تاریخ کے ایک دور میں ملکِ مصر کے حکم راں کو ‘فرعون’ کہا جاتا ہے _فرعون (رعمسیس) نے اپنے عوام اور خاص طور سے بنی اسرائیل پر بدترین مظالم روا رکھے تھے _ انھیں بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم کر رکھا تھا _ وہ ان سے بیگار لیتا اور پُر مشقّت کام کرواتا ، ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کروادیتا اور لڑکیوں کو جینے دیتا _ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی بناکر بھیجا _ انھوں نے فرعون کو سمجھایا ، بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے روکنے کی کوشش کی اور سرکشی کی روش سے باز آنے کی تلقین کی _ لیکن فرعون کے کرّوفر ، غرور و تکبّر اور طمطراق میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس کا ظلم و ستم جاری رہا _
ان حالات میں اللہ کے کچھ بندوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے کی توفیق ہوئی _ وہ فرعون کی فرعونیت سے واقف ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے _ یہ دیکھ کر فرعون کا پارہ چڑھ گیا _ یہ اس کے غرور کو نیچا کرنے والی بات تھی کہ کوئی اس کی اجازت کے بغیر موسیٰ کے لائے ہوئے دین کو قبول کرلے _ اس نے دھمکی آمیز اسلوب میں ان ایمان لانے والوں سے کہا :
” میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا _”
اہلِ ایمان پر اس دھمکی کا ذرّہ برابر بھی اثر نہیں ہوا _ انہوں نے پورے اطمینان و سکون ، اعتماد اور یقین کے ساتھ جواب دیا :
"بہر حال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے _”
فرعون نے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکی دی ، ہاتھ پاؤں کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے اور سولی پر چڑھادینے کا اعلان کیا ، لیکن ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لرزش نہ ہوئی _ وہ اپنے ایمان پر جمے رہے اور اللہ تعالیٰ سے صبر و ثبات کے طالب ہوئے _ انھوں نے فرعون سے برملا کہا:
” تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا _”
انھوں نے اپنے خالق و مالک کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے :
” اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں _”
(الأعراف :123 _126)
قرآن خاموش ہے کہ ان اہلِ ایمان کا کیا انجام ہوا؟ فرعون ان کو سزا دینے میں کام یاب ہوا یا نہیں ، لیکن بہر حال قرآن کے اندازِ بیان سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے ایمان پر آخری لمحے تک جمے رہے اور انھوں نے جان کی بازی لگا دی ، لیکن اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا _
دوسری طرف قرآن نے بار بار یہ صراحت کی ہے کہ فرعون بدترین موت مرا _ اس کا کرّوفر ، اس کا طنطنہ ، اس کا لاؤلشکر ، اس کی منظّم اور تربیت یافتہ فوج ، اس کا اسلحہ ، سب اس کے کچھ کام نہ آسکا _ سمندر کی موجوں نے اسے جکڑ لیا اور جب وہ لاشۂ بے جان بن گیا تو اسے ساحلِ سمندر پر پھینک دیا _ پھر اللہ تعالٰی نے اسے رہتی دنیا تک کے لیے نمونۂ عبرت بنا دیا _ قاہرہ کے میوزیم میں محفوظ اس کی حنوط شدہ لاش ہر دیدۂ بینا رکھنے والے کو یہ خاموش پیغام دے رہی ہے کہ کوئی شخص چاہے جتنی طاقت و قوت کا مالک ہو ، چاہے جتنا اسلحہ اور چاہے جتنی بڑی فوج رکھتا ہو ، لیکن اللہ تعالیٰ کی طاقت و قوّت کے مقابلے میں وہ ذرّۂ بے نشاں ہے _ اس لیے اسے چاہیے کہ اپنی طاقت پر زیادہ نہ اِترائے اور زیادہ غرور کا مظاہرہ نہ کرے _ کچھ خبر نہیں کہ کب وہ اللہ کے عتاب کا شکار ہوجائے اور اس کا لشکر اسے پیس کر رکھ دے _
مصر میں تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے _ فرعونِ وقت (سیسی) نے اہل ایمان پر بدترین مظالم ڈھائے ہیں اور برابر اس کے ظلم و ستم اور جبر و تشدّد میں اضافہ ہو رہا ہے _ اس نے طاقت کے بل پر جمہوری طور سے منتخب حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا ، احتجاج کرنے والے پُر امن شہریوں پر اپنی فوج کے ذریعے اندھادھند فائرننگ کرواکے ہزاروں مردوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، جوانوں اور بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا ، ہزاروں افراد کو جیلوں میں ٹھونس دیا اور اب نام نہاد عدالت کے ذریعے سیکڑوں کو پھانسی ، عمر قید یا قید با مشقّت کا فیصلہ سنا دیا ہے _ ایک طرف موجودہ فرعون اپنے نشۂ غرور سے چور ہے تو دوسری طرف اہلِ ایمان ہیں جو سزائے موت کے فیصلے سن کر شاداں و فرحاں ہیں ، اس لیے کہ انھوں نے تو ابتدا ہی سے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ” اللہ کی راہ میں شہادت ہماری بلند ترین آرزو ہے _” سزائے موت کے فیصلے سن کر ان پر ذرا بھی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی ، ان کی آواز میں ذرا بھی ارتعاش اور قدموں میں ذرا بھی لرزہ پیدا نہیں ہوا ، بلکہ وہ اللہ سے کیے اپنے عہد پر جمے ہوئے ہیں اور پوری استقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں _
موت ہر ایک کو آنی ہے _ کسی کو بستر پر ، کسی کو حادثاتی طور سے تو کسی کو کلمۂ حق کی صدا بلند کرنے کے ‘جرم’ میں _ پھر کتنی مبارک ہے یہ موت جسے ‘شہادت’ سے تعبیر کیا جاتا ہے _
اب یہ ہر شخص کا ذاتی انتخاب ہے کہ اپنا نام اللہ کے محبوب اور اس کے فرماں بردار بندوں میں لکھوالے یا فرعونوں ، نمرودوں اور شدّادوں میں _ لیکن اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ” حسنِ انجام اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے مقدّر ہے _” رہے فرعون ، نمرود اور شدّاد تو وہ اسی دنیا میں بدترین انجام سے دوچار ہوں گے اور اگر یہاں اللہ کی پکڑ سے بچ گئے تو قیامت میں جہنم ان کی گھات لگائے ہوئے ہے _