمہ داریاں خوش اصلوبی سے انجام دیں ہیں۔ سیاسی ودینی محاذ پر سرگرم جماعتوں اور افراد نے اس کاز کے ساتھ اپنی پوری زندگی جوڑ دی ہے، وہ سختیاں برداشت کرچکے ہیں، جیل چلے گئے ہیں۔ ان کی حتی المقدور کوششوں کے باوجود کوتاہیوں اور خامیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بیک جنبش قلم اُن کی قربانیوں، کوششوں اور اخلاص سے انکاری ہوکر اُنہیں اپنے ہی قوم کے ساتھ دغا کرنے جیسے سنگین الزامات سے نوازناایسے لوگوں کی کنند ذہنیت اور کسی کے ہاتھوں میںکھیلنے کو ثابت کرتا ہے۔دینی شخصیات کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے، سیاق و سباق سے ہٹ کر اُن سے اپنی من پسند باتیں نکال کر اُنہیں ہدف تنقید بنانا، اُن کا سامنا کرکے اُن پر کیچڑ اچھالنا اور پھر اپنے آپ کو سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنانا جیسی حرکات بیمار ذہنیت کی علامات ہیں۔ایسی بیمار سوچ کے حاملین چند مٹھی بھر لوگ ہی تو ہیں جو قومی یکسوئی اور یک رُخی میں حائل ہوکر نہ جانے کن کے کہنے پر نیا بیانیہ قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے لیے دین کا سہارا لیا جاتا ہے اور فتوے صادر کیے جاتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر کام کرنے والے لوگ فتویٰ بازوں کے اس ٹولے کے سرخیل ہیں اور حکومتی سرپرستی میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے والے اس ٹولے کا نشانہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حق خود ارادیت کی جدوجہد میں فرنٹ لائن پر ہوکر اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ وسائل کو بھی حقوق کی بازیابی کے لیے کشمکش میں جھونک چکے ہیں۔ان فتنہ پرور عناصر کی حوصلہ افزائی نامعلوم جگہوں سے ہورہی ہے،یہ ملت کی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں جس کا اندازہ سوشل میڈیا پرعوامی حلقوں بالخصوص نوجوانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج سے واضح طور پر لگایا جاسکتا ہے۔
تحریک سے جڑے لوگوںمیں کمزوریاںہوسکتی ہیں، دینی جماعتوں کے قائدین سے غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں، دینی شخصیات کی زبان کبھی کبھی پھسل سکتی ہیں ،لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ عام لوگ زبان درازی کرکے ان قائدین اور دینی شخصیات پر سب و شتم کریں، اُنہیں غدار قرار دیں ۔ دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اگر انسان کو لگے کہ کسی لیڈر نے غلطی کی ہے، یا کسی دینی شخصیت نے کوئی اختلافی بات کہی ہوتو اُن کے ساتھ نجی طور پر ملاقات کرکے وضاحت طلب کی جاتی ، اُنہیں احساس دلایا جاتا کہ اُن کی کسی حرکت یا بات سے زمینی سطح پر عوام میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور وہ بھی دینی خدمت کے طور پر جنون اور پاگل پن ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلام دشمن جماعتیں دین حق کے خلاف اپنے درمیان لاکھ اختلافات کے باوجود یک جٹ ہیں او رجب بھی اُنہیں موقع ملتا ہے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اسلام کے خلاف زبان درازیاں کرتے ہیں، اُس وقت اُن کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہوتا ہے، کوئی تضاد نہیں ہوتا ہے ، اس کے مقابلے میں اسلام پسند طبقہ ایک دوسرے کے خلاف دشمنوں جیسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر کسی دینی جماعت، مسلک، یا شخصیت پراغیار کی جانب سے کوئی یلغار ہوتی ہے تو دوسرے مسلک اور مکتبہ سے وابستہ لوگ خوشیاں مناتے ہیں،اپنے مسلمان بھائی کے مقابلے میں دانستہ و غیر دانستہ اغیار کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسی طرح تحریک نوازوں کے خلاف ہند نواز جماعتیں یک آواز ہیں اور ہزار ہا اختلافات کے باوجود وہ آزادی پسندوں کو کچلنے کے لیے ایک دوسرے کو دست تعاون فراہم کرتے ہیں، دوسری جانب آزادی پسند خیمے کا حال یہ ہے کہ ان کے زمینی سطح کے ورکر اور ہمدرد انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب دوسری جماعت کے کسی لیڈر یا ورکر کا پیر پھسل جائے وہ آسمان سرپر اُٹھا لیں گے۔یہ مجرمانہ طرز عمل ہے، اس کو نفاق کہتے ہیں جس کا بڑی ہی بدقسمتی سے ہم شکار ہورہے ہیں۔ا س سے بڑھ کر اس قوم کی بدبختی کیا ہوسکتی ہے کہ کفر و الحاد کا خاتمہ کرنے کے بجائے دینی حلقے ایک دوسرے کے اثر و رسوخ کم کرنے کو ہی اپنی جیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ایک جماعت کے لوگ جب کسی علاقے میں کسی دوسری جماعت کا اثر بڑھتا ہوا دیکھ لیتے ہیں تو وہ اُس علاقے پر فوری توجہ دے کر وہاں اپنا اثر قائم کرکے پہلی جماعت کے لوگوں کو وہاں سے بے دخل کرکے ہی دم لیتے ہیں، پھر اِن جماعتوں کے لوگ اپنی اس کارگزاری کو فخریہ بیان کرتے ہیں ۔اِن بے چاروں کو کو ئی یہ بتاتا ہی نہیں ہے کہ جس کام کو وہ دین کی خدمت تصور کررہے ہیں وہ دین کی خدمت کے بجائے دین دشمنی ہے ۔ہمارے دل و دماغ سے یہ تصور ہی ختم ہوچکا ہے کہ کل روز محشر میں ہمیں اپنی ہر بات اور ہر عمل کا رب العزت کے سامنے جواب دینا ہوگا، ہمیں سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرنے کا حساب اللہ کے دربار میں چکانا ہو، ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ یہ جتنے بھی اعمال ہمیں محض محظوظ ہونے کے لیے اور اپنی دینی بھائیوں کو نیچا دکھانے کے لیے انجام دیتے ہیں یہ ہمیں جہنم کا ایندھن بناسکتے ہیں۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے ذمہ دار اپنے اپنے دائرہ اثر میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے اپنے ارکان و ہمدردان کو نہ صرف صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کریں بلکہ اُن کے اندر دیگر دینی جماعتوں اور شخصیات کی عزت و احترام بھی پیدا کریں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب تحریک حق خودارادیت خانہ جنگی میں تبدیل ہوجائے گی اور دین کا کام کرنے والے لوگ اپنے ہی دینی بھائیوں کا گلا کانٹے پر تلے ہوئے ہوں گے۔تمام جماعتوں کو مل کر سماج میں موجود اُن کالے بھیڑیوں کو بھی بے نقاب کرناہوگا جو ملت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نت نئے حرابے استعمال کررہے ہیں، جو مختلف ایجنسیوں کی ایماء پرقومی یکسوئی و یک رخی میں رخنہ ڈالنے کا گھناؤنا کام کرتے ہیں۔ جو دعوت دین کی جدوجہد اور تحریک حق خود ارادیت کو کمزور کرنے کے لیے اغیار کا کام کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین۔
[email protected]