عید الاضحی کی حقیقت کیا ہے؟ جب یہ سوال اللہ کے رسول ﷺ سے کیا گیا تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ ’’ یہ تمہارے باپ کی سنت ہے۔‘‘ سیدنا ابراہیم ؑکی پوری سیرت پاک توحید کی اقامت اور اس کی پاسداری کی خاطر غیر معمولی تلاش وجستجو،ہجرتوں اور قربانیوں سے عبارت ہے، یہ حق تعالیٰ کے لئے جینے اور مرنے کا فارمولہ اور ابتلاء و آزمائش کا مرقع ہے۔ آپؑ کی پوری زندگی بعد کے لوگوں کے لئے اُسوہ طیبہ ہے اور اسلام کی سچی مثال اور حقیقی تفسیر ہے۔ حضرت خلیل الرحمٰن ؑصحیح معنوں میں مسلمِ حنیف تھے۔ اسلام کے مثالی نمونے کی توضیح انبیائی عظمتوں کے ساتھ سیدنا ابراہیم و اسماعیل نے از خودکی۔ اس کے بالمقابل اسلام کی یہ تفسیر و تعبیر بتاتی ہے کہ یہ اپنے مزاج ومنہج، نتائج و ثمرات اوراپنے مطالبات اور تقاضوں کے اعتبار سے سراپا عمل اور جہد مسلسل کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی انقلابی زندگی سے عبارت ہے جس میں ہر آن اللہ کی رضا جوئی کی دُھن مومن کے قلب وجگر پر سوار ہو اور اس کے ہر اشارے کی بہر صورت تکمیل ہو، یہاں سر تسلیم خم کر تے ہوئے آگ اور خون سے گزرنا پڑ تا ہے،یہاں اپنی پسند و ناپسند میں، جائز و ناجائز میں، حلال و حرام میں ہر حیثیت سے اور ہر وقت ’’سمعنا و اطعنا‘‘ کی بالا دستی قائم ودائم رہتی ہے۔
اسلام کو روبہ عمل لانے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی پاک زندگی کا ایک ایک پل اللہ تعالیٰ سے لولگا نے ا ور اس کی خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھنے اور اس کے علاوہ اسی راہ میں عشق کے تقاضوں اور عقل کے مطالبات پورا کر نے کی جان فزا تصویر ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس سیرت ِمحبت و جہد مسلسل میں دنیا ئے عمل سے مصلحت پسندانہ فرار نہیںبلکہ محبّانہ اقدام، عارفانہ جفاکشی اور پیغمبرانہ معرفت اور سرمستی کی انتہا ملتی ہے۔
آج اس حُب سے مشرف ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حقیقت کی پہچان کی اشد ضرورت ہے۔ ایک مسلم کی حقیقت کیا ہے؟ کیا اس کے سوا کچھ اور کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میںایک بکا ہوا مال اور اللہ کا زر خرید غلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے جان ومال کو جنت کے عوض خر ید لیا ہے۔جنت کتنی بے بہا اور تصور سے ماورا دولت ہے ،اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ اس کے بالمقابل جس جان کی حفاظت کے لئے ہم اورآپ جس محبت کا دامن تھامے رہتے ہیں اس کی بے وقعتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزِ قیامت جہنم سے رستگاری اور عذابِ آخرت سے نجات کی خواہش میں یہ تمنا کی جائے گی کہ اے کاش! بیوی، بیٹے اور دیگر اہل خانہ حتیٰ کہ سارے عالم کے لوگوں کی جانیں بطورِ فدیہ لے کر عذاب سے نجات دی جائے۔ لیکن روزمحشر کو اتنی ساری جانیں اور قربانیاں خوشی خوشی پیش کرنے کے باوجودبھی، جن سے دامن بچا بچاکر ہم نے چند روزہ دنیوی زندگی میں حقیقی اسلام سے بے وفائی کی تھی، ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہیں۔ کتنی بے وقعت ہے یہ انسانی جان لیکن کتنا بڑا معاوضہ دیا ہے اس کا ہمارے رب نے کہ وہ مردمومن کی ایک جان کے عوض اسے محض عذابِ جہنم سے نجات ہی نہیں بخشتا بلکہ جنت کے انعام واکرام سے بھی نوازتا ہے۔ یقینا یہ مستقل منافع کا سودا حضرت ابراہیم نے اللہ عزوجل سے کیا۔
’’اسوہ ٔابراہیمی ؑکی روشنی میں یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ حق تو دراصل وہی ہے جو باطل کی آنکھوں کا کانٹا بن جائے اور اس سے باطل کی نیند حرام ہو جائیں۔ وہ’’ حق ‘‘حق نہیں ہے جسے باطل نہ صرف یہ کہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر ے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی اور بسا اوقات نوبل پرائز کا ڈھنڈورا پیٹ کر اس کی عزت افزائی بھی کرتا پھر ے کیونکہ ’’ حق ‘‘ کا فرضی وجود باطل وابلیس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ حق دراصل ایک پیمانہ ہے جس کو پرکھنے کے لئے قربانیوں کا آلۂ پیمائش استعمال کر کے کھرے اور کھوٹے کی تمیز اور پہچان کرائی جاتی ہے۔آج بھی اگر’’ حق ‘‘کا دعوے دار کوئی فرد یا کوئی جماعت یا گروہ ایسا موجود ہو جسے باطل کی سرپرستی اور شاباشی حاصل ہو تو جان لینا چاہئے کہ وہ منافقت کے پر دے میں باطل کا آلۂ کار ہے۔ اللہ ہم کو ایسے’’ حق ‘‘کے شر ور سے محفوظ رکھے۔ آمین