حسین نے یزید کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا، اس کے خلاف اٹھے اور اس کے حکم پر شہید کئے گئے، یہ ناقابل انکار حقیقت ہے، تاہم حسین یزید کے خلاف اس لئے نہیں اٹھے تھے کہ وہ اسے کافر سمجھتے تھے، اور نہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ اسے فاسق سمجھتے تھے۔ وہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ یزید کو غاصب اور ظالم سمجھتے تھے۔
یزید نے حسین کا حق غصب کیا تھا نہ حسین کے خاندان کا حق غصب کیا تھا، اس نے امت کا حق غصب کیا تھا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک امت کو اپنے اس حق تک رسائی ملی تھی کہ وہ اپنا حاکم خود منتخب کرے۔ اس وقت کی پوری انسانی دنیا میں یہ ایک دھندلے خواب سے زیادہ نہیں تھا۔ یزید نے امت سے یہ حق چھین کر اسے ایک بہت بڑے امیتاز سے محروم کردیا۔ شورائی نظام کے ذریعہ بہترین اور صالح ترین فرد کا انتخاب، اور پھر خدا ترسی کے ساتھ ملک کا انتظام وانصرام چلانا اس امت کا عظیم امتیاز تھا جس سے وہ راتوں رات یکسر محروم کردی گئی اور نہ جانے کتنے ہزار سال کے لئے محروم کردی گئی۔
آج پوری دنیا سیاسی نظام میں اصلاحات کے آزادانہ تجربے کررہی ہے، اقتدار کی منتقلی جو ہمیشہ آگ اور خون کے زیر سایہ ہوا کرتی تھی، اب بڑی حد تک پرامن طریقے سے ہونے لگی ہے۔ اب یہ تصور دنیا نے پوری طرح رد کردیا ہے کہ اگر کوئی تم پر ظلم کرے تو بھی تم اس کے تخت کے پائے سے چمٹے رہو۔ ظالم اور خائن حکمرانوں کو بدلنے کی آسان اور پرامن سبیلیں نکل آئی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کہیں نہ کہیں غیر مسلم دنیا میں ہورہا ہے۔ مسلم دنیا میں اب بھی آمریت کی گندی سے گندی شکلیں پورے طمطراق کے ساتھ قائم ہیں۔ بہت سے مصلحین تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ مسلم دنیا میں سیاسی اصلاح کی ہر کوشش فضول ہے اور اسی لئے نامطلوب اور ناجائز ہے۔ مسلح کوششیں تو درکنار پرامن کوششیں بھی مسلم دنیا میں سیاسی اصلاح کے لئے ناقابل عمل اور بے نتیجہ قرار دے دی گئی ہیں۔
یہ کیسا سانحہ ہے کہ کبھی جس مسلم دنیا میں انسانی تاریخ کا سب سے مثالی سیاسی نظام قائم ہوا تھا، آج اس مسلم دنیا کی سیاسی اصلاح بالکل ناقابل علاج بتائی جارہی ہے، کل جو ہر طرح سے بہترین امت تھی آج سیاسی پسماندگی اور سیاسی بگاڑ اس کا حتمی مقدر بن چکے ہیں، یہ تبدیلی کب آئی؟
یہ شرمناک تبدیلی اس وقت آئی جب یزید نے اپنی عسکری طاقت کے بل پر اسلامی امت کو اس کے عظیم امتیاز یعنی نظام خلافت وشورائیت سے محروم کردیا، اور اسے نظام ظلم وجبر کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، امت کی سیاسی پسماندگی کو کوئی دور نہیں کرسکا۔
امت کتنی بلندی سے کتنی پستی پر گرادی گئی، اس کا اندازہ اس زمانے میں اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آج سعودی عرب کی جیلوں کو قرآن وسنت کے عالموں اور حرم کے اماموں سے بھر دیا گیا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ ملک میں بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ صرف اس لئے کہ وہ ڈرتے جھجھکتے بس اشاروں اشاروں میں سیاسی اصلاحات کی کچھ باتیں کردیتے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں عراق میں شیعہ مافیا نے اقتدار میں آنے کے بعد چن چن کر ہزاروں مسلم عالموں اور سائنس دانوں کو قتل کرڈالا، صرف اور صرف اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کی خاطر۔
