اوڑی بارہمولہ میں دس سال کی معصوم بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور پھر قتل کی دلدوز واردات کا خلاصہ ہوجانے کے بعد ریاست بھر میں سنسنی پھیل چکی ہے۔ یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے بلکہ پولیس نے جو روداد بیان کی ہے اْس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کہانی کی جو دردناک پرتیں تادم تحریر کھل گئیں ،اْن کے مطابق معصوم لڑکی مسکان کو اپنی سوتیلی ماں بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتی ہیں، پھر وہاں اپنے بیٹے یعنی اس لڑکی کے سوتیلے بھائی کو بلاتی ہے، وہ اپنے ساتھ چار درندہ صفت دوسرے افراد کو لے کر آتا ہے، پھر یہ وحشی درندے اس معصوم لڑکی کے جسم کوجانوروں کی طرح نوچ لیتے ہیں، ظالم سوتیلی ماں اس شیطانی عمل کا نہ صرف مشاہدہ کرتی ہیں بلکہ اپنی سوتن کے بیٹی کے ساتھ یہ ظلم عظیم ہوتے ہوئے اْس کے اذیت پسند وحشی دل کو تسکین بھی حاصل ہوجاتی ہے، اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لیے یہ وحشی جانور اُس پھول جیسی بچی کو کلہاڑی کے ایک وار سے ڈھیر کردیتے ہیں، وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے، شیطان کے یہ پجاری اسی پر بس نہیں کرتے ہیں بلکہ پھر اس چھوٹی بچی کی آنکھیں نوچ لی جاتی ہیں اور اُن کے بدن پر تیزاب چھڑ کر لاش کو مسخ کرنے کے گھناؤنے فعل کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔
ہم جس سماج میں رہتے ہیں، اُس کی تاریخ کو دیکھ کر، یہاں کی روایات اور تہذیب کا مطالعہ کرکے کوئی یقین ہی نہیں کرسکتا ہے کہ کشمیری سماج میں اس طرح کے جرائم بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کی وارداتوں کے بارے میں چند سال پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وقت اتنابدل گیا ہے اور انسانیت گرتے گرتے اس سطح پر پہنچی ہے کہ اب بزرگان دین کی سرزمین (پیرواری )پر شیطانی طاقتوں نے اس قدر غلبہ حاصل کرلیا ہے کہ یہاں رہنے والی لوگوں کو یہ منحوس دن بھی دیکھنے پڑتے ہیں، جب معصوم بچیوں کے عصمتیں تار تار کی جاتی ہیں، جب زندگی کی صرف آٹھ دس بہاریں دیکھنے والی معصوم کلی کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ ابدی نیند سلا دیاجاتا ہے، جب اپنے گھناؤنے فعل اور بدترین جرم کو چھپانے کے لیے اْن کی لاشوں کو مسخ کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اوڑی میں وقوع پذیر اس بھیانک جرم میں کوئی اور نہیں بلکہ معصوم لڑکی کی سوتیلی ماں اور سوتیلا بھائی مرکزی کردار کے روپ میں شامل ہیں۔اب انسان کس پربھروسہ کریں، بیٹیوں کے باپ کن کے بھروسے اپنی معصوم بچیوں کو گھروں پر چھوڑ کر کار دنیا میں مشغول ہوجائیں۔جب بیٹیوں کو ماں اور بھائیوں کے ہاتھوں درندگی کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق ہو تو پھر جنم لیتے ہی ان کلیوں کو زندہ گاڑ دینا کم تر جرم معلوم ہوتا ہے۔ہم دور جاہلیت کے عرب معاشرے کو کوستے ہیں، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے کی اُن کی جہالت پر اْنہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،لیکن اْوڑی جیسی اندوہناک واردات کیا عرب جاہلیت سے بھی بدتر جہالت نہیںہے؟ اہالیان ریاست نے دلی کی دامنی پر سرد آہیں بھر لیں اور وہ کٹھوعہ سانحہ کی روح فرسا واردات سے ابھی تک سنبھل نہیں پائے ہیں کہ دلوں اور ضمیروں کو جھنجھوڑ دینے والا اوڑی المیہ سامنے آگیا۔ حالانکہ کٹھوعہ سانحہ اور اْوڑی واردات کے مقاصد الگ الگ ہیں لیکن یہ دونوں جرائم ایک ہی طرح کی کھٹورتا اور سنگ دلی کے بطن سے پھوٹ پڑے۔ کٹھوعہ میں اقلیتی طبقے کی مسلم آبادی کو ڈرانے کے لیے اور اْنہیں علاقے سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے پھول جیسی بچی آصفہ کا المیہ دانستہ طور منصہ شہود پر لایا گیا اور ایک منصوبہ بند طریقے سے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے اس طرح کی درندگی کا سہارا لیا گیا جب کہ اْوڑی کی واردات میں حسد اور جلن کی آگ میں بھسم ہو کر ایک خاتون اپنی سوتن سے انتقام لینے کی خاطر سوتیلی بیٹی کو نہ صرف جان سے مار دیتی ہے بلکہ اپنے بیٹے اور اْن کے دوستوں کے ذریعے سے اس معصوم کی اجتماعی عصمت دری کرواکے عورت ذات پر بدنما داغ لگانے کا ناقابل معافی جرم بھی اپنے سر لیتی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وادیٔ گلپوش میں جرائم کا یہ سلسلہ دراز کیوں ہوتا چلا جارہا ہے۔ جن لوگوں کے امن پسند ہونے کی مثالیں دی جاتی تھیں، جس سماج میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی، وہاں بھیانک جرائم کی داستانیں کیوں رقم ہورہی ہیں؟ وجوہات کیا ہیں ؟ اور اس سب کے لیے کون سے لوگ اور عوامل ذمہ دار ہیں؟غور کریں تو بہت ساری وجوہات ذہن میں آجاتے ہیں۔ہماری ریاست گزشتہ تین دہائیوں سے جن نامساعدحالات سے دوچار ہے، وہ حالات بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ کشمیری سماج کے اخلاقی تانے بانے بکھر کررہ گئے ہیں۔دنیا بھرمیں جتنے بھی شورش زدہ متنازعہ خطے ہیں ، جو بھی علاقے جنگ زدہ ہیں وہاں اس طرح کے جرائم عام ہوجاتے ہیں۔ ایک تو سول آبادی میں جنگ وجدل کی وجہ سے نفسیاتی طور پر انسان مریض بن جاتے ہیں، دوسرا Conflict Zones میں بہت ساری غیبی طاقتیں دشمنی کا ایجنڈا لئے لوگوں میں منشیات اور دوسری نشہ آور چیزوں کو فروغ دیتی ہیں،ایسے سماج میں نشہ آور ڈرگس ایک کامیاب کاروبار کی شکل اختیار کرجاتا ہے،جس کی وجہ سے اس طرح کی عاداتِ بد کے شکار افراد ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور ہر وہ گھناؤنا کام کرجاتے ہیں جس کی کم از کم سوچ سمجھ رکھنے والی انسانی ذات سے توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے جموں وکشمیر برسوں سے دنیا کا سب سے بڑا محاذ جنگ بناہوا ہے۔ یہاں دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے حالت جنگ میں کھڑی ہیں۔ ہماری ریاست کے کچھ سرحدی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں مقامی آبادی سے زیادہ تعداد میںفوج تعینات ہے اوراس صورت حال میں جب ہلاکتیں اور عذاب وعتاب کے کوڑے بھی نہتوں پر برستے دیکھے جارہے ہوں، اوپرسے حالات ہر اعتبار سے ناقابل اعتبار اور غیر یقینی ہوں ، تو لوگوں کی کائنات ِ نفسیات میں منفی تغیرات آنا کسی اچھنبے کی با ت نہیں ،اُن کے لئے کسی کو تکلیف دینا یا کسی اور کے ہاتھوں بلاوجہ تکلیف برداشت کرنا معمول کی بات ہوتی ہے، اس فضا میں تعذیب پسندی کی سوچ روح میں سرایت کر جاتی ہے کہ لوگوں میں ذہنی امراض پروان چڑھتے ہیں۔ اور پھر جب سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر بعض سنگین جرائم سے چشم پوشی بھی کی جاتی ہو، ڈرگ مافیا بھی ڈی کنٹرول ہو، سماج دشمن عناصرحالات کی ابتری کی آڑ میں اپنے گھناؤنے ارادوں کو انجام دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہوں، تو کھٹوعہ اور اوڑی جیسے المیوں کی کہانی بننا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ بہر کیف ہم یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر کہہ سکتے ہیں کہ خرابیٔ بسیار کے باوجود کشمیری سماج کے 99 فیصد آبادی اپنی تہذیب و تمدن سے جڑی ہوئی ہے، اْن میں وہ تمام تر روایات بدرجہ اْتم موجود ہیں جن کی وجہ سے دنیا اْنہیں بہترین مخلوق کے طور پر جانتی ہے لیکن ابترسیاسی حالات نے اْنہیں اس قدر اْلجھا دیا ہے کہ وہ ایک فیصد سے کم سماج دشمن عناصر کی کارستانیوں کا قلع قمع نہیں کرپاتے۔اس پر مستزاد یہ کہ دیرینہ سیاسی تنازعے نے اْن کے دن رات کا چین چھین رکھا ہے، وہ حالات کے چکرویو میں کچھ ایسے پھنس چکے ہیں کہ اْنہیں اپنی نیا پار لگانے کے لیے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔سماج کی اکثریت بے دست و پا ہوچکی ہے، مشکلات اور پریشانیوں نے اْنہیں اس طرح گھیر رکھا ہے کہ وہ بحیثیت انسان اور بطور مسلمان اپنی منصبی ذمہ داریوں کو یکسر بھول چکے ہیں۔
جب سماج کے لیے مجموعی طور حالات اتنے کٹھن ہوں ، ذہنی تناؤ نے پوری انسانیت کو گھیر رکھا ہوگا، ایسے میں دین اسلام ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو مشکل سے مشکل تر حالات میں بھی یہاں کی آبادی کو پوری صبر اور ضبط کے ساتھ کھڑا رکھ سکتا ہے،دین ہی و وسیلہ ٔنجات ہے جس کے بل پر سماجی اصلاح کا عظیم ترین کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسلام ہی وہ آفاقی علاج ہے جو انسانی سماج میں پیدا ہونے والی روحانی، جسمانی اور ذہنی امراض کا علاج کرسکتا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی دین سے خاص اْنس رکھتے ہیں مگر اس کے سائے رحمت میں آکر ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار نہیں۔ اس میں عام لوگوں کو دوش نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ جو لوگ اْن تک دین پہنچانے کے کام کررہے ہیں ،ان میں بیش تردین نہیں بلکہ اپنے مسالک اور اپنی اپنی دوکانداریوں کا پرچار کرتے ہیں، وہ اپنا اپنا مشرب اپنے مخاطبین وسامعین پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں، حد یہ کہ دین کاعَلم اْٹھانے والے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مشغول ہوکر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ جیسے اْنہوں نے کوئی بہت بڑا قلعہ فتح کیاہو۔ ایک مسلک یا ایک گروہ کے لوگ دوسرے مسلک یا گروہ کے لوگوں کی پگڑی اچھالنے کو’’ اسلام کی خدمت ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔دینی حلقوں کی اس آپسی سر پھٹول کے نتیجے میں اْن کا جو اصل کام ہے ،وہ ہو ہی نہیں پاتا۔ یہاں مسجد کے منبر پر جب کوئی عالم کھڑا ہوجاتا ہے تو اْن کو وہاں لے جانے والے لوگ پہلے سے ہی یہ بتا دیتے ہیں کہ اس مسجد میں کس کس نظریے اور مسلک کے لوگ نماز ادا کرنے کے لیے آتے ہیں ،اس لیے سب سے پہلے آپ اْن پر اور اْن کے نظریے اور مسلک پر چوٹ کریں۔یہی حال دوسرے کنارے کے لوگوں کا بھی ہوتاہے وہ جب اپنے گروہ یا مسلک کے کسی عالم کو مسجد میں تبلیغ کرنے کے لیے لے آتے ہیں ،اْنہیں بھی اسی طرح کی’’ ضروری ہدایات‘‘ دی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جب دین عوام تک پہنچنے سے رہ جائے، تو ان کا اخلاقی سدھار کی کس جادوئی چھڑی سے ہوگا؟ایسے میں اگر اوڑی کا المیہ وقوع پذیر ہو تو کونسی حیرانگی کی بات ہے ؟ دین کے نام پر جب مسلک کے گورکھ دھندے ہوں اور منافرتوںکے کاروبار ہوں توکوئی جرائم پیشہ افراد کی راہ روکنے والاہوگا نہ انہیں ٹوکنے والا ،پھر تو ہمیںنتائج کی فصل اْوڑی جیسے سانحات کی شکل میں اْگ آنے پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بایں ہمہ اس طرح کے سنگین واقعات پر ہم سب کے دل چھلنی ہوجاتے ہیں، ہم واویلا بھی کرتے ہیں، ان واقعات میں ملوث درندوں کے خلاف کڑی کارروائی کی مانگ بھی کرتے ہیں لیکن وجوہات کو جاننے کے بعد اور آئندہ کے لیے ایسے سانحات رونما نہ ہوں، اس کے لیے پیشگی اقدامات پر ہم غور وفکر نہ کریں تو ہماری ساری اْچھل کود اور مرثیہ خوانی محض دائرے کا سفر ثابت ہوتا ہے۔
یہ خاص کر دین دار طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذرا سوچیں کہ روز محشر میں ہم اسلام کے نام لیوااْوڑی کی اس معصوم بچی کو کیا جواب دیں گے، جب وہ کھڑی ہوجائے گی اور اپنے رب سے فریاد کرے گی ، تب مجرموں کے کٹہرے میں صرف اْن کے قاتل وجابر ہی کھڑا نہیں ہوں گے، بلکہ اس سماج کا ہر ذی شعور بندہ بھی کھڑ ا ہوگا، دین پسندی کا دعوے دار طبقہ بھی ہوگا، کیونکہ واللہ موجودہ گھمبیر حالات میں ہم سب اپنی منصبی ذمہ داریاں انجام دینے میں پہلو تہی برت رہے ہیں۔ہم آپسی رسہ کشی کے شکار ہیں، ہم مسلکوں کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں، ہم کلمہ خواں مسلمانوں کی بلا وجہ تکفیر یںکرنے کا جرم شوق سے کرتے ہیں مگر سماجی تطہیر کو نظرا نداز کئے ہوئے ہیں، ہم نے اصل اخلاقی زوال کو روکنے کی جانب توجہ دینا ہی چھوڑ دی ہے، ہم یہاں کی سیاسی اتھل پتھل کے نتیجے میں انسانیت کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جرائم کی نشاندہی اور مجرموں کا جینا حرام کرنے سے ڈر رہے ہیں، ہم منشیات کا دھندہ کرنے والے غیبی ہاتھوں کو بے نقاب کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اگر ہمارا یہی وطیرہ رہا ہے تو اللہ نہ کرے اْوڑی جیسے دلخراش سانحات کا پیش آنا کوئی نہ روک سکے گا۔ اندازہ لگا لیجئے کہ جو بیٹا اپنی ماں کے سامنے اْن کی مرضی سے اپنی ہی سوتیلی بہن کی عصمت دری کرسکتا ہے ،اْس بیٹے سے بھلا اْس کی وہی درندہ صفت ماں یا کوئی اور بہو بیٹی کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟جرائم کی سطح جب یہ ہو تو پھر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارا سماج کس تنزل کی جانب محو سفر ہے۔ بھلے ہی اس مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ایک فیصد سے بھی کم بھی کیوں نہ ہوں لیکن جس طرح ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہے، اسی طرح یہ ایک فیصد ۹۹؍ فیصد آبادی کو متاثر کرسکتے ہیں۔ قبل اس کے جرائم کی یہ جان لیوا وبا ہماری اخلاقی بنیادوں کے ہلا دے ،ہمیں مجموعی طور پر سماجی اصلاح کے کام کو انجام دینے کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔
کوئی دنیاوی قانون اور تعزیری نظام اس طرح کے سنگین جرائم کا قلع قمع نہیں کرسکتا اور انسانی قانون کے ذریعے سے اس قسم کی گھٹیا ذہنیت ختم نہیں کی جاسکتی بلکہ اس طرح کا بگاڑ جب بھی معاشرے میں سرایت کرجائے تو آفاقی آسمانی تعلیمات اور وحی کی ہدایات ہی سے ان کا علاج ممکن العمل ہے۔ سماجی اصلاح تودورکی کوڑی رہی ، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں جرائم کا سدباب کر نے یا اخلاقی تعمیر نو کے ضمن میں اسلامی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے انفرادی یا اجتماعی عمل کو’’ شدت پسندی ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جن طلباء و طالبات کا جھکاؤ دین واخلاق کی جانب دیکھا جائے، اْن کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہ ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ کے شکار ہیں، اور الزام یہ دیا جاتا ہے کہ ان نوخیز کلیوں کو مذہب کی ’’افیون ‘‘ کھلائی گئی ہے۔ حالانکہ یہ بات پتھر کی لکیر کی طرح انمٹ ہے کہ جب تک ذہن دینی اور اخلاقی طوربیدار نہ ہوں، جب تک عوامی سطح پر زندگی کے سردوگرم میں خداخوفی کو فوقیت نہیں ملتی ہو، انسانیت کے خلاف سنگین جرائم پر قطعی طور قابو نہیں پایا جاسکتا۔ بہر کیف اْوڑی کے غم انگیز سانحہ میں ملوث مجرمین کو کب سزا ملے گی؟ جب اس سوال پر غور کیا جائے تو آج تک کاٹریک ریکاڑد دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کیوں کہ یہاں ہمارے سامنے طول طویل عدالتی کارروائیوں کا دنگل آجاتا ہے، شنوائی کے دوران ثبوت و شواہد کی ادلا بدلی کے فسانے گھومتے ہیں، ضمانتوں پر رہائیوں کے پروانے بھی دیکھے جاتے ہیں۔اس لئے گھوم پھر کر یہ سوال بے جواب رہتا ہے کہ کیا اُوڑی کیس کے کسی مجرم کو از روئے انصاف قرار واقعی سزا ہوگی بھی ؟ فرض کر یں کہ فی الحقیقت کسی مجرم کی سزا ہوبھی جائے توممکنہ طور کوئی عبرت ناک سزا نہیں ہوگی کہ دوسرے لوگ اس طرح کی ننگ انسانیت شیطانی حرکات سے باز رہیں۔ حق یہ ہے کہ انسانیت کو تب تک اْوڑی جیسے بھیانک جرائم کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک اس طر ح کے جرائم میں ملوثین کو اپنے کئے کی بنا پر کیفر کردار تک پہنچایا نہیں جاتا۔ یقینی طور یہ بے لاگ عدل صرف اسلامی نظام کا ہی خاصہ ہے جو ہمارے یہاں کہیں موجود ہی نہیں۔