پاکستان سن 14 اگست 1947 ء میں مخصوص حالات کے اندر ایک عظیم مقصد کے لئے بنایا گیا تھا۔ جس مقصد کی تحصیل کے لئے تحریک پاکستان کے تحت مطالبہ پاکستان، قرارداد پاکستان اور قیام پاکستان تینوں مطالباتی تیر اپنے صحیح نشان پر لگ گئے ۔پاکستان کس طرح وجود میں آیا ہر ایک اسں کے بارے میں تھوڑی بہت جانکاری رکھتا ہی ہو گا کہ 1947 میں برطانوی سامراج کے تسلط سے آزادی پاکر ہندوستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔تقسیم کے نتیجے میں دو آزاد ملک پاکستان اوربھارت کرہ ارض کی سطح پر اپنا ایک علاحدہ اور واضح نقشہ تراشنے میں کامیاب ہو گئے۔
پاکستان وجود میں آنے کے بعد سیاسی اعتبار سے شدید قسم کی بے ضابطگیوں کا شکار رہا ، مرکزی اور صوبائی دونوں سطحوں پر پاکستان مختلف النوع خطرات کی زد میں رہا۔پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو قائد اعظم گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے ۔لیکن یہ دونوں حضرات بھی جو اپنی نیک نیتی میں خالص تھے اپنے قوم کی ناقدری کے سبب پاکستان کی سیاست کو استحکام نہ بخش سکے۔پاکستان پہلے دس سالوں میں صرف اندرونی چپقلشوں اور بیرونی دباؤ کا ایک کھلا اکھاڑا بنا رہا اور جس کے نتیجے میں اس کی شروعات کوئی خاص تائثر عالمی برادری کو نہ دے سکی ۔پاکستان کو کبھی فوجی آمریت نے جکڑا، کبھی نام نہاد جمہوریت نے، کبھی مارشل قانون نے اور کبھی presidential rule نے، اس طرح سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔پاکستان کے نااہل حکمرانوں اور با اثر لوگوں نے پاکستان کو ایک کالونی سمجھ کر یا تو اپنے پیٹ بھرے یا اپنی دولت کی بد ہظمی کے نتیجے میں اپنی الٹی بیرونی بنک (foreign banks) میں جمع کی، یا پھر دوبارہ سے برطانوی سامراج کو نئی شکل میں زندہ کرنے کی کوشش کی ۔پاکستان کے ان حکمرانوں نےپاکستان کو قائداعظم کے نظریات اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست نہ بننے دیا جس میں پہلا قدم جنرل ایوب کا صدارتی آئین 1962ء تھا ۔اگرچہ صدر ایوب اسلام کی عزت کرتا تھا لیکن وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا خواہاں نہ تھا، اس طرح وہ قائد اعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے حق میں نہ تھا جیسا کہ اس کے بعد بھی یہ کام کوئی سر انجام نہ دے سکا۔خدادمملکت پاکستان کی وہاں کے راہنماؤں، لیڈروں ،جاگیرداروں،ںسرمایہ داروں اور وڈیروں نے کوئی قدردانی نہ کی ۔جس طرح سے یہ ملک معجزاتی طور پر دنیا کے نقشہ پر ابھر آیا تھا اسی طرح سے اس ملک میں ہنگامی طور پر اندرونی خلل و انتشار کی تحریک شروع ہوئی جس سیاسی انتشار کے نتیجے میں پاکستان اپنے وجود کا ایک حصہ بھی کھو بیٹھا یہاں تک کی اپنی سیاسی تاریخ کی اہم ترین شخصیات بھی قتل کروا گیا ۔صدر، وزیراعظم، فوجی جرنیل، وزراء اور بہت سارے رہنما پاکستان کی خطرناک اور پر آشوب سیاسی لہروں کی نذر ہو گئے ۔پاکستان کے سیاسی سیلاب میں جو کودتا ہے اس کا وہاں سے صحیح سلامت باہر نکلنا یا تو بہت مشکل ہے یا پھر اسے بھی سیلابی کیڑے مکوڑوں کی رفاقت اختیار کرنی پڑتی ہے ۔ پاکستان میں ہر کوئی نیا راہنما ایک امید کی کرن بن کر ابھرتا ضرور ہے لیکن نااہلیت کی پیشانی لیکر یا تو واصل جیل یا جلاوطن یا پھر قتل کر دیا جاتا ہے۔آخر کیا وجہ ہے پاکستان کی سیاست میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟کیوں پاکستان میں آج تک کوئی جمہوری طرز کی حکومت اپنا پورا سفر مکمل نہ کر سکی؟ کیا واقعی یہودی اور دیگر اسلام دشمن طاقتیں پاکستان میں سیاسی وبال پیدا کرتی ہیں؟ مختلف سیاسی تجزیہ نگاروں کی مختلف ٹیکنیکل وجوہات ہو سکتی ہیں ان ٹیکنیکل (technical)وجوہات کےذیلی عنوانات کا احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں بے شمار تجزیہ نگار اپنے قلم کی رنگینی کی نمائش کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے اس مکافات عمل کی دنیا میں ان کی کامیابی اور ناکامی کے اصول و ضوابط دیگر اقوام سے یکسر مختلف ہیں۔مسلمانوں کا عروج اسلام کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے جس طرح کرہ ارض پر روشنی کا پھیلنا آفتاب کے طلوع ہونے کے ساتھ ہے ۔ہم روشنی کا تصور بغیر طلوعِ آفتاب کے نہیں کر سکتے اسی طرح سے مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے ان کی اصلی ترقی کا تصور اسلام کے بغیر ممکن نہیں ۔ایک بات اور ہے جو اس ضمن میں ہمیں سمجھنی چاہئے وہ یہ کہ مسلمانوں کی ترقی کا مظہر آج کی فرضی مغربی ترقی کے مظہر سے بھی مختلف ہے۔ہماری ترقی آسمان کو چھوتی ہوئی عمارات،کھیل کود کے میدان، بیوروکریٹس کا وی ای پی کلچر اور عیاشی کے اڈے جہاں پر انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کرنے میں آزاد ہو اور مغربی بود و باش اختیار کرنے میں نہیں ہے بلکہ اسلامی طرز حیات اپنانے میں ہے۔
پاکستان کے سیاسی نظام میں برپا دھاندلی کی اصلی جڑ وہ وعدہ برخلافی ہے جو انہوں نے تصور پاکستان کے پیچھے کارفرما روح کے ساتھ کی ہے۔اس روح کے مطابق پاکستان کا معرض وجود میں آنا صرف اور صرف اسلامی نظام کی نمائندگی کے لئے خالص تھا اور جس کے لیے پاکستان کی عوام نے جھولیاں پھیلا پھیلا کے اللہ تعالیٰ سے اس ملک کو مانگا تھا اسی لئے پاکستان کو خداداد مملکت پاکستان کہا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان نے اسلام کے ساتھ بے وفائی کی، کیے گئے وعدوں سے منھ پھیر لیا اور اپنے اسلاف کی تمناؤں، کوششوں اور قربانیوں کی کوئی قدر نہیں کی ۔
تحریک پاکستان کے باضابطہ عملی آغاز سے دس سال پہلے سن 1930میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا اس طرح سے گویا فکری اور نظریاتی اعتبار سے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔نظریہ پاکستان کے اغراض ومقاصد میں اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش، اسلامی معاشرے کا قیام اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ خاص طور پر سر فہرست تھے۔اس کے علاوہ قرارداد مقاصد (objective resolution)جو سن 1940میں لاہور کے منٹو پارک میں منظور کی گئی تھی اس کے اہم بنیادی نکات میں سر فہرست نکتہ ایک آزاد مسلم حکومت کے قیام کا ہے جہاں پر اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا اس کے علاوه پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی(constituent assembly) نے مارچ 1949میں قرار داد منظور کی جو پاکستان کے آئین کے لیے راہنما اصول متعین کرتی ہے اس کے پہلے اصول کامتن یوں ہے "اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیاجائے گا ” ۔مسئلہ اتنا عیاں ہونے کے بعد بھی پاکستانی عوام اور رہنماؤں نے جس طریقے سے جمہوریت اور مغربی طرز عمل کو قبول کیا وہ احسان فراموشی اور بے غیرتی میں ایک مثال ہے۔اگر چہ اس بات سے ہمیں انکار نہیں کہ ایک قلیل طبقہ وہاں پر اس اصلی مقصد کے مطابق پاکستان کو ڈھالنا چاہتا ہے لیکن ان کی تعداد حقیقتاً بہت کم ہے۔ پاکستانی دستور (constitution)کے سرنامہ(preamble )میں ہر جگہ لفظ اسلام گردش کرتا ہوا نظر آتاہے اور قانون سازی اسلام کے حدود کے اندر اندر کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔لیکن معاملہ حقیقی سطح پر اس سے بالکل مختلف ہے۔یہ ہے وہ نقطۂ اختلاف مسلمانان پاکستان اور اسلام کے مابین جو پاکستان میں برپا ہر نوعیت کی دھاندلی کی وجہ ہے۔
