اخبار مومن سرینگر میں محترم غلام نبی فریدآبادی مہتمم جامع مسجد ابراہیم راجندر بازار جموں کے حوالے سے مالی معاونت کی اپیل کئی بار نظروں گزر گئی. دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ اس مسجد کا دیدار کروں اور ساتھ ہی مہتمم مسجد کا دیدار بھی نصیب ہوجائے. اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے جون 2007 میں کسی نجی کام کے سلسلے میں جموں جانا پڑا. میرے ہمراہ میرا بیٹا بھی تھا. رات ایک پنڈت دوست گھر میں گزاری. اگلے دن پہلی نجی کام نپٹانے کی خاطر چلے گئے اور قریباً کوئی دن کے 3 بجے جب آفتاب اپنی بھرپور تمازت کے ساتھ اور گرم گرم لو انسان کو جہنم کا احساس دلارہا تھا، واپس بازار جموں پہنچ گئے. صبح سے تھکے ماندے اور بھوک اور پیاس اور گرمی کی شدت سے چند قدم چلنا دشوار ہورہا تھا. البتہ مسجد ابراہیم کو دیکھنے اور مہتمم مسجد سے ملاقات کی آرزو میرے احساس کو جلا بخش رہے تھے. چونکہ میں جموں اس سے پہلے کوئی 1987 میں گیا تھا اس وجہ سے وہاں کے حالات اور راستوں سے مانوس نہ ہونے کی وجہ سے منزل تک پہنچنے میں برسرِ جدوجہد رہا. جیول چوک سے اس گرمی کی شدت میں اپنی منزل کی طرف پیدل چلنے کے بعد ایک جگہ پہنچ کر ایک مسافر سے پتہ پوچھا. نہ جانے کس وجہ سے ہم راستہ بھول گئے اور کہاں پہنچ گئے، سمجھ سے بالاتر. بہرحال جوں توں قریباً نماز عصر کے چند لمحات پہلے ہم اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے. میں مسجد شریف کی دوسری منزل پر چڑھ گیا جو کہ ان دنوں زیرِ تعمیر تھا. وہاں سے نیچے کی طرف نظر دوڑائی تو دو خواتین جو حلیہ اور پوشاک سے مسلمان لگ رہیں تھیں کو بغل کے صحن میں دیکھا. نیچے آتے ہی دروازہ پر دستک دی اور اندر سے نسوانی آواز نے پوچھا کون اور دروازہ کھول لیں. جوں ہی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک بزگ عورت نے پوچھا. جگر آپ کون، جگر کن سے ملنا ہے، میرے جگر کہاں سے آئے؟ ان محبت بھرے جملوں نے میرے وجود کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا. چونکہ ہم پسینے سے شرابور ہورہے تھے تو محترمہ نے پہلے ہمیں ٹھنڈے پانی سے استقبال کیا اور آنے کی وجہ پوچھی. میں نے عرض کیا کہ مجھے محترم امیر محمد شمسی صاحب سے ملنا ہے تو درجواب محترمہ نے فرمایا کہ وہ تو راجوری میں رہتے ہیں. میں ہکا بکا رہ گیا. پھر میں نے مسجد ابراہیم کا حوالہ اخبار مومن میں چھپے اشتہار کا دیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان کا امیر محمد شمسی نہیں بلکہ غلام نبی فریدآبادی ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ ایک مہمان کے ہمراہ باہر گئے ہیں، نماز کا وقت ہونیوالا ہے. مسجد میں ملاقات ہوگی. محترمہ نے نہایت ہی عمدہ اخلاق اور پیار و محبت سے وقت گزارنے کا کہا البتہ نماز کاوقت قریب تھا. بعد نماز جو کہ اس مسجد میں میری پہلی نماز تھی ادا کرنے کے بعد محترم غلام نبی فریدآبادی صاحب سے ملاقات نصیب ہوئی. انکے چہرے سے نور برستا ہے، انکی باتوں میں محبت، خلوص، مٹھاس ہے. میری پہلی اس ملاقات میں محترم نے ان سب حالات و واقعات پر روشنی ڈالی جو 1947 کے بعد جموں میں ہوئے. ان خوفناک حالات سے نکلنے کے سلسلے میں ان کی تگ و دو، کشمیر کے علماء خاص طور پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں اور مسلمانان جموں کو اپنی متاع گمشدہ کی بازیابی. وہ اردو بازار جسے آج لوگ راجندر بازار کے نام سے جانتے ہیں اس پر تبصرہ، مسجد ابراہیم جو ہندوؤں کے قبضے میں تھی اور اس کو مقامی لوگوں اور دکانداروں نے گودام بنا کر رکھ دیا تھا اور اسکی بازیابی کی جہد مسلسل. جب وہ یہ سب فرمارہے تھے میری آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک رہے تھے. بہر حال وہ واقعات ایک ضخیم کتاب کی صورت میں ہی سما سکتے ہیں. آخر پر محترم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مسجد کی دوسری منزل جو زیرِ تعمیر تھی، لے گئے اور نہایت جوش و جذبہ اور ایمان و یقین کے ساتھ فرمایا کہ
میں اس مسجد کا اتنا اونچا مینار بنانا چاہتا ہوں تاکہ جموں کی ہر جگہ سے دکھائی دے اور دیکھنے والے کہہ اٹھے کہ یہ مسجد ابراہیم کا مینار ہے. اور یوں شرک و کفر کی سرزمین پر ابراہیم علیہ السلام کی سنت تازہ ہو جائے۔
میری اللہ سے دعا ہے کہ اس مرد آہن کو اپنی شفا کے خزانے سے شفاء کاملہ اور شفاء عاجلہ عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین.