مشرقی تُرکستان جسے چینی لوگ زنجیانگ کے نام سے پکارتے ہیں کئ سالوں سے وقتاً فوقتاً خبروں میں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی مسلم اکثریتی ویغور آبادی اور کمیو نسٹ چین کے بیچ کشیدگی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ ویغور ایک تُرکی النّسل قوم ہیں جن کی اکثریت مشرکی ترکستان جو اب "زنجیانگ آٹونامس ریجن” کے نام سے جانا جاتا ہے،میں رہتی ہے۔ اسی وجہ سے بہت سارے ویغور اپنے آپ کو ترکستانی گردانتے ہیں۔ لفظ” ویغور” کی ابتدا 1921ء میں ہوئی جب کچھ ترکی النّسل مسلمانوں نے ایک کانفرنس کے دوران اس کو اختیار کیا تھا۔ چین کے ہی علاقے حنان میں بھی ان کی آبادی ہے ۔مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیائ ممالک جیسے قزاقستان ، کرگیزستان، ازبکستان میں بھی کچھ لوگ رہتے ہیں۔ ترکی میں بھی کچھ آبادی پھیلی ہوئ ہے۔ اس کے علاوہ تھوڑی بہت آبادی افغانستان ،جرمنی، بیلجیم، نیدرلینڑ، ناروے، سویڑن، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کنیڑا اور امریکا میں رہتی ہے۔ ویغور نسل کی ابتدا مورخوں کے نزدیک نویں صدی عیسوی میں ویغور خاقانیت سے جا ملتی ہے۔ یہ ویغوروں کے زیرِ نگین ایک ترک سلطنت تھی جو 842ء میں منتشر ہو گئ۔ اس کے بعد منگولیا سے ویغوروں کی ایک بہت بڑی آبادی تارم طاس(ترکستان) کی طرف منتقل ہو گئ اور تب سے وہیں پہ آباد ہیں۔ ویغور مورخوں کے مطابق وہ اصلاً زنجیانگ کے ہی رہنے والے ہیں جس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے۔ یہی بات ویغور قوم پرستوں اور چینی حکام کے بیچ نزاع کا باعث ہے۔ ورلڑ ویغور کانگرس کے اس دعوے سے مسئلہ اور پیچیدہ بن گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی تاریخ مشرقی ترقستان میں 4000 سال پرانی ہے۔ تاہم چین کے سرکاری موقف کے مطابق ویغور زنجیانگ میں نویں صدی سے آباد ہیں جب اُنھوں نے منگولیا سے ہجرت کی اور اس طرح سے یہاں کی ہُن چینی آبادی اقلیت میں تبدیل ہو گئ۔ بیچ بیچ میں اندرونی خودمختاری کے بعد باالآخر 1949ء میں چین نے با ضابطہ طور پر زنجیانگ صوبے کو سرکاری طور پر اپنا حصّہ بنا لیا اور اس طرح سے تنازعے کی شروعات ہوئی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ویغور اپنے آپ کو وسطی ایشیائی قوموں سے ثقافت اور قومیت کے لحاظ سے زیادہ نزدیک سمجھتے ہیں۔1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد جب وسطی ایشیائی ریاستیں وجود میں آئیں تو ویغوروں میں علٰیحدگی پسندی کا رجحان بڑھنے لگا اور اِسکو کُچلنے کے لئے چین ہر قسم کے ہتھکنڑے آزما رہا ہے۔جہاں تک ترقیاتی منصوبوں کا تعلق ہے اس کی وجہ سے ہُن چینی آبادی کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے جو معاش سے سلسلے میں یہاں آتے ہیں اور یہیں رہتے ہیں۔ ان کی آبادی 1950ء میں 5 فی صد سے بڑھ کر اب 40 فی صد ہو گیئ ہے۔ ویغوروں کی طرف سے اس کے خلاف مزاحمت ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کو کافی مصیبت جھیلنی پڑھ رہی ہے۔ETIM (ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ) ایک مُسلّح تنظیم ہے جس نے ایک خودمختار مشرقی ترکستان قائم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے تاہم کشمیریوں کی طرح یہاں بھی کوئی ایک ہی ایجنڈا نہیں اور کچھ لوگ ایک آٹونامس ریاست چاہتے ہیں۔
اگست کے مہینے میں اقوامِ متحدہ کی ایک پینل جو دنیا میں نسلی امتیازات ختم کرنے کے لئے کام کرتی ہے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ چینی حکام نے ایسے "ری ایجوکیشن سینٹرز” کو قائم کیا ہے جن میں لگ بھگ دس لاکھ لوگوں کو، جن کا تعلق ویغور قوم سے ہے، چینی کمیو نسٹ پارٹی کے ساتھ وفاداری "سکھا نے” کے ساتھ ساتھ اسلام سے پھیر کر زبردستی خدا بیزار مُلحد(atheists) بنایا جا رہا ہے اور انکار کی صورت میں انہیں عقوبت خانوں کی زینت بنایا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کا دفاع اور وکالت کرنے والے ایک چینی گروپ نے ایسے لوگوں کی تعداد تیس لاکھ بتایی ہے۔ یہ سینٹرز جرمنی کے "کنسنٹریشن کیمپس” کی یاد تازہ کرتے ہیں (دی ڈپلومیٹ: مئ18، 2018)۔یہ ریاستِ چین کا مسلمان ویغوروں کی مذہبی آزادی چھیننے کی صرف ایک تازہ مثال ہے۔ ان کی مذہبی ،ثقافتی اور معاشی آزادی پر سالہا سال سے یلغار جاری ہے۔2013ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ حکام نے کئ مذہبی رسومات کو غیر قانونی اور جرم قرار دے کر ان پر قدغن لگادی۔ مساجد کی تعمیر کے معاملے میں حال ہی میں ایک بحث چھڑ گیئ جب حکام نے ہزاروں مساجد کو خاص کر کاشغر میں منھدم کرنے کا فیصلہ لیا ۔اس کا مقصد "مذہبی انتہا پسندی "کی روک تھام ہے۔ مسجدوں کی تعداد کم کرنے اور مذہبی تعلیمی اداروں پر کڑی نظر رکھنے کے علاوہ اُن تعمیرات کے "پردیسی” ڈیزائن پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔پچھلے سال ستمبر کے مہینے میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ قرآن اور جائے نماز جیسی مزہبی اشیاء کو سرکار کے حوالے کریں! (بحوالہِ: دی اینڈی پنڈنٹ،9 ستمبر،2017) واضح رہے ریاستِ چین کا سرکاری نظریہ atheism ہےاور جو بھی مذہبی روایت یا رسم اس نظریے سے ٹکرائے اس پر پابندی لگادی جاتی ہے۔ لندن میں مقیم ایک ویغور سماجی کارکن گُل ناز ویغور کا کہنا ہے کہ مزہبی انتہا پسندی کی اس من پسند تاویل کے مطابق ہر ایسا شخص انتہا پسند ہے "جو سور کا گوشت نہ کھائے، رمضان کے روزے رکھے، معمول کے خلاف داڑھی رکھے، پردے کا اہتمام کرے، سرکاری ٹی وی دیکھنے سے انکار کرے یا شراب اور تمباکو سے احتراز کرے”(یییمِددلےےَثتےیےنےت، اگ 20 2018) جولائ کے مہینے میں ایسی خبریں آئیں کہ کچھ ویغور علاقوں میں "انتہا پسندی” کو روکنے کے لئے عورتوں کی لمبی اسکرٹس کو سرِ عام کاٹ دیا گیا(www.rfa.or, جولائ 16, 2018)۔وہ نام جن کا تعلق اسلام یا مسلمانوں سے ہے ایسے نام بچوں کو رکھنے سے انہیں باز رکھا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ عجیبUighur Chinese One Relative Policy ہے جس کے مطابق ویغور اور چینی گھرانوں کو طوعاً و کرہاً ایک دوسرے کو "رشتہ دار” بنانے پر راغب کیا جاتا ہے ! اس کے علاوہ چینی حکّام کی طرف سے نوجوان ہُنوں کو ویغوروں کے ساتھ شادی کرنے کی بھی ترغیب دی جا رہی ہے۔ چینی پولیس ایسے smart glasses کا استعمال کرتی ہے جس کے زریعے ویغور مسلمانوں کوعوامی جگہوں پرچہرے سے پہچانا جاتا ہے۔کچھ علاقوں میں ویسٹ منسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر دیبیش آنند کے بقول اسکولوں میں ویغور زبان پہ بھی پابندی ہے۔ ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا نا مناسب نہ ہوگا کہ غالباً 21 ویں صدی میں یہ انسان کی شخصی آزادی پر بد ترین یلغار ہے۔ آزاد دنیا کے بڑے بڑے دانشور اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر کسی قوم کا مزہبی عقیدہ، ثقافت، لباس، زبان، کھانے پینے کا ڈھنگ وغیرہ کیسے کسی ملک یا نظرئے کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے۔ جب کارل مارکس نے کمیونزم کا فلسفہ تراشا تھا تو دنیائےانسانیت کی ایک بہت بڑی تعداد آزادی اور سماجی برابری کے اس نئے نعرے پہ فریفتہ ہو گئی۔ لیکن بدقسمتی سے جہاں کہیں بھی اس فلسفے کو عملانے کی نوبت آئی تو یہ سرمایہ دارانہ نظام سے بھی زیادہ سراب ثابت ہوا ۔دراصل جو نظریّہ بھی انسانی فطرت کے خلاف ہو "وہ شاخِ نازک پہ آشیانہ ہوگا” اور "نا پائدار ہوگا” ۔بس یہی بات کمیونسٹ چین کے غیر فطری روئیے کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ تاہم 9/11 کے بعد چین بھی”جنگجویانہ اسلام” سے خوفزدہ ہےغیر ملکی فنڈنگ وغیرہ جیسی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اور مبصّرین کا کہنا ہے "کاری ضرب” والی پالیسی سے علٰیحدگی پسندی اور بڑھ جائیگی۔
جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے تو اس معاملے میں دینی رگِ حمیّت ابھی نہیں جاگی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشی تعلقات ہیں۔ بلکہ گُلناز ویغور کے مطابق کرگیزستان، مصر اور سعودی عرب جیسے اسلامی ممالک نے کئ ویغور تارکینِ وطن کو جلا وطن کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی اُمّت کا تصوُر اسلام میں علاقائی سے زیادہ روحانی ہے لکین اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ 1648ء میں وجود میں آئے westphalianقومی ریاستی نظام نے اس روحانی تصوّر پر بھی کاری ضرب لگا دی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اپنے ملکی مفادات کو نظر انداز کئے بغیرمسلم ممالک کم از کم ویغور جیسے ملّی مسائل پر اپنا "اُخوتی” کردار ادا کریں۔
سیّد شفیق احمد
سوگام لولاب