حسین نے سیاسی اصلاح کے لئے کوچ کیا تو انہیں شہید کردیا گیا، اور اس کے بعد سے مسلم دنیا میں سیاسی اصلاح پر بات کرنا سب سے بڑا جرم قرار پایا، اور یہ بات عقیدے کے درجے تک پہونچ گئی کہ اگر حاکم ظلم بھی کرے تو بھی حاکم کی تبدیلی کا خیال دل میں مت لاؤ۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں حکمراں خاندان بدلتے رہے، مگر اموی ہوں کہ عباسی، فاطمی ہوں کہ عثمانی، موروثی شاہ ہوں کہ فوجی ڈکٹیٹر، سب یزید کے راستے پر چلتے رہے۔ چند ناموں اور کچھ گم ناموں کو چھوڑ کر کسی نے سیاسی نظام کی اصلاح کی کوشش نہیں کی۔
اسلامی خلافت کا امتیاز یہ تھا کہ حکومت بچانے کے لئے انسانوں کا خون نہ بہایا جائے۔ جب بلوائیوں نے ناحق خلیفہ عظیم حضرت عثمان کا محاصرہ کرلیا، یہاں تک کہ خلیفہ کو شہید کرڈالا، تب بھی اس عظیم خلیفہ نے کسی کو ان کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، کتنا عظیم تھا وہ خلیفہ۔
یزید نے وہ نظام حکومت امت کے اوپر مسلط کیا کہ جو ہر مخالف کا علاج صرف اور صرف قتل بتاتا ہے۔ یزید نے حسین کو قتل کرایا اور اس کے بعد سے نیک صفت اور اصلاح پسند بزرگوں کے قتل کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
یزید نے خونی ملوکیت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ ایسی خونی ملوکیت جس میں کسی کو بھی قتل کرنا جائز تھا۔ جبر کے عالم کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے حسین جیسی امت کی سب سے چہیتی شخصیت کو قتل کرانے میں ذرا تامل نہیں ہوا۔ لوگ کہتے ہیں دوسرے بیعت کرنے والوں نے بیعت کیوں کی تھی؟ سوال یہ ہے کہ بیعت کے سوا راستہ ہی کیا تھا؟ جسے حسین کا خون بہانے میں تردد نہ ہو وہ ابن عمر اور ابن عباس کے خون کی بھلا کیا پروا کرتا، اور عام مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں اسے کیا پس وپیش ہوتا۔ اور یہی ہوا، مدینے کے مسلمانوں نے جب شہادت حسین کے رد عمل میں جبری بیعت سے نکل جانے کا اعلان کیا تو یزید نے شہر مدینہ کی حرمت کو اس طرح پامال کیا کہ جس کی نظیر ظلم کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ عبد اللہ بن زبیر جب خون خرابے سے بچنے کی خاطر بیعت کرنے کو تیار ہوئے تو یزید نے حکم دیا کہ وہ قید کرکے لائے جائیں اس کے بعد ان کی جاں بخشی پر غور کیا جائے گا، اور انہیں گرفتار کرنے کے لئے شہر مکہ کا محاصرہ کرلیا۔ غرض یزید کے پاس ہر مسئلے کا علاج خوں ریزی تھا۔ اور یہی یزید کا اصل جرم تھا، قطع نظر اس سے کہ وہ نماز پڑھتا تھا یا نہیں پڑھتا تھا۔
یزید نے فوجی قوت کے ذریعہ خونی ملوکیت کو قائم کیا، اور وہ خونی ملوکیت ابھی تک امت کے کندھوں پر سوار ہے۔ مصر میں سیسی نے ہزاروں اخوانیوں کو قتل کیا، اور ہزاروں کو جیل میں ڈال دیا، شام میں بشار نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا اور لاکھوں انسانوں کو بے گھر کردیا، سعودی شاہ اور شاہزادے اور ایرانی آیۃ اللہ اور ان کے کارندے تو سر سے پاؤں تک مسلمانوں کے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ مراکش اور الجزائر سے لے کر پاکستان اور بنگلہ دیش تک انسانوں کے خون کو بے حساب بہادینا مسلم ملکوں میں اقتدار کو بچانے کا آسان ترین راستہ سمجھا جاتا ہے۔
