اللہ تعالی نے زمین پر جہاں بے شمار مخلوقات کی تخلیق کی ہے وہیں کروڑوں اور اربوں انسانوں کو الگ الگ خطوں میں بسایا ہے۔ اشرف المخلوقات انسان کی آبادی سے معاشرے معرض وجود میں آئے اور انسان مذہب کی بنیاد پر مختلف اقوام میں تقسیم ہوگئے، لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور عدل و انصاف کے علاوہ حقوق پر مبنی دین الٰہی ہے،جس میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد مسلمان پر فرض ہیں۔ حقوق اللہ میں کلمہ توحید کے بعد نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰة وغیرہ ادا کرنا شامل ہیں جس کا اجر اللہ پاک نے اپنے پاس رکھا ہے، جبکہ حقوق العباد میں ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ وابستہ حقوق کی فکر کرکے انہیں ادا کرنا فرض ہے، ایک حدیث مبارک میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد کی اہمیت اسطرح بیان فرمائی ہے: ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اعمال نامہ میں درج گناہ تین قسم کے ہوں گے ، ایک وہ گناہ جسے اللہ ہرگز معاف نہیں کرے گا وہ شرک کا گناہ ہے، دوسرا گناہ جو نامہ اعمال میں درج ہوگا بندوں کے حقوق سے متعلق ہے اسے اللہ نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ مظلومین ظالموں سے اپنا حق لے لیں گے اور تیسرا گناہ وہ ہوگا جس کا تعلق بندہ اور خدا سے ہے یہ اللہ کے حوالے ہے (وہ اپنے علم و حکمت کے تحت) چاہیے گا تو عذاب دے گا ، چاہیے تو معاف کردے گا۔“ (مشکوٰة)
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ہر معاشرے میں جہاں امیروں کا طبقہ ہے وہاں غربت سے متاثر ایک بہت بڑا طبقہ بھی موجود ہے جو خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ان کی غربت کا حال یہ ہے کہ روزی روٹی کے لیے گداگری کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ چندہ برائے دھندہ آج کے معاشرے میں کچھ لوگوں نے اصول بنایا ہے،جسکی وجہ سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہورہا ہے۔ ان جعلی گداگروں کی کوئی خاص پہچان نہیں ہوتی ہے اس لیے ہمارے شریعت مطہرہ میں صدقات و زکوٰة کے اولین مستحقین اپنے نزدیکی اقرباءاور اپنی بستی کے ضرورت مند لوگوں کو قرار دیا گیا ہے،قرآن مجید میں سورہ توبہ آیت (60) میں واضح فرمایا گیا ہے کہ زکوٰةجو ہے وہ حق ہے مفلسوں اور محتاجوں کا…. الی الآخر۔ اس آیت پاک کی مختصر تفسیر میں علماءکرام لکھتے ہیں کہ صدقات (زکوٰة) کی تقسیم کا طریقہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ خدا نے صدقات (زکوٰة) کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑا بلکہ بذات خود اسکے مصارف متعین کردیے ہیں جو آٹھ ہیں۔ ”فقراء (جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو)عاملین (جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات وغیرہ کے کاموں پر معمور ہوں)،مو ¿لفتہ القلوب(جن کے پاس کچھ نہ ہو ، جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں۔اکثر علماءکے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی)، رقاب ( یعنی غلاموں کا بدل کتابت ادا کرکے آزادی دلائی جائے یا خرید کر آزاد کیے جائیں یا اسیروں کا فدیہ دے کر رہا کرائے جائیں)، غارمین (جن پر کوئی حادثہ پڑا اور مقروض ہو گئے ہوں)، سبیل اللہ ( مسافر جو حالات سفر میں مالک نصاب نہ ہو)۔
