انسانی دنیا میں اندھیرا ہمیشہ کے لئے رہنے والا نہ تھا ،نہ ہے اور نہ ہی رہ سکتا ہے، کیو ں کہ یہ سنت الٰہی ہی کے خلاف ہے۔جہاں اندھیرا چھا جاتا ہے وہیں کچھ لمحات گزرنے کے بعد روشنی کی پو پھوٹتی ہے اور روشنی بھی اس قدر پھیل جاتی ہے کہ جیسے اس سے قبل اندھیرا ہی نہیں تھا۔ ہر کام کی ابتداء اصل سے ہوتی ہے لیکن اصل میں جب غلط یا ملاوٹی مواد ملایا جائے تو اس کے اثرات بھی معدوم ہو کے رہ جاتے ہیں۔ دنیا میں جب کبھی بھی کوئی صالح اور صحیح تبدیلی رونما ہوئی یا ہو رہی ہے اس کے پیچھے بھی یہی بات کارفرما ہے ۔ صالح لوگوں کی محنت سے صالحیت ہی وجود میں آنے کا امکان ہوتا ہے، البتہ جب صالح اور صحیح علم سے بنی نوع انسان بے خبر ہو تو سماج میں صالحیت کے بدلے جہالت جنم لیتی ہے اور یہ جہالت ایسی مہلک بیماری ہے کہ جس شخص وقوم کو لگ جائے ،اسے چھوٹنا پھر مشکل ہو جاتا ہے۔
بنی نوع انسان اگر چاہے تو دنیا کی موجودہ صورت حال کا ایسا خاکہ تیار کیا جا سکتا ہے کہ ہر جانب امن وامان کی ہی فضا چھا جائے ، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ بنی نوع انسان اپنی اصل پر کھڑا ہو جائے، اور اس کی اصل یہ ہے کہ وہ اپنی اصلیت اور حقیقت جان لے۔ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں اس کی یہ ٹھاٹ بھاٹ والی زندگی چند روزہ فانی زندگی ہے اور اس کے بعد ایک ایسی احتسابی عدالت قائم کی جائے گی کہ اس جیسی عدالت نہ آج تک وجود میں آچکی ہے اور نہ ہی اللہ جل شانہ کے بغیر اسے کوئی اور قائم کر سکتا ہے۔ ہر شخص کے رگ وپے میں جب اس عدالت کی اقامت پر یقین ہو جائے گا تو اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک قدم صحیح ہوگا ، اسے یہاں کی عارضی دنیا میں آپ اپنے ساتھ انصاف کر نے اور دوسروں کے لیے خیر خواہ ہونے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی اور وہ دنیا کی اس عارضی گزر بسر میں امن و سکون اور اطمینان قلب کا متلاشی ہو گا ۔ گویا یہ سب کچھ انسان کی اپنی سوچ اور اس کے ذاتی عمل پر منحصر ہے کہ وہ اس دائمی عدالت میں اپنی ابدی جیت چاہتا ہے یا ابدی ہار ۔ اگر وہ یہ احتسابی سوچ رکھتا ہو تو اس کے ہاتھوں اور پورے جسم سے ہونے والے اعمال بھی صحیح ہونے کا امکان ہے، وگرنہ انسان صحیح سوچ اور عمل کا حامل نہ ہو تو دنیا کی اس عارضی زندگی میں ہی اس کا چلنا پھرنا، اس کا اٹھنا بیٹھا اور اس کی زندگی کا ہر لمحہ بنی نوع انسان کے لیے فتنہ سے کم نہیں ہو گا۔
جیسے اوپر بتا یا کہ ’’ انسانی دنیا میںاندھیرا ہمیشہ کے لئے رہنے والا نہ تھا ،نہ ہے اور نہ ہی رہ سکتا ہے۔‘‘ لیکن اگر دنیوی زندگی کے سفر میں بنی نوع انسان میں پریشانی اور بے اطمینانی پیش آئے تو اس کہ وجہ یہ سمجھنی چاہیے کہ خود انسان صحیح راہ پر نہیں کیوں کہ صحیح راہ پر آزمائشیں اور آلام و مصائب تو آنا ممکن ہے لیکن اس راہ پر چلنے سے دل کی کیفیات میں ایک ہمہ گیر خوشی اور طمانیت کااحساس رچ بس جاتا ہے۔ تاہم اگر صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر ہی انسان اپنی اَنا اور جہالت پر قائم رہتے ہوئے اندھیاروں میں ہی رہنا پسند کرے تو اس کی نہ صرف یہ زندگی تباہ وبرباد ہو جانے کا خدشہ ہی موجودنہیں بلکہ اس کی وہ ابدی زندگی بھی جو یہاں سے کوچ کرنے کے بعد ملنے والی ہے،خسارے کی ہی نذر ہو جائے گی۔ غرض بنی نوع انسان چاہے تو اسے ہدایت وراحت کی روشنی مل سکتی ہے اور چاہے تو روشنی کے بدلے اس کی دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی اندھیرا چھاسکتا ہے۔ یہ اندھیرا پن باری تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو گی بلکہ اس کا محرک خود انسان ہوں گے جب کہ اللہ کے یہاں عدل وقسط اور رحم ہو گا۔ انہی بنیادوں کو مدنظر رکھ کر انسانو ںکے اعمال کی جانچ پرکھ ہوگی اور پھرایک عادلانہ فیصلہ سنایاجائے جس پر اسے وہ کچھ حاصل ہو گا جس کا وہ حقدار قرار پائے۔ بنی نوع انسان کو عموماً اور ملت اسلامیہ کو خصوصاً اس بات پر پورا پورا یقین و اعتماد ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی یہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس عارضی دنیا کے بعد بھی ایک ابدی زندگی باقی ہے جس دن جس نے دنیوی زندگی میں جو بویا ہو وہ فرداًفرداًاسی کا پھل کاٹے گا۔ عصری دنیا میں مسلمانوں کی رجسٹری میں اپنا نام بہ حیثیت درج ہے، لیکن اگر وہ خدائی رجسٹر جس میں انسانوں کے اپنے اعمال وافعال کی بنیاد پر ابدی کامیابی اور ابدی ناکامی کا فیصلہ ثبت ہے ، ہمارے حق میں اندراجات سے بھرا ہو تو تو ہماری یہ فانی زندگی لافانی تحفوں سے مالامال ہوگی لیکن اگر ہم نے اسے ضائع کیااور اخروی زندگی کے خسارے سے بچنے کی کوئی کوشش وتدبیر نہ کی تو تباہی وبربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ اللہ پوری انسانی دنیااُس عدالت کے فیصلۂ خسران وعقوبت سے محفوظ رکھے۔