پاکستان کی عوام نے اپنے قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کی تقاریر کو بھی بھلا دیا جو انھوں نے اسلام اور پاکستان کے حوالے سے کی تھیں ۔لبرل اور سیکولر ذہن والے پاکستانی قلمکاروں نے اپنے ذہنی جھکاو اور مزاج کے مطابق محمد علی جناح کی تقاریر اور تحاریر کا معنی اور مفہوم ہی بدل دینے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے وہاں فکری سطح پر مختلف طبقات کے مابین ایک قلمی جنگ جاری ہے جس کا پاکستان پر اپنا ایک منفی اثر ہے۔محمد علی جناح صاحب نے اسلام اور پاکستان کے قیام کے حوالے سے جو بیانات دئے ہیں وہ پاکستانی عوام اور راہنماؤں کے لیے ایک مرحوم روح کی درد بھری پکار ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا "اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے”۔ "اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ ایک طرف قیام پاکستان کا جواز ہیں اور دوسری طرف ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمہ داری ہیں۔”بے شمار بیانات محمد علی جناح صاحب کے ساتھ منسوب ہیں جو اس امر کے شاہد ہیں کہ پاکستان کی تشکیل کا واحد جواز اسلام تھا تاکہ مسلمان، غیر اسلامی راج سے محفوظ ہو کر قرآنی احکام کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن جس بے دردی کے ساتھ پاکستانی عوام اور راہنماؤں نے ان بیانات کو یا تو بدلنے کی کوشش کی یا پھر طاق نسیان کی زینت بنایا وہ سب عیاں ہے۔75سالوں سے دینی جماعتیں جمہوری طرز پر ہی صحیح اسلامی نظام کے قیام کی تائید کے لیے ووٹ مانگتے آئے ہیں لیکن جواب میں جو طرز عمل امت نے اختیار کیا وہ ہماری ملی غیرت کے بالکل منافی ہے ۔یہ مسئلہ ایک طرف رکھ لیں کہ ان دینی جماعتوں کہ حکمت عملی میں ضعف یا کمزوری واقعی ہے یا نہیں ہے اور اس قسم کے دیگر سوالات کو اپنے اَختلافی تجربہ گاہوں(laboratories)میں جانچنے کے بدلے اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھرا کر امت سوچےکہ کیا سچ میں ہم اپنے قلب وذہن سے اسلامی نظام چاہتے ہیں یا نہیں۔اللہ تعالیٰ سے مانگی گئی اس مملکت میں آج کیا ہو رہا ہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے کھلے بند گناہوں کا ارتکاب اُف ! یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔یہ حالت صرف پاکستان کی نہیں ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک کی ہے۔ایران ،اور سعودی عرب نے بھی تو اس حماقت میں کمال کر دیا ہے جگہ جگہ سینما حال اور دیگر ان جیسی خواہشات کی پیاس بجھانے والے اڈے زیر زمیں سے اپنے سینگ ظاہر کر رہے ہیں ۔اس ظمن میں حضور صلی الله عليه وسلم کی ایک حدیث قابلِ غور ہے؛ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا "جب میری امت میں کھلے بندوں گناہوں کا کاروبار ہوگا، تو اللہ تعالیٰ اسے ہمہ گیر عذاب میں مبتلا کر دے گا”۔آج کے جمہوری نظام نے انسان کی ایک خطرناک خواہش کو ابھارا ہے وہ ہے اقتدار کی حوس جس کی طلب و تمنا میں دغابازی، ظلم، گنڈہ گردی اور ضمیر فروشی کی اچھی خاصی نمائش ہوئی ۔حکومت حاصل کرنے کی طلب اسلام میں بالکل نا پسند ہے ،لیکن اسلامی ممالک میں یہ تحریک بڑے زور و شور سے جاری ہے۔جس زاویے سے بھی عالم اسلام کو دیکھا جائے وہاں اسلام سے عریاں انحراف دکھتا ہے ۔