یہ ایک اہم مسئلہ ہی نہیں بلکہ بہت بڑا سوال بھی ہے کہ اگر زکوٰة و عشر کی رقم مستحق افراد تک پہنچتی یا پہنچائی جائے تو مسلمانوں میں غربت اور پسماندگی دور کرنے میں موثر ثابت ہوسکتی ہے بلکہ معاشرہ متوسط طبقہ بن کر خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتا ہے۔ اس طرح گداگری کی لت سے لوگ بچ سکتے ہیں۔ اس قسم کے مسلم معاشرہ کی تشکیل کے لیے بیت المال کے قیام کا عمل میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ معاشرہ کے لیے لازم و ملزوم نظام ہے۔ مسلم معاشرے میں جہاں مساجد و مدارس کی بہتات ہیں وہاں بیت المال کا نظام بھی ضروری ہونا چاہیے،لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات اور فرمودات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے کے باوجود بھی ہمارے ہاں کسی بھی بستی اور نگر میں باضابطہ اسلامی حدود کے اندر بیت المال کا نظام قائم نہیں ہے اگر کہیں پر ہے بھی تو متعدد مسائل کا شکار ہے اور صحیح ڈھنگ سے چلایا بھی نہیں جارہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا بیت المال کے قیام اور نظام کے حوالے سے کیا فکرانگیز قول ہے : ”بیت المال تحریکات میں بھی اور تحریکات سے باہر بھی امانت ہوتے ہیں، جہاں بیت المال کی امانت داری نہ ہو وہاں کوئی تحریک اسلامی نہیں ہے۔ بیت المال ہی وہ چیز ہے جس کی امانت داری کے نتیجہ میں ایک ذمہ دار خدا اور خلق کے نزدیک بری الزمہ ہوسکتا ہے۔ اسلام بیت المال کی امانت داری کو ایک ذمہ دار کی بنیادی ضرورت قرار دیتا ہے۔“
تجربوں اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ دور کے بیت المال کے منتظمین کو دور خلافت کے اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا ایک مشہور واقع ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو طبیب نے کسی مرض پر شہد کھانے کا مشورہ دیا لیکن آپؓ کے پاس شہد نہیں تھا۔ کئی جگہ تلاش کرنے کے باوجود بھی نہیں ملا، تب آپ ؓ کو کسی نے مشورہ دیا کہ بیت المال میں شہد موجود ہے، وہاں سے لیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: بیت المال میرا نہیں ہے یہ مسلمانوں کا ہے۔ جب تک تمام مسلمان اجازت نہیں دیتے تب تک میں نہیں لے سکتا۔ یہ بات تب عام ہوگئی، تمام مسلمان جمع ہوگئے، تب آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے اجازت لے کر شہد حاصل کیا۔ یہ تھا ایک خلیفہ کا اصول جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھی۔اب ذرا آج کے مسلمان اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں، کیا ایسا کردار کہیں نظر آرہا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا ہی ایک اور نصیحت آموز واقع ہے: ”لوگوں کا مجمع تھا. امیرالمومنین نے کہا سنو! اتنا کہنا تھا کہ ایک شخص نے کہا: پہلے میرے سوال کا جواب دیں کہ آپکے پاس یہ کرتا کہاں سے آیا…؟ کیونکہ سب کو ایک ایک چادر تقسیم کی گئی تھی اور ایک چادر میں آپکا کرتا نہیں بن سکتا ؟ جب تک آپ نہیں بتائیں گے کہ یہ زائد کپڑا کہاں سے آیا اور اپنے حصے سے زیادہ کیوں لیا ہم آپکی کوئی بات نہیں سنیں گے….! امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کی طرف اشارہ کیا ، انہوں نے کھڑے ہوکر کہا۔ یہ صحیح ہے کہ سب کو ایک ایک چادر ملی تھی، لیکن ان کا کرتا ایک چادر میں نہیں بن سکتا تھا، اس لیے میں نے اپنے حصے کی چادر انکو دے دی تھی۔ اس شخص نے کہا کہ اب شک رفع ہوگیا ہے فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، ہم آپکا حکم سننے کے لیے تیار ہیں۔“
