سوال: محترم ، میقات برائے۲۰۱۸-۲۱ کے لیے جماعت اسلامی کے کام اور پروگرام میں کیا ترجیحات رہیں گی؟
جواب: جماعت اسلامی کانصب العین اقامت دین ہے۔ دعوت و اصلاح کا کام ترجیحات میں سر فہرست رہے گا اور اس سلسلے میں رسل و رسائل کے معروف و جدید ذرائع سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ دعوت کا کام عام کیا جائے گاکیونکہ جماعت کا قیام ہی اس لیے عمل میں آیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام فہم اور ٹھیٹھ انداز میں عوام الناس تک پہنچایا جائے۔ جماعت کا کام کھلے عام(Open) اورشفاف(Transparent) طریقے سے انجام دیا جائے گا جیسا کہ دستور جماعت کی دفعہ۵ میں درج ہے کہ”اپنے نصب العین اور مقصد کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقے استعمال نہیں کرے گی جو اخلاق، صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔“ ترجیحات میں یہ بات بھی شامل رہے گی کہ جماعت اسلامی اور اس کے نصب العین کے متعلق سماج کے مختلف طبقات میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں یا پھیلائی جارہی ہیں اُن کا ازالہ کیا جائے۔ اُمت مسلمہ میں مختلف سطحوں پر موجود معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔ اس وقت اُمت مسلمہ میں اخلاقی سطح پر بگاڑ موجود ہے، عقائد میں بگاڑ پیدا ہوا ہے، اعمال میں بھی بگاڑ دیکھا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ان تمام طرح کے بگاڑ کا ازالہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی۔اسلام کے متعلق پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ترجیحات میں شامل رہے گا۔ اسلام دشمن طاقتیں مختلف طریقوں سے اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں کررہی ہیں ، مثال کے طور پر عورتوں کے متعلق یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اسلام نے اُنہیں حقوق سے محروم رکھا ہے، اُن کے ساتھ ظلم وجبر ہورہا ہے، اس سلسلے میں دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیمات کو پیش کرکے اس طرح کی تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔جماعت اسلامی کے کام کو منظم کرنا اور تنظیم کو مستحکم کرنے کے لیے کارگرکوششیں کی جائیں گی ، کیونکہ تنظیم مضبوط و مستحکم ہوگی جبھی وہ نصب العین کی اچھی طرح سے آبیاری کرسکتی ہے اور اپنے مقصد وجود کی صحیح نمائندگی کرسکتی ہے۔بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے پیش نظر جماعت قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا راستہ طے کرے گی۔
سوال:دعوت دین کے کام میں قرآنی تعلیمات کااہتمام اہم ترین کام ہے، اس سلسلے میں کیا حکمت عملی رہے گی؟
جواب: قرآنی تعلیمات کو عام کرنا ہی ہماری دعوت کا بنیادی کام ہے اور اس سلسلے میں جماعت اپنے قیام سے آج تک کبھی بھی لاتعلق نہیں رہی ہے۔یہاں تک کہ جماعت کی جہد مسلسل سے ہی اُن دوسری دینی تنظیموں کو بھی یہاں قدم جمانے کا موقع مل گیا جنہیں کسی زمانے میں یہاں شجر ممنوعہ سمجھا جاتا تھا۔ تحریک اسلامی نے ہر زمانے میںقرآنی تعلیمات عام کرنے کے لیے ہر محاذ پر حتی المقدور کوششیں کی ہیں، اِسی کا نتیجہ ہے کہ پوری ریاست میں درسگاہوں کا قیام عمل میں لایا گیا، اسکول قائم کیے گئے، بڑے بڑے دینی ادارے آج بھی قائم ہیں، اجتماعات کا اہتمام ہوتا ہے جہاں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔صباحی و مسائی درسگاہاں کے قیام پر ہر زمانے میں توجہ مرکوز رہی ہے ، اس میقات میں بھی قرآن حکیم او رسنت مطہرہ کی ابتدائی تعلیم فراہم کرنے کے لیے صباحی و مسائی درسگاہاں کی جانب خصوصی توجہ دی جائے گی۔اور ان درسگاہاں میں اس بات کو یقینی بنائے جائے گا کہ کسی بھی قسم کے جزوی و فروعی اختلافات کو کوئی اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان اختلافات سے بالاتر ہوکر نسل نو کو خالص دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔اسکول اور کالج جانے والے نوجوانوں کے لیے وادی کے مختلف مقامات پر قرآن کلاسز شروع کیے جائیں گے، جہاں قرآن حکیم ، احادیث اور عربی زبان پڑھانے کا اہتمام ہوگا۔ اس طرح کے کلاسز کا مقصد نوجوانوں کو قرآن اور دین سے جوڑنا ہے اور وہ بلاواسطہ قرآن مجید کو سمجھ سکیں گے۔
