پروفیسرقاضی عبید الرحمن ہاشمی
قبل اس کے کہ مختصراً مشرقی علوم و افکار کی ضرورت اور اہمیت بیان کی جائے، مشرق، اہل مشرق، خصوصاً اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صدیوں سے چلے آرہے مغربی تصورات و افکار سے بھی کسی قدر واقفیت ضروری معلوم ہوتی ہے جس پر بیسویں صدی میں بڑی خوش اسلوبی، ہمدردی اور خلوص کے ساتھ ایڈورڈ سعید نے اپنی معروف کتاب مشرقیات(Orientalism) میں روشنی ڈالی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ مشرقیات(Oriantalism) کی تحریک نے ان تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کو وحشی، غیر مہذب اور پسماندہ بتایا جو مغربی دائرہ ٔاثر سے باہر تھے۔ اس نظریے کا بنیادی مقصد ان تہذیبی تبدیلیوں کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا جن سے مغرب کی سیاسی، عسکری اور اقتصادی توسیع پسندی میں آسانی ہوسکے۔ چنانچہ مشرقیات بنیادی طورپر بیک وقت استحصالی بھی تھی اور نوآبادیاتی بھی۔
مغربی معاشرے میں قرونِ وسطیٰ سے اسلام کے بارے میں مناظراتی صورت نظر آتی ہے کہ یہ ایک پرتشدد اور خطرناک عقیدہ ہے۔ جبکہ موجودہ مغربی فکر سر تاسر اسلام دشمنی اور کینہ پروری کی غماز ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں مغربی سیاحوں کے سفر ناموں میں کثرت سے بے سر پیر اور حیران کن بیانات کا سراغ ملتا ہے۔ ان متون میں مسلمانوں کو بے دین، شہوت پسند، لالچی، ظالم اور وحشی کہا گیا ہے۔ ان کے نزدیک بظاہر یہی وہ بنیادی عناصر تھے جن سے مشرقی اسلام عبارت تھا۔ Divine Comedyمیں دانتے (1320d)نے حضور مقبولؐ کے خلاف صریح نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں۔ بہت سے یورپین دانشوروں اور مصنّفین نے اسی بیمار ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے جس میں کئی نام عالمی شہرت رکھتے ہیں، مثلاً Machiavelli(d1527)، سمن اوکلےSimon Ockley(d1720)، بولین ولیرسBoulain Villiers(d1722)، ڈائڈریٹDiderot (d1784)، مولیرMoliere (d1673)اور والٹیرVoltaire (d1778)وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جنھوں نے مسلمانوں، اسلام اور حضور مقبولؐ کے بارے میں نہایت ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حد یہ ہے کہ پایرلوتی Pierre Lote (d1923)جو کہ عثمانیوں کا دوست سمجھا جاتا تھا اس کا خیال تھا کہ مسلم ممالک میں مقامی عورتیں شہوت پرست، بدچلن اور آوارہ ہوتی ہیں۔
نیپولین کے زیر نگیں مصر کے تذکرے میں فلابیر کہتا ہے کہ یہاں مردوں کی شہوت انگیزی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی داشتاؤں کے ساتھ قاہرہ کے شاہی محل کے سامنے کھلے میدان میں سب کے سامنے مباشرت کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں اس وجہ سے زیادہ حیران کن ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے مرد عورتوں کے درمیان تعلقات کے سلسلہ میں واضح قوانین دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل مغرب اور مغربی سیاحوں نے مسلمانوں کی شہوت زدگی کی جو تصویریں پیش کی ہیں انھوں نے کبھی اسلام کی تعلیم پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی، اس سے اسلام اور مسلمانوں کے سلسلہ میں غیر مسلموں کی عقل عامہ کی شدید کمی کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جیکولین سیزیری(Jecelune Cesari)اس تناقص کا سبب تلاش کرنے کے لیے اس تاریخی تناظر کی طرف اشارہ کرتی ہیں جب قرون وسطیٰ کے بعد بحیرۂ روم میں اسلام اور یورپ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بارے میں تمام اطلاعات یورپی نقطۂ نظر کی پیداوار ہیں جو ان سیاسی اور مذہبی تناقضات کی زائیدہ ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں اس طرز فکر کے ذریعہ شخصی اور ذاتی پسند و ناپسند کو بنیاد بنا کر اسلام کی سچائی کو ملبے کے نیچے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
یورپ میں اسلام سے متعلق مواد(Literature)کا تعلق سفر ناموں تک محدود نہیں ہے۔ ۱۸ویں صدی تک آتے آتے محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں ریسرچ پہلے شروع ہوگئی تھی چنانچہ ان متعلقات نے استشراق(Orientalism) کی شکل میں بتدریج ایک باقاعدہ مبسوط ضابطۂ فکر کی شکل اختیار کرلی، تاہم اس عرق ریزی کے پس پشت ہمیشہ ایک ’غیر‘ کا ہی تصور کارفرما رہا ہے۔ اسلام کے بارے میں اس بشری نقطۂ نظر نے نہ صرف یہ کہ یورپ کو تعصب سے آزاد نہیں ہونے دیا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا اور بالآخر اہل مغرب کو اعلان کرنا پڑا کہ اسلام مغربی اقدار اور بالعموم سائنسی ترقی کا دشمن ہے۔ استشراق(Orientalism)نے ایک ایسی سائنس اور خیالات کی روایت ڈالی جس کی اساس اس بات پر تھی کہ مشرق اور مغرب وجودیاتی (Ontological)سطح پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا اس نے ۱۸ویں صدی اور ۱۹ویں صدی میں اس بنیاد پر ایک بین الاقامی نوآبادیات کا جواز پیدا کیا۔
استشراق کی خاص دلیل یہ تھی کہ اسلام ہر طرح کی سائنس وتحقیق کو گناہ سمجھتا ہے جس نے مسلمانوں کو وحشی گروہ کے ساتھ جوڑ دیا۔ ارنیسٹ رینن (Mernes Renan D 1892)کے مطابق مسلمان سائنس سے نفرت کرتے ہیں، تحقیق کو غیر ضروری، غیر مفید اور فضول سمجھتے ہیں۔ فطری سائنس سے بھی انھیںنفرت ہے، یہ الگ بات ہے کہ رینن نے مسلمانوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کی تائید میں کوئی ثبوت بہم پہنچانا ضروری نہیں سمجھتا ہے۔ یوں بھی وہ اسلام کے بجائے یہودیت پر اپنے کاموں کے لیے مشہور تھا اور سامی روایت پر تحقیق میں اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی تحقیقات میں سامی دشمنی کی بھی نمایاں جھلک موجود ہے۔ اس کے اسلام کے بارے میں متعصبانہ رویہ غالباً اس کی اسی ذہنی حالت سامی دشمنی کا پیدا کردہ تھا۔ اس نے اپنے مضمون’اسلام اور سائنس‘ میں مشرقی وسطیٰ میں مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار اسلام کو قرار دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ تمام سامی مذاہب و ثقافتوں میں اسلام کا مطمح نظر سائنس اور سائنسی خیالات کے بجائے صرف الہامی اکتسابات اور شاعرا نہ جوش و خروش تک محدود ہے۔ حالانکہ رینن جو کچھ کہہ رہا ہے اس کا زیادہ تر تعلق قرونِ وسطیٰ میں مغربی کلیساؤں سے وابستہ عیسائیوں کے سائنس کے بارے میں ذہنی رویے سے ہے۔
آج ان مستشرقین کی ذہنیت کے گہرے اثرات کو ان مغربی تجزیوں میں دیکھا جاسکتا ہے جو انھوں نے مسلم دنیا کے تعلق سے کیے ہیں۔ مغربی میڈیا ان مظاہر سے بے حد متاثر ہے جو مسلم دنیا سے متعلق اہم نشانات اور اسلام کے ثقافتی تصورات کے بارے میں انتشار پیدا کرنے والے ہیں۔
