تحریر کے میدان میں مطالعہ کی اہمیت۔۔۔عتیق معاذ

تحریر کے میدان میں مطالعہ کی اہمیت۔۔۔عتیق معاذ

مولانا ابو الکلام آزاد رح نے غبار خاطر میں لکھا ہے: ’’بچپن سے ہی دل میں یہ چٹیک سی لگ گئی تھی کہ فراغت ہو ، کتاب ہو اورباغ کا کوئی پرسکون کونا ۔ پھر وہاں بیٹھے گھنٹوں مطالعہ کرتا رہوں۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے ہی فرمایا تھا:
“میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہو سکتا ہے؟ جاڑے کا موسم ہو اور جاڑابھی قریب قریب درجہ انجماد کا ،رات کا وقت ہو، آتش دان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں، میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔“

ڈاکٹر عائض القرنی ایک مشہور عرب مصنف ، ادیب اور کالم نگار ہیں ۔انہوں نے ہفت روزہ ’’اخبار العالم الاسلامی‘‘ میں لکھا کہ: “میرے پاس سیکڑوں لوگ آتے ہیں ۔ ان کے لبوں پر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ ہم کیسے عمدہ قلم کار بن سکتے ہیں ؟ میری طرف سے بھی ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ ایک دن کا کام نہیں۔ یہ ایک سفر ہے جو کتاب سے شروع ہوتا ہے اور جب تک کتاب سے رشتہ جڑا رہتا ہے، یہ سفر جاری رہتا ہے”۔ جب تک تم سیکڑوں اشعار نہیں پڑھتے اور یاد نہیں کرلیتے ۔ افسانہ ، ناول اور دیگر فنون کی کتابوں کے سمندر نہیں ڈکار جاتے، اس وقت تک عمدہ قلم کار نہیں بن سکتے۔
مطالعہ کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے دنیا کے سارے دکھوں سے بچنے کے لیے ایک مضبوط ترین پناہ گاہ تعمیر کر لی ہے۔
مطالعہ چاہے تھوڑا تھوڑا ہو، مگر روزانہ ہو،تاکہ تسلسل نہ ٹوٹے اور عادت بن جائے۔اس بنا کوئی چارہ نہیں۔ مطالعے کے بغیر آپ اس وادی کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں نہ ہی قلم اٹھا سکتے ہیں۔الغرض مطالعے کے بغیر آپ اپنے جذبات’ احساسات’ تجربات’ قارئین تک منتقل کرہی نہیں سکتے.
اگرچہ انٹرنیٹ کی بدولت ای لرننگ یا ای ایجوکیشن کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں مگر نوجوان ان سہولیات کا فائدہ اٹھانے کے بجائے انٹرنیٹ کے دیگر فضول استعمالات میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے پاس ایک کتاب پڑھنے کا وقت نہیں لیکن پورا دن سوشل میڈیا پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔
کتاب سے تعلق علم سے محبت کی علامت ہے۔ زندہ قومیں کتب خانوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
ہماری نوجوان نسل کے پاس مہنگے سے مہنگا موبائل’ لیپ ٹاپ اور موٹر بائیک نظر آجاتا ہے’ مگر شاید کسی کے ہاتھوں میں کوئی کتاب نظر آئے۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ آج کل ایک اشار ے پر دنیا بھر کی تمام معلومات تو حاصل کی جا سکتی ہیں۔اور جیسے جیسے دورِ جدید کی ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں شامل ہو رہی ہے کتاب کہیں دور فضا میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ ترقی کرنا ہر دور کا تقاضا رہا ہے۔ ہماری نئی نسل کو بھی نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنا چاہیے لیکن کتب بینی جیسی خوبصورت عادت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

مطالعے کے تین بنیادی اصول ہیں۔ ان پر عمل کر کے ہی آپ ایک اچھے لکھاری اور مصنف بن سکتے ہیں۔

(1)۔ تحریر میں عوامی نفسیات کا حامل اسلوب اپنایا جائے اور یہ آپکو مطالعے سے ہی حاصل ہو گا۔ اس کے لیے آپکو ہر صنف کا مطالعہ لازمی کرنا ہو گا۔