یزید کا جرم کفر تھا نہ فسق تھا، اس کا جرم تو ایک بہترین نظام عدل کو بدترین قسم کے نظام ظلم میں تبدیل کردینا تھا، وہ نظام ظلم جو اس وقت سے اب تک کروڑوں جانوں کو نگل چکا ہے، وہ نظام ظلم جو پوری مسلم دنیا پر پنجے گاڑے سوار ہے، شیعہ دنیا میں بھی اور سنی دنیا میں بھی۔ اس نظام ظلم نے شیعہ ظالم بھی پیدا کئے اور سنی ظالم بھی پیدا کئے۔ اس وقت دنیا میں جتنے مسلمان نام کے ظالم وجابر حکمراں ہیں جو مسلمانوں کی دولت پر عیش کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں، وہ سب یزید کے مقلد اور وارث ہیں، سنی بھی اور شیعہ بھی۔
امت کو ایسے ہولناک نظام ظلم سے بچانے کے لئے اگر حسین کھڑے نہ ہوتے تو کون کھڑا ہوتا، اور حسین شہادت نہ دیتے تو کون دیتا۔ حسین نے قیامت تک کے لئے اس طرح کی جاہلی ملوکیت اور اس طرح کے ظالم حاکموں کو بے نقاب کردیا۔ بلاشبہ بہت عظیم کارنامہ انجام دیا حسین نے۔ بالکل اپنی شخصیت کے شایان شان کارنامہ۔
افسوس کہ امت کا سواد اعظم بھی جانشینی کے معاملے میں یزید ہی کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے، شاہی مسجدوں کے امام ومتولی سے لے کر مدرسوں کے ناظم، خانقاہوں کے پیر، دینی جماعتوں کے امیر، سماجی اداروں کے ٹرسٹی اور سیاسی پارٹیوں کے قائدین، غرض جگہ جگہ اندھا موروثی نظام قائم ہے، اور ان میں بہت سے جانشین نہایت بد دیانت اور خائن قسم کے ناخلف ہوتے ہیں۔
حسین کی قدر شناسی اور حسین کے مشن سے محبت یہ ہے کہ خونی نظام ملوکیت اور ظالم حکمرانوں کی غلامی سے امت کو نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ کب تک امت مسلمہ کے سروں پر یہ ظالم خاک اور خون کا ننگا ناچ کھیلتے رہیں گے؟ کتنے ہزار سال تک؟
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حسین کی شہادت محض چند تاریخی روایتوں سے ثابت نہیں ہے، کہ اسے ضعیف تاریخی روایتوں کے ڈھیر میں دبایا جاسکے، حسین کی شہادت کا علم ہر دور میں پوری امت کو رہا ہے، جس طرح چاروں خلفائے راشدین کی خلافت کا علم ہر دور میں پوری امت کو رہا ہے، اس کا انکار ایک متواتر حقیقت کا انکار کرنا ہے۔
بلاشبہ کچھ شیعوں کا رویہ امت کی محترم شخصیات کے ساتھ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے لیکن اس کا ردعمل یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یزید کو خلیفہ راشد اور حسین کو باغی قرار دے دیا جائے، جیسا کہ اب بعض لوگ کرنے لگے ہیں۔ (ملاحظہ ہو : جہاد تربانی کی عربی کتاب "سو عظیم مسلمان جنہوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا”، اس کتاب میں یزید خلیفہ ہفتم اور سو عظماء اسلام میں شمار کیا گیا ہے اور حسین کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے)
یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ حسین دراصل اسلامی امت کے بطل جلیل اور شہید عظیم ہیں، ان کا کوئی تعلق شیعوں سے نہیں بنتا ہے کہ ان کی قدر گھٹانے کا خیال بھی دل میں آئے۔ اسی طرح یزید نے شیعوں کو نہیں بلکہ اسلامی امت کو شدید نقصان پہونچایا ہے، اور یہ خود سنگین ظلم ہے کہ اس کے مظالم یکسر فراموش کرتے ہوئے اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