سوال:ارکان وامید وارانِ رکنیت تحریک اسلامی کے کل پرزے ہوتے ہیں، یہ عوامی سطح پر اُس نصب العین کی نمائندگی کرتے ہیں جس کو لے کر جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،اِن کی تربیت کے حوالے سے کیا منصوبے ہیں؟
جواب:بے شک تنظیمی استحکام کے لیے ارکان وکارکنان کی تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ اس میقات میں ارکان و امیدوارانِ رکنیت کی دینی و ذہنی تربیت کا پورا اہتمام کیا جائے گا۔ارکان و امیدوارانِ رکنیت میں قرآن ، حدیث، فقہ کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ تحریکی شعور کوبیدار کرنے کے کوشش کی جائے گا۔ جہاں ضرورت محسوس ہوگی وہاں ضلعی سطح پر بھی خصوصی تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ ارکان و امیدوارانِ رکنیت کی فکری وعملی تربیت پر خصوصی توجہ رہے گی تاکہ تربیت و تزکیہ سے کارکنوں کی ایسی ٹیم تیار ہوجائے جو دین اسلام کا عملی نمونہ ہو۔ مرکزی تربیت گاہ میں جدید تقاضوں کے مطابق تربیتی کلاسز اور پروگرام منعقد کیے جائیں گے، جن میںمختلف اسلامی و غیر اسلامی تحریکات کے تقابلی مطالعے کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
سوال:عام شکایت یہ ہے کہ تحریک اسلامی میں عام ارکان میں سے اکثر غیر متحرک ہیں، بیشتر ارکان اجتماعات میں شرکت تک ہی محدود ہیں، حالانکہ ارکان و امیدوارانِ رکنیت کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ اجتماعات میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیمی و تحریکی کام میں اُن کی شمولیت بھی ہے۔ اس مسئلے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب:ارکان و امیدوارانِ رکنیت کو متحرک کرنے کے لیے ضلعی ذمہ داروں کو اس بات کا مکلف بنایا جائے گا کہ وہ اُنہیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔ اُنہیں اپنے ذمہ کاکام سپرد کریں اور اُن کا باضابطہ محاسبہ کریں۔ اس سلسلے میں ایک لائحہ عمل تربیت دیا جائے گا۔ اس کے بعد جو ارکان یا امیدوارانِ رکنیت غیر متحرک رہیں گے اُن کے متعلق دستور جماعت کے مطابق فیصلہ لیا جائے گا۔اس لیے وابستگان جماعت میں سے ہر ایک فرد کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ ودستور جماعت کے مطابق اپنی مفوضہ ذمہ داریوں اور فرائض کو ادا کرنے کے لیے متحرک ہوجائیں۔ ارکان جماعت اپنے اہل خانہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کے بھی مکلف ٹھہرائے جائیں گے اور اس سلسلے میں ان سے باز پرس بھی ہوگی۔
سوال:ارکان کی صلاحیتوں کوکھنگال کر اُن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بھی کیا کوئی پروگرام ہے؟
جواب:مختلف صلاحیتیوں کے حامل ارکان وامیدوارانِ رکنیت کو ڈھونڈ نکالا جائے گا تاکہ دعوتی، تنظیمی اور تعلیمی شعبوں میں اُن کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکے۔
سوال: نوجوانوں اور خواتین کے لیے جماعت کیا کررہی ہے؟
جواب: نوجوان قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں، قومیں نوجوانوں کی صلاحیتیوں کو ہی بروئے کار لاکر ترقی کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی کی دعوت کے مخاطبین میں نوجوان اور خواتین بھی شامل ہیں۔ جماعت پہلے سے ہی نوجوانوں میں کام کررہی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نوجوانوں میں دعوت و اصلاح کا کام انجام دے رہی ہے۔ دور جدید میں جن فتنوں نے نوجوانوں کو متاثر کیا ہے اُن فتنوں کا توڑ کرنے اور نوجوانوں کودین کی جانب راغب کرانے کے ساتھ ساتھ اُن میں صحیح اسلامی شعور بیدار کرنے پر اس میقات میں خصوصی توجہ رہے گی۔دعوت و اصلاح کے ذریعے سے نوجوانوں میں دینی اسپرٹ پیدا کیا جائے گاتاکہ وہ جدید دانش گاہوں میں اباحیت اور نظر فریب نظریات کا شکار ہوکر اپنے ایمان کی پونجی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔اُن تمام گمراہیوں کا تدارک کرنے کی بھرپور کوششیں کی جائے گی جو موجود دور میں نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔اس سلسلے میں جدید ذہن کو جدید تقاضوں کے مطابق استفادہ کے لیے لٹریچر فراہم کیا جائے گا۔تحریک اسلامی کا شعبہ، جو کہ شعبہ خواتین کے نام سے موسوم ہے، یہاں کی خواتین میں دینی شعور بیدار کرنے کی جو کوشش کررہا ہے اس کو مزید وسعت دی جائے گا اوراس شعبہ کو استحکام فراہم کیا جائے گا۔
