قرآن میں خلافت ، نیابت، بادشاہت ، امامت، کا جہاں بھی ذکر ہوا ہے ، علم و حکمت کو ان کی بنیاد کے طور پیش کیا گیا ہے۔ رب کریم نے طالوت و جالوت کے قصہ میں جہاں بہت سے اسباق کی طرف اشارہ کیا ہے وہیں طالوت کو بادشاہ یا امیر مقرر فرمانے کے لیے جس صفت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بسطتَ فی العلمِ والجسم۔ یعنی طالوت کی امار ت کو دو بنیادوں سے ثابت کیا گیا ہے، ایک وسعت ِ علم اور دوسرا شجاعت، بہادری، جرا تمندی، طاقت۔ علم کو سب سے پہلی بنیاد کے طور پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے حضرت داوودؑ کو بادشاہیت عطا کرنے کو اپنی عظیم نعمت کے طور پیش کیا ہے اور یہ فرمایاہے: ”ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھی، اس کو حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی “۔ (ص، ۲۰) رب ذوالجلال نے داﺅودؑ کو دی گئی عنایتوں میں خصوصی طور حکمت اور فیصلہ کرنے کی قوت کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن قرآن ِ مجید جہا ںحضرت داﺅود ؑ کے زہد و تقویٰ ، ایمانی غیرت، ان کی نیک سیرتی ، ان کے حسن اخلاق و معاملات کا تذکرہ کرتا ہے وہیں اﷲ تعالیٰ انہیں دئے گئے علم و ہنر کی بھی بات کرتا ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ داﺅودؑ نے لوہا پگھلا کر نہ صرف اسے زرہ بنانے کے کام میں استعمال کیا بلکہ آبادکاری ، تعمیر و ترقی اور صنعت کاری میں بھی استعمال کیا۔ زرہ بنانے کی صنعت نے جنگ کی کایا ہی پلٹ دی، اس میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ جہاں رب طالوت کے بارے میںجسمانی قوت کی بات کرتے ہیں وہیںحضرت داﺅودؑ کے بارے میں حرب و ضرب کے آلات بنانے کے فن میں ماہر ہونے کی بات کی گئی ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی مقصود ہے کہ ہر دور کی ضرورتیں بدلتی ہیں ، ہر دور میں طاقت اور طاقت کے وسائل بدلتے ہیں، جس چیز کو طالوت کے دور میں طاقت شمار کیا جاتا تھا داﺅودؑ کے دور میں طاقت کا وہی تصور نہیں تھا۔ اﷲ تعالیٰ زرہ بنانے کے مقصد کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ تم کوایک دوسرے کی مار سے سے بچائے۔ اﷲ مخلوق کو جنگوں میں اپنا دفائی میکانزم مضبوط سے مضبوط تر رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ سامان حرب و ضرب صرف دفاع تک ہی محدود نہیں ہوتا اس سے طاقت مہیا ہوتی ہے اور سلطنت کی بقا کے لئے طاقت ایک اہم ذریعہ ہے۔اہل صنعت و حرفت کے حق میں یہ ان کے کاموں کے باشرف ہونے کی دلیل ہے۔ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ تہذیبوں کی تشکیل ، ملکوں کی تعمیر اور فوجوں کی فتوحات یقینی بنانے میں لوہے نے جو بنیادی کردار ادا کیا اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
سورہ الحدید کی آیت ۲۵ میںاﷲ فرماتے ہیں: ”ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجااور ان پر کتابیں نازل کیں اور میزان(یعنی قواعدِ عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور لوہا اتارا(پیدا کیا) جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں۔ یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اﷲ کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناَ اﷲ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔“ ہمارے علمائے تفسیر میں اب تک یہ بحث جاری ہے کہ لوہا اتارا گیا ہے کہ پیدا کیا گیا۔ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے دلیل پہ دلیل دی جاتی ہے۔ کاش کہ کچھ اور انداز سے ان آیات کو سمجھنے اورسمجھانے کی کوشش کی جاتی تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ اس آیت پر اگر تھوڑ ی دیر رک کر غور و فکر کیا جائے تو بہت سے رموز کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اﷲ اپنے رسولوں کو اپنے منصب کی ادائیگی کے لئے، اور عقائد کی تعلیم و تفہیم کے لئے واضح دلائل کے ساتھ مسلح کر کے بھیجتا ہے۔ انہیں معجزات عطا کیے جاتے ہیں، انہیںاپنے دعوے اور دعوت کو آیاتِ آفاق و انفس سے ثابت کرنے کا کمال حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس آیت میں جہاںاﷲ تعالیٰ نے بیّنات، کتاب اور میزان کی بات کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کے اتارنے کا بنیادی مقصد نظام قسط و عدل کو قائم کرنا ہے وہیں لوہے کی بھی بات کی گئی ہے اور کہا گیا کہ اس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہے۔ سید قطب شہید” فیہ باسُ شد ید “کے معانیٰ میں بیان کرتے ہیں کہ لوہے کے اندر ہی جنگ اور سلامتی مضمر ہے، اور” و منافِع للنّاس “کے معنیٰ میں لکھتے ہیں کہ آج تک انسانی تہذیب و تمدن لوہے کی برکت سے ہے ۔ اس آیت میںجہاں لوہے کی افادیت و اہمیت کو بیان فرمایا گیا ہے وہیں اس بات کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ کیاگیا ہے کہ انبیاءکی بعثت، ان پر کتابوں کے نزول، میزان اور عدل اجتماعی کی بقا ءو فروغ اور لوہا اتارنے کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔ اگر انبیاءاپنی تگ و دو سے نظام قسط و عدل کا قیام عمل میں لاتے ہیں تو طاقت ہی ہے جو اس نظام قسط و عدل کو قائم رکھ سکتی ہے اور دوسروں کو اس نظام پر قائم ہونے یا کرنے کا کام انجام دے سکتی ہے۔داﺅودؑکے بعد بادشاہیت و سلطنت حضرت سلیمانؑ کو عطا ہوتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ کو حضرت داﺅدؑ سے وراثت میں اقتدار، علم و حکمت، صنعت و حرفت ملی۔ حضرت سلیمانؑ کو دی گئی سلطنت ایک ایسی سلطنت تھی کہ جس تک تا قیامت دنیا کے کسی انسان کے لئے رسائی ممکن نہیں۔ جہاں قرآن میں حضرت سلیمان ؑ کو دی گئی دیگر نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا کہ اﷲ نے آپ ؑ کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔یعنی اب Iron Ageکا زمانہ گزر چکا تھا ، اور ایک نئے زمانے کا آغاز ہو گیا۔ تانبا لوہے سے حد درجہ بہتر ہے تو پتا چلا کہ نئی نئی صنعتوں کی کھوج اور نئی نئی Innovationsایک مملکت کے انتظام کو صحیح سمت بخشنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ذوالقرنین کی سرگشت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے یاجوج و ماجوج کے خلاف لوئے اور تانبے کی ایک ایسی دیوار بنا دی جس کو عبور کرنا یاجوج ماجوج کے لئے ناممکن بن گیا۔ ذوالقرنین کی اس سرگشت سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ذوالقرنین نے مختلف دھاتوں کو ایک ساتھ ملا کر اس کو ایک نئی شکل و صورت بخشی ۔ جدّ ت میں ہی بڑے بڑے مسئلوں کا مداوا اور حل ہے۔آج جوہری قوت کا زمانہ ہے ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور امت مسلمہ کے لئے ان علوم میں جدّت لانے کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے لئے سورہ انفال کی آیت ۶۰ میں اﷲ تعالیٰ نے واضح حکم دیا ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق قوت جمع کریں تاکہ آ گے دشمن اور خود ہمارے دشمن اور وہ لوگ جو اُن کا درپردہ ساتھ دیتے ہیں خوف زدہ ہو جائیں، یعنی ان کے خلاف ایک Deterenceقائم ہو جائے۔قوت ایک جامع اصطلاح ہے جو زمان و مکان کے اعتبارسے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ آج کے دور میں قوت کے تین بنیادی درجات ہیں۔ Hard Powerیعنی جنگی ساز و سامان، فوجی طاقت، فوجی حرب و ضرب میں جدید ٹیکنالوجی، دوسرا، Soft Powerیعنی فکری اور تہذیبی طاقت، یہ وہ طاقت ہے جسے میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے اور لوگوں کو مسخر کیا جاتا ہے۔ تیسرا، Economic Powerیعنی اقتصادی اور معاشی طاقت اور معاشی طاقت ہی پہلے بیان کردہ دونوں طاقتوں کے لئے ایک بنیاد کا کام کرتی ہے۔ اگر ایک ملک یہ تین طاقتیں رکھتا ہے تو اس کی بالا دستی دنیا میں قائم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی بات کی جائے تو دنیا کی سب سے بڑی اور طاقت ور فوج اس کے پاس ہے، اس کی ہی تہذیب ، اس کے ہی افکار دنیا بھرمیں اپنائے جاتے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ ہی ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اﷲنے قرآن کی ایک سورہ کا نام ہی ایک اہم ترین معدنی مادے پر رکھا ہے جس کی افادیت رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی۔ سورہ الحدید کی یہ آیت لوہے کو اﷲ کے ایک احسان اور فضل کے طور پیش کرتی ہے اور ساتھ ہی اس کے دو طرفہ استعمال کا ذکر کرتی ہے، ایک فوجی ساز و سامان، حرب و ضرب کی قوت کا جو نہ صرف نظام قسط و عدل کے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے اس نظام، قسط و عدل کو دنیا کے باقی تمام باطل نظاموں پر غالب کرنے کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ اگر اپنے دور کے مطابق فوجی طاقت اور اسلحہ نہ ہو تو مغلوبیت ہی مقدر بن سکتی ہے فتح و غلبہ ہر گز نہیں۔ قرآن میں ساڑھے چودہ سو سال پہلے اس تعلیم کو واضح کر کے سمجھایا گیا تھا مگر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ دنیا میں سب سے بڑی Iron and Steelانڈسٹریز چین، جاپان، کوریا، امریکہ، روس جیسے ممالک کے پاس ہیں ہمارے پاس نہیں، بڑی بڑی گاڑیوں کے خریدار ہم ضرور ہیں مگر دنیا میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے ہم مالک نہیں۔ ہمارے پاس تیل تو ہے مگر انڈسٹریز نہیں ، یورانیم تو ہے ایٹمی قوت نہیں، لوہا ہے صنعت نہیں، تسبیح ہے ٹینک نہیں، کشف و خواب ہیں F-16 اور گائیڈڈ میزائل نہیں۔ اگر یہ سب نہیں تو خلافت کے حقدار ہم کیسے ہوسکتے ہیں!
٭٭٭