جس شخص نے مولانا ابوالکلام کو قریب سے دیکھا، قریب سے سنا اور انہماک سے پڑھا ہو، جس نے علامہ اقبالؒ کے علم و نظر سے استفادہ کیا ہو، جس کو علامہ انور شاہؒ کی امامت میں نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہو، جس نے حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ مرحوم کے قدموں میں بیٹھنے کا فخر حاصل کیا ہو، جس کے شب و روز کا ایک بڑا حصہ سید عطا اللہ شاہ بخاری کی خطابت میں بسر ہوا ہو، پھر جس نے اس عظیم دور کے ہر بڑے رہنما کی معیت حاصل کی ہو، اس کے لیے مولانا مودودی کے علم و فکر اور زہد و تقویٰ میں کشش نہ ہو تو چنداں عیب نہیں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ مولانا شروع میں نہیں، لیکن منٹگمری، سنٹرل جیل میں جب ان کی کتاب ”الجہاد فی الاسلام” نظر سے گزری اور پھر ”پردہ” کا مطالعہ کیا، تو یقین ہوگیا یہ شخص غیر معمولی ذہانت کا مالک ہے اور غالباً پہلا مصنف ہے جس نے جہاد کے نظریہ کی توضیح کے لیے معذرت کا لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ جو کچھ اسلام کے اندر ہے اس کو بلا کم و کاست پیش کر دیا ہے۔
رفتہ رفتہ ان کی فکر ایک تحریک ہوتی گئی۔ یہ عجیب اتفاق یا حادثہ ہے کہ ہر دور کے سیاسین ہی میں ذہنی مغائرت یا قلبی تفاوت کی کش مکش نہیں رہی، بلکہ علماء نے بھی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ چنانچہ مولانا ابوالاعلیٰ بھی اس سانحہ کا شکار ہیں۔ جن علماء کے سروں پر فضیلت کی دستاریں بندھی ہوئی ہیں، انھوں نے عادتاً ناک بھوں چڑھایا، زبانیں قینچی کی طرح چلنے لگیں۔ خلوت و جلوت میں ابوالاعلیٰ کے باقاعدہ فارغ التحصیل نہ ہونے پر تبصرے شروع ہوگئے، مگر لوگوں کے ذہن ان کے احترام سے خالی تھے۔ اس لیے ان کی باتیں طاقِ نسیاں کا گلدستہ ہوتی گئیں اور مولانا ابوالاعلیٰ فکری اعتبار سے علامہ اقبال کے بعد پاکستانی عوام کے محبوب رہنما ہوگئے۔
مولانا ابوالاعلیٰ سے آپ اتفاق کریں یا اختلاف لیکن واقعہ یہی ہے کہ انھوں نے نوجوانوں کے برگشتہ ذہن کو دوبارہ مذہب کی طرف راجع کیا اور پاکستان میں وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے اسلام کو ایک تحریک، ایک تنظیم، ایک فکر اور عالمی انقلاب کی حیثیت سے پیش کیا۔ انھوں نے ریاضی کی طرح نقد و بحث کا اسلوب پیدا کیا اور ایک ایسی تحریک کے لیے وہ تمام سیاسی انداز اختیار کیے کہ جن سے معاشرے میں انقلاب کے برگ و بار رونما ہوتے ہیں۔
ان کی دعوت الہلال کی ابتدائی دعوت سے مختلف نہیں بلکہ بڑی حد تک اسی سے ماخوذ ہے، لیکن ان کا قلم ابوالکلام کا قلم نہیں۔ ابوالکلام کا قلم ذہن کو بے اختیار پرستش کی طرف لے جاتا ہے مگر ابوالاعلیٰ اس کے برعکس پرستش کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے نظریات میں انتہا پسند ہیں۔ ان کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے متوسط طبقے کو انتہائی متاثر کرتے ہیں، لیکن جو جان ان کی تحریروں میں ہے وہ اس طبقے میں کبھی نہیں ہوئی۔ یہ طبقہ فکر کے ذہنی کھیل تو کھیل لیتا ہے، لیکن عملی لحاظ سے ہمیشہ ناکارہ ثابت ہوا ہے۔ اس سے کسی معاشرتی انقلاب کی توقع رکھنا ہی غلطی ہے۔ مولانا ایک راست گفتار اور نیک دل انسان ہیں، جو چیز ذہن میں ہو، وہی زبان پر آتی ہے۔ کبھی رو رعایت سے کام نہیں لیتے۔ اپنے انداز میں سوچتے اور اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ کئی دفعہ نیاز حاصل ہوچکا ہے۔ لیکن چٹان کی بندش پر ملک نصر اللہ خاں عزیز نے ”تسنیم” میں ایک ایسا اداریہ لکھ دیا تھا جس سے سرکاری نقطہ نگاہ کی حمایت ہوتی تھی۔ میں نے مولانا سے شکایت کی انھوں نے ہم دونوں کو طلب کیا، مقدمہ سنا اور فیصلہ صادر کیا جو ننانوے فیصد میرے حق میں تھا، اور یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے مولانا کی ذہنی صداقت کو قریب سے محسوس کیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس شخص کے اندر کوئی چمک ضرور ہے۔
دُہرا بدن، میانہ قامت، چمپئی رنگ، بیضوی آنکھیں، مسجع داڑھی، خوش پوشاک زبان، شستہ لہجہ، رفتہ قلم کے دھنی۔ جماعت اسلامی کے قائد، سراپا اخلاق، عام لیڈروں سے مختلف، نہ زندہ باد کے تمنائی نہ مردہ باد سے خائف، دماغ بھی متوازن، دل بھی متوازن، اور قلم بھی متوازن، لیکن یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ جو عجزان میں ہے، وہ ان کے ساتھیوں میں نہیں۔ اکثر و بیشتر میں تقوی کا زعم پرورش پا رہا ہے۔ مولانا ابوالاعلیٰ ابوالاعلیٰ نہ ہوتے تو سیاست میں سید حسن ہوتے، صحافت میں مہر ہوتے، افسانہ نگاری کی راہ پر چلتے تو مسلمانوں میں پریم چند ہوتے، ناول نگاری میں نسیم حجازی کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ وہ حکمراں ہو کر کیا بنتے ہیں پیش گوئی محال ہے۔ البتہ وہ ایک ایسے موڑ پر آچکے ہیں کہ اب بیچ کا راستہ عنقا ہے۔ عجب نہیں کہ جس تحریک کا آغاز پٹھان کوٹ سے ہوا تھا، وہ بالاکوٹ پر ختم ہو۔ واللہ اعلم بالصواب!
رہے پرپیچ ذرا ہی خستہ و زار
چرا عشق مردہ شب و درمیان است
(چہرے، از شورش کاشمیری، ص 42 – 45)