سوال: موجودہ دور میں بڑے ہی منظم انداز میں ایسے نظریات کو پروان چڑھایا جارہا ہے جن کا نشانہ خصوصی طور پر نوجوان نسل ہے، اس چیلنج سے نپٹنے کے لیے تحریک اسلامی کیا کررہی ہے؟
جواب:جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ تحریک اسلامی کی نوجوانوں پر خصوصی توجہ مرکوز ہے۔ ہم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ باطل نظریات کے ذریعے نوجوان ذہن کو متاثر کرنے کی کوششیںہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت گوکہ فکر مند بھی ہے لیکن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بھی بیٹھی نہیں ہے۔جدید اذہان میں جو شبہات پیدا کیے جارہے ہیں اُن کا توڑ کرنے کے لیے جدید تقاضوں کے مطابق لٹریچر فراہم کرنا جماعت کی ترجیحات میں شامل ہے۔اس کے علاوہ بھی حکمت عملیاں مرتب کی جائیں گی۔
سوال: جماعت اسلامی جموں وکشمیر کا خدمت خلق میں نام رہا ہے۔ مستقبل میں خدمت خلق کے کام کو کس نہج پر استوار کیا جائے گا؟
جواب: شعبہ خدمت خلق کو متحرک کرکے اس کو جدید تقاضوں کے مطابق کام فراہم کیا جائے گا۔ انسانی خدمت کو مختلف شعبہ جات میں ترجیح دی جائے گا۔ بالخصوص تعلیمی، اورطبی شعبہ جات میں خدمت کو ترجیح دی جائے گی۔ اس کے علاوہ غریبوں، ناداروں، حالات کے ستائے ہوئے لوگوں اور ناگہانی آفات کے مواقع پرمتاثرین کو حتی المقدور مدد کی جائے گی۔صحت کے شعبے میں جماعت نے قدم رکھا ہے اور ہم ان شا اللہ آئندہ اس کو مزید وسعت دیں گے۔
سوال: اس وقت اُمت مسلمہ میں آپسی رسہ کشی عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ اس بڑے چیلنج سے نپٹنے کے لیے جماعت کیا کررہی ہے؟
جواب:جماعت اسلامی ابتداسے ہی اتحاد اُمت کی سب سے بڑی داعی رہی ہے۔ اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ ہی نہیں ہوا بلکہ جماعت نے ہر ہمیشہ عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔ اتحاد ملت کے حوالے سے جماعت کی کوششوں سے ۶۰۰۲ئ میں قائم ہونے والی” مجلس اتحاد ملت جمو ں و کشمیر“ کو مستحکم و مضبوط بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جماعت مرکزی سطح پر ایک ٹیم تشکیل دینے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جو ریاست کے مقتدر علمائے کرام اور دینی اداروں اور برادر دینی تنظیموں کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب ِ فکر کے علمائے کرام سے ملاقات کرکے رابطہ استوار کرنے کا فریضہ انجام دے گا۔ اس طرح دینی حلقوں میں باہمی روابط مضبوط ہوجائیں گے اور ملت کی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم رہے گا۔جماعت اتحاد اُمت کی ہر کوشش میں تعاون فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ تیارہے۔
سوال: مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تحریک اسلامی کے موقف پر کچھ فرمائیں؟
جواب:مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمارا دیرینہ موقف نہایت واضح اور سب پر عیاں ہے۔ ایک دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں پاس شدہ قرار دادیں موجود ہیں۔ جماعت اسلامی جموں وکشمیر کا اس سلسلے میں واضح اور دو ٹوک موقف ہے کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے او راگر کسی وجہ سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل ممکن نہ ہو تو پھر سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو ریاستی عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہو۔جماعت اس مسئلے کو پر امن طریقہ سے حل کرنے کی خواہش مند ہے۔
سوال: حال ہی میں بھارتی سرکار نے پاکستان کے ساتھ خارجہ وزیروں کی ملاقات منسوخ کردی، جماعت اس اقدام کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟
جواب::۔یہ مسئلہ کشمیر ہی ہے جس کی وجہ سے برصغیر کے کروڑوں عوام پر ہمیشہ جنگ کے مہیب سائے منڈلاتے رہتے ہیں، دونوں ملکوں کے وسائل عوامی تعمیر و ترقی اور غربت کے خاتمے کے بجائے جنگی ساز و سامان میں صرف ہورہے ہیں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیںبلکہ یہ تباہی اور بربادی کا باعث ہے۔ جماعت چاہتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان جنگ و جدل میں اپنے وسائل تباہ نہ کریں،مذاکرات اور پرامن طریقے سے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالیں۔ مذاکرات سے فرار اختیار کرنا کسی بھی ذی حس انسان بالخصوص حالات کے ستائے ہوئے کشمیری عوام کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ جماعت ہندوستان کے دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، سماجی شخصیات اور غیر متعصب صحافیوں اور قلمکاروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سامنے آکر انسانی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کریں تاکہ کشمیر میں جاری خون خرابے کو روکا جائے اور انسانی حقوق کو تحفظ فراہم ہوجائے۔جنگی جنون کو ختم کرکے بات چیت کے لیے خواشگوار ماحول قائم کیا جائے۔ جماعت اس بات کی کبھی رودار نہیں رہی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک اپنی قوت جنگ میں برباد کریں۔المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو مہذب اقوام میں شمار کرتے ہیں وہ کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کوئی قابل قدر اور ٹھوس اقدام نہیں کرتے ہیں جس کے باعث ہی یہاں قتل و خون ریزی کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ ایک چھوٹی سی ریاست کومیدان جنگ میں تبدیل کرنا چہ معنی دارد؟،دنیا کا یہ چھوٹا سا خوبصورت خطہ سب سے بڑا فوجی جماو والا خطہ بن کر بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔
سوال: آرٹیکل 35Aکی منسوخی کے حوالے سے ریاستی وحدت اور ڈیموگرافی پر مسلسل تلوار لٹکی ہوئی ہے، جماعت اس حوالے سے کیا کررہی ہے؟
جواب: آرٹیکل 35A اور دفعہ370 مسئلہ کشمیر کے مستقل حل تک ریاست کی ڈیموگرافی کے لیے ایک دفاعی لائن ہے۔ان دفعات پر جان بوجھ کر وار کیا جارہا ہے تاکہ آبادی کے تناسب کو بدل کر یہاں کے مسلم اکثریتی کردار کو تبدیل کیا جائے اور ریاست کی ڈیموگرافی کو زک پہنچایا جائے۔یہ ایک سازش ہے جو عرصہ دراز سے جاری ہے۔ جماعت ان دفعات کے دفاع کے لیے ہر عوامی تحریک کو بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔
سوال: عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کی حالت دگر گوں ہے، آپ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے اُمید کی کوئی کرن پاتے ہیں؟
جواب: عالم اسلام کی صورتحال مخدوش اور انتہائی تشویشناک ہے۔ مغرب عالم اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ چکا ہے، کہیں بالواسطہ تو کہیں بلاواسطہ۔ مسلمانوں کے قدرتی وسائل لوٹنے کے ساتھ ساتھ اُن کے انسانی وسائل کو بھی تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ بزور قوت مسلم ممالک پرمغربی تہذیب و تمدن کو مسلط کیا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں اسلامی تحریکات اُمید کی کرن ہیں۔ مسائل و مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود یہ تحریکیں ابھرنے کا مادہ رکھتی ہیں اور ان میں تاب مقاومت بھی ہے ۔ یہ تحریکات پھر سے اُمت مسلمہ کی رہبری و رہنمائی کرکے اُنہیں اپنی اصلیت کی جانب واپس لانے کا ہنر بھی جانتی ہیں۔مغرب کی ہزار ہا ریشہ دوانیوں کے باوجود اسلام پسند لوگ اور اسلامی تحریکات اُمت مسلمہ کی صحیح رہنمائی پر گامزن ہیں اور ان شااللہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اُمت مسلمہ باہر نکل آئے گی۔