حال کی یہ خبرکہ ہندپاک دوستی ، مفاہمت اور مسائل کا مذکراتی حل چاہنے والوں پر بالقین بار گراں گزری کہ دلی نے بڑی دیر بعد اسلام آباد کا ڈائیلاگ آفر پہلے قبول کیا اور پھر اگلے ہی روز یکایک اسے مسترد کردیا۔ ا پنے اس ڈرامائی فیصلے کے جواز میں حکومت ہندکے ایک ترجمان نے شوپیان میں تین پولیس اہلکاروں کو ہلاک کئے جانے اور پاکستان میں برہان وانی کے نام ڈاک ٹکٹ جاری کر نے کا ذکر کیا۔ قبل ازیں جموں کے سانبہ سیکٹر میں ایک بی ایس ایف اہلکار کی ہلاکت کے بعد مبینہ طور اس کا گلا کاٹنے پر وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنے بیان میں ا س کا’’ مناسب جواب‘‘ دینے اور بھارتی فوجی سربراہ بپن روات نے’’ پاکستان کو اُن ہی کی زبان میں جواب دینے‘‘ کی دھمکی دی تھی۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو ایک مکتوب لکھ کر ہند پاک ڈیڈ لاک ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ دلی نے اس خط کا مثبت جواب دے کر رواں ماہ کے اخیر میں پاکستان کے ساتھ خارجہ سطح کی ملاقات کی تجویز دی۔ اس اعلان کا امریکہ نے فوراً خیر مقدم کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے۲۰؍ستمبرجمعرات کو سرکاری سطح پر صاف کیا کہ فارن منسٹر سشماسوراج اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ملاقات اس مہینے کے آخر میں نیویارک میںہوگی۔ دونوںلیڈر یواین کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوں گے۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی حکومت کی اپیل پر ہندوستان میٹنگ کیلئے تیار ہے اور یہ وزیر خارجہ سطح کی میٹنگ ہوگی۔ دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کے منتظر لوگوں میں وزرائے خارجہ کی ملاقات کے اس اعلان سے اْمید کی ایک کرن جاگ اْٹھی تھی لیکن ۲۱؍ستمبر کوبھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے انڈو پاک مذاکرات کی تمام اْمیدوں پراْس وقت پانی پھیر دیا جب انہوں نے بھارتی حکومت کا نیا موقف سامنے لاکر یہ اعلان کردیا کہ’’کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی میٹنگ کو ہندوستان نے رد کردیا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر پولیس کے تین جوانوں کے قتل اور برہان وانی پر پاکستان کے اسٹامپ جاری کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا اور یہ کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ ہندوستان جوانوں کے قتل سے ناراض ہے۔‘‘ بھارتی وزات خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایسے ماحول میں میٹنگ نہیں ہوپائے گی۔اْدھر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میںبھارتی ہم منصب سے طے شدہ ملاقات کے بارے میں بھارت کے یو ٹرن پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ ’پاکستان خطے کی بہتری چاہتا ہے، خبر سن کر افسوس ہوا‘‘۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ بقول ان کے’’ بھارتی دہشت گردی کے متعدد ثبوت ہمارے پاس بھی ہیں لیکن پاکستان ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو سفارتی آداب کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ مثبت ہے، لگتا ہے کہ پاکستان کا مثبت رویہ بھارت میں سیاست کی نذر ہوگیا۔پاکستانی وزیر خارجہ کا مزیدکہنا تھا کہ ’’لگتا ہے کہ بھارت میں آنے والے انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے، ہندوستان اپنے خول سے باہر نہیں نکل پارہاہے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ملاقات سے پیچھے ہٹ کر بھارت نے خطے کی خدمت نہیں کی جب کہ پاکستان ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اب بھارت سے دوبارہ ملاقات کی درخواست نہیں کرے گا، معاملات وہاں ہی حل ہوتے ہیں جہاں باہمی عزت اور احترام ہو، بھارت کی سیاست تقسیم نظر آرہی ہے۔