ایک فرد منشیات کا عادی اس وقت کہلاتا ہے جب وہ کوئی نشہ یا ڈرگ ایک ایسی مقدار میں اور ایسے طریقوں سے استعمال کرے کہ خود اس کی ذات اور دوسرے لوگ متاثر ہوں۔ عالمی ادارہ برائے صحت کی تعریف کے مطابق کسی بھی ڈرگ کا دائمی یا عارضی استعمال جو مروجہ طبی نسخوں سے مختلف ہو منشیات کی لت کہلاتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ ریاست خصوصاً وادی کشمیر میں منشیات کے عادی نوجوانوں کے مسائل اور چیلنجز نمایاں کئے جائیں۔ اقوام متحدہ کے ڈرگ کنٹرول پروگرام کی طرف سے شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف صوبہ کشمیر میں ہی 70 ہزار لوگ منشیات کے عادی ہیں جن میں13 فی صدخواتین بھی شامل ہیں۔ نوجوان اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی آگے ہیں۔ سرینگر کے سرکاری ہسپتال برائے امراض نفسیات کی طرف سے شائع شدہ رپورٹ کے مطابق 90 فی صد منشیات کے عادی افراد 17 سے 35 سال کی عمر کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ریاست میں پیدا شدہ حالات دوسرے سماجی، سیاسی و دیگر کئی قسم کے مسائل کے ساتھ ساتھ منشیات کے بڑھتے عادات کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ریاست کی صورتحال کا نوجوانوں میں منشیات کے بڑھتے استعمال میں بلاواسطہ یا بالواسطہ بڑا عمل دخل ہے لیکن مختلف تحقیقات کے مطابق اس رجحان کی کئی دوسری وجوہات بھی ہیں جیسے بے روزگاری، رشتوں میں تناو وغیرہ۔ سرکاری سطح پر اس لعنت کے خاتمے کیلئے کئی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جس میں متعدد ڈرگ ڈی ایڈیکشن مراکزقائم کرنا بھی ہے۔
لوگ منشیات کا استعمال کئی وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں ۔کچھ لوگ منشیات کا استعمال بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ،لیکن بیماری سے نجات پانے کے بعد بھی وہ اس کا استعمال ترک نہیں کرتے۔کچھ لوگ ذہنی دباو ¿ کا شکار ہوکرمنشیات کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح اس کے عادی بن جاتے ہیں۔کئی بار لوگوں کے لیے مہلک حادثات اور رشتوں میں بڑھتے ہوئے تناو منشیات کے استعمال کا سبب بنتے ہیں۔کچھ لوگ زندگی کے جھمیلوں سے راہ فرارحاصل کرنے کے لیے منشیات کے عادی بن جاتے ہیں۔ڈرگ ابیوز اور ڈرگ ایڈکشن میںتفرق کرنا اور یہ بتانا کہ منشیات کا استعمال کب منشیات کی لت میں تبدیل ہوجاتا ہے ،بہت مشکل ہے۔منشیات کا استعمال اور منشیات کی لت پے در پے نقطوں کا تسلسل ہے۔
پوری دنیا میں ہو رہی سائنسی تحقیق اس بات کی کھوج میں ہیں کہ منشیات کے استعمال کا منشیات کی لت میں تبدیل ہونے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرماں ہیں۔منشیات کی لت لگنے کے بعد انسان اپنے اہل و عیال، دوستوں اور سماج سے الگ رہنا پسند کرتا ہے ۔ ایسے لوگ کام سے جی چرانے لگتے ہیں اور اس طرح سے جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔منشیات کی لت میں جکڑے ہوئے لوگوں کی زندگی کا اولین ہدف نشہ آور اشیاءکو حاصل کرنا ہوتا ہے،لیکن جب انہیں یہ اشیاءمیسر نہیں ہوتی تو وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ان اشیا کے نہ ملنے سے ان کے دماغ کا ایک حصہ جسے Amygdalaکہا جاتا ہے،متحرک ہوجاتا ہے اور اس فرد کو منشیات حاصل کرنے کے لیے ابھارتا ہے۔نشہ آور اشیاءنہ صرف اس کے مستعمل شخص کے رویہ اور عقل و فہم میں منفی تبدیلی لاتی ہےںبلکہ اس کی بنیادی صلاحیتوں ہی کی جڑ کاٹ دیتی ہیں۔ کئی ماہرین کی تحقیق کے مطابق منشیات سے پیدا شدہ تبدیلیوں میں سے چند ایسی ہوتی ہیں جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی چلی جاتی ہیں اور کچھ عمر بھر اس شخص کے ساتھ رہتی ہیں۔منشیات کے روزمرہ استعمال سے اس کے مستعمل شخص میں اس کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے قوت برداشت بڑھ جاتی ہے۔
منشیات کی لت سے انسان بہت سی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔منشیات کو بطور دم کش استعمال کرنے والے دل کی بیماریوں میں بہت زیادہ مبتلا ہوتے ہیںاورجو لوگ منشیات بطور انجکشن لیتے ہیں ،ان میں ایڈس (AIDS) وائرس کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔اسی طرح بہ نسبت عام لوگوں کے منشیات کا استعمال کرنے والے لوگوں میں ذیابیطس کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔
کشمیر گذشتہ تین دہائیوں سے خصوصاً افراتفری کے ایک سنگین دور سے گزررہا ہے۔جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں کی نفسیاتی بیماریوں اورنفسیاتی و سماجی الجھنوں میں اضافہ ہوا ہے۔کئی نفسیاتی مسائل نے جنم لیا ہے،مثلاً ذہنی دباو،او-سی-ڈی،پی-ٹی -ایس-ڈی،منشیات کی لت وغیرہ۔جہاں تک کشمیر میں منشیات کی لت کا تعلق ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے اس پرتناو خطے میںمنشیات کااستعمال کرنے والوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔United Nations Drug Control Programme ) UNDCP (کی رپورٹ کے مطابق صرف وادی کشمیر میں قریباَ80000 افرادمنشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے عورتوں کی تعداد 13فیصدہے۔
کشمیر میں منشیات کے حوالے سے کی گئی کئی تحقیقات سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ 18 سے 30 سال کی عمرکے افرادخصوصاَ منشیات کی اس لت کے خطرے میں گرفتار ہیں۔ گورنمنٹ سائکریٹک ہاسپٹل،جو کہ وادی کشمیر کا واحد نفسیاتی اسپتال ہے،نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ منشیات استعمال کرنے کے سب سے زیادہ مقدموں کا تعلق ہماری نوجوان نسل سے ہے۔وادی کے نامور ماہر نفسیات ڈاکٹر مرغوب اور ڈاکٹر دتا نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ کشمیر میں منشیات کا استعمال کرنے والوں کی تعداد2.11لاکھ ہے۔ ان میںسے اکثر عموماَ چرس گانجہ ،براو ¿ن شوگر، ہیروئن، ایس-پی ٹیبلٹس، اینزٹ، الپراکس، دم کش منشیات مثلاًفیویکول، ایس۔آر۔سلوشن، تھنر،جوتوں کی پالش، وارنش، مکدر اورغلیظ موزے استعمال کرتے ہیں۔کشمیر میںمنشیات کے اس تیزی سے بڑھتے ہوئے خطرے کے متعلق دانشور اور ماہرین اب یہ کہنے پر مجبور ہورہی ہیں کہ ”ہماری ایک نسل تو گولیوںکی نذر ہوگئی اوراب ایک مہلک خطرہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل منشیات کی نذر نہ ہوجائے۔“
ایم۔ایم نقشبندی نے اپنے مقالہ”کشمیر میں منشیات کی لت اور کشمیری نوجوان“میں 270 کشمیری نوجوانوں کا انٹرویو کرنے کے بعد لکھا ہے کہ” وادی کے نامساعد حالات اور بے روزگاری نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی منشیات کی لت کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔مختلف تحقیقات سے یہ پتہ چلا ہے کہ80 فیصد افراد 30سال کی عمر سے پہلے ہی منشیات کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔“
اس بڑے خوفناک منظر کو ختم کرنے اور بدلنے کے لیے اگرچہ انتظامی سطح پر بھی کئی اقدامات کو عملانے کی کوشش کی گئی ہے ،لیکن حالات جتنے پرخطر ہیں ان میں کسی بڑے اور موثر اقدام کی ضرورت ہے جسے اس ناسور کا قلع قمع کیا جا سکے۔
وادی کشمیر میں منشیات کے استعمال کے پر خطراور خوفناک منظر نے باشندگانِ وادی کو عموماً اور سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور انجمنوں کو خصوصاًکئی چیلنجزمیں مبتلا کردیا ہے۔اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج وادی میںمنشیات کا غیرقانونی دھندا اور اس کی بلا روک ٹوک خرید و فروخت ہے،جس کا قلع قمع کرنے کے تئیں عوام اورمتعلقہ اداروں کو کلیدی رول ادا کرنا چا ہے۔ایک اور اہم چیلنج جس کا ہمیں سامنا ہے، وہ یہ کہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے ہمارے پاس موجود وسائل محدود ہیں۔اب سرکاری اداروں ،این -جی- اوزاور دوسرے سماجی ادوروں کو چاہیے کہ وہ لوگوں خصوصاً نوجوانون کو منشیات کے خطرات سے آگاہ کریں۔بچوں کے والدین اور نگران حضرات ہی منشیات سے دوچار شخص کی وقت پر مدد کر سکتے ہیں اور اس کو اس بڑی مشکل سے نکال سکتے ہیں،لیکن اس حوالے سے والدین اور نگران حضرات کوآگاہ کرنا بھی ایک اہم معاملہ ہے۔
علم کے ایک بڑے ذخیرے سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ منشیات کے شکار افراد کواگر سماجی حمایت حاصل ہو اور اس میں مثبت رویوں کو اجاگر کیا جائے،تو اس طرح ہم ان کو اس خطرے سے باہر نکال سکتے ہیں۔منشیات کے عادی افراد اکثر اکیلے پن اور اجنبیت کا احساس لیے ہوتے ہیں۔اس لیے ان کی کسی قدر سماجی اور اخلاقی حمایت اور مدد کرنے سے ان کو اس مشکل سے کامیابی سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔
”یہ مضمون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے دو طلبہ سجاد احمدبٹ اور نشید امتیاز نے انگریزی زبان میں تحریر کیا ہے۔ راقم نے مفادعامہ کے پیش نظر اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔“