” حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ ایک دن روتے ہوئے، آہ و بکا کرتے ہوئے یہ کہتے جا رہے تھے کہ حنظلہ رضی اللہ عنہ منافق ہو گیا، حنظلہ رضی اللہ عنہ منافق ہو گیا۔
سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ راستے میں مل گئے۔ پوچھا کیا بات ہے؟
انہوں نے اپنا ماجرا سنا دیا۔ انہوں نے حوصلہ افزائی کے لئے جواب دیا کہ ایسا معاملہ تو میرے ساتھ بھی ہے، آیئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے اس حال کو بیان کرتے ہیں۔
دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچے اور عرض کیا،
یا رسول اللہ! حنظلہ منافق ہو گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیوں؟ کیا ہوا ہے؟
عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کی بارگاہ میں بیٹھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن مجید سنتے، ذکر، نصیحت، تلقین اور دوزخ و جنت اور آخرت کا بیان سنتے ہیں تو اس مجلس میں کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ گویا جنت بھی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، دوزخ بھی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر گھر جاتے ہیں، بیوی بچوں اور دنیا کے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں تو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ساری کیفیت جاتی رہتی ہے اور برقرار نہیں رہتی جو آپ کی مجلس میں ہوتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا !حنظلہ رضی اللہ عنہ تو منافق نہیں ہوا بلکہ مسلمان کی کیفیت ایسے ہی ہوتی ہے۔ کبھی ایسے کبھی ایسے۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔
فرمایا : عام مسلمانوں کا حال یہی ہوتا ہے، اسکو منافقت نہ کہو۔ حنظلہ رضی اللہ عنہ اگر یہ کیفیت تمھارا حال بن جائے۔ باہر جا کر بھی یہی کیفیت برقرار رہے تو اللہ کی عزّت کی قسم پھر تمھارا حال یہ ہو کہ تم گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں چلو اور دائیں بائیں قطار دَر قطار فرشتے تمھارے دیدار اور تم سے مصافحے کے لئے راستے میں کھڑے ہو جائیں۔ “
- ( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2465 توبہ کا بیان)