‘‘ بھارت کی جانب سے وزرائے خارجہ کی ملاقات سے دستبرداری کا اعلان ہوتے ہی پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارت کے اس فیصلے پرردعمل کے طور پر اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ’’ انہیں پاک بھارت وزرائے خارجہ کی مجوزہ ملاقات کی منسوخی کے بھارتی فیصلے پر سخت مایوسی ہوئی، ملاقات کی منسوخی کے لئے نام نہاد بہانے تراشے گئے اور پاکستان کے خلاف بے جا الزام تراشی کی گئی۔بھارت نے وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ کر کے امن کا ایک اور موقع ضائع کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھارتی وزارت خارجہ کا بیان افسوس ناک ہے اور مہذب روایات و سفارتی آداب کے منافی ہے۔‘‘
برصغیر کے دوروایتی حریف ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں اْس وقت برف پگھلنا شروع ہوئی تھی جب حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیکل رچرڈ پومپیو نے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا۔ پاکستان میں امریکی وزیر کو حکام نے یہ یقین دلایا کہ وہ بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے سے معاملات حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ مبصرین کی رائے میںمائیکل رچرڈ پومپیوسے ملاقات کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھ کر مذاکرات کی دعوت دی تھی ، اس کے جواب میںبھارت نے رواں ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کے لئے حامی بھرلی تھی، لیکن اگلے ہی روز جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے ردعمل میں بھارت نے مذاکرات سے علاحدگی کا اعلان کرکے تمام اْمیدوں پر پانی پھیر دیا۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بھارت میں اگلے سال پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں، جن کے پیش نظر بی جے پی سرکار پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کے موڈ میں نظر نہیں آرہی ہے، البتہ انکار یا ڈائیلاگ سے راہ فرار کے لیے دلی کے پاس کوئی مضبوط دلیل او رجواز نہیں تھا، جس کی وجہ سے اْنہیں امریکی وزیر خارجہ کے سامنے مذاکرات کے لیے حامی بھرنی پڑی۔ البتہ شوپیان واقعہ کی صورت میں اسے مذاکرات سے دامن جھاڑنے کا وہ موقع میسر آیا جس کی تلاش میں یہ تھا۔ چونکہ بھارت میں ووٹ سیاست خالص جذباتیت اور دیش بھگتی کے نام پر ہوتی ہے اور عوام کے سامنے ملکی سلامتی کے حوالے سے فرضی خطرات کھڑا کرکے اْنہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی روایت دہائیوں سے جاری ہے، اس مرتبہ بھی سیاسی جماعتیں بالخصوص حکمران جماعت ملکی سلامتی، دہشت گردی اور پڑوسی ملک پاکستان کو خوف ناک خطرہ قرار دے کر اپنے ووٹ بینک کو اپنی مٹھی میں کرنے کے فراق میں لگتی ہے۔ اس سلسلے میں بھاجپا بہت دیر سے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے ، چونکہ اس حکومت نے نہ اچھے دن لائے ، نہ وکاس لایا ، نہ بے روزگاری کا ازالہ کیا ، نہ مہنگائی پر قابو پایا ، نہ بدعنوانی کے عفریت کو ملک سے ماربھگایا، اس لئے باشعور ووٹر جب حکومت کی کارکردگی کا محاسبہ کر نے لگتا ہے تو اس کی سوچ اصل اور بنیادی مسائل سے ہٹانے کیلئے پاکستان کے تئیں کڑا رُخ ، کشمیر اور سہ طلاق آرڈی ننس جیسے تماشے سامنے لائے جاتے ہیں۔۲۰۱۴ءکے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے کانگریس سرکار کی ناکامیوں کو گن گن کر اور یوپی ا ے کا پاکستان کے ساتھ’’ آہنی ہاتھوں‘‘ سے پیش نہ آنے کے نام پر ووٹ حاصل کیا۔