تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے برصغیر کے معروف صحافی شورش کاشمیری نے اپنی رودادِ قفس ’’موت سے واپسی‘‘ میں اپنے ہی اخبار’’چٹان‘‘کا ایک اداریہ درج کیا ہے۔ یہ اداریہ چٹان میں یکم اپریل۱۹۶۷ء۱ کو شائع ہوا ، اداریہ میں یونان کے ایک فلسفی کا حقیقی واقعہ یوں درج ہے کہ:’’ یونان کا ایک نامور فلسفی جب عوام کی ناقدری سے عاجز آگیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس کے فکر و نظر اور علم و حکمت پر لوگ توجہ نہیں دیتے بلکہ مذاق اْڑاتے ہیں اور اس پر پتھراؤکرتے ہیں تو اس نے دشنام و اتہام سے تنگ آکر رقص و سرور کا ایک طائفہ بنایا، پھٹے پرانے کپڑے پہن کر ڈھول گلے میں ڈالا، چہرے پر کالک مل لی، ہاتھوں میں کنگن ڈال لیے، گانے بجانے کا سوانگ رچایا اور پاگلوں کی طرح بازاروں میں ناچنے لگا، وہ رقص و غنا کے ابجد سے بھی واقف نہ تھا لیکن رسمی دانشوروں نے سر پہ اْٹھا لیا۔ اس کے رقص پر محاکمہ ہونے لگا کہ اس فن میں اس نے نئی راہیں نکالی ہیں تب پاگل تھا، اَب موسیقی کا مجتہد ہے۔ جب یونان میں اس کے اِس نئے روپ کا شہرہ عام ہوگیا تو اس نے اعلان کیا کہ فلاں دن وہ اوپن ائیر اسیٹج پر اپنے طائفہ سمیت رقص و سرور کے نئے انداز پیش کرے گا، تمام یونان اْمڈ پڑا، اس نے رقص کا نیا انداز پیش کیا، سرتاپا دیوانہ ہوگیا، ناچ نہیں جانتا تھا لیکن پاگلوں کی طرح ناچتا رہا، عوام و خاص اور امراء و شرفا ء لوٹ پوٹ گئے، جب تھک گیا اور محسوس کیا کہ جو لوگ اس کے سامنے بیٹھے ہیں اس کی مٹھی میں ہیں تو یکایک سنجیدہ ہوکر کہا:’’یونان کے بیٹو! میں تمہارے سامنے علم و دانائی کی باتیں کرتا رہا ، میں نے تمہاری برتری کے لیے فکر و نظر کے موتی بکھیرے، تم نے میری باتیں سننے سے انکار کردیا، میرا مذاق اْڑایا، مجھے گالیوں سے نوازا، پتھراؤکیا اور خوش ہوتے رہے، تم نے حق و صداقت کی ہر بات سننے سے انکار کیا، مجھے پاگل قرار دے کر خود پاگلوں کی سی حرکتیں کرتے رہے، تم نے اپنے دماغ حکمرانوں کے پاس رہن رکھ دئے، تمہارے جسموں کی طرح تمہاری عقلیں بھی امراء و حکام کی جاگیر ہوگئی ہیں۔میں عاجز آگیا تو میں نے یہ روپ اختیار کیا، میں فلسفی کی جگہ بھانڈ ہوگیا، مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ناچ کیا ہوتا ہے اور گانا کسے کہتے ہیں، لیکن تم نے میرے اس بھانڈ پن پر تحسین و ستائش کے ڈونگرے برسائے، پہلے تم میں سے چار آدمی بھی میرے گرد جمع نہیں ہوتے تھے ،آج انسانوں کا جم غفیر میرے سامنے بیٹھا ہے گویا تم نے مٹ جانے والی قوم اور ایک فنا ہوجانے والے معاشرے کی تمام نشانیاں قبول کرلی ہیں ، تم ایک انحطاط پذیر ملک کے علیل روحوں کا انبوہ ہو، تم پر خدا کی پھٹکار ہو، تم نے دانائی کو ٹھکرایا اور رسوائی کو پسند کیا۔تم خدا کے غضب سے کیونکر بچ سکتے ہو کہ تمہارے نزدیک علم ذلیل ہوگیا ہے اور عیش شرف و آبرو، جاؤ میں تم پر تھوکتا ہوں، میں پہلے بھی پاگل تھا آج بھی پاگل ہوں۔‘‘
آج کا زمانہ یونان کے اس فلسفی کے دور سے مختلف نہیں ہے، آج بھی حکمت و دانائی احمقوں کی میراث بن چکی ہے، جاہ پسند، حریص، چاپلوس ، وقت کے حکمرانوں کی خوشامد کرنے والے اپنے آپ کو علمی خزانوں کے مالک سمجھنے لگے ہیں اور وہ اپنے دماغی مرض کو صحت کی علامت کا نام دینے لگے ہیں،علم سے یہ لاتعلق مردہ ذہن اپنے آقا سیاست کاروں کے کاسہ لیس بن چکے ہیں ، ایسے میں یونانی فلسفی کی طرح سوچنے سمجھنے والے لوگ یونانی فلسفی کی طرح پاگل ہی قرار دئے جاسکتے ہیں۔بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں خلافت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دینے سے جہاں مسلمانوں کی اجتماعیت کا رہا سہا وجود بکھرکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا، وہیںاْمت کے دینی حلقوں میں ایک بہت بڑی بیماری در آئی ہے، وہ ذہنی طور ملکوں اور سرحدوں کے اندر قید ہوگئے ہیں، اْنہوں نے دین کے آفاقی تصور کو اْجاگر کرنے کے بجائے جغرافیائی حدود کے مطابق اسلام کو پیش کیا، اپنے اپنے ملکی حالات مدنظر رکھ کر دین کو اْسی حد تک پیش کیا گیا جس حد تک ملکوں اور خطوں کے حالات اجازت دے دیتے تھے۔یہ اسلام دشمن طاقتوں کے مردہ روحوں کی غذا ثابت ہوا، اْنہوں نے اْمت کی اس کمزوری کو بڑی ہی مہارت کے ساتھ پکڑ کر مسلکی، مکتبی، فروعی اور گروہی اختلافات کو ہوا دی اور مسلمانوں کے درمیان خلیج اور سرپھٹول پیدا کرکے اْنہیں دشمنی ورقابت کے ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا جہاں اسلام کے اصل دشمن نظروں سے اوجھل ہیں، البتہ ہر جانب اپنوں کے ہی گریبان تک ہاتھ چلا جاتا ہے اور وہی ہمیں دشمن نظرآتے ہیں۔خلافت سے اہل کفر کو یہی پریشانی لاحق تھی کہ مسلمان ایک آفاقی اکائی کی طرح یک جٹ تھے، اْن کا دین ایک تھا، ان کا قبلہ اور امام ایک تھا ، ان کا دوست ایک تھا اوراْن کا دشمن ایک تھا ،اْن کے یہاں یہ تصور حقیقی معنوں میں قائم تھا کہ اگر مشرق کے مسلمان کے پیروں میں کانٹا چبھ جائے تو درد مغرب کے مسلمان کو ہونا چاہیے۔ یہی تصور مسلم حکمرانوں کو ہزاروں میل دورپہاڑوں، بیابانوں،صحراؤں اور ریگستانوں کو عبور کرنے پر مجبور کرتارہا۔ اس بے مثال وحدت ملت سے خائف بددماغ باطل اْمت کے جسد واحد میں سیندھ لگانے نکلا اورمسلمانوں کو باہم دگر جنگ وجدل میں الجھاکر اپنا مذموم مقصد پاگیا۔ گزشتہ صدی میں باطل پرستوں کی انہی ریشہ دوانیوں کے طفیل مسلم اْمہ بکھیر کر رہ گئی اور اْن کے انگ انگ سے نپٹنے کی پالیسی تواتر کے ساتھ عمل میں لائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کا خلفشار اور انتشاردین کو بحیثیت دین کامل پیش نہ کرنے کا منطقی نتیجہ ہے، یہ دین کو چند رسموں تک محدود رکھنے کا شاخسانہ ہے،یہ الگ الگ خطوں میں الگ الگ طریقے سے دین ِ مبین کو پیش کرنے کاثمرہ ہے۔ ہماری اسی کمزوری کا سہارا لے کر باطل طاقتوں نے ملت کی صفوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے مسلمانوں کو فروعی معاملات میں اْلجھاتے ہوئے نہ صرف ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا بلکہ ہمیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بناکر رکھ دیا ہے۔
اسلام دشمن طاقتوں نے اْمت کے اندر پیدا ہونے والی فرقہ بندیوں کی پشت پناہی کی، مخصوص خطوں میں مخصوص نظریات پھیلانے والی طاقتوں کو ہر قسم کی امداد فراہم کی۔ اسلام کے بنیادی نظریات اور عقائد کو کمزور کرنے کے لیے بے پناہ سرمایہ کاری کی۔ علم اور اہل علم کے نام پر ایسے نظریات اور شخصیات کو سامنے لایا گیا جنہوں نے دین کے نام پر دینی شعائر کی بیخ کنی کرنے میں تمام حدود پار کرلئے، جس طرح کے اسلام کی خواہش اہل مغرب اور اسلام دشمن طاقتیںکرتے تھے، اْسی طرح کا دین غیروں کے یہ وظیفہ خوار پیش کرتے رہے۔ کسی نے احادیث پر انگلی اْٹھانے کی گستاخی کی تو کسی نے دینی احکامات کی من مانی تشریح کی، کسی نے اسلام کے عائلی قوانین پر چوٹ کی تو کسی نے تعزیراتی قوانین کو ظلم و جبر پرمشتمل قرار دیا، کسی نے نقلی نبوت کا دروازہ کھولا۔ ہماری ہی صفوں سے باطل کو ایسے علمائے سْو بھی ملے جنہوں نے قرآن حکیم کے احکامات اور اسلام کے ریاستی قوانین کو موجودہ زمانے میں ناقابل عمل قراردیا۔ سو سال پہلے اْمت کے اجتماعی وجود یعنی خلافت کے خاتمے کا یہی تو مقصد تھا کہ مسلمان گھر کے رہیں نہ گھاٹ کے۔آج دنیا بھر مسلمان تعداد میں کثیر ضرور ہیں، اْن کی اپنی آزاد مملکتیں بھی ہیں، قدرتی وسائل اْن کے قبضے ہیں، انسانی وسائل سے بھی اْمت مالا مال ہے لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ دین کا اجتماعی تصورہے۔ مسلمان قوموں، قبیلوں ، خطوں اور نسلوں میں بٹ چکے ہیں، آج مشرق اور مغرب تو دور کی بات ، ایک ہی بستی میں اگر کسی مسلک کا مسلمان مصائب و مشکلات میں مبتلا ہوجائے گا تودوسرے مسلک کے مسلمان کو تکلیف نہیں ہوتی بلکہ غالب امکان یہی ہوتاہے کہ اْس کی مشکلات و مصائب میں مرکزی کردار دوسرے مسلک کے مسلمان کا ہی ہوسکتا ہے۔ آج ایک مسلم ریاست دوسری مسلم ریاست کو ملیا میٹ کرنے کے لیے اسلام دشمن طاقتوں سے امداد حاصل کرتی ہے۔ عرب دنیا ، افغانستان و پاکستان اس کی واضح مثالیں ہیں۔بڑے بڑے دینی اداروں اور علماء سے ایسے من پسند فتویٰ صادر کروائے جاتے ہیں جو دین کے بجائے ریاست اور حکمرانوں کے نجی مفادات کے محافظ ہوتے ہیں۔ روس کو سپر پاور بننے سے روکنے کے لیے ’’جہاد‘‘ کا سہارا لیا گیا، لیکن جب روس کی طاقت کا غرور خاک میں ملاتو اسلام کی اس عظیم اصطلاح کوگالی بنادیا گیا۔ دنیائے امن کے لیے اسے ’’خطرہ‘‘ جتلایا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ مغرب کے اس باطل نظریہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اسلامی دنیا کے بڑے بڑے دینی اداروں اور علمائے کرام کے ’’علمی تبحر ‘‘کا سہارا لیا گیا۔اس کا بدترین نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ایک خطے کے لوگ ، علماء اور دانشور جس جدوجہد اور لڑائی کو عظیم مقصد قرار دے کر اْس کے لیے سب کچھ لٹا نے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، دوسرے خطے کے علماء اْسی جدوجہد کو بڑی بے تکلفی سے ’’غیر شرعی‘‘ قرا ردیتے ہیں، اس سے بھی آگے بڑھ کر یہاں تک جرأت کی جاتی ہے کہ جب کسی نیشن اسٹیٹ کے مفاد میں کوئی لڑائی ہو، وہاں کے بکاؤ علماء نہ صرف اْس کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اْس کو عظیم مقصد اور خالص دینی جدوجہد ہونے کے لیے فتوے بھی صادر کرتے ہیں لیکن جب اْس نیشن اسٹیٹ کے مفادات ختم ہوجاتے ہیں یا اْن کے مغربی ماسٹرس کے مفادات کارُخ بدل جاتا ہے تو یہی علماء اْس جدوجہد کے غیر شرعی ہونے کے لیے بڑی بڑی دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف عرب دنیا کی جنگ کو ایک زمانے میں مقدس جہاد قرار دیا جاتارہا ، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کی اسرائیل کے خلاف جنگ میں ہر طرح کی مدداور افرادی قوت فراہم کرنے کی نہ صرف سراہنا کی جاتی تھی بلکہ اخوان سے وابستہ لوگوں کو عرب دنیا میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتاہے لیکن وقت بدلنے یا مغرب کی ترجیح متغیر ہونے کے ساتھ ہی ان ’’دوست ‘‘ممالک کا قبلہ تبدیل ہوگیا ، اْن کے مغربی آقاؤں کے احکامات نازل ہوئے تو یہ’’ دوست‘‘ بالکل متضاد لائن اختیار کرکے دشمن ہو گئے، فتوے یہ صادر کرائے کہ اخوان المسلمون’’ دہشت گرد ‘‘تنظیم ہے، یہ دنیا بھر میں ’’دہشت گردی‘‘ کی پشت پناہی کررہی ہے، اْن کا اسرائیل مخالف ہونا ’’غیر اسلامی‘‘ ہے۔ اخوان کو تختہ مشق بنانے والے وہی لوگ ہیں جو کبھی اس جماعت کی ملت کے تئیں خدمات کا برملا اظہار کرتے تھے۔
ایک زمانے میںبرصغیر کے عظیم عالم دین سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو دین کے تئیں خدمات کے لیے سعودی حکومت کے سب سے بڑے ایوارڈ ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، اْنہیں خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھانے کے لیے خصوصی طور سعودی عرب لے جایا گیا، اْن کی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے اْن کی کتابوں کو کالجوں اور یورنیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا گیا لیکن پھر زمانے نے بچشم سر یہ بھی دیکھ لیا کہ جنہوں نے ایوارڈ دیا اْن ہی لوگوں نے اْن کی کتابوں پر پابندی عائد کرکے اْن کے لٹریچر اور فکر کو ملک بدر کرنے کے لیے طرح طرح کے غیرعقلی احکامات جاری کئے۔یہی کچھ اخوان کے چوٹی کے عالمی لیڈران اور صدی کے متاثر کن اسلامی شخصیات حسن البناء شہید، سیّد قطب شہید کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ یہ وہ معزز دینی شخصیات ہیں جنہوں نے اْمت بحیثیت جسد واحد کے عالمی تصور کو از سر نو زندہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ، یہ لوگ بے شک مغرب اور اْن کے حواریوں کو دہشت زدہ کرتے ہوں گے، ان کے فکر اور تحریکات سے اہل مغرب کو لگنے لگا تھا کہ خلافت کا خاتمہ کرکے اْنہوں نے جو خواب دیکھے تھے وہ چکناچور ہوجائیں گے، اس لیے مغرب کے پجاری اور ان کے’’توحیدی حواری ‘‘ ان شخصیات کی فکر اور تحریکات کو اسلام دشمن طاقتیں برملا طور پر اپنے لیے خطرہ قرار دیتی ہیں اور اِن کا قلع قمع کرنے کے لیے کام بھی کرتی ہیں۔اس کے لیے مسلم دنیا کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی مدد فراہم کرنا قابل فہم ہے لیکن حیرت اْن ’’علماء ‘‘کے وتیرے سے ہوتا ہے جو کل تک اِن شخصیات ، اْن کی فکر اور تحریکات کا گن گایا کرتے تھے۔ گویا یہ دینی حلقے اسلام کی نہیں بلکہ مسند اقتدار پر بیٹھے اپنے اپنے آقاؤں اور ان کی پالیسیوں کا دفاع کرنے کے لیے ’’دین ‘‘کا سہارا لے رہے ہیں۔اسلامی دنیا کی ان عظیم شخصیات پر جو الزامات باطل طاقتیںعائد کرتی ہیں ،وہی الزامات نفس کے یہ غلام واسیر بھی عائد کرتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں امریکہ کی معروف ٹی وی چینل سی این این پر نشر ہونے والی ایک ڈاکومنٹری میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ’’ سیاسی اسلام ‘‘کے نظریہ کو۱۹۲۳ءکے بعد از سرنو زندہ کرنے کے لیے ذمہ دار دو شخصیات اور دو تحریکات ہیں : شخصیات میں ایک سیّد قطب شہید کا نام لیا گیا اور دوسرے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ہیں جب کہ تحریکات میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ آج اگر یہی بات اسٹیج پر کوئی مسلمان’’عالم ‘‘ دہرائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب کس حد تک اْمت کی صفوں میں وظیفہ خوار جبہ ودستار والوں کی کرم فرمائی سے دراندازی کر چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ صدی کی عظیم دینی شخصیات کی علمی و دینی خدمات کی نفی میں ایسے نیم ملا سامنے لائے جارہے ہیں جو جہل مر کب کے پیکر بن کر مسلمانوں میں انتشار پھیلارہے ہیں اورجن اکابرین کی انتھک محنت اور مخلصانہ کوششوں سے یہ اْمت آج اسلام دشمن طاقتوں کی تمام چالوں اور ریشہ دوانیوں کو سمجھنے کی اہل ہوچکی ہے اْن ہی اکابرین کے خلاف گفتار کے غازی کانفرنسوں میں ہرزہ سرائی کر کے اپنی تنخواہ ’’حلال ‘‘کرتے ہیں۔ آج کے دور میں بونے قد کے تنخواہ دار امام ابن تیمیہ ؒ،شاہ محدث دہلویؒ، سیّد قطب شہیدؒ، سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، حسن البناءؒ شہید، علامہ یوسف القرضاوی اور ان جیسے درجنوں اکابرین ِملت پرانہی ٹھیکروں سے لیس ہوکر حملہ زن ہور ہے ہیں جن سے آقائے نامدار، تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کی دعوت دینے پر اہل طائف کے اوباشوں نے لہولہاں کیا تھا۔ ان بزرگ ہستیوں پر تنقیص کی انگلیاں اْٹھانے والے وہ لوگ ہیں جن کے پاس سوائے تقریروں ، سیر سپاٹے اور مفت خوری کے کوئی علمی کارنامہ ہے اور نہ اْن میں وہ خلوص وایثار ہے جس سے اول الذکر بزرگانِ دین لیس تھے۔ جہل ولاعلمیت اور مسلک پرستی کی حد یہ ہے کہ بیشتر سادہ لوح لوگ ان جہلاء کی فتنہ پرور باتوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور کلمہ خوانوں میں تفرقات اور منافرتیں پیدا کر نے کا سبب بنتے ہیں۔گویا اس طائفے کی حالت بھی روم کے اْس بے وزن سماج کی جیسی ہوگئی ہے جس میں جہاں دیدہ اور عظیم کارنامے انجام دینے والوں شخصیات پر کیچڑ اچھالی جاتی جب کہ کم فہم اور جاہلانہ طریقہ کار اختیار کرنے اور پاگلوں جیسی ڈرامہ بازیوں کی واہ واہی کی جاتی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کی عظیم شخصیات سمجھنے اور ان کی مخلصانہ خدمات کا اعتراف کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین