حال کے دنوں میں مقامی اخبارات میںشہ سرخیوں کے ساتھ دو ایسی خبریں شائع ہوئی ہیں جنہوں نے عوامی حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے، اوریہ سماجی سطح پر عام لوگوں میں موضوع بحث بھی بن گئیں ہیں۔ ایک خبر سرینگر میں کسی فلاحی ادارے کے اُس احسن اقدام کے بارے میں تھی جس میں 105 ایسے جوڑوں کی اجتماعی شادیاں کی گئی ہیں جو خود ازدواجی زندگی کے بندھن میں بند جانے کی خواہش تو رکھتے تھے لیکن شادی کے موقعے پر ہونے والے پہاڑ جیسے اجراجات اُن کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ مذکورہ فلاحی ادارے نے ایسے ہی105 جوڑوں کو شادی کے مقدس بندھن میں باندھ دیا ہے۔ اس ادارے نے شادی پر ہونے والے تمام اخراجات برداشت کیے ہیں۔ یہ105 جوڑے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اِن میں چالیس سے زائد لڑکیاں یتیم ہیں۔ عوامی حلقوں میں اس اقدام کی خوب واہ واہی ہوئی ہے اور اس طرح کے احسن اقدامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا جارہا ہے۔ دوسری افسوس ناک نیوز جو شائع ہوئی ہے ، وہ یہ تھی کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران وادی میں ۸؍ لڑکیاں پراسرار طور پر غائب ہوچکی ہیں، یہ لڑکیاں جواں سال اور پڑھی لکھی ہیں، پولیس نے ان لڑکیوں کے بارے میں جانکاری فراہم کرنے کے حوالے سے اخبارات میں اشہارات بھی شائع کیے ہیں۔بظاہر یہ دونوں خبریں ایک دوسرے سے جدا ہیں اور اُن کا آپس میں کوئی ظاہری تعلق دکھائی نہیں دیتا ہے البتہ جب کوئی بھی ذی حس فرد اپنے سماج کا جائز ہ لے کر گہری سوچ کے ساتھ غور وفکر کرتا ہے تو اِن دونوں خبریں کے درمیان تعلق کی ایک کڑی کو ضرور پالیتا ہے۔ دونوں خبروں کا تعلق کشمیری سماج میں پنپ رہے ایک ہی رستے ناسور سے ہے، جس کے زہریلی اثرات نے پوری سماج کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا ہے۔ اس ناسور نے ہمارے سماج کو رسوم و رواج کے خرافاتی دلدل میں ایسے دھکیل دیا ہے کہ اب ہم چاہتے ہوئے بھی نکل نہیں پاتے ہیں، اپنے ہی بنائے ہوئے مصنوعی طور طریقے کی مار اب ہماری نوجوان نسل پر پڑ رہی ہے۔دونوں روحوں کو ایک لڑی میں پرونے کا عمل جتنا آسان تھا اُس سے ہم نے از خود اس قدرمشکل بنادیا کہ اب عام اور غریب والدین کے لیے اپنے نوجوان بچوں کی شادیاں کاردارد والا معاملہ بنتا جارہا ہے۔ بے تحاشا اجراجات ، رسومات بد جس میں جہیز اور لین دین کے دوسرے طریقے شامل ہیں ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ شادی کی عمر کو پہنچ جانے والی غریب ہی کیا ،درمیانی درجے کے خاندانوںسے تعلق رکھنے والے لڑکے لڑکیاں بھی بھاری مالی بوجھ کے باعث اس مقدس رشتے میں بندھ جانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہماری وادی کے حوالے سے ایسی بھی رپوٹیں آئے روز شائع ہوتی رہتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں شادی کی عمر پار کرنے والی لڑکیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جوان سال لڑکیوں کے گھر سے غائب ہوجانے کے اکثر واقعات میں یہی دیکھا گیا کہ کہیں نہ کہیں مسئلہ شادی نہ ہونے سے ہی متعلق ہوتا ہے۔رسومات بد، والدین کی غربت یا پھر اُن کی انّا، سماجی اونچ نیچ ، ظاہری شان و شوکت، دین سے دوری، صالح تربیت کی کمی وغیرہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو انتہائی اقدام پر مجبور کرتا ہے۔
نامساعد حالات نے ہمارے سماج کو گوناگوں مسائل میں مبتلا کیا ہواہے، سب سے اہم مسئلہ جو ہماری قوم کو درپیش ہے وہ یہ کہ سماجی سطح پر رسومات بد ، خرافات اور بدعات نے ایسی جڑ پکڑ لی ہے کہ ہر کوئی ان کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ بھی کرتا ہے اور رسوم و رواج ، خرافات اور بدعات کے بھیانک نتائج کا شکار بھی ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ نہیں کرپاتے ہیں۔ جس طرح منشیات میں مبتلا شخص کے لیے نشہ آور چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے اُسی طرح ہم رسومات ، فضولیات اور خرافات کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ چاہتے ہوئے بھی ہم رسومات بد کا قلع قمع نہیں کرپاتے ہیں، بچوں کی شادیوں پر سماجی دباؤ سے دین دار حلقے بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ پاتے ہیں۔ شادیاں کتنی بھی سادگی سے انجام دی جائے لیکن کہیں نہ کہیں پردے کے پیچھے وہ سب رسمیں ادا ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے والدین بھاری مالی بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ نہایت ہی سادگی سے انجام پانے والی شادی میں بھی تین چار لاکھ سے کم کا خرچہ نہیں آتا ہے، اب جس انسان کی کمائی اس حد تک محدود ہو کہ وہ اپنے بال بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا ہی انتظام کرپاتا ہو، اپنے بچوں کے اسکولی و دیگر اخراجات بڑی مشکل سے برداشت کرپاتا ہو تو ایسے شخص کے لیے اپنی جواں سال بیٹی یا بیٹے کی شادی بھلا کیسے ممکن ہوپائے گی۔ ہمارے سماج کا بیشترحصہ ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔لازمی بات ہے کہ جب ایک جانب رسوم و رواج کی وباء عام ہو، خرافات اور بدعات کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا گیا ہو تو عام لوگوں کی بیٹیاں ہاتھ میں مہندی لگنے کے صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہیں، اُن کی بالی عمرحسرتوں اور اُمیدوں کے ساتھ گزر جاتی ہے ، یہاں تک کہ اُن کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔ شہر و دیہات میںہزاروں لڑکیاں ایسی ہیں جن کا شباب غروب ہوچکا ہے۔ سینکڑوں والدین کی روحیں اپنی جواں سال بیٹیوں کی شادیاں ہونے کی اُمیدیں لگائے ہوئے پرواز کرجاتی ہیں۔ایسے میں لڑکیوں کا گھروں سے غائب ہوجانا قابل سمجھ بات ہے۔ اس غلط رجحان کے لیے ایسی لڑکیوں کے والدین ہی ذمہ دار نہیں ہیں، نہ خالص اُن لڑکیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے بلکہ اس کی ذمہ داری پورے سماج پر عائد ہوجاتی ہے، اس کے لیے ذمہ دار وہ حرام خور ملازمین ہیں جنہوں نے کرپشن کرکے سرکاری خزانوں کو دو دو ہاتھ سے لوٹا ہوتا ہے، اس کے لیے ذمہ دار وہ کنٹریکٹر ہیں جو عوامی فلاح و بہبود کے کام میں ناقص سامان استعمال کرکے سو کی جگہ ہزار کا خرچہ دکھاکر اپنی جیبیں بھر جاتے ہیں، اس کے لیے ملاوٹ کرنے والے، جائز حد سے زیادہ منافع کمانے والے، ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والے وہ تمام لوگ ذمہ دار ہیں جنہیں ایمان داری اور حلال جیسے الفاظ سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی سماج دشمن عناصر جب اپنی تین چار نسلوں کے لیے بے تحاشا دولت جمع کرکے رکھتے ہیں ، پھر اس دولت کو شادی بیاہ کے مواقعوں پر ، سماج میں ناک اونچی رکھنے کے مفروضے کی بنیادپربے تحاشا انداز سے لٹا دیتے ہیں۔ اگر ان کی عیاشیاں اِنہی تک محدود رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، کیونکہ حرام کمائی کا مصرف بہرحال ایسے ہی ناجائز اور خرافاتی طریقوں میں ہوتا ہے لیکن حرام کمائی ، بے ایمانی اور کرپشن کے ذریعے مال کمانے والے ان لوگوں کی شاہ خرچیاں عام اور غریب کا جینا حرام کردیتی ہیں۔ یہ لوگ سماجی رہن سہن کے مصنوعی اور خیالی قانون رائج کرلیتے ہیں، جن میں محض دکھاوا ہوتا ہے، اِن کے پاس اعلیٰ طرز زندگی اور ادنیٰ طرز زندگی کی Definition بھی اپنی اور الگ نوعیت کی ہوتی ہے، یہ معیار بھی اپنے انداز کے قائم کرلیتے ہیں۔ یہ لوگوں کے لیے ایسی فضول چیزوں کو لازمی قرار دیتے ہیں جن کا بظاہر حقیقت سے واسطہ ہی نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرشادی بیاہ کے موقعوں پر دلہن کے لیے سات عدد اعلیٰ قیمتوں کے سوٹ لازمی ہونے چائیے جو وہ شادی کے پہلے سات دنوں میں پہنے گی ، یہ سوٹ صرف ایک ہی دن پہننے ہوتے ہیں بعد میں یہ ناقابل استعمال قرار پاتے ہیں، ایک ایک سوٹ کم از کم سات آٹھ ہزار کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ تیس چالیس ہزار میں بھی خریدے جاتے ہیں۔ اِن کی ذہنی اختراح کے نتیجے میں معیارِ زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہیز کے بغیر بیاہی جانے والی لڑکیاں ہر ہمیشہ اپنے میکے میں دب کررہ جاتی ہیں ۔یہ خیالی دنیا ہے اور اس خیالی دنیا میں جھوٹ اور فریب پر مبنی زندگی کے معیارات قائم کیے گئے ہیں جن کا شکار غریب والدین اور اُن کے بچے بن جاتے ہیں۔مسلمانیت کا ہمارا دعویٰ بہت ہی اونچا ہوتا ہے، خدا ترسی اور خدا پرستی کا بھی ہم ظاہری دکھاوا کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور طریقوں پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑناہمارا معمول بن چکا ہے ، لیکن ہمارے دور میں ہم اس چیز کو ناممکنات میں تصورکرتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ کی طرح یہاں نکاح اس سادگی کی ساتھ انجام پاجائے کہ نکاح مسجد میں ہو، اور شام کوتن کے کپڑوں میں لڑکی کا ولی لڑکی کو اپنے خاوند کے گھر چھوڑ کرآجائے، کوئی اضافی خرچہ نہ ہوجائے اور کسی فضولیات کی نمود ونمائش نہ ہوگی۔کیونکہ یہ آج کے دور کے دین بیزاروں نے معیار مقرر کیا ہوا ہے اور دین داروں کی حالت یہ ہے کہ وہ اِن فریبی اور سرابی معیارات کے چکر میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ وہ بھی انسانیت کے دشمنوں کی ان رسوم و رواج کا بائیکاٹ نہیں کرپاتے ہیں۔