اْس وقت ایک کے بدلے دس سر لینے، تعمیر و ترقی اور روزگار فراہم کرنے کے وعدوں کے ساتھ ساتھ قوم پرستی اورہندتوا کے جذباتی سلوگن کھڑا کرکے رائے عامہ کو بی جے پی کے حق میں ہموار تو کیا گیا لیکن ساڑھے چار سال سرکار میں رہنے کے بعد مبصرین کے مطابق بی جے پی سرکارہر محاذ پر بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے، نہ یہ ایک کے بدلے دس سر لاسکی، نہ ایک کروڑلوگوں کو روزگار کا ہد ف پایاگیا ، نہ ملکی معیشت میں کوئی مثبت بد لاؤ الایا گیا بلکہ اس کے بجائے نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، پٹرول کے ا ونچے دام ،کمر توڑ مہنگائی اور روپے کی گرتی ہوئی قدر جیسے زخم ہندوستانی عوام کوپریشان حال کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کن نعروں اور کس ایجنڈے کے ساتھ بی جے پی عوام کے سامنے ووٹ مانگنے جائے گی، عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر اْنہیں مفروضوںاور قیاسی خطرات کا بھوت دکھا کر ہی اپنے ساتھ وقتی طور جوڑا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرنے سے زیادہ کوئی اور چیز شایدکارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک بنیادی وجہ ہے ہندوستان کا مذاکرات سے انکار کرنے کا۔ واضح رہے مودی سرکار۲۰۱۵ءسے مسلسل مذاکراتی عمل سے دوٹوک انکار کرتی چلی آرہی ہے۔
حق یہ ہے کہ انڈو پاک ڈائیلاگ کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے کیونکہ برصغیر کے عوام خاص کر ریاست جموں وکشمیر کے زیادہ تر لوگ آر پار کی دشمنی اور رقابت کا خمیازہ اْٹھا تے جارہے ہیں اور یہاں تعمیر وترقی کی بجائے دشمنیوں اورمارا ماریوںکی آتشیں فضا رُوبہ عروج ہے۔ اس دشمنی کا فائدہ بعض سیاست دانوں کو براہ راست ملتا ہے مگر عوام کے کھاتے میں صرف خسارے آتے ہیں، تباہیاں آتی ہیں اور بربادیاں جمع ہوتی ہیں۔ مر نے والا چاہے عسکریت پسند ہو ، سرحد پر اپنی روزی روٹی کے لئے کھڑا فوجی ہو ،پولیس مین ہو، عام سویلین ہو، بہر حال ان ہلاکتوں سے کسی کا چشم وچراغ اپنے پیچھے آنسوؤں کا سمندر چھوڑ کر آسودۂ خاک ہوتا ہے، کوئی خاتون اَ سہاگن ہوتی ہے ، کوئی بچہ یا بچی یتیم ہوجاتی ہے۔ اس خون آلودہ سلسلے کو روکنے کے لئے کہیں نہ کہیں تو شروعات ہونی چاہیے اور مذاکرات ومکالمت اسی شروعات کا اولین پڑاؤ ہوتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ آج تک دلی اوراسلام آباد سینکڑوں بار اوروں کے دباؤ میں آکر یا غیروں کے ایماء پر بات چیت برائے بات چیت کی میز شیئر کر کے باہم دگرہوکر کم ازکم موسم کا حال ہی سنا کرتے تھے ، مگر اب کی بار دلی مذکرات کے نام پر فریق مخالف سے موسم کا حال سننے سنانے پر بھی تیار نہیں، کجا کہ مسائل کا حل ڈھونڈنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اگر نیتوں میں خلوص ہوتا تو جن دو نکات کو لے کر مجوزہ مذاکرات کو منسوخ کیا گیااُن کے تہہ میں جاکر اُن کے وجوہات ڈھونڈنے اور کشمیری قوم کے غم و غصے جو جاننے جیسے نکات کو لے کرہی گفت وشنید کا آٖغاز کیا جاسکتا تھا مگرایسا تکلف بھی نہ کیا گیا۔ سخت گیر مؤقف چاہے جو بھی فریق اپنائے، امن کا خواب یوں شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا۔ ایک جانب عالمی طاقتوں کے سامنے برصغیر کے یہ دونوں ایٹمی ممالک امن کی دْہائی دیتے رہتے ہیں، باہمی تنازعات کو آپسی بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی باتیں بھی کرتے ہیں لیکن دوسری جانب زمینی سطح بالخصوص ہندوستان کومنافرتوں اور عداتوں کا ایجنڈا لئے بغیر چین نہیں آتا۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاست دان نہ صرف اس حوالے سے اپنے عوام کا مائنڈ سیٹ غلط خطوط پر بنائے رکھے ہوئے ہیں بلکہ جموں و کشمیر کے عوام کو ایک ایل اوسی سے لے کر کپواڑہ تا کشتواڑ انتقام کی نذرکیا جارہاہے۔کنٹرول لائن اور ورکنگ بونڈری کے آس پاس اور وادیٔ کشمیر کی گلی کوچوں میں اگر حالات خراب ہیں، انسانیت کا خون بہہ رہا ہے اور ماؤں کی کوکھ اْجڑ رہی ہیں تو یہ اسی ایک دیرینہ مسئلہ کے حل نہ ہونے کا منطقی نتیجہ ہے۔ کشمیر میں کوئی دل سے نہیں چاہتا کہ کسی انسان کا خون بہے، کوئی ماں اپنے بیٹے سے محروم ہوجائے، کسی خاتون کا سہاگ لٹ جائے، معصوم بچے یتیم ہوجائیں، لیکن جس Conflict میں یہاں کے لوگوں کو رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے اْس میںنفرتوں اور شکوک وشبہات کا سلسلہ تب تک شاید ہی رْکے گا جب تک دونوں ممالک خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات کے میز پر بیٹھ نہ جائیں اور اس مسئلہ کا کوئی ایسا پْر امن حل نکا لیں جس میں یہاں کے عوام کی اْمنگوں کاپاس ولحاظ ہو۔ اگر دونوں ممالک یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو پھر امن کی خوشبو کا ہر سو پھیل جانا یقینی بن جائے گا، برصغیر کے کروڑوں عوام غربت کے دلدل سے نکل جائیں گے کیونکہ دونوں ملکوں کے وسائل کا بیشتر حصہ دفاعی اخراجات پر صرف ہوتا جارہاہے اور عام انسان بنیادی ضروریات کے لیے ترستے رہتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ آپسی تعلقات کے ذریعے سے تجارت کو فروغ ملے گا۔ اس لئے چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بہانہ بناکر بات چیت اور افہام تفہیم کے عمل سے بھاگا نہ جائے۔ تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر متنازعہ معاملے میں بالآخر فریقین کو ٹیبل پر چار وناچار آنا پڑتا ہے، بہترین سیاست دان وہ ہوتے ہیں جو آنے والی نسلوں پر مسائل کا بوجھ ڈالنے کے بجائے ان کا حل کوئی نہ کوئی قابل قبول خود ڈھونڈ لیتے ہیں، بھلے ہی ا س کے لئے اْنہیں اپنا سیاسی کیرئیر داؤ پر لگانا پڑے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاںدنیائے سیاست کے کئی نامور چہرے عظیم کہلانے کا خواب لئے بے معنی اْچھل کود کررہے ہیں، وقت کا ضیاع کر تے ہیں ، قومی سرمایے کو اْڑاتے ہیں ، گھر کی خبر لینے کے بجائے سات براعظموں کی خبر لیتے ہیں۔ کاش یہ لوگ تاریخ کا کلیہ جانتے کہ عظیم قائد اور عوام کا چہیتا وہ لیڈر کہلاتا ہے جو عوام کے دُکھ سکھ کا خیال کرے، جو اپنی قوم کو ایک سنہرا مستقبل دے، جو اپنی توانائیوں اور وسائل کو تعمیر وترقی کے نام معنون کر ے، جو اختلافات کی خلیج کم کرے اور اشتراک کا مشعل فروزاں کرے۔ چین اور جاپان اس کی بہترین مثالیں ہیں۔جو لیڈر ان اصولوں کو اپناتے ہیں وہ خود بخود عظیم بن جاتے ہیں۔ زمانہ اْنہیں یاد رکھتا ہے اور انسانیت اْنہیں ہر دور میں سلام پیش کرتی ہے۔
المختصرضرورت اس امر کی ہے کہ دلی سرکار اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے خطے میںدور اندیشی والا کردارادا کرے۔ نیز حکمران پارٹی الیکشن سیاست کو پاکستان کے ساتھ تعلقات اْلٹا پلٹ کرنے کی روش چھوڑ دے ، اسی طرح اسلام آباد مذاکرات کی ہمہ وقت ضرورت کو نظروں سے اوجھل کئے بغیر آگے بھی دلی کے ساتھ سلسلۂ جنبانی قائم کر نے میں پہل کرے اور یہ آفاقی اصول ذہن نشین کرے کہ ہم اپنے دوست بدل سکتے ہیں ہمسائے نہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ دلی اور اسلام آباد دونوں دور اندیشی اور تدبرکا مظاہرہ کریں، وقت کی نزاکتیں سمجھی جائیں اور ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوںکو مذاکرات کے لیے اپنے انشیٹیو پر خلوص نیت کے ساتھ ٹیبل پر فوراًسے پیش تر آجانا چاہیے۔ جبھی نہ کسی کو کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی شکایت رہے گی، نہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہوں گی ، نہ قتل و غارت گری کا بے لگام سلسلہ جاری رہے گا۔ بھارت کو ازسر نو پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے مذاکراتی دعوت ٹھنڈے دل سے قبول کرنی چاہیے اور امن وآشتی کو طرفین کے لئے یکسان ضرورت جانتے ہوئے کشمیر سمیت اپنے تمام مسائل حل میں ذمہ دارانہ رول اداکر نا چاہیے۔