قربانیوں سے قوموں کی تعمیر ہوتی ہے ،یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کسی بھی قوم کی سربلندی کا راز اس کے افرد کی دی ہوئی قربانیاں ہیں ،گوشہ نشینی سے نہ قومیں کبھی تعمیر ہوئی ہیں اور نہ قیامت تک کسی قوم کے لیے اللہ کے قانون میں کوئی ایسی ضمانت ہے۔ دنیا میں لوگ مال و متاع اور جاہ و حشمت کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔ صبح وشام کو ایک کر دیتے ہیں تاکہ کامیابی اور کامرنی مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا بھی دستور یہ بنایا ہے کہ جو قربانی دے گا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا چاہے وہ دنیا کے لیے دی جانے والی قربانی ہی کیوں نہ ہو؟ جس راہ میں انسان خود کو کھپاتا ہے اور فنا کر دیتا ہے وہ سرخروئی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ قربانیاں مختلف قسم کی ہیں اور مختلف مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں ،لیکن جب قربانی کا لفظ بولا جاتا ہے اور سماعتوں سے ٹکراتا ہے اس وقت فوراً ذہن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد تازہ ہوجاتی ہے،دل و جان میں ایک ایمانی حرارت دوڑ جاتی ہے ،نگاہوں کے سامنے اطاعت و فرماں برداری کا عجیب نقشہ گشت کرنے لگتا ہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مبارک زندگی مختلف قربانیوں کے انجام دینے میں لگی رہی۔ آپ علیہ السلام نے محبتِ خداوندی کے حصول اور اطاعت کے امتحانات کو پورا کرنے کے لئے پے درپے قربانیاں دی اور آپ کی تمام قربانیاں رنگ لائیں اور ان قربانیوں (ابتلاء و آزمائشوں) نے آپ کو دنیائے انسانیت کا پیشوا اور امام بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں فرماکر تا قیامِ قیامت تک آپ علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کو محفوظ کردیا:
’’ یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گئے ،تو اس نے کہا : میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں، ابراہیم نے عرض کیا! اور کیا میری اولاد سے بھی وعدہ ہے۔اس نے جواب دیا :میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔‘‘(البقرہ)
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی عظیم انسان سے نسبت کی بنیادپر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے نہیں کھلتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے صاف اور شفاف الفاظ میں ایسی تمام نسبتوں کا رد کیا ہے کہ انسان بے عمل اور بد عمل ہونے کے باوجود کسی عظیم انسان سے نسبت کی بنیاد پر امامت کے عظیم منصب پر کھڑا کیا جائے …ایں خیال است محال است جنوں است!
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مبارک زندگی ابتداء سے آزمائشوں سے دو چار رہی،انسانیت کے امام و پیشوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جداِ امجد بننا مقدر تھا اس لیے کڑے امتحانات اور قدم قدم پر محبت و فرماں برداری کا نرالا امتحان آپ ؑ سے لیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں جو نقشہ آپ علیہ السلام کا کھینچا ہے وہ مومنین و صادقین کے لیے مشعل رہ ہے اور امت مسلمہ کو تلقین کی گئی کہ ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی کی جائے کیونکہ ابراہیم علیہ السلام دین حنیف پر قائم اور صراطِ مستقیم پر گامزن تھے،بلکہ یہاں تک بھی فرمایا گیا کہ ابراہیمؑ ی ذات میں وہ تمام خوبیاں جمع تھیں جو ایک امت میں پا ئی جاتی ہیں۔ حق (دین اسلام) کی تبلیغ و اقامت کی خاطر آپ علیہ السلام کو زبردست آزمائشوں سے گزرنا پڑا لیکن آپ مخالف اور طوفانِ بلا خیز کے سامنے چٹان بنے رہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی محبت اور اطاعت کے خاطر قربانیوں کا آغاز خود اپنے گھر سے شروع کیا کیونکہ آپ علیہ السلام کے باپ آزر نہ صرف بت پرست تھے بلکہ قوم کے بت ساز بھی تھے۔ بت پرست اور بت ساز کے گھر میں آپ علیہ السلام نے حق کی دعوت کا آغاز کیا اور سوزِدل کے ساتھ راہ حق کی طرف آنے کا پیغام اپنے باپ کو سنایا۔حق کو دلائل و براہین سے پیش کیا لیکن باپ نے قبولِ حق کے بجائے خود اپنے ہی جگر کے ٹکڑے اور نورِ نظر کے خلاف محاز قائم کیا اور ڈرانے و دھمکانے سے مخالفت کا آغاز کیا اور اس طرح سے محبت والفت کا گہوارہ گھر عداوت ودشمنی کا مرکز،آپ علیہ السلام کے لیے بن گیا۔حق کے اعلان کے لئے آپ آگے بڑھے اور اب قوم کو راہ راست کی طرف بلانا شروع کیا، بت پرستی کے رد میں دلائل دلنشین انداز میں بیان کیے لیکن ہٹ دھرم اور ضدی قوم نے آپ کی بات کو ماننے سے انکار کیا،آپ علیہ السلام نے بتوں کی بے بسی ثابت کرنے کے لئے بت شکنی کا کام بھی انجام دیا،پھر بادشاہِ وقت نمرود کے ساتھ زبردست مباحثہ ہوا۔ احقاقِ حق و ابطالِ باطل کے خاطر آپ علیہ السلام بادشاہِ وقت سے بھی ٹکرا گئے جو خدا ہونے کا دم بھرتا تھا… نمرود آپ کی دلائل کے سامنے بے بس ہوا تو اس نے آپ کو دھکتی ہوئی آگ میں جھونکنے کا حکم دیا……ابراہیم علیہ السلام محبتِ خاوندی اور احقاقِ حق کی خاطر اس دھکتی ہوئی آگ میں کود پڑے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