(2)۔ مخصوص اور کثیرالفوائد کتب کا مطالعہ کرنا ہو گا ۔ جس سے اپنی شخصیت کی تعبیر بھی ہو اور معاشرے کی اصلاح بھی۔

(3)۔ جب بھی مطالعہ کریں انتہائی گہرائی سے اور تجزیاتی طریقے سے تنقیدی مطالعہ کریں۔ یعنی ہر پہلو سے جانچئے، نوٹ کیجئے، اور ذہن نشین کیجئے۔
(4). کتاب میں استعمال کیے گئے نئے اور عمدہ الفاظ، خوبصورت تراکیب، محاورات، ضرب الامثال، مصرعے و اشعار، الفاظ کی مختلف قسمیں، یعنی مترادف، متضاد، ذومعنی وغیرہ اور تشبیہات و استعارات کو الگ الگ سمجھیں اور پھر انہیں اپنے پاس نوٹ کریں۔ سرسری انداز میں کسی ایک پہلو پر ہی انحصار نہ کریں۔

(5).جب تک جسم میں روح باقی ہے مطالعہ روح کی غذا سمجھ کر روزانہ اور آخری سانس تک کریں۔ اپنے بڑوں کے مشورے سے معیاری کتب کا انتخاب کریں۔ اور پھر ہر صنف کی کتب پڑھ ڈالیں۔

(6). ذوق ادب کی آبیاری، فکر و نظر کی ترتیب، اور ادبی استعداد کے لئے انسانوں، فطرت، اور ادبی کتب کا مطالعہ جس قدر ممکن ہو زندگی کا جز بنا لیں۔

آخری بات…
مطالعہ کرنا کافی نہیں ، اسے آگے منتقل کرنا بھی ضروری ہے۔
مطالعہ سے علم حاصل ہوتا ہے، اور علم کو آگے پہنچانا ضروری و لازمی ہے۔ اور اگر وہ مطالعہ و علم’ دین کا ہو تو واجب بھی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:
“یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ اس کے ذریعے انہیں ڈرایا جائے اور وہ بخوبی یہ جان لیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے تاکہ عقلمند لوگ سمجھ لیں”۔ ( سورہ ابراھیم)
اور جو مطالعہ کر کے بیٹھا رہتا ہے۔اور علم و مطالعہ کو چھپاتا ہے، ایسے علم چھپانے والوں کی لیے قرآن اور حدیث میں بڑی وعید آئی ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
“جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کر چکے ہیں،ان لوگوں پہ اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے،مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں تو میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنےوالااور رحم کرنے والا ہوں”۔
( البقر 159-160)

انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق عمل اور علم کا ہی ہے کہ دیگر مخلوقات میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کریں ۔جبکہ انسان دیگر ذرائع کو استعمال کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے ۔علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتا ہے اسے اچھے اور برے میں فرق سیکھاتاہے،

گزشتہ دنوں رضا علی عابدی پر ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے کراچی سے پشاور تک دریائے سندھ کے کنارے کنارے سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ چونکہ یہ سفر کئی مہینوں پر مشتمل تھا۔ مسلسل چلنا تھا، چنانچہ میں نے اپنا سامان مختصر سے مختصر کرنے کی کوشش کی۔ ایک ہی بیگ تھا۔ جس میں کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ تین جوڑے کپڑے، ایک ڈائری، ایک کیمرہ تھا۔ کل کائنات یہ تھی۔ لوگوں سے انٹرویو لیتا، سفر کرتا اور مطالعہ کرتا رہتا تھا۔ جب یہ کتابیں ختم ہوجاتیں، ایک تھیلا اور منگوالیتا۔ زیادہ تر وقت مطالعے ہی میں گزرتا تھا۔“
رضا علی عابدی نے تقریباً 55 سال تک بہت مطالعہ کیا ہے۔ آج کل لندن میں مقیم ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں تاکہ اپنا حاصل مطالعہ عوام تک پہنچائیں۔ تقریباً ہر ماہ ہی نئی کتاب مارکیٹ میں آرہی ہے۔ کتاب قیمتی موتیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایک ایک جملے اور ایک ایک سطر سے مطالعہ ٹپکتا ہے۔ ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ راستہ دکھانے والا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں ماررہا، بلکہ علم کی مشعل تھامے ہوئے آگے آگے چل رہاہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.