ایک مومن ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے ۔ اللہ نے اپنی نعمتیں اسے جتنی مقدار میں عطا کی ہیں اس پروہ شکرکرتا ہے اور زیادہ کی حرص نہیں رکھتا ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ماپ کر بقدیہ ضرورت دیتا ہے اور بہتوں کو تنگدستی ، ڈرا ، بھوک او رکاروبار میں خسارے کے ذریعہ آزماتا ہے لہٰذا ، ایک مومن ہر آزمائش پر پورا اتر تا ہے -مومن کے لئے ہر حالت میں بھلائی ہے اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے اس پر وہ اللہ کی عبادت معین مشغول ہو جاتا ہے تو اسے اجر ملتا ہے اور اگر اسے کوئی ناگواری پیش آتی ہے جس پر وہ صبر کرتا ہے ، تب بھی اسے ثواب ملتا ہےہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ۔
دنیا کی زندگی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتی ، کبھی خوشی اور کبھی غمی ، کبھی تندرستی اور کبھی بیماری ، کبھی غربت ہے تو کبھی دولت کی ریل پیل ہے ، کبھی غم اور پریشانیاں ہیں اور کبھی آرام و آسائش ، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے ” تلک الایام نداولھا بین الناس “ ان حالات میں جب کسی مومن کو کسی نوعیت کی تکلیف یا پریشانی لاحق ہو تو وہ اس پر صبر کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے ۔مومن کیلئے بنیادی تربیت ہی ایفائے عہد کی پاسداری ہے۔ بندہ مومن اپنے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پے عمل پیرا ہوتا ہے- مومن قرآن پاک کی تربیت اور احکامات کو اللہ پاک کے جلالی انداز بیاں کو پڑھ کر کانپ جاتا ہے اور خود قرآن پاک میں ہے کہ بندہ مومن وہ ہے جس کا دل ان آیات کو پڑھتے ہوئے خوف خدا سے کانپ جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن پاک کی سچائی اور اس کے اندر درج عزابوں کو پڑھ کر حقائق پر ایمان رکھتا ہے ۔بندہ مومن للہ پاک کے احساناتکو دیکھتا ہے خود سوچ بچار کرے زمین و آسمان دیکھتا ہے اپنے گرد و نواح میں موجود انواع و اقسام کی نعمتوں کو دیکھتا ہے سوتے سے جاگ کر پھر سے جاگ اٹھنے پر آنکھ کھلتے ہی خالق حقیقی کا دل سے شکر بجا لالتا اس کی حمد و ثنا کرتے ہوئے دن کا خوبصورت آغاز کرتا اور سارا دن اس کے انعام و اکرامات پر سجدہ شکر کرتا ہے- یہی اصل مومن کی پہچان ہے-
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی مانی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔ اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا سے خوف کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے۔ سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے۔ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
سورۃ البقرۃ – سورۃ: ۲، آیت ۲۰۴ – ۲۰۶
ان آیات میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو بظاہر تو اپنی بات کو بہت بناوٹ کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور دوسروں کے سامنے بھی اپنے ایمان اور اللہ و رسولؐ سے دلی محبت کا اظہار کرتے ہیں صرف دکھاوے کی عبادت کرتے ہیں دکھاوے کا شکر ادا کرتے ہیں مگر اس سب کے پیچھے ان کے ذاتی مقاصد چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے ایسے ہر فعل سے صرف دنیا میں نام و شہرت حاصل کرنا اور ظاہر میں صرف اللہ و رسولؐ سے محبت کا دعویٰ کرنا ہی مقصود ہوتا ہے۔ جب ایسے لوگ ایمان والوں کی مجالس سے دور ہوتے ہیں تو پھر یہی لوگ زمین میں فساد پیدا کر دیتے ہیں اور ناحق دوسروں کو قتل کرتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر تو اپنا آپ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور زبان پر زکر اللہ ہوتا ہے مگر اللہ تو دلوں کے بھید کو بھی بخوبی جانتا ہے۔ان کے سامنے قسمیں کھا کر باور کراتے ہیں کہ جو ان کی زبان پر ہے وہ ہی ان کے دل میں ہے۔ اور اگر کبھی ان کی اصلاح کے لئے ان کو حق بات بتلا کر اللہ سے ڈرایا بھی جائے اور وعظ و نصیحت کی جائے تو یہ بجائے اُس کو سمجھ کر ماننے کے اور اُس پر عمل کرنے کے، مزید اپنی ضد اور غصے کا اظہار کرتے ہیں اور مخالفت کے جوش میں مزید گناہوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسوں کے بارے میں واضع کر دیا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جن کا ایمان بھی صرف دکھلاوے کے لئے ہو اور زمین پر بھی فساد کرتے پھریں، بالکل پسند نہیں کرتا اور اِن کا ٹھکانا صرف دوزخ ہے۔
مومن کا شکراس کےعمل سےظاہر ہوتا ہے
منافق کا شکر صرف ذبان پر جاری رہتا ہے