کسی سے دوستی اور کسی سے دشمنی دو انتہا ئیں ہیں ۔ ان دو متوازی خطوط کے درمیان ایک تیسرا میانہ رو فکر وعمل کا پیمانہ ہے جس کا حامی وہی فرد بشر ہوسکتا ہے جو دشمن کو دوست بنانے کی بے لوث کوشش کرے ۔اس مزاج کا حامل انسان کوئی عظیم المرتبت ابن ِآدم ہی ہوسکتا ہے کیوں کہ اس کے میانہ رو فکر وعمل سے انسانیت کا نہ صرف فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس نوع کے فکرو فلسفہ سے فتنے کافور ہوجاتے ہیں، دنیوی تباہیاں قصۂ پارینہ ہوجاتی ہیں اور بربادیوں کا باب بند ہو جاتا ہے۔آج کل کی عمومی فضا میں اول یہ لوگ ناپید ہیں اور کہیں کہیں یہ پائے بھی جائیں تو انہیں ہر جگہ نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ بہر صورت انہی قدسی نفوس کی انسانیت وہ واحد سنہری اصول ہے جو دنیاکی موجودہ گھمبیرصورت حال کا علاج بھی ہے اور دوا بھی ۔ یہ بات بعید ازامکان ہے کہ یہ علاج اور دوا کارگر ثابت نہ ہو۔ اسی افتاد طبع میں انسانیت کی فلاح وکامیابی مضمر ہے اور اسی اصول، فلسفہ اورفکر میں انسانیت کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
اقوام عالم کی موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال کاجائزہ لیجئے تو ہرجگہ یہ چیز محسوس انداز میں عملاً دیکھی بھی جا سکتی ہے کہ نہ کہیں انسانیت محفوظ ومامون ہے، نہ کہیں انصاف کی راگنی بج رہی ہے، برعکس اس کے جابجا ایک ہی دشمنانہ ماحول قائم کیا جا چکا ہے، جس کے نرغے میں پوری نوع انسانیت تباہیوں اور بربادیوں میں لُٹ بھی رہی ہے اور پٹ بھی رہی ہے۔ انسانیت اس قدر ختم ہو رہی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر، ایک رنگ ونسل دوسرے رنگ ونسل پر، ایک زبان دوسری زبان پر اپنی بڑائی اور چودھراہٹ قائم کرنے پر تلی نظر آتی ہے۔ ہر ایک اپنے آپ کو دوسروں سے بڑھا کہلوانا چاہتا ہے۔ گویا قدرتِ الٰہی کے قانون کی کھلی نفی کی جارہی ہے، کیوں کہ قدرت کی عطا کی ہوئی یہ رنگارنگ انسانی دنیا الگ الک زبانیں بولنے والی بھی ہے اورجدا جدا عقیدوں میں بٹی ہوئی ہے مگر یہ دنیاہے ایک آفاقی کنبہ جو صرف اُسی ایک ذاتِ واحد کی پیدا کی ہوئی ہے۔ اس متنوع کائنات کی تخلیق کے پیچھے کیا کیا راز کارفرما ہیں، اس کا حقیقی علم صرف اسی لاشریک خالق و مالک کو ہی ہے، تاہم اُس کے تمام اہتماموں اور اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ذاتِ اقدس عالم انسانیت کی وحدت اور فلاح وکامیابی کی روادار ہے، اسی لئے یہ ذاتِ خداوندی بنی نوع انسان کو بھلائی کی طرف بھی بلاتی ہے اور برائی سے دور رہنا بھی سجھاتی ہے ، لیکن یہ حضرت انسان ہی ہے جو ضمیر کی آنکھ پر خود غرضی اور خود پسندی کی پٹی چڑھا کراپنی برادری میں ہم ہستی کا نقارہ بجاتا ہے، اپنی قوم کو دوسری اقوام سے برتر سمجھتا ہے، اپنی زبان کو دوسروں کی زبان پر فائق جانتا ہے، اپنی نسل کو دوسری نسلوں سے پُر وقار گردانتا ہے، اپنی سوچ کو دوسروں کی سوچ پر حاوی سمجھتا ہے۔ حالاں کہ خدا کے تخلیق کردہ تمام اشرف المخلوقات اصل میں ایک ہی فطرت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، جو صرف عمل کے ترازو میں ایک دوسرے پر فوقیت اور عدم فوقیت کا فرق رکھتے ہیں۔ عمل اچھا ہے تو چھوٹا کہلانے والا شخص بھی بڑا آدمی اور عمل بُرا تو حسب و نسب والا بھی پست وپامال ۔ افسوس کہ آج متمدن ، مہذب ، تعلیم یافتہ ، سائنس کے میدان کاشاہسوار اور ٹیکنا لوجی کے آسمانوں میں اُڑان بھر نے والا انسان اپنی فطرت سے بغاوت کر رہا ہے ،وہ خود کو ہر شعبۂ حیات میں غیر فطری رنگ میں رنگ دینے میں لگا ہوا ہے۔ البتہ کرہ ٔارض پر خدا کاخلیفہ کہلانے والا آدم زاد جو سلیم الفطرت ہو ،اس کاضمیر زندہ ہو،اس کی شخصیت فہم وفراست سے مزین ہو تو وہ لازماً بغض و عناد کی کوکھ سے دشمنی اور خود غرضی کی کوکھ سے پیدا ہوئی دوستی سے ہٹ کر میانہ روی اور اعتدال کی شاہراہ اختیار کرے گا۔ اس شا ہراہ کو انفس وآفاق کے تخلیق کار نے ’’وسط‘‘( balanced)سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ وسط کا یہ طریقۂ کار اختیار کرنے کا مطلب ناحق کے سامنے جھکنا ، بکنا اور منافقانہ مصلحت اختیار کرنا نہیں بلکہ یہ اصلاً عقل اور اخلاق کی لازوال روشنی ہے جس کی رہنمائی میں صالح مزاج شخص کا قافلہ ٔ حیات رُخ بہ منزل ہوسکتاہے ۔ اگر ایک انسان کافکر وعمل اس شاہراہِ عقل و اخلاق کو چھوڑ کر بغض کی آفریدہ دشمنی اور غرض پرستی کی پر داختہ دوستی میں اپنوں اور غیروں سے دست وگریباں رہے تو یقین مانئے کہ لازماً ایسے انسان کا بوجھ دیر سویردھرتی اپنے سینے سے جھٹک دیتی ہے ۔ اسی قدرتی عمل سے اقوام و ملل کا خاتمہ ہو کر رہتا ہے ۔ ازمنہ ٔ قدیم کے سزایافتہ لوگوں کا یہی حشر ہوتا رہا اور پھر ان کی جگہ نیی قومیں اُبھاری جاتی رہیں ،جو صرف اسی وقت تک کامیاب رہیں جب تک وہ فطری اصولوں یا خدائی قوانین وشرائع پر عمل پیرا ہوئیں، جو وحدت ، آپسی بھائی چارے اور پیارومحبت کی فضا میں کائنات کے خالق ومالک کی بندگی کرنے میں مصروف رہیں، مگر جونہی ان کے قدم اعتدال ومیانہ روی کی شاہراہ پر ڈگمگایے تو اپنے پیش روؤں کی مانند فوراً ناسیاً منسیا یعنی بھولی بھالی قوموں کی صف میں عبرتوں کا سامان بن گئیں ۔
آج معاصر دنیا میں انسانیت پوری طرح بکھری ہوئی ہے کیونکہ عام افراد سے لے کرکوئی صاحب اقتدار اور پیشوائے عالم تک عقل اور اخلاق کی اس شاہراہ پر انصاف کے ساتھ گامزن ہونے کے لئے تیار ہی نہیں۔ ہر طاقت ور فرد یاقوم کمزور ہم جنسوں کے خون کا پیاسا ہے، کسی کو بھی کسی سے دلی ہمدردی نہیں، ہر کس و ناکس صرف اپنی بھڑاس نکالنے میں لگا ہوا ہے، رحم اور عدل کی دہا ئیاں تو دی جارہی ہیں مگرعالم ِ وجود میں ان کا کوئی اَتہ پتہ نہیں ، جو جتنا جنگل کاراج نافذکرنے یا وحشیوں کا سکہ رائج کر وا نے میں کا میاب ہو، اُتنا اس کی جے جے کار ہوتی ہے، طاقت کو حق کا درجہ دیا جاتاہے جب کہ حق کو بازارِ حیات میں کھوٹا سکہ جیسی اہمیت بھی نہیں، اندھے پن کو بصارت کی سند دی جاتی ہے اور بینائی کواندھے پن کا مرض قرار دیا جارہاہے۔ ان جان لیواحالات میں کرنے کے بہت سارے اصلاحی کام ہیں۔ ان میں ترجیحی بنیاد پر یہ کام اصولاً اوّلیت رکھتا ہے کہ بے خدا سوچ بدلی جائے ، فکر کی طہارت کی جائے ، نظر کازاؤیہ مومنانہ بنایا جائے، خیالات کا سمت ِقبلہ انسانیت کی طرف پھیرا جائے، بدعملی کے گدلے پانی کو صحیح سمت دی جائے، خدا پرستی ، انسان دوستی ، آخرت پسندی کو رواج دیا جائے ۔ ان خطوط پر تیر بہدف کام ہوا تو کوئی وجہ نہیں کہ راہ راست سے بھٹکی انسانیت واپس خدا کی طرف نہ مڑجائے۔ اصلاح کا یہ کام نہ ہوا تو انسانیت دن رات شاہراہ ِعقل و انصاف سے ہٹتی جائے گی ، قومیں رنگ ونسل ،زبان وقومیت کے نام پر بٹتی جا ئیں گی، نتیجہ یہ کہ گھر گھر بستی بستی میں فساد بپا ہو گا اور وہ خوف ناک دن بھی نمودار ہو کر رہ سکتا ہے جس کی شامتیں سابقہ قوم کی تباہیوں اور بربادیوں کی سُرتال پر لے ڈوبیں ۔اس ہیبت ناک صورت حال کا علاج اس وقت بھی ممکن العمل ہے بشرطیکہ باشعور لوگ( داعی اور مصلحین) احساس ذمہ داری سے لیس ہوکر ابھی سے دنیا میں یقینی تباہ ناکیوں کی روک تھام کے لیے کار آمد کوششیں شروع کریں، باوجودیکہ یہ لوگ قلیل التعداد ہی ہوں ۔ یادرکھئے عام حالات میں جب ہلاکت خیز طوفان آئے یا سیلاب کی موجیں اپنے پر پھیلائیں تووہ قلت وکثرت یا پست وبالاکو نہیں دیکھتیں بلکہ جس جانب بھی اشارۂ خالق ومالک دیدے ،وہ ا سی جانب قدم بڑھا کر ہر شئے کو نیست ونابود کر کے دم لیتی ہیں۔ تباہیوں کے ا س سفر کو روکنے کے لئے معتدل اور میانہ رو طبقہ کو آگے بڑھ کر انسانیت بچاؤ کام کرنے کا فریضہ نبھانا ہوگا، چاہے وہ کروڑوں کی تعداد کے سامنے انگلیوں پر گنے جانے کے قابل ہوں۔ کیا پتہ مصلحین کا قلیل طبقہ میدانِ عمل میں کود کر مایوسی کے عالم میں اپنی نیک عملی سے ایسے موافق حالات پیدا کر جائے کہ اسے انسانیت کا بھلا چاہنے والے مردان ِ کار میسر ہوں کہ ان کے نیک کام کا پھیلائو چشم زدن میں ہو ، ان کے مشعل فروزاں کی روشنیوں کا دائرہ وسعت پذیر ہو، بھلائی کو ازحد فروغ ملے، برائی کی بے پناہ حوصلہ شکنی ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھلائی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کے لئے انسان نے جب بیڑہ اٹھایا ، نہ صرف انسانیت کا بجھا ہوا دیّا روشن ہوا بلکہ اس کی روشنی میں ملکوں اور قوموں نے امن اور خوش حالی کی زندگی جی لی، لیکن جب قوموں میں بدیوں، برائیوں کا پلڑا بھاری رہا تو قوموں کی قومیں تباہ وبرباد ہو گئیں، اگرچہ وہ بظاہر خوشحال اور ترقی یافتہ بھی نظر آتی تھیں ۔ دنیا نے بہ نظر استعجاب دیکھا کہ خدا کی طرف سے اُن کے لئے شامتوں کا بگل بجتے ہی ان کے واسطے ابدی خساروں کا کچھ ایسے کھل گیا کہ تاریخ انگشت بدنداں ہوکر رہ گئی۔
الغرض رحم اور انصاف کا حصول انسانی سماج کی اصلاح سے مشروط ہے جس کے لئے فکر انسانیت ،جہد مسلسل اور اخلاص مندی کی اولین ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی بساط کے مطابق اس اہم ترین کام کے لئے کمر ہمت باندھ لینی چاہیے، ا س سلسلے میں ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھانی چاہیے، خیر خواہی کادامن ہر حال میں پکڑنا چاہیے، دوسروں کے غم اور اپنے غم کے درمیان سرحد مٹاکر اوروں کاغم غلط کر نے میں روح کی طمانیت اور خوشی محسوس کرنی چاہیے، دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر ہمارا د ل محض فی سبیل اللہ اس قدر تڑپنا چاہیے کہ جب تک اس کے پژمردہ چہروں پر راحت و اطمینان کی مسکرا ہٹیں نہ لوٹ آئیں تب تک ہم اپنی تکلیفوں اور تلخیوں کو بھول کر اس کی خوشیوں کا سامان کر جائیں۔ واقعی وہ آدم زاد خوش نصیب ہے جو فقط انسانیت سے محبت، ہمدردی اور نیک خوئی کا مسلک اختیار کر کے میانہ روی سے دنیا کی اصلاح کا کارِ نبوت سر انجام دینے کے لئے اپنی صلاحیتوں، اخلاص مندیوں اورنیکوکاریوں کو اللہ کے لئے وقف کرے۔