ہر مخلوق نے ابراہیم علیہ السلام کو حفاظت کے لئے درخواست پیش کی لیکن آپ نے انکار کیا اور آخر میں اپنے سرِ مبارک کو آسمان کی جانب کر کے فرمایا۔’’اے اللہ آپ آسمان میں تنہا ہیں اور میں زمین میں! میرے علاوہ آپ کی کوئی بندگی کرنے والا نہیں ہے، آپ ہی میرے لئے کافی ہیں اور بہترین کار ساز ہیں‘‘(احکام القرآن قرطبی) اس رقت انگیز التجا کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور ابراہیمؑ کے لئے سلامتی کا ذریعہ بنتی ہے۔ آزمائشوں کا سلسلہ بند نہیں ہوتا بلکہ اب نقل مکانی کرنے کے بعد اللہ کے اس محبوب بندے کو قدم قدم پر امتحانات سے گزارا جا رہا ہے۔ اب وفا شعار رفیق حیات اور شیر خور بچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام دونوں کو لے جاکر ایک ایسی سر زمین پر چھوڑ آنے کا حکم ملتا ہے جو ابھی غیر آباد تھی اور چاروں طرف سحرا و جنگل کا سناٹا تھا۔ آپ علیہ السلام نے محبت و اطاعت الٰہی میں اس حکم کے سامنے بھی سر تسلیم خم کیا۔ یہ کوئی عام قربانی نہ تھی بلکہ ایک عظیم قربانی تھی،اس لیے آسمان سے فیصلہ آیا اور اس سر زمین کو(جو اب تک سحرا اور جنگل تھی) محترم و مکرم بنا دیا،درحقیقت آسمانوں کے دروازے ان ہی بندوں پر کھلتے ہیں جو وفا شعار ہوں ،جو اطاعت کی مثال قائم کریں ،اور جو مالک کے ہر حکم پرلبیک کہہ دے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں میں سے بے مثال اور لازوال قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کے لئے تیار ہو جانا ہے۔ واقع یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی قربانیاں کچھ انفرادی حیثیت اور جدا گانہ شان رکھتی ہیں۔ اللہ کے اس بندے کو یوں ہی خلیل اللہ کا لقب نہیں ملا ہے اور عالم انسانیت کی امامت کے منصب پر یوں ہی فائض نہیں ہوئے۔آپ علیہ السلام نے تین رات مسلسل خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ،ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ صرف خیالی خواب نہیں ہے بلکہ حکم الٰہی ہے لہٰذا اسکو پورا کرنا ہی محبوب کی اطاعت کا ثبوت ہے۔ سیدنا ابراہیم نے بیٹے سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو اطاعت شعار بیٹے نے کہا کہ اباجان! آپ کو اللہ تعالیٰ نے جس کام کا بھی حکم دیا ہے آپ اس کو پورا فرمائے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ اطاعتِ الٰہی میں سرشعار باپ نے جب اطاعت شعار بیٹے کو ذبح کے لئے لٹا دیا،آسمان بھی یقیناً حیرت زدہ تھا،اور زمین و دیگر مخلوقات بھی محوِ حیرت کہ ماجرا کیا ہے؟
اس پورے قصے کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا
’’اور ہم نے آواز دی کہ:اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا. یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اس طرح صلہ دیتے ہیں. یقیناً یہ ایک کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا اور جو ان کے بعد آے ان میں یہ روایت قائم کی۔سلام ہو ابراہیم پر۔‘‘
یہ فیضان نظر تھا کہ یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائی کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری چلانا کوئی آسان کام نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ کرکے دکھایا ہے اور اس کا مشاہدہ آسمان و زمین و دیگر مخلوقات نے بھی کیا ہے۔ محبت الٰہی میں فنا ہونے کا یہ آخری ثبوت ہے جو خوشی خوشی باپ بیٹے نے اللہ کی راہ میں دیا ہے۔ ان بے پناہ قربانیوں کے بعد آپ کو اللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت کا امام و پیشوا بنا دیا۔ یہ منصب فقط اللہ ہو اللہ ہو کرنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس منصب کے لیے قربانیوں کے پر خطر راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ حج اور قربانی کی عبادت قدم قدم پر ایک بندہ مومن کو اس بات کا پیغام دیتی ہے کہ محبت الٰہی کیسی ہونی چاہیے ؟ وفا اور خلوص کس کو کہتے ہیں ؟ راہ حق میں قربانیاں دینے والے کیسے ہوتے ہیں ؟ دراصل سیرت ابراہیم علیہ السلام سے ہمیں یہ سبق لینا چاہئے کہ محنت و تعلق مع اللہ کو صحیح رخ پر ڈھالنے میں ہی دین ودنیا کی کامرنیاں اور سر بلندیاں مضمر ہیں۔
، فون نمبر،9797754319