یہ تھا خلیفہ وقت کا عدل و انصاف کا زمانہ اور خود کا اخلاص بھرا کردار، لیکن افسوس آج مسلمانوں میں نہ وہ کردار رہا اور نہ ہی جذبہ صداقت۔ اگر ایسا ہوتا تو آج یہ فتنہ و فتور مسلمانوں میں نہ ہوتے۔ آج بھی صاحب نصاب لوگ اپنے مال میں زکوٰة اور عشر کی رقم نکالتے ہیں اور ادا بھی کرتے ہیں لیکن مصرف تک پہنچانا سب سے اہم ذمہ داری کن کی ہے ؟ ظاہر ہے مسلمانوں کو یہ فرض بحسن و خوبی نبھانا ہے اور یہ ذمہ داری بلکہ فرض تب صحیح معنوں میں ادا ہوسکتا ہے جب مسلم معاشرے میں شہر و دیہات کے علاقوں میں مقامی سطحوں پر بیت المال کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ہمارے معاشرے میں ائمہ مساجد کو لوگ امیر کا درجہ دیتے ہیں۔ اس لیے ائمہ حضرات کو اپنے خطبات میں بیت المال کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالنی چاہیے بلکہ لوگوں کو اس حوالے سے متحرک کرکے بیت المال کے قیام میں عملی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔علاوہ ازیں دینی جماعتوں کے کارکنان کو بھی بیت المال کے قیام کے حوالے سے اپنے اپنے حلقہ جات میں آخری کوشش تک تگ و دو کرنی چاہیے…. اگر کہیں پر کسی دینی تنظیم کے زیر انتظام کوئی بیت المال چل بھی رہا ہے تو ذمہ داران کو چاہیے کہ مستحقین تک انکا حق پہنچانے کی جائز سعی کرنی چاہئے۔گداگری اور دیگر درجنوں سماجی مسائل سے نجات پانے کا واحد ذریعہ بیت المال کا قیام ہے۔وادی کشمیر میں جہاںنامساعد حالات کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہیںوہاں بیت المال کے قیام کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہاں ہزاروں عورتیں بیوہ ہوگئی ہیں اور معصوم بچے یتیم ہوچکے ہیں، ان سے ہمارے حقوق یعنی حقوق العباد لازماً جڑے ہوئے ہیں۔ ان غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواوں اور ضرورت مندوں تک انکا حق ہمیں ہی پہنچانا ہے ۔ہم کیوں اپنے آپکو ان حقوق العباد سے مبرا سمجھتے ہیں، کل روز محشر میں اس ضمن میں ہم سے ضرور پوچھا جائے گا کہ آپ بیت المال کے قیام کے حوالے سے خاموش کیوں بیٹھے تھے؟ آپ نے اپنی سطح پر اسکے لیے کوششیں کیوں نہیں کیں؟ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس ضمن میں اپنے اندر ذمے داری کا احساس پیدا کریں،کوئی دیار غیر سے تو نہیں آئے گا جو ہمارے اس فرض کو ادا کرے گا۔ ذرا سوچیں تو سہی…! اگر اب نہیں تو پھر کب ہم اس ضمن میں بیدار ہوجائیں گے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بیت المال کے قیام کے لیے خوابیدگی سے نکل کر لوگوں کو بیدار کیا جائے، منظم طریقے سے قابل اعتماد اور ذمہ دار ہاتھوں میں بیت المال کے انتظام کی ذمہ داریاں دی جائیں۔قرآنی احکامات اور احادیث کی تعلیمات پر من و عن عمل کرکے بیت المال کو چلایا جائے اور حقدار یعنی ضرورت مندوں تک انکا حق پہنچایا جائے۔ اس نیک عمل کے عوض اللہ تعالی مسلمانوں کو ضرور فلاح دارین سے نوازے گا۔