شبلی کا نظریۂ شاعری۔۔۔۔ڈاکٹر پرویز احمداعظمی

شبلی کا نظریۂ شاعری۔۔۔۔ڈاکٹر پرویز احمداعظمی
شبلیؔ نعمانی کی شخصیت اردو ادب میں ناقد،شاع، مورخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے مسلم اور لاثانی ہے ۔ ان کے شعر اور شاعری سے متعلق نظریات و افکار ’شعرالعجم‘ اور’ موازنۂ انیس و دبیر‘ کے علاوہ ان کے مختلف مضامین میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن اتنی بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کو شاعری، اس کے فنی لوازمات اوراس کی تنقید سے خاص انسیت رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے نظریاتِ شاعری اور اس کے دیگرامورسے متعلق اپنے خیالات کوتفصیل اور توضیح کے ساتھ ’’شعرالعجم‘‘ میں پیش کیا بلکہ عملی تنقید کے نمونے بھی ’’ موازنۂ انیس و دبیر‘‘ میں پیش کیے۔ شبلیؔ نے ’’موازنے ‘‘میں مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کے علاوہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ ، مبالغہ، روز مرہ اور محاورہ اور دیگر شعری محاسن کی تعریف و توضیح اور ان کے مختلف پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی ہے، جن سے ہمیں ان کے شعری شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شبلیؔ کے نظریۂ شاعری اور شعری تنقید کو سمجھنے کے لیے ان کی مذکورہ دونوں کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔
انہوں نے ’’شعرالعجم‘‘ کی پہلی جلدمیں ’شعر کی حقیقت‘ ،’ شاعری کے متعلق ارسطو اور مِل کی رائیں‘ اور چوتھی جلدمیں ’شاعری کی حقیقت‘،’ شاعری کے اصلی عناصر‘، ’محاکات‘،’ تخیل‘، ’حسنِ الفاظ‘ اور لفظوں کی نوعیتوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی یہ تصنیف خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ اسی میں انہوں نے اردو شاعری کے تعلق سے اپنی گراں قدر آرأ کا اظہار کرنے کی کوشش کی ہے۔اردو شاعری کی شعریات کو سمجھنے کے لیے حالیؔ اور شبلیؔ کی آرأ اور کتابیں اردو ادب میں نوادر کی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ انہیں دونوں اکابرین نے اردو شاعری کی شعریات کے اصول و ضوابط طئے کرنے کی ابتدائی کوششیں کی ہیں۔
در اصل شعرالعجم شبلیؔ کی وہ کتاب ہے،جس میں انہوں نے اپنے شاعری اور امورِ شاعری سے متعلق خیالات ؛مطالعے ، مشاہدے اور تجربے کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی حتی المقدور سعی کی ہے۔ شاعری کے اصلی عناصر، تاریخ اور شعر کا فرق، شاعری اور واقعہ نگاری کا فرق جیسے مسائل پر مدلل بحث کی ہے تاکہ شاعری کے جملہ معاملات واضح ہو جائیں۔ اس کے لیے وہ لفظ اور معنیٰ کی بھی بحث کرتے ہیں اور ان کی مختلف نوعیتوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ شاعری کو ذوقی اور وجدانی شے کہتے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ شاعری کی جامع تعریف پیش کرنا آسان نہیں لہٰذا وہ مختلف انداز سے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں:
’’ شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے، اس لئے اس کی جامع و مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جا سکتی اِس بنا پر مختلف طریقوں سے اس کی حقیقت کا سمجھانا زیادہ مفید ہوگا کہ ان سب کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جائے۔‘‘ ۱؎
شاعری کی حتمی تعریف چند لفظوں میں بیان کرنا واقعتاً مشکل ہے۔ اس لیے شبلیؔ نے حتمی تعریف کے بجائے مختلف مثالوں سے اس کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے ۔ اس کے بعد وہ ادراک اور احساس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ خدا نے انسان کو مختلف اعضا اور مختلف قوتیں دی ہیں۔۔۔ان میں سے دو قوتیں تمام افعال اور ارادات کا سر چشمہ ہیں، ادراک اور احساس، ادراک کا کام اشیا کا معلوم کرنا اور استدلال اور استنباط سے کام لینا ہے۔ ہر قسم کی ایجادات ، تحقیقات ، انکشافات اور تمام علوم و فنون اسی کے نتائج عمل ہیں۔
احساس کا کام کسی چیز کا ادراک کرنا ، یا کسی مسئلے کا حل کرنا، یا کسی بات پر غور کرنا اور سوچنا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب کوئی موثر واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہو جاتا ہے، غم کی حالت میں صدمہ ہوتا ہے، خوشی کی حالت میں سرور ہوتا ہے، حیرت انگیز بات پر تعجب ہوتا ہے، یہی قوت جس کو انفعال یا فیلنگ سے تعبیر کر سکتے ہیں شاعری کا دوسرا نام ہے، یعنی یہی احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتا ہے،‘‘ ۲؎
علامہ شبلیؔ کے شاعری سے متعلق یہ بنیادی خیالات ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں ، جس کے باعث اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ان کے نزدیک حیوانات پر جب کوئی جذبہ طاری ہوتا ہے تو وہ متفرق حرکتوں یا آوازوں سے اس کاا ظہار کرتے ہیں جو’ شیر کو گرجنے ، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے ، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے‘ پر مجبور کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان پر کوئی جذبہ طاری ہوتا ہے تو اس کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعری میں جذبات اور کیفیت کی اہمیت کے خاصے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
’’جو جذبات الفاظ کے ذریعے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔۔۔شعر کی تعریف یوں بھی کر سکتے ہیںکہ جو کلام انسانی جذبات کو بر انگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے،‘‘ ۳؎
شبلی کا کہنا ہے کہ شاعری کا کام جذبات کو تحرک دینا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے خیالات کو مزید واضح کرتے ہیں ۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ تمام عالم ایک شعر ہے۔ زندگی میں ہر جگہ شاعری بکھری پڑی ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے۔ وہ ایک یوروپین مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’ ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے، شعر ہے ۔ اس بناپر فلک نیلگوں ، نجمِ درافشاں ، نسیم سحر، گلگونۂ شفق، تبسمِ گل، خرامِ صبا، نالۂ بلبل، ویرانیِ دشت، شادابی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے۔۔۔جو چیزیں دل پر اثر کرتی ہیں، بہت سی ہیں، موسیقی، مصوری، صنعت گری وغیرہ لیکن شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے،‘‘ ۴؎
فنون لطیفہ کا ذکر اور ان کا تقابل کرتے ہوئے وہ کہتے ہیںکہ شاعری دیگر فنون کے مقابلے بہتر ہے کیوں کہ شاعر ان کیفیات کی بھی تصویر کشی کر سکتا ہے، جن کی پیش کش مصور اوربت تراش نہیں کر سکتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ساری زندگی میں شعریت پائی جاتی ہے ۔ قدرتی مناظر، صبح کی دل آویزیاور شام کا دل کش سماں، ان سب میں ایک مسحور کن کیفیت ہوتی ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شبلیؔ کے نظریاتِ شاعری، شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سید عبداللہ ’’اشاراتِ تنقید‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ شبلیؔ نے اصناف شعر کی بھی تجزیاتی بحث کی ہے ۔ اور کئی امور میں حالی سے آگے بڑھ گئے ہیں۔۔۔شعرالعجم اور موازنہ انیس و دبیر کی تشریحات ذوق کے لیے یوں ہیں’’گویا دبستان کھل گیا‘‘۔۔۔یہ تو ظاہر ہے کہ شبلیؔ کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطۂ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج ، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکائو رکھتا ہے۔‘‘ ۵؎
مذکورہ اقتباس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شبلی کے بارے میں اس طرح کی رائے کئی ناقدین کی ہے کہ وہ جمالیاتی اور تاثراتی نقاد ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم لیکن وہ فن کی خوبیوں اور خامیوں دونوں پر برابر نگاہ رکھتے ہیں۔ ’موازنے ‘میں، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صرف میر انیس کی شاعری کی تعریف کے لیے یہ کتاب لکھی، اس میں بھی انہوں نے میر انیس کی شاعری کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔
شبلیؔ کے نزدیک شاعری تمام فنون ِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً: موسیقی ، مصوری ، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعری کے سلسلے میں وہ محاکات کا ذکر کرتے ہیں اور پھراس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ محاکات کے معنیٰ کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ تصویر اور محاکات میں یہ فرق ہے کہ تصویر میں اگرچہ مادی اشیا کے علاوہ حالات یا جذبات کی بھی تصویر کھینچی جا سکتی ہے۔ ۔۔تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ سینکڑوں گوناگوں حالات و واقعات تصور کی دسترس سے باہر ہیں۔‘‘ ۶؎
وہ صرف محاکات کی تعریف ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ محاکات کن کن چیزوں سے قائم ہوتی ہے ۔اس کی بھی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تخیل ، جدت ادا اورالفاظ کی نوعیت ، کیفیت اور اثر کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک لفظ جسم ہیں اور مضمون روح ہے۔ اس مسئلے پر اہل فن کے دو گروہ ہیں ایک لفظ کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا معنیٰ کو۔ شبلیؔ کا زور لفظ پر زیادہ ہے۔ لفظ اور معنی کی بحث میں لفظوں کی اقسام اور ان کی نوعیت کی صراحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
’’الفاظ متعدد قسم کے ہوتے ہیں، بعض نازک ، لطیف، شستہ، صاف، رواں اور شیریں اور بعض پر شوکت، متین، بلند، پہلی قسم کے الفاظ عشق و محبت کے مضامین ادا کرنے کے لیے موزوں ہیں، عشق اور محبت انسان کے لطیف اور نازک جذبات ہیں، اس لیے ان کے ادا کرنے کے لیے لفظ بھی اسی قسم کے ہونے چاہییں،‘‘ ۷؎
لفظ اور معنیٰ کی بحث نہایت دلچسپ ہے۔ فصیح اورمانوس الفاظ کا اثر، سادگی ادا، جملوں کے اجزا کی ترکیب پر اپنی آرأ کا اظہار کرتے ہوئے شبلیؔ اس کے اثر کی بھی بات کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ، یہ ہے کہ خیال یا مضمون کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو اگر لفظ عمدہ نہیں ہوں گے تو خیال کا اثر جاتا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیال کی عمدگی کے ساتھ ساتھ الفاظ کا عمدہ ہونا بھی ضروری ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کہ شبلیؔ کا نقطۂ نظر تاثراتی اور جمالیاتی ہے، کو مضائقہ نہیں لیکن ان کی نگاہ شاعری کی دوسری خوبیوں پر بھی رہتی ہے ۔ موازنۂ انیس و دبیر میں انہوں نے شعری صنعتوں کی جس طرح تشریح پیش کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے کہ جس صنعت کے ضمن میں انہوں نے جو شعر نقل کیے ہیں ۔ وہی شعر اکثر کتابوں میں نقل کیے گئے ہیںیعنی چراغ سے چراغ جلانے کا کام ہوا ہے۔
اردو شاعری کی نظریاتی بحث ، اسے پرکھنے، پرکھنے کے لیے کسوٹی تیار کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امور مثلاً: لفظ و معنیٰ، محاکات، تخیل، جدت ادا، بداعت اسلوب وغیرہ کی اہمیت اور شعری محاسن کے بارے میں جس طرح سے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ آج بھی ہمارے لیے بیش بہا خزانے کی مانند ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حالیؔ اور شبلیؔ کی نظریاتی بحث نے ہی اردو شاعری کو ایک مثبت سمت عطا کی اور شاعری کو کلی طور سے پرکھنے کا کام شروع ہوا۔اسی لیے اردو شاعری کی نظریاتی بحث کے سلسلے میں حالیؔ اور شبلیؔ نہایت اہم ہیں۔ انہیں دونوں اکابرین کی بدولت اردو شاعری کی تنقید اور چھان پھٹک کا چراغ روشن سے روشن تر ہوا۔
حواشی
۱؎ شعر العجم، جلد چہارم، ص: ۱
۲؎ ایضاً، ص: ۲۔۱
۳؎ ایضاً، ص:۲
۴؎ ایضاً، ۳۔۲
۵؎ اشاراتِ تنقید، ص: ۲۸۹۔۲۸۸
۶؎ شعر العجم، جلد چہارم، ص: ۶
۷؎ شعر العجم، جلد چہارم، ص: ۶
کتابیات
۱؎سید عبداللہ(ڈاکٹر)، اشارات تنقید،
۲؎شبلی نعمانی ، شعرالعجم، جلد اول، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ۱۹۷۲ (طبع ششم)
۳؎شبلی نعمانی ، شعرالعجم، جلد چہارم، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ناقص الاول
۴؎شبلی نعمانی ، موازنۂ انیس و دبیر، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ۲۰۰۴
٭٭٭
مشمولہ ششماہی ’’اردو نامہ‘‘ شمارہ 9 ص:200تا 207

Leave a Reply

Your email address will not be published.