پاکستان کی سیاست پر بیرونی دباو بھی ایک حقیقت ہے لیکن بیرونی دباو کو ہی اپنی ہر داخلی ہلچل کا باعث سمجھنا ایک غیر سنجیدہ فعل ہے۔بیرونی طاقتیں تب اثر انداز ہوتی ہیں جب داخلی نظام ضعف و کمزوری کا شکار ہو، جب داخلی مدافعتی نظام مفلوج ہو اور جب داخلی امور و مسائل پر نحیف گرفت ہو ۔میں نے پاکستان کے ایک سیکولر ذہن کے کالم نگار کا مضمون پڑھا جس میں دبے الفاظ میں پاکستان میں اسلامی اقتدار کے خواہاں کو ہی پاکستان میں برپا انتشار کا ذمہ دار ٹھرایا، لیکن ان سیکولر اور مغرب زدہ مفکرین کو یہ بات کیوں نہیں سوجھتی ہے کہ ان کے ملک کی تاریخ کے طویل عرصہ حتی کہ آج تک زمام کار ان کے ہی لائن کے لوگوں کے پاس رہی ہے تو انہوں نے مغربی حکمت عملی کے ذریعے پھر پاکستان کو اس شدید انتشار سے آزاد کیوں نہیں کیا ۔وہ کیوں آج تک مغرب کے سیاسی آقاؤں کے حکم نامے کے مطابق عمل درآمد کرتے ہیں؟ وہ کیوں ہر معاملے ان ہی کو اپنا ثالث مقرر کرتے آرہے ہیں؟ بحیثیتِ مسلمان ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو آخری ہدایت نامہ قرآن کی شکل میں بھیجا وہ محض ایک قسم نامہ بن کر ہمارے ہاتھوں میں گردش کرتا رہے یا پھر نعوذ بااللہ ایک مذاق کی چیز بن کر ہماری طاقچوں میں سجی رہے بلکہ ہماری تقدیر کو بدلنے والی کتاب ہے، ہمارے عروج و زوال کا راز اس میں پنہاں ہے اور ہماری رفعت و بلندی کا اٹل قانون اس میں موجود ہے۔
ہر دور میں پاکستان کی انتخابی سیاست میں نئے نئے چہرے نت نئے نعروں کے ساتھ سیاسی میدان میں کودے اور بے دین عوام کو بیوقوف بنا کر نہ جانے کیاکیا گل کھلائے ۔مثلاً ’’ووٹ کو عزت دو، خدمت کو ووٹ دو‘‘ مانگ رہا ہے ہر انسان ۔ روٹی کپڑا اور مکان ،دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان وغیرہ اس جیسے دیگر کئی نعرے دین سے دور مسلم عوام کے لیے مچھلی پر کسنے کا جال ہے جو پھنس گیا پھر پھڑ پھڑانا غداری ہے۔ لاصل بات مجھے یہ کہنی ہے جب تک دینی جماعتیں بھی دعوت،واعظ اور نصیحت وغیرہ بنیادی کام نہ کریں گے تب تک سیاسی دھاندلی پاکستان کا مقدر ہے۔بے دین عوام پر دین دار حاکم کبھی نہیں ہوتا بلکہ حدیث نبوی کے مطابق جیسی رعیت ویسا حکمران ہوا کرتا ہے ۔حدیث نبویؐ ہے "جیسے تمہارے اعمال ہوں گے اسی طرح تم پر حکمران مقرر کیے جائیں گے ۔”
عمران خان صاحب کا پاکستان میں چھا جانا کوئی حیران کن بات نہیں ہے بلکہ وہاں کی عوام کو اسی قسم کا حکمران منظور ہے۔جہاں تک عمران صاحب کا تعلق ہے وہ بھی نیا پاکستان کا نعرہ لیکر پاکستان کی اعلی مسند پر براجمان ہونے والے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے کسے ایک مسئلہ کا حل بھی وہ نکال نہیں سکتے ہیں ۔البتہ دم دار تقاریر میں وہ پاکستان کو دنیا کا سپر پاور (super power ) بھی بنا دیں گے لیکن عملی میدان میں وہ بھی اپنے پیش رو حکام کی طرح پاکستان کی سیاست میں محض اپنا نام درج کر دیں گے۔تحریک انصاف کے جلوس میں جو عریانیت اور حریت دکھتی ہے وہ پاکستان کے مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات کے عکاس ہیں۔پاکستان میں کوئی بھی صاحب آئے لیکن جب تک وہ اسلام کے مطابق پاکستان کی تشکیل نہ کرے تب تک وہاں سیاسی ،معاشرتی ،معاشی حتی کہ مذہبی انتشار کا دروازہ بند نہیں ہو سکتا ہے۔