شجر ہائے سایہ دار ۔۔۔ابو محمد حمزہ

شجر ہائے سایہ دار ۔۔۔ابو محمد حمزہ
باپ کا دوسرا نام شفقت اور قربانی ہے جس کی امید کسی اور سے نہیں کی جاسکتی، اپنی خواہشات کا قلع قمع کر کے اپنی اولاد کی فکر میں رہنے والا ”باپ” ہی ہوتا ہے۔ اپنی خواہشات کو دبا کر اولاد کی خواہشات کو پورا کرنا کوئی والدین سے ہی  سیکھے۔ اس کی قربانیاں اگرچہ نظروں سے اوجھل رہتی ہیں لیکن اس کا تھوڑا تھوڑا اظہار بھی ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی دی ہوئی قربانیوں کا کسی کو کان وکان خبر بھی نہ ہو پائے تاہم یہ چھپانے سے چھپتا نہیں بلکہ اس کا کم وبیش اعلان ہو ہی جاتا ہے۔

اس کا ایک ایک لمحہ اپنوں کی نذر ہو جاتا ہے جس میں خصوصی طور پر اس کی اولاد ہوتی ہے۔
یہ والد گرامی ہی ہے جو دن بھر مزدوری وغیرہ کر کے جب شام کو گھر پہنچ جاتا ہے تو اپنی تھکاوٹ کا اظہار بھی ہونے نہیں دیتا، گھر کی دہلیز پر قدم رکھ کر ہی اپنی تھکاوٹ بھول جاتا ہے۔ باپ شفقت کا ایک سمندر اور خداوند تعالٰی کا ایک بہترین تحفہ ہے ۔ جس کی موجودگی سورج کی طرح ہوتی ہے یہ سورج گرم ضرور ہوتا ہے مگر نہ ہو تو اندھیرا بھی چھا جاتا ہے ۔جو گھر میں معاشی ضروریات پوری کرنے کی آخری دم تک کوشش کرتا ہے ۔جس کی کمائی سے گھر چلتا ہے۔ ایک باپ بچوں کے لئے دِن رات محنت کرکے اُن کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اولاد کسی قابل ہوتی ہے تو فخر کے احساس سے شانہ چوڑا اور اپنے آپ کو دوبارہ جوان محسوس کرنے لگتا ہے۔
اولاد کے لیے اگرچہ وہ کبھی کبھار سخت لہجہ اختیار کرتا ہے تاہم اس کے اس لہجہ میں دل کی نرمی چھپی ہوتی ہے۔
یہی سخت لہجہ اختیار کرنے والا جب اپنی اولاد کو کسی بیماری، مشکلات اور پریشانی میں دیکھتا ہے تو اولاد کا درد اور پریشانی کے آثار والد صاحب کے چہرے پر نہ سہی دل ودماغ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
لیکن۔۔۔۔۔!
اس کی عمر جب ڈھل جاتی ہے، اس کے اعضاء جب تھوڑا تھوڑا کمزور پڑ جاتے ہیں، اس کا چلنا پھرنا، اس کی باتوں میں بچپنا جب آتا محسوس ہوتا ہے تو یہی اولاد اس کا سہارا بن جاتا ہے۔ جو کل تک گھر کا ذمہ دار ہوا کرتا تھا آج وہ خود ہی کسی کے یعنی اولاد کی ذمہ میں آجاتا ہے۔ اور اس وقت اسے بھوک اور کھانے کی فکر نہیں بلکہ ایک پیار بھرے لہجے کی تڑپ اور تمنا رہتی ہے۔ یہی وہ لمحات ہیں جب اولاد کا ایک اہم آزمائشی دور شروع ہو جاتا ہے۔ اس دور میں اس کی اکثر باتیں، اس کا چلنا پھرنا، غرض اس کا قول وفعل برابر ایسا ہو جاتا ہے جیسے ایک عام بچہ ہو۔ البتہ بچے کو کبھی ڈانٹا جا سکتا ہے لیکن بڑے بوڑھے سے بڑی آواز سے بات بھی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب اس کی دعائیں اثر رکھتی ہیں، اس وقت اس کی زبان سے نکلی ہوئی دعا انسان کو ہمیشہ کے نقصان کا شکار کر سکتی ہے۔ اسی لیے حکم ہوا ہے کہ اس عمر میں اپنے والدین کے ساتھ بڑے ادب واحترام کے ساتھ پیش آؤ، اس کے سامنے آف تک نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نیک ہونے کے گمان میں ہو اور تمہاری نیکیاں سب زائل ہو چکی ہوں۔ ایک واقعہ سننے میں آیا ہے جسے یہاں درج کرکے کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں ہے، اس سے باپ کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے:
”ایک بیٹا اپنے بوڑھے والد کو یتیم خانے میں چھوڑ کر واپس لوٹ رہا تھا کہ اچانک اس کو واپس جانے کا خیال آیا وہ واپس یتیم خانے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کا بوڑھا باپ یتیم خانے کے سربراہ کے ساتھ ایسے گھل مل کر ہنس بول رہاتھا جیسے اس کوبرسوں سے جانتا ہو۔ جب اس کا والد یتیم خانے کے سربراہ سے ملاقات کے بعد وہاں سے اٹھا تو بیٹا یتیم خانے کے سر براہ کے پاس جا پہنچا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس کے باپ کو کب سے جانتا ہے ؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا گزشتہ پچیس برسوں سے جب وہ ہمارے پاس ایک یتیم بچہ کو گود لینے آئے تھے-
بہر حال والدین جن میں سے ایک والد گرامی ہے کی قدر کی جانی چاہیئے کیوں کہ فائدے کا سودا یہی ہے وگرنہ نقصان سے دوچار ہونے میں کوئی روک نہیں سکتا۔ کسی نے اسی رشتے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:
یاد ہے مجھ کو میرا باپ، میرے پچپن میں
 اپنے جوتوں کی جگہ میرے لئے کھلونے لایا
********

Leave a Reply

Your email address will not be published.