منبروں پر واعظ پڑھنے سے، زمانے کو کوسنے سے ، ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دینے سے اس طرح کے مسائل حل نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، اپنے گھرسے اپنی بیٹی اور بیٹے کی مثالی شادی کرکے نمونۂ عمل بن جانے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے عادتوں اور معیارات کو چیک کرنا ہوگا، بلوغت کی عمر میں قدم رکھتے ہی بالغ بچوں کی شادی کرنا والدین کے بچوں کے تئیں حقوق میں شامل ہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے ہیں کہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں لڑکے اور لڑکیاں بلوغت کی عمر میں داخل ہوجاتے ہیں، پھر اُنہیں چوبیسوں گھنٹے جذبات اُبھارنے والا ماحول میسر رہتا ہے، انٹرنیٹ اور جدید دور کے میڈیا اُن کے جنسی میلان میں اُبھار پیداکرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، نظام تعلیم میں جنسیت اُن کے ذہن پر سوار کرنے کا بھرپور اور منظم پروگرام موجود ہے، ایسے میں 30 ، 35 سال کی عمر تک والدین کا اپنے بچوں کی شادی کا خیال تک ذہن میں نہ لانا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔ہم غیر فطری انداز اپناکرنوجوان نسل کو اپنے جنسی جذبات بیس برس تک دبائے رکھنے پر مجبور کرتے ہیںحالانکہ قدرت نے ہمارے لیے اس کے لیے نکاح کا جائز طریقہ رکھا ہوا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس زمانے میں غیر شادی شدہ نوجوانوںکو اپنے جنسی جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے کثریت سے روزوں کا اہتمام کرنے کا حکم دیا تھا، حالانکہ اُس زمانے میں کسی کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا، اور نہ ہی غذائیت سے بھرپور خوراک میسر تھی، اس کے برعکس آج کے دور میں غذا بھی اعلیٰ قسم کی میسر ہے اور صرف جنسی رحجان کو قابو میں رکھنے کے لیے بدقسمتی سے نفلی روزوں کا چلن بھی یہاں نہیں ہے۔ اب اگر ہم ایسی نوجوان نسل سے یہ توقع رکھیں گے کہ یہ سن بلوغت میں قدم رکھنے کے بعد بھی بیس، پچیس سال اپنے اندر ابھرنے والے فطری جذبات کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیں گے تو یہ احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔ والدین اور سماج کے خود ساختہ قانون اور اصولوں کی وجہ سے ہمارے نوجوان ذہنی الجھنوں کا شکار ہورہے ہیں، وہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ایسے میں یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وہ شرعی حدود کو پھیلانگ کر گناہوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تنقید کرنے سے اور محض واعظ و نصیحتوں سے ہی اس اہم ایشو سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ ہمیں ایک ایسے کلچر کو پروان چڑھانا ہوگا جس میں شادی کو آسان بنایا جاسکے اور جلد از جلد شادیوں کے رجحان کو نہ صرف پروان چڑھانا چاہیے بلکہ اس کلچر کو فروغ دینے کے لیے سماج کے تمام حلقوں کو ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں کا کام کرنا ہوگا۔
اس لیے متذکرہ بالا غیر سرکاری فلاحی تنظیم کی جانب سے اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرنا احسن قدم ہے، یہاں کام کررہی دینی جماعتوں، اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اس عظیم کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے آگے آجانا چاہیں۔ جس صالح معاشرے کے ہم سب خواب دیکھتے ہیں اُس کی تعبیر تب تک ممکن نہیں جب تک نہ ہمارے یہاں کی بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں جلدی نہ ہوجائے اور کوئی بھی لڑکی ایسی نہ رہے جو غربت کی وجہ سے شادی کے بندھن میں نہ بندھ جائے۔