تشدد اور ہٹ دھرمی کے واقعات کی فوری اطلاعات کے ذریعہ مغربی تخیل کو اسلام کے خلاف برگشتہ کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں میڈیا اسلام اور اسلامی دنیا کے مسلمانوں کی ایسی علامتی شبیہہ پیش کرتا ہے جس میں سیاسی اور نظریاتی بنیاد پرستانہ جہت شامل ہوتی ہے۔ مختلف میڈیا کے ذریعہ گمراہ کیے جانے کے سبب عوام کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ شام، الجیریا، ایران، مصر، افغانستان، ترکی اور عراق میں کیا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اہل مغرب میں جب تک اسلام کے بارے میں صحیح معلومات اور واقفیت نہیں ہوگی اس وقت تک وہ مذکورہ شبہے سے خوف زدہ رہیںگے۔ علاوہ ازیں موجودہ عہد میں مسلمان ملکوں میں اسلام کے بارے میں بڑھتی ہوئی واقفیت ان کے نزدیک بین الاقوامی گروہی دہشت پسندی کے مترادف رہے گی۔
اس مغربی نقطۂ نظر کو اسلامی دنیا کی بعض تحریکوں سے بھی تقویت حاصل ہوئی ہے۔ مثلاً انقلاب ایران، امریکی سفارت خانے کا محاصرہ، توڑ پھوڑ، انور سادات کا قتل (۱۹۸۱ء)، سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ، عرب اسرائیل جنگ، الجیریا اور افغانستان کا بحران اور حالیہ زمانے میں خصوصیت کے ساتھ شام اور عراق کے حالات کو مغربی میڈیا نے جس طرح پیش کیا ہے، اس سے کمیونسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد ایک نئی نزاعی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کے ہر بین الاقوامی واقعے کو اسلام سے منسوب کردینے کے باعث ، تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریے کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اسلام کی سیاسی جہت پر حد سے زیادہ اصرار کے باعث اس کی دینی حیثیت پر کسی قسم کی عالمانہ گفتگو آج کم ہی کی جاتی ہے چنانچہ مغرب کا دانشورانہ تخیل اسلام کو صرف ایک سیاسی محرک کی حیثیت سے ہی دیکھنے دکھانے پر مصر نظر آتا ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ آج ہماری زندگی اور اس کے تمام تر مظاہر و ممکنات، تہذیبی ادارے، علوم و فنون اور افکار و خیالات پر صحیح معنوں میں دانش مغرب کی مکمل حکمرانی ہے۔ مغربی سیاسی و نظریاتی تسلط اور تہذیبی بالادستی کا جو عمل ہمارے ملک میں خاموشی کے ساتھ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دو سو برسوں سے جاری تھا آج وہ اپنی مکمل صورت میں اپنے تمام تر عذاب و ثواب کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ تہذیبی یلغار کا عمل جو ابتدا میں بہت مدھم تھا گزشتہ کچھ برسوں میں صنعتی، مواصلاتی اور تکنیکی شعبوں میں برق رفتار ترقی کے طفیل اس قدر تیزی سے آگے بڑھا ہے کہ عقل حیران ہے اور یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ سیلاب کب، کس طرح اور کہاں جاکر تھمے گا۔
آج جہاں ہماری تمام تر معاشرتی زندگی، اس کے امتیازی خد و خال اور اقدار کو اپنی نیستی کا خطرہ درپیش ہے، خود ہمارے علوم و افکار بھی نوآبادیاتی اثرات سے اس قدر رنگین ہوچکے ہیں کہ ان کی الگ سے شناخت ایک مشکل مرحلہ بن چکی ہے۔ ہمارے جملہ علوم، ادبی و جمالیاتی افکار، مذہبی و روحانی اقدار، فنی و فکری کارگزاریاں اور ادارے نہ صرف عام بے اعتنائی کے شکار ہیں بلکہ بدیسی ثقافت کے ملبے میں دب کر یہ تمام سرمایۂ علم و دانش بتدریج معدوم ہوئے جاتے ہیں، چنانچہ تہذیب مغرب کی تحقیر یا اس کی گوناگوں برکات سے چشم پوشی کیے بغیر بھی جب ہم پچھلے کچھ برسوں میں اپنی علمی و فکری متاع کا جائزہ لیتے ہیں تو اطمینان سے زیادہ تشویش کو راہ ملتی ہے اس لیے کہ ہم نے نئی عمارت بنانے کی دھن میں نہ صرف سنگ و خشت اور رنگ و روغن مغرب سے مستعار لیا بلکہ عمارت کی بنیادبھی مستعار افکار کی سرزمین پر استوار کرتے رہے اور اسی پر فخر کرتے رہے۔ تاہم جس طرح ہماری ادبی و لسانی تاریخ میں پہلے بھی نو آبادیاتی ترجیحات کے غلبے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی رہی ہے، مشرقی اور ہند اسلامی ثقافت سے وابستہ امتیازی اور آفاقی، فنی اور جمالیاتی اقدار پر زور دیا جاتا رہاہے۔ ہمارے عہد میں بھی مغربی افکار کی سرکش لہروں کے متوازی ایک لہر مشرقی علوم و فنون اور خالص ہندوستانی افکار و خیالات کے احیا اور اثبات کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ مغرب جو خود اپنے وجودی اور روحانی زخموں کا مداوانہ کرسکا اس کے ژولیدہ افکار ہماری تاریک راتوں کو کس طرح منور کرسکیں گے۔ اس طرز فکر کے نتیجے میں جہاں وسیع تر پیمانے پر زندگی کی ہر سطح پر از سر نو غور و خوض اور نقد و احتساب کا عمل تیز ہوا ہے ادبی سطح پر بھی عظیم کلاسیکی شاہکاروں کی شعریات کی بازیافت اور ان کو از سر نو جانچنے اور پرکھنے کا رجحان بھی تیزی پکڑ رہا ہے۔ مشرق کی منفرد علمی ادبی روایات اور ان کی گہری بنیادوں کی جستجو کا مقصد دراصل خود اپنی ہستی کو جواز فراہم کرنا اور اپنا شناخت نامہ ترتیب دینا ہے۔
اس نوع کی سرگرمی کی معنویت افادیت اور اہمیت موجودہ دور میں یوں بڑھ جاتی ہے کہ آج وہ تمام افکار و نظریات جن کی تعقل پسندی اور معروضیت کا بڑا شہرہ تھا، اکثر و بیشتر سرنگوں ہوچکے ہیں اور وہ تمام محل جو صرف مادی خیالات اور مغربی افکار کی بنیادوں پر استوار کیے گئے تھے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر رہے ہیں۔ میری مراد ترقی پسند تحریک کی فکری بنیادوں اور جدیدیت کے میلان کی پشت پر کارفرما فلسفے اور نظریات سے ہے۔
نئے عہد میں مشرقی اقدار کی جستجو کا ایک مفہوم ہماری، علمی ادبی روایات میں مضمر سچے مذہبی شعور و ادراک اور روحانی و قلبی واردات کی بھی تلاش و جستجو ہے جن کی آگہی سے دانش مغرب قاصر ہے۔ اساطیر، دیومالا، علامات، مابعد الطبعیاتی افکار اور وہ تمام فنی و لسانی لزوم جو ہماری خالص مشرقی ثقافت اور تخلیقی مزاج کا صدیوں سے حصہ رہے ہیں ان کی تعبیر و تشریح اور افہام و تفہیم موجودہ آگہی کا لازمی نتیجہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہماری علمی ، ادبی ، جمالیاتی اور فنی روایات میں مشرقی ، روحانی اور انسانی مآخذ و سرچشموں کو ڈھونڈنے کا عمل جس قدر تیز ہوگا اسی قدر سرعت کے ساتھ ہمیں اپنی علمی میراث کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا اور مغربی علوم کے مقابلے میں اپنے سرمایۂ علم و ودانش کے تئیں ہماری تحقیری روش بھی یکسر بدل جائے گی۔ تاہم اس عمل کو اگر کوئی Puritanismاور ترقی معکوس سے تعبیر کرتا ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہوگی۔ مشرق و مغرب کے بنیادی فلسفیانہ حقائق میں مماثلتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے علمی و ادبی ورثے اور اکتسابات کے امتیازات کو نمایاں کرنے کا عمل کسی طرح منفی یا Fanaticتصور ہرگز نہیں